كِتَاب الْإِيمَانِ ایمان کے احکام و مسائل 64. باب رَفْعِ الأَمَانَةِ وَالإِيمَانِ مِنْ بَعْضِ الْقُلُوبِ وَعَرْضِ الْفِتَنِ عَلَى الْقُلُوبِ: باب: بعض دلوں سے امانت اور ایمان کے اٹھ جانے کا، اور دلوں پر فتنوں کے آنے کا بیان۔
ابو معاویہ اور وکیع نے اعمش سے حدیث سنائی، انہوں نے زید بن وہب سے اور انہوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو باتیں بتائیں، ایک تو میں دیکھ چکا ہوں اور دوسری کا انتظار کر رہا ہوں، آپ نے ہمیں بتایا: ”امانت لوگوں کے دلوں کے نہاں خانے میں اتری، پھر قرآن اترا، انہوں نے قرآن سے سیکھا اور سنت سے جانا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں امانت اٹھالیے جانے کے بارے میں بتایا، آپ نے فرمایا: ” آدمی ایک بار سوئے گا تو اس کے دل میں امانت سمیٹ لی جائے گی اور اس کا نشان پھیکے رنگ کی طرح رہ جائے گا، پھر وہ ایک نیند لے گا تو (بقیہ) امانت اس کے دل سے سمیٹ لی جائے گی اور اس کا نشان ایک آبلے کی طرح رہ جائے گا جیسے تم انگارے کو اپنے پاؤں پر لڑھکاؤ تو (وہ حصہ) پھول جاتا ہے اور تم اسے ابھرا ہوا دیکھتے ہو، حالانکہ اس کے اندر کچھ نہیں ہوتا۔“ پھر آپ نے ایک کنکری لی اور اسے اپنے پاؤں پر لڑھکایا۔”پھر لوگ خرید و فروخت کریں گے لیکن کوئی بھی پوری طرح امانت کی ادائیگی نہ کرے گا یہاں تک کہ جائے گا: ”فلاں خاندان میں ایک آدمی امانت دار ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچے گی کہ کسی آدمی کے بارے میں کہا جائے گا، وہ کس قدر مضبوط ہے، کتنا لائق ہے، کیسا عقل مند ہے! جبکہ اس کے دل میں رائے کے دانے کے برابر (بھی) ایمان نہ ہو گا۔“ (پھر حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا:) مجھ پر ایک دو گزرا، مجھے پروا نہیں تھی کہ میں تم سے کس کے ساتھ لین دین کروں، اگر وہ مسلمان ہے تو اس کا دین اس کو میرے پا س واپس لے آئے گا اور اگر وہ یہودی یا عیسائی ہے تو اس کا حاکم اس کو میرے پاس لے آئے گا لیکن آج میں فلاں اور فلاں کے سوا تم میں سے کسی کے ساتھ لین دین نہیں کر سکتا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) فى الرقاق، باب: رفع الامانة برقم (6132) وفي ((الفتن)) باب: اذا بقى فى حثالة من الناس برقم (6675) وفى الاعتصام بالكتاب والسنة، باب: الاقتداء بسنن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم برقم (6848) مختصراً- والترمذی فی ((جامعه)) في الفتن، باب: ما جاء فى رفع الامانة برقم (2179) وقال: حديث حسن صحيح۔ وابن ماجه في ((سننه)) في الفتن، باب: ذهاب الامانة برقم (4053) انظر ((التحفة)) برقم (3328)»
(اعمش کےدوسرے شاگردوں) عبد اللہ بن نمیر، وکیع اور عیسیٰ بن یونس نے بھی اسی سند کے ساتھ مذکورہ بالا حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (365)»
ابو خالد سلیمان بن حیان نے سعد بن طارق سے حدیث سنائی، انہوں نے ربعی سے اور انہوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نےکہا: ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کےپاس تھے، انہوں نے پوچھا: تم میں سے کس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتنوں کا ذکر کرتے ہوئے سنا؟ کچھ لوگوں نے جواب دیا: ہم نے یہ ذکر سنا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: شاید تم و ہ آزمائش مراد لے رہے ہو جو آدمی کو اس کے اہل، مال اور پڑوسی (کے بارے) میں پیش آتی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس فتنے (اہل، مال اور پڑوسی کے متعلق امور میں سرزد ہونے والی کوتاہیوں) کا کفارہ نماز، روزہ اور صدقہ بن جاتے ہیں۔ لیکن تم میں سے کس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس فتنے کا ذکر سنا ے جو سمندر کی طرح موجزن ہو گا؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اس پر سب لوگ خاموش ہو گئے تو میں نے کہا: میں نے (سنا ہے۔) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تو نے، تیرا باپ اللہ ہی کا (بندہ) ہے (کہ اسے تم سا بیٹا عطا ہوا۔) حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےسنا، آپ فرما رہے تھے: ”فتنے دلوں پر ڈالیں جائیں گے، چٹائی (کی بنتی) کی طرح تنکا تنکا (ایک ایک) کر کے اور جو دل ان سے سیراب کر دیا گیا (اس نے ان کو قبول کر لیا اور اپنے اندر بسا لیا)، اس میں ایک سیاہ نقطہ پڑ جائے گا اور جس دل میں ان کو رد کر دیا اس میں سفید نقطہ پڑ جائے گا یہاں تک کہ دل دو طرح کے ہو جائیں گے: (ایک دل) سفید، چکنے پتھر کے مانند ہو جائے گا، جب تک آسمان و زمین قائم رہیں گے، کوئی فتنہ اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ دوسرا کالا مٹیالے رنگ کا اوندھے لوٹے کے مانند (جس پر پانی کی بوند بھی نہیں ٹکتی) جو نہ کسی نیکی کو پہچانے کا اور نہ کسی برائی سے انکار کرے گا، سوائے اس بات کے جس کی خواہش سے وہ (دل) لبریز ہو گا۔“ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نےعمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ آپ کے اور ان فتنوں کے درمیان بند دروازے ہے، قریب ہے کہ اسے توڑ دیا جائے گا؟ اگر اسے کھول دیا گیا تو ممکن ہے کہ اسے دوبارہ بند کیا جاسکے۔ میں نے کہا: نہیں! بلکہ توڑ دیا جائے گا۔ اور میں نے انہیں بتا دیا: وہ دروازہ آدمی ہے جسے قتل کر دیا جائے گا یا فوت ہو جائے گا۔ (حذیفہ نے کہا: میں نے انہیں) حدیث (سنائی کوئی)، مغالطے میں ڈالنے والی باتیں نہیں۔ ابو خالدنے کہا: میں نے سعد سے پوچھا: ابو مالک!أسودمرباداً سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا: کالے رنگ میں شدید سفیدی (مٹیالے رنگ۔) کہا: میں نے پوچھا: الکوز مجخیاسے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا: الٹا کیا ہوا کوزہ۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (3319)»
مروان فزاری نے کہا: ہمیں ابو مالک اشجعی نے حضرت ربعی سے حدیث سنائی، انہوں نےکہا: جب حذیفہ رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس سے آئے تو بیٹھ کر ہمیں باتیں سنانے لگے اور کہا: کل جب میں امیر المومنین کی مجلس میں بیٹھا تو انہوں نے اپنے رفقاء سے پوچھا: تم میں سے کس نے فتنوں کے بارے میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد رکھا ہواہے؟....... پھر (مروان فزاری نے) ابو خالد کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی لیکن مرباداً مجخیاً سے متعلق ابو مالک کی تفسیر ذکر نہیں کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (367)»
نعیم بن ابی ہند نے ربعی بن حراش سے اور انہوں نےحضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم میں کون ہمیں بتائے گا (اور ان میں حذیفہ رضی اللہ عنہ موجود تھے) جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنے کے بارے میں فرمایا تھا؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں۔ آگے ابو مالک کی وہی روایت بیان کی ہے جو انہوں نے ربعی سے بیان کی اور اس میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول بھی بیان کیا کہ میں نے انہیں حدیث سنائی تھی، مغالطے میں ڈالنے والی باتیں نہیں، یعنی وہ حدیث رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے تھی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (367)»
|