صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کے احکام و مسائل
The Book of Faith
83. باب آخِرِ أَهْلِ النَّارِ خُرُوجًا:
باب: جہنم سے جو آخری شخص نکلے گا۔
Chapter: The Last of the people of the Fire to be brought out of it
حدیث نمبر: 461
Save to word اعراب
حدثنا حدثنا عثمان بن ابي شيبة ، وإسحاق بن إبراهيم الحنظلي كلاهما، عن جرير، قال عثمان حدثنا جرير ، عن منصور ، عن إبراهيم ، عن عبيدة ، عن عبد الله بن مسعود ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني لاعلم آخر اهل النار خروجا منها، وآخر اهل الجنة دخولا الجنة، رجل يخرج من النار حبوا، فيقول الله تبارك وتعالى له: اذهب فادخل الجنة، فياتيها فيخيل إليه انها ملاى، فيرجع فيقول: يا رب وجدتها ملاى، فيقول الله تبارك وتعالى له: اذهب فادخل الجنة، قال: فياتيها فيخيل إليه انها ملاى، فيرجع فيقول: يا رب وجدتها ملاى، فيقول الله له: اذهب فادخل الجنة، فإن لك مثل الدنيا وعشرة امثالها، او إن لك عشرة امثال الدنيا، قال: فيقول: اتسخر بي، او اتضحك بي وانت الملك؟، قال: لقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحك، حتى بدت نواجذه، قال: فكان يقال: ذاك ادنى اهل الجنة منزلة ".حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ كِلَاهُمَا، عَنْ جَرِيرٍ، قَالَ عُثْمَانُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَبِيدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي لَأَعْلَمُ آخِرَ أَهْلِ النَّارِ خُرُوجًا مِنْهَا، وَآخِرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُولًا الْجَنَّةَ، رَجُلٌ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ حَبْوًا، فَيَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَهُ: اذْهَبْ فَادْخُلِ الْجَنَّةَ، فَيَأْتِيهَا فَيُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهَا مَلْأَى، فَيَرْجِعُ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ وَجَدْتُهَا مَلْأَى، فَيَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَهُ: اذْهَبْ فَادْخُلِ الْجَنَّةَ، قَالَ: فَيَأْتِيهَا فَيُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهَا مَلْأَى، فَيَرْجِعُ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ وَجَدْتُهَا مَلْأَى، فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ: اذْهَبْ فَادْخُلِ الْجَنَّةَ، فَإِنَّ لَكَ مِثْلَ الدُّنْيَا وَعَشَرَةَ أَمْثَالِهَا، أَوْ إِنَّ لَكَ عَشَرَةَ أَمْثَالِ الدُّنْيَا، قَالَ: فَيَقُولُ: أَتَسْخَرُ بِي، أَوْ أَتَضْحَكُ بِي وَأَنْتَ الْمَلِكُ؟، قَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحِكَ، حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ، قَالَ: فَكَانَ يُقَالُ: ذَاكَ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً ".
منصور نے ابراہیم سے، انہوں نے عبیدہ سے، انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک میں اسے جانتا ہوں جو دوزخ والوں میں سب سےآخر میں اس سے نکلے گااور جنت والوں میں سے سب سے آخر میں جنت میں جائےگا۔ وہ ایسا آدمی ہے جوہاتھوں اور پیٹ کے بل گھسٹتا ہوا آگ سے نکلے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس سے فرمائے گا: جا جنت میں داخل ہو جاؤ۔ وہ جنت میں آئے گا تو اسے یہ خیال دلایا جائے گا کہ جنت بھری ہوئی ہے۔ وہ واپس آکر عرض کرے گا: اے میرے رب!مجھے تو وہ بھری ہوئی ملی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے فرمائے گا: جا جنت میں داخل ہو جا۔ آپ نے فرمایا: وہ (دوبارہ) جائے گا تواسے یہی لگے گا کہ وہ بھری ہوئی ہے۔ وہ واپس آ کر (پھر) کہے گا: اے میرے رب! میں نے تو اسے بھری ہوئی پایا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: جا جنت میں داخل ہو جا۔ تیرے لیے (وہاں) پوری دنیا کے برابر اور اس سے دس گنا زیادہ جگہ ہے (یا تیرے لیے دنیا سے دس گنا زیادہ جگہ ہے) آپ نے فرمایا: وہ شخص کہے گا: کیا تو میرے ساتھ مزاح کرتا ہے (یا میری ہنسی اڑاتا ہے) حالانکہ تو ہی بادشاہ ہے؟ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ ہنس دیے یہاں تک کہ آپ کے پچھلے دندان مبارک ظاہر ہو گئے۔ عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: چنانچہ یہ کہا جاتا تھا کہ یہ شخص سب سے کم مرتبہ جنتی ہو گا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک میں جانتا ہوں کہ جہنم سے سب سے آخر میں کون نکلے گا، اور جنت میں سب سے آخر میں کون داخل ہوگا؟ وہ ایک ایسا آدمی ہے جو ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل گھسٹتا ہوا آگ سے نکلے گا۔ اللہ تعالیٰ (آخر میں اسے) فرمائے گا جا! جنت میں داخل ہو جا! وہ جنت میں داخل ہو گا، تو وہ یہ سمجھے گا کہ جنت بھر چکی ہے۔ واپس آکر عرض کرے گا اے میرے رب! وہ تو بھر چکی ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے فرمائے گا: جا جنت میں داخل ہو جا! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ (دوبارہ) جائے گا، تو اسے محسوس ہو گا، وہ تو بھر چکی ہے۔ واپس آ کر پھر کہے گا اے میرے رب! میں نے تو اسے بھری ہوئی پایا ہے۔ اللہ تعالیٰ پھر فرمائے گا: جا کر جنت میں داخل ہو جا! کیونکہ تیرے لیے دنیا کے برابر اور اس سے دس گنا زائد جگہ ہے، یا تیرے لیے دنیا سے دس گنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص عرض کرے گا، کیا تو مجھ سے مذاق کرتا ہے یا ہنسی کرتا ہے؟ حالانکہ تو بادشاہ ہے۔ عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں: کہ میں نے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپؐ ہنسے، یہاں تک کہ آپ کی داڑھیں مبارک ظاہر ہو گئیں۔ راوی کہتے ہیں: اس بناء پر کہا جاتا تھا، یہ سب سے کم درجے والا جنتی ہو گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الرقاق، باب: صفة الجنة والنار برقم (6571) و في التوحيد، باب: كلام الرب عزوجل يوم القيامة مع الانبياء وغيرهم برقم (7511) مختصراً والترمذي في ((جامعه)) فى صفة جهنم، باب: ما جاء ان اللنار، نفسين، وما ذكر من يخرج من النار من اهل التوحيد. وقال: هذا حديث حسن صحيح برقم (2595) وابن ماجه في ((سننه)) في الزهد، باب: صفة الجنة برقم (4339) انظر ((التحفة)) برقم (9405)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 462
Save to word اعراب
وحدثنا وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة وابو كريب واللفظ لابي كريب، قالا: حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن إبراهيم ، عن عبيدة ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني لاعرف آخر اهل النار خروجا من النار، رجل يخرج منها زحفا، فيقال له: انطلق فادخل الجنة، قال: فيذهب فيدخل الجنة، فيجد الناس قد اخذوا المنازل، فيقال له: اتذكر الزمان الذي كنت فيه؟ فيقول: نعم، فيقال له: تمن فيتمنى، فيقال له: لك الذي تمنيت وعشرة اضعاف الدنيا، قال: فيقول: اتسخر بي وانت الملك "، قال: فلقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحك، حتى بدت نواجذه.وحَدَّثَنَا وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وأَبُو كُرَيْبٍ وَاللَّفْظُ لِأَبِي كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَبِيدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي لَأَعْرِفُ آخَرُ أَهْلِ النَّارِ خُرُوجًا مِنَ النَّارِ، رَجُلٌ يَخْرُجُ مِنْهَا زَحْفًا، فَيُقَالُ لَهُ: انْطَلِقْ فَادْخُلِ الْجَنَّةَ، قَالَ: فَيَذْهَبُ فَيَدْخُلُ الْجَنَّةَ، فَيَجِدُ النَّاسَ قَدْ أَخَذُوا الْمَنَازِلَ، فَيُقَالُ لَهُ: أَتَذْكُرُ الزَّمَانَ الَّذِي كُنْتَ فِيهِ؟ فَيَقُولُ: نَعَمْ، فَيُقَالُ لَهُ: تَمَنَّ فَيَتَمَنَّى، فَيُقَالُ لَهُ: لَكَ الَّذِي تَمَنَّيْتَ وَعَشَرَةَ أَضْعَافِ الدُّنْيَا، قَالَ: فَيَقُولُ: أَتَسْخَرُ بِي وَأَنْتَ الْمَلِكُ "، قَالَ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحِكَ، حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ.
(منصور کے بجائے) اعمش نے ابراہیم سے، سابقہ سند کے ساتھ، عبد ہ اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سےروایت کی کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں یقیناً دوزخ والوں میں سے سب سے آخر میں نکلنے والے کو جانتا ہوں۔ وہ پیٹ کے بل گھسٹتا ہوا اس میں سے نکل گا۔ اس سے کہا جائے گا: چل جنت میں داخل ہو جا۔ آپ نے فرمایا: وہ جائے گا اور جنت میں داخل ہو جائے گا تو وہ دیکھے گا کہ سب منزلیں لوگ سنبھال چکے ہیں۔ اس سے کہا جائے گا: کیا تجھے وہ زمانہ یاد ہے جس میں تو تھا؟ وہ کہے گا: ہاں! تو اس سے کہا جائے گا: تمنا کر، وہ تمنا کرے گا تو اسےکہاجائے گا: تم نے جو تمنا کی وہ تمہاری ہے اور پوری دنیا سے دس گنا مزید بھی (تمہارا ہے۔) وہ کہے گا: تو بادشاہ ہو کر میرے ساتھ مزاح کرتا ہے؟ (عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاآپ ہنسے یہاں تک کہ آپ کے پچھلے دندان مبارک نظر آنے لگے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اس شخص کو یقیناً جانتا ہوں، جو دوزخیوں میں سب سے آخر میں دوزخ سے نکلے گا۔ ایک شخص ہوگا جو سرین کے بل گھسٹ کر دوزخ سے نکلے گا، اس کو کہا جائے گا: چل کر جنت میں داخل ہو جا! آپؐ نے فرمایا: وہ جا کر جنت میں داخل ہو گا تو وہ لوگوں کو اس حال میں پائے گا، وہ اپنی اپنی جگہ لے چکے ہیں، اسے کہا جائے گا: کیا تمھیں وہ وقت یاد ہے جو تو گزار کر آیا ہے؟ وہ کہے گا ہاں! تو اسے کہا جائے گا: تمنا کر! وہ تمنا کرے گا تو اسے کہا جائے گا: جو تمنا تو نےکی ہے، اس کے ساتھ تیرے لیے دنیا سے دس گنا زائد ہے۔ تو وہ کہے گا: تو بادشاہ ہو کر میرے ساتھ مذاق کرتا ہے۔ عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ ہنسے یہاں تک کہ آپ کی داڑھیں کھل گئیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم 460)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 463
Save to word اعراب
حدثنا حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عفان بن مسلم ، حدثنا حماد بن سلمة ، حدثنا ثابت ، عن انس ، عن ابن مسعود ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " آخر من يدخل الجنة رجل، فهو يمشي مرة، ويكبو مرة، وتسفعه النار مرة، فإذا ما جاوزها التفت إليها، فقال: تبارك الذي نجاني منك، لقد اعطاني الله شيئا ما اعطاه احدا من الاولين والآخرين، فترفع له شجرة، فيقول: اي رب، ادنني من هذه الشجرة، فلاستظل بظلها، واشرب من مائها، فيقول الله عز وجل: يا ابن آدم، لعلي إن اعطيتكها سالتني غيرها؟ فيقول: لا يا رب، ويعاهده ان لا يساله غيرها، وربه يعذره، لانه يرى ما لا صبر له عليه، فيدنيه منها، فيستظل بظلها، ويشرب من مائها، ثم ترفع له شجرة هي احسن من الاولى، فيقول: اي رب، ادنني من هذه لاشرب من مائها، واستظل بظلها، لا اسالك غيرها، فيقول: يا ابن آدم، الم تعاهدني ان لا تسالني غيرها؟ فيقول: لعلي إن ادنيتك منها تسالني غيرها، فيعاهده ان لا يساله غيرها، وربه يعذره، لانه يرى ما لا صبر له عليه، فيدنيه منها، فيستظل بظلها، ويشرب من مائها، ثم ترفع له شجرة عند باب الجنة هي احسن من الاوليين، فيقول: اي رب، ادنني من هذه لاستظل بظلها واشرب من مائها، لا اسالك غيرها، فيقول: يا ابن آدم، الم تعاهدني ان لا تسالني غيرها؟ قال: بلى يا رب، هذه لا اسالك غيرها، وربه يعذره، لانه يرى ما لا صبر له عليها، فيدنيه منها، فإذا ادناه منها فيسمع اصوات اهل الجنة، فيقول: اي رب ادخلنيها؟ فيقول: يا ابن آدم، ما يصريني منك، ايرضيك ان اعطيك الدنيا ومثلها معها؟ قال: يا رب، اتستهزئ مني وانت رب العالمين؟ "، فضحك ابن مسعود، فقال: الا تسالوني مم اضحك؟ فقالوا: مم تضحك؟ قال: هكذا ضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: مم تضحك يا رسول الله؟ قال: من ضحك رب العالمين، حين قال: اتستهزئ مني وانت رب العالمين؟، فيقول: إني لا استهزئ منك، ولكني على ما اشاء قادر.حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " آخِرُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ رَجُلٌ، فَهْوَ يَمْشِي مَرَّةً، وَيَكْبُو مَرَّةً، وَتَسْفَعُهُ النَّارُ مَرَّةً، فَإِذَا مَا جَاوَزَهَا الْتَفَتَ إِلَيْهَا، فَقَالَ: تَبَارَكَ الَّذِي نَجَّانِي مِنْكِ، لَقَدْ أَعْطَانِي اللَّهُ شَيْئًا مَا أَعْطَاهُ أَحَدًا مِنَ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ، فَتُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ، فَلِأَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا، وَأَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا، فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَا ابْنَ آدَمَ، لَعَلِّي إِنَّ أَعْطَيْتُكَهَا سَأَلْتَنِي غَيْرَهَا؟ فَيَقُولُ: لَا يَا رَبِّ، وَيُعَاهِدُهُ أَنْ لَا يَسْأَلَهُ غَيْرَهَا، وَرَبُّهُ يَعْذِرُهُ، لِأَنَّهُ يَرَى مَا لَا صَبْرَ لَهُ عَلَيْهِ، فَيُدْنِيهِ مِنْهَا، فَيَسْتَظِلُّ بِظِلِّهَا، وَيَشْرَبُ مِنْ مَائِهَا، ثُمَّ تُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ هِيَ أَحْسَنُ مِنَ الأُولَى، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ لِأَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا، وَأَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا، لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا، فَيَقُولُ: يَا ابْنَ آدَمَ، أَلَمْ تُعَاهِدْنِي أَنْ لَا تَسْأَلَنِي غَيْرَهَا؟ فَيَقُولُ: لَعَلِّي إِنْ أَدْنَيْتُكَ مِنْهَا تَسْأَلُنِي غَيْرَهَا، فَيُعَاهِدُهُ أَنْ لَا يَسْأَلَهُ غَيْرَهَا، وَرَبُّهُ يَعْذِرُهُ، لِأَنَّهُ يَرَى مَا لَا صَبْرَ لَهُ عَلَيْه، فَيُدْنِيهِ مِنْهَا، فَيَسْتَظِلُّ بِظِلِّهَا، وَيَشْرَبُ مِنْ مَائِهَا، ثُمَّ تُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ عِنْدَ بَابِ الْجَنَّةِ هِيَ أَحْسَنُ مِنَ الأُولَيَيْنِ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ لِأَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا وَأَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا، لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا، فَيَقُولُ: يَا ابْنَ آدَمَ، أَلَمْ تُعَاهِدْنِي أَنْ لَا تَسْأَلَنِي غَيْرَهَا؟ قَالَ: بَلَى يَا رَبِّ، هَذِهِ لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا، وَرَبُّهُ يَعْذِرُهُ، لِأَنَّهُ يَرَى مَا لَا صَبْرَ لَهُ عَلَيْهَا، فَيُدْنِيهِ مِنْهَا، فَإِذَا أَدْنَاهُ مِنْهَا فَيَسْمَعُ أَصْوَاتَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ أَدْخِلْنِيهَا؟ فَيَقُولُ: يَا ابْنَ آدَمَ، مَا يَصْرِينِي مِنْكَ، أَيُرْضِيكَ أَنْ أُعْطِيَكَ الدُّنْيَا وَمِثْلَهَا مَعَهَا؟ قَالَ: يَا رَبِّ، أَتَسْتَهْزِئُ مِنِّي وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ؟ "، فَضَحِكَ ابْنُ مَسْعُودٍ، فَقَالَ: أَلَا تَسْأَلُونِي مِمَّ أَضْحَكُ؟ فَقَالُوا: مِمَّ تَضْحَكُ؟ قَالَ: هَكَذَا ضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: مِمَّ تَضْحَكُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: مِنْ ضِحْكِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، حِينَ قَالَ: أَتَسْتَهْزِئُ مِنِّي وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ؟، فَيَقُولُ: إِنِّي لَا أَسْتَهْزِئُ مِنْكَ، وَلَكِنِّي عَلَى مَا أَشَاءُ قَادِرٌ.
انس رضی اللہ عنہ نےحضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں سب سے آخر میں وہ آدمی داخل ہو گا جو کبھی چلےگا، کبھی چہرے کے بل گرے گا اور کبھی آگ سے جھلسا دے گی۔ جب و ہ آگ سے نکل آ ئے گا توپلٹ کر اس کو دیکھے گا اور کہے گا: بڑی برکت والی ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ سے نجات دے دی۔ اللہ نے مجھے ایسی چیز عطا فرما دی جو اس نے اگلوں پچھلوں میں سے کسی کو عطا نہیں فرمائی۔ اسے بلندی پر ایک درخت کے قریب کردے تاکہ میں اس کے سائے میں دھوپ سے نجات حاصل کروں اور اس کے پانی سے پیاس بجھاؤں۔ اس پر اللہ عز وجل فرمائے گا: اے ابن آدم! ہو سکتا ہے کہ میں تمہیں یہ درخت دےدوں تو تم مجھ سے اس کے سوا کچھ اور مانگو۔ وہ کہے گا: نہیں، اے میرے رب! اور اللہ کے ساتھ عہد کرے گا کہ وہ اس سے اور کچھ نہ مانگے گا۔ اس کا پروردگار اس کے عذر قبول کر لے گا کیونکہ وہ ایسی چیز دیکھ رہا ہو گاجس پر وہ صبر کر ہی نہیں سکتا۔ تو اللہ تعالیٰ اسے اس (درخت) کے قریب کر دے گا اور وہ اس کے سائے میں دھوپ سے محفوظ ہو جائے گا اور اس کاپانی پیے گا، پھر اسے اوپر ایک اور درخت دکھایا جائے گاجو پہلے درخت سےزیادہ خوبصورت ہو گا تووہ کہے گا: اےمیرے رب! مجھے اس درخت کے قریب کر دے تاکہ میں اس کے پانی سے سیراب ہوں اور اس کے سائے میں آرام کروں، میں تجھ سے اس کے سوا کچھ نہیں مانگوں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائےگا: اے آدم کے بیٹے! کیا تم نے مجھ سےوعدہ نہ کیا تھا کہ تم مجھ سے کچھ اورنہیں مانگو گے؟ اور فرمائے گا: مجھے لگتا ہے اگر میں تمہیں اس کے قریب کردوں تو تم مجھ سے کچھ اور بھی مانگو گے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے وعدہ کرے گا کہ وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں مانگے گا، اس کا رب تعالیٰ اس کا عذر قبول کر لے گا، کیونکہ وہ ایسی چیز دیکھ رہا ہو گا جس کے سامنے اس سے صبر نہیں ہو سکتا۔ اس پر اللہ اسے اس درخت کے قریب کر دے گا۔ وہ اس کے سائے کے نیچے آ جائے گا اور اس کےپانی سے پیاس بجھائے گا۔ اور پھر ایک درخت جنت کے دروازے کے پاس دکھایا جائے گا جو پہلے دونوں درختوں سے زیادہ خوبصورت ہو گا تو وہ عرض کرے گا: اے میرے رب! مجھے اس درخت کے قریب کر دے تاکہ میں اس کے سائے سے فائدہ اٹھاؤں اور اس کے پانی سے پیاس بجھاؤں، میں تم سے اور کچھ نہیں مانگوں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! کیا تم نے میرے ساتھ وعدہ نہیں کیا تھا کہ او رکچھ نہیں مانگو گے؟ وہ کہے گا: کیوں نہیں میرے رب! (وعدہ کیا تھا) بس یہی، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں مانگوں گا۔ اس کا رب اس کاعذر قبول کر لے گاکیونکہ وہ ایسی چیز دیکھ رہا ہو گا جس پر وہ صبر کر ہی نہیں سکتا۔ تو وہ اس شخص کے اس (درخت) کے قریب کر دے گاتو وہ اہل جنت کی آوازیں سنے گا۔ وہ کہے گا: اے میرے رب!مجھے اس میں داخل کر دے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! وہ کیا چیز ہے جو تجھے راضی کر کے ہمارے درمیان سوالات کا سلسلہ ختم کر دے؟ کیا تم اس سے راضی ہو جاؤ گے کہ میں تمہیں ساری دنیا اور اس کے برابر اوردے دوں؟وہ کہے گا: اے میرے رب! کیا تومیری ہنسی اڑاتا ہے جبکہ تو سارے جہانوں کا رب ہے۔ اس پر ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہنس پڑے اور کہا: کیا تم مجھ سے یہ نہیں پوچھوگے کہ میں کیوں ہنسا؟ سامعین نے پوچھا: آپ کیوں ہنسے؟ کہا: اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے تھے توصحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے پوچھا تھا: اے اللہ کے رسول! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: رب العالمین کے ہنس پڑے پر، جب اس نے کہا کہ تو سارے جہانوں کارب ہے، میری ہنسی اڑاتا ہے؟ اللہ فرمائے گا: میں تیری ہنسی نہیں اڑاتا بلکہ میں جو چاہوں کر سکتا ہوں۔
حضرت ابنِ مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے آخر میں جنت میں داخل ہونے والا آدمی، تو وہ کبھی چلے گا، کبھی چہرے کے بل گرے گا اور کبھی اسے آگ جھلسے گی، جب وہ آگ سے نکل جائے گا، پلٹ کر اس کو دیکھے گا، اور کہے گا: بڑی برکت والی ہے وہ ذات، جس نے مجھے تجھ سے نجات دی۔ اللہ نے مجھے ایسی نعمت عطا فرمائی ہے، جو پہلوں اور پچھلوں میں سے کسی ایک کو عطا نہیں کی۔ تو اسے ایک درخت دکھائی دے گا، تو وہ کہے گا: اے میرے رب! مجھے اس درخت کے قریب کر دے، تاکہ میں اس کے سایہ سے سایہ حاصل کروں، اور اس کے (پھلوں کا) پانی پیوں۔ تو اللہ عز و جل فرمائے گا: اے ابنِ آدم! ہو سکتا ہے اگر میں تیری درخواست پوری کر دوں، تو تُو اور درخواست پیش کر دے۔ تو وہ کہے گا: نہیں، اے میرے رب! اور وہ اللہ سے اور سوال نہ کرنے کا معاہدہ کرے گا، اور اس کا رب اس کو معذور سمجھے گا، کیونکہ وہ ایسی چیز دیکھ رہا ہو گا، جس پر صبر کرنا اس کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ تو وہ اسے اس (درخت) کے قریب کر دے گا۔ تو وہ اس کے سایہ سے فائدہ اٹھائے گا اور اس کے پانی کو پیے گا۔ پھر اس کے سامنے ایک اور درخت ظاہر کیا جائے گا، جو پہلے سے زیادہ حسین ہو گا، تو وہ کہے گا: اے میرے رب! مجھے اس کے قریب کر دے، تاکہ میں اس کے سایہ سے آرام حاصل کر سکوں، اور اس کا پانی پیوں، میں تجھ سے کوئی اور سوال نہیں کروں گا۔ تو اللہ فرمائے گا: کیا تو نے مجھ سے معاہدہ نہیں کیا تھا، کہ میں اور سوال نہیں کروں گا اور فرمائے گا، ممکن ہے اگر میں تجھے اس کے قریب کردوں، تو تُو اور سوال کردے۔ تو وہ اللہ تعالیٰ سے عہد کرے گا، کہ وہ اس کے سوا سوال نہیں کرے گا، اور اس کا رب اس کا عذر قبول کر لے گا، کیونکہ وہ ایسی(چیز) نعمت دیکھ رہا ہے، جس کی (خواہش کیے) بغیر صبر نہیں ہو سکتا، تو وہ اسے اس کے قریب کر دے گا۔ وہ اس کے سایہ سے راحت حاصل کرے گا اور اس کا پانی پیے گا۔ پھر اس کو جنت کے دروازے کے پاس ایک درخت دکھائی دے گا، جو پہلے دونوں درختوں سے زیادہ خوبصورت ہوگا، تو وہ عرض کرے گا: اے میرے رب! مجھے اس کے قریب کر دے، تاکہ میں اس کے سایہ سے آرام حاصل کروں، اور اس کا پانی پیوں، میں اور سوال نہیں کروں گا۔ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! کیا تو نے میرے ساتھ معاہدہ نہیں کیا تھا، کہ اور سوال نہیں کروں گا؟ وہ کہے گا: کیوں نہیں (معاہدہ کیا تھا) یہی سوال ہے اور سوال نہیں کروں گا۔ اس کا رب اس کو معذور سمجھے گا، کیونکہ وہ ایسی چیز دیکھ رہا ہے، جس کے سوال کیے بغیر صبر نہیں ہو سکتا، تو وہ اسے اس کے قریب کر دے گا۔ تو جب وہ اسے اس کے قریب کر دے گا، تو وہ جنتیوں کی آوازیں سنے گا، تو کہے گا: اے میرے رب! مجھے اس میں داخل کر دے، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! کون سی چیز تجھے مجھ سے سوال کرنے سے روک سکتی ہے؟ کیا تجھے یہ چیز راضی کر دے گی، کہ میں تجھے دنیا اور اس کے برابر دے دوں؟ وہ کہے گا: اے میرے رب! تو رب اللعالمین ہو کر میرا مذاق اڑاتا ہے۔ اس پر ابنِ مسعود ؓ ہنس پڑے اور کہا: کیا تم مجھ سے یہ نہیں پوچھو گے، کہ میں کیوں ہنسا؟ تو سامعین نے پوچھا: آپ کیوں ہنسے؟ کہا اسی طرح رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم ہنستے تھے، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی بات پر رب اللعالمین کے ہنسنے کی بنا پر، کیا تو رب اللعالمین ہو کر میرے ساتھ مذاق کرتا ہے؟ تو اللہ فرمائے گا: میں مذاق نہیں کرتا، میں جو چاہوں کر سکتا ہوں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (9188)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.