صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کے احکام و مسائل
The Book of Faith
64. باب رَفْعِ الأَمَانَةِ وَالإِيمَانِ مِنْ بَعْضِ الْقُلُوبِ وَعَرْضِ الْفِتَنِ عَلَى الْقُلُوبِ:
باب: بعض دلوں سے امانت اور ایمان کے اٹھ جانے کا، اور دلوں پر فتنوں کے آنے کا بیان۔
Chapter: The disappearance of honesty and faith from some hearts and the appearance of fitnah in some hearts
حدیث نمبر: 367
Save to word اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو معاوية ، ووكيع . ح وحدثنا ابو كريب ، حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن زيد بن وهب ، عن حذيفة ، قال: حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثين، قد رايت احدهما وانا انتظر الآخر، حدثنا ان الامانة نزلت في جذر قلوب الرجال، ثم نزل القرآن فعلموا من القرآن وعلموا من السنة، ثم حدثنا عن رفع الامانة، قال: " ينام الرجل النومة، فتقبض الامانة من قلبه، فيظل اثرها مثل الوكت، ثم ينام النومة، فتقبض الامانة من قلبه، فيظل اثرها مثل المجل كجمر دحرجته على رجلك، فنفط، فتراه منتبرا وليس فيه شيء، ثم اخذ حصى فدحرجه على رجله، فيصبح الناس يتبايعون لا، يكاد احد يؤدي الامانة، حتى يقال: إن في بني فلان رجلا امينا، حتى يقال للرجل: ما اجلده، ما اظرفه، ما اعقله، وما في قلبه مثقال حبة من خردل من إيمان، ولقد اتى علي زمان، وما ابالي ايكم بايعت، لئن كان مسلما ليردنه علي دينه، ولئن كان نصرانيا او يهوديا ليردنه علي ساعيه، واما اليوم فما كنت لابايع منكم إلا فلانا وفلانا ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، وَوَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَيْنِ، قَدْ رَأَيْتُ أَحَدَهُمَا وَأَنَا أَنْتَظِرُ الآخَرَ، حَدَّثَنَا أَنَّ الأَمَانَةَ نَزَلَتْ فِي جَذْرِ قُلُوبِ الرِّجَالِ، ثُمَّ نَزَلَ الْقُرْآنُ فَعَلِمُوا مِنَ الْقُرْآنِ وَعَلِمُوا مِنَ السُّنَّةِ، ثُمّ حَدَّثَنَا عَنْ رَفْعِ الأَمَانَةِ، قَالَ: " يَنَامُ الرَّجُلُ النَّوْمَةَ، فَتُقْبَضُ الأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ، فَيَظَلُّ أَثَرُهَا مِثْلَ الْوَكْتِ، ثُمَّ يَنَامُ النَّوْمَةَ، فَتُقْبَضُ الأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ، فَيَظَلُّ أَثَرُهَا مِثْلَ الْمَجْلِ كَجَمْرٍ دَحْرَجْتَهُ عَلَى رِجْلِكَ، فَنَفِطَ، فَتَرَاهُ مُنْتَبِرًا وَلَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ، ثُمَّ أَخَذَ حَصًى فَدَحْرَجَهُ عَلَى رِجْلِهِ، فَيُصْبِحُ النَّاسُ يَتَبَايَعُونَ لَا، يَكَادُ أَحَدٌ يُؤَدِّي الأَمَانَةَ، حَتَّى يُقَالَ: إِنَّ فِي بَنِي فُلَانٍ رَجُلًا أَمِينًا، حَتَّى يُقَالَ لِلرَّجُلِ: مَا أَجْلَدَهُ، مَا أَظْرَفَهُ، مَا أَعْقَلَهُ، وَمَا فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنَ إِيمَانٍ، وَلَقَدْ أَتَى عَلَيَّ زَمَانٌ، وَمَا أُبَالِي أَيَّكُمْ بَايَعْتُ، لَئِنْ كَانَ مُسْلِمًا لَيَرُدَّنَّهُ عَلَيَّ دِينُهُ، وَلَئِنْ كَانَ نَصْرَانِيًّا أَوْ يَهُودِيًّا لَيَرُدَّنَّهُ عَلَيَّ سَاعِيهِ، وَأَمَّا الْيَوْمَ فَمَا كُنْتُ لِأُبَايِعَ مِنْكُمْ إِلَّا فُلَانًا وَفُلَانًا ".
ابو معاویہ اور وکیع نے اعمش سے حدیث سنائی، انہوں نے زید بن وہب سے اور انہوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو باتیں بتائیں، ایک تو میں دیکھ چکا ہوں اور دوسری کا انتظار کر رہا ہوں، آپ نے ہمیں بتایا: امانت لوگوں کے دلوں کے نہاں خانے میں اتری، پھر قرآن اترا، انہوں نے قرآن سے سیکھا اور سنت سے جانا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں امانت اٹھالیے جانے کے بارے میں بتایا، آپ نے فرمایا: آدمی ایک بار سوئے گا تو اس کے دل میں امانت سمیٹ لی جائے گی اور اس کا نشان پھیکے رنگ کی طرح رہ جائے گا، پھر وہ ایک نیند لے گا تو (بقیہ) امانت اس کے دل سے سمیٹ لی جائے گی اور اس کا نشان ایک آبلے کی طرح رہ جائے گا جیسے تم انگارے کو اپنے پاؤں پر لڑھکاؤ تو (وہ حصہ) پھول جاتا ہے اور تم اسے ابھرا ہوا دیکھتے ہو، حالانکہ اس کے اندر کچھ نہیں ہوتا۔ پھر آپ نے ایک کنکری لی اور اسے اپنے پاؤں پر لڑھکایا۔پھر لوگ خرید و فروخت کریں گے لیکن کوئی بھی پوری طرح امانت کی ادائیگی نہ کرے گا یہاں تک کہ جائے گا: فلاں خاندان میں ایک آدمی امانت دار ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچے گی کہ کسی آدمی کے بارے میں کہا جائے گا، وہ کس قدر مضبوط ہے، کتنا لائق ہے، کیسا عقل مند ہے! جبکہ اس کے دل میں رائے کے دانے کے برابر (بھی) ایمان نہ ہو گا۔ (پھر حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا:) مجھ پر ایک دو گزرا، مجھے پروا نہیں تھی کہ میں تم سے کس کے ساتھ لین دین کروں، اگر وہ مسلمان ہے تو اس کا دین اس کو میرے پا س واپس لے آئے گا اور اگر وہ یہودی یا عیسائی ہے تو اس کا حاکم اس کو میرے پاس لے آئے گا لیکن آج میں فلاں اور فلاں کے سوا تم میں سے کسی کے ساتھ لین دین نہیں کر سکتا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) فى الرقاق، باب: رفع الامانة برقم (6132) وفي ((الفتن)) باب: اذا بقى فى حثالة من الناس برقم (6675) وفى الاعتصام بالكتاب والسنة، باب: الاقتداء بسنن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم برقم (6848) مختصراً- والترمذی فی ((جامعه)) في الفتن، باب: ما جاء فى رفع الامانة برقم (2179) وقال: حديث حسن صحيح۔ وابن ماجه في ((سننه)) في الفتن، باب: ذهاب الامانة برقم (4053) انظر ((التحفة)) برقم (3328)»
حدیث نمبر: 368
Save to word اعراب
وحدثنا ابن نمير ، حدثنا ابي ووكيع . ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، حدثنا عيسى بن يونس جميعا، عن الاعمش ، بهذا الإسناد مثله.وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي وَوَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ جَمِيعًا، عَنِ الأَعْمَشِ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
(اعمش کےدوسرے شاگردوں) عبد اللہ بن نمیر، وکیع اور عیسیٰ بن یونس نے بھی اسی سند کے ساتھ مذکورہ بالا حدیث بیان کی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (365)»
حدیث نمبر: 369
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا ابو خالد يعني سليمان بن حيان ، عن سعد بن طارق ، عن ربعي ، عن حذيفة، قال: كنا عند عمر، فقال: ايكم سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر الفتن؟ فقال قوم: نحن سمعناه، فقال: لعلكم تعنون فتنة الرجل في اهله وجاره؟ قالوا: اجل، قال: تلك تكفرها، الصلاة، والصيام، والصدقة، ولكن ايكم سمع النبي صلى الله عليه وسلم يذكر الفتن، التي تموج موج البحر؟ قال حذيفة: فاسكت القوم، فقلت: انا، قال: انت لله ابوك، قال حذيفة : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " تعرض الفتن على القلوب كالحصير عودا عودا، فاي قلب اشربها نكت فيه نكتة سوداء، واي قلب انكرها نكت فيه نكتة بيضاء، حتى تصير على قلبين على ابيض مثل الصفا، فلا تضره فتنة ما دامت السماوات والارض والآخر اسود مربادا كالكوز مجخيا، لا يعرف معروفا، ولا ينكر منكرا، إلا ما اشرب من هواه "، قال حذيفة وحدثته: ان بينك وبينها، بابا مغلقا يوشك ان يكسر، قال عمر: اكسرا، لا ابا لك، فلو انه فتح لعله كان يعاد؟ قلت: لا، بل يكسر، وحدثته ان ذلك الباب رجل يقتل او يموت حديثا ليس بالاغاليط، قال ابو خالد: فقلت لسعد: يا ابا مالك، ما اسود مربادا؟ قال: شدة البياض في سواد، قال: قلت: فما الكوز مجخيا؟ قال: منكوسا.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ يَعْنِي سُلَيْمَانَ بْنَ حَيَّانَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ طَارِقٍ ، عَنْ رِبْعِيٍّ ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عُمَرَ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ الْفِتَنَ؟ فَقَالَ قَوْمٌ: نَحْنُ سَمِعْنَاهُ، فَقَالَ: لَعَلَّكُمْ تَعْنُونَ فِتْنَةَ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَجَارِهِ؟ قَالُوا: أَجَلْ، قَالَ: تِلْكَ تُكَفِّرُهَا، الصَّلَاةُ، وَالصِّيَامُ، وَالصَّدَقَةُ، وَلَكِنْ أَيُّكُمْ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ الْفِتَنَ، الَّتِي تَمُوجُ مَوْجَ الْبَحْرِ؟ قَالَ حُذَيْفَةُ: فَأَسْكَتَ الْقَوْمُ، فَقُلْتُ: أَنَا، قَالَ: أَنْتَ لِلَّهِ أَبُوكَ، قَالَ حُذَيْفَةُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " تُعْرَضُ الْفِتَنُ عَلَى الْقُلُوبِ كَالْحَصِيرِ عُودًا عُودًا، فَأَيُّ قَلْبٍ أُشْرِبَهَا نُكِتَ فِيهِ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ، وَأَيُّ قَلْبٍ أَنْكَرَهَا نُكِتَ فِيهِ نُكْتَةٌ بَيْضَاءُ، حَتَّى تَصِيرَ عَلَى قَلْبَيْنِ عَلَى أَبْيَضَ مِثْلِ الصَّفَا، فَلَا تَضُرُّهُ فِتْنَةٌ مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ وَالآخَرُ أَسْوَدُ مُرْبَادًّا كَالْكُوزِ مُجَخِّيًا، لَا يَعْرِفُ مَعْرُوفًا، وَلَا يُنْكِرُ مُنْكَرًا، إِلَّا مَا أُشْرِبَ مِنْ هَوَاهُ "، قَالَ حُذَيْفَةُ وَحَدَّثْتُهُ: أَنَّ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا، بَابًا مُغْلَقًا يُوشِكُ أَنْ يُكْسَرَ، قَالَ عُمَرُ: أَكَسْرًا، لَا أَبَا لَكَ، فَلَوْ أَنَّهُ فُتِحَ لَعَلَّهُ كَانَ يُعَادُ؟ قُلْتُ: لَا، بَلْ يُكْسَرُ، وَحَدَّثْتُهُ أَنَّ ذَلِكَ الْبَابَ رَجُلٌ يُقْتَلُ أَوْ يَمُوتُ حَدِيثًا لَيْسَ بِالأَغَالِيطِ، قَالَ أَبُو خَالِدٍ: فَقُلْتُ لِسَعْدٍ: يَا أَبَا مَالِكٍ، مَا أَسْوَدُ مُرْبَادًّا؟ قَالَ: شِدَّةُ الْبَيَاضِ فِي سَوَادٍ، قَالَ: قُلْتُ: فَمَا الْكُوزُ مُجَخِّيًا؟ قَالَ: مَنْكُوسًا.
ابو خالد سلیمان بن حیان نے سعد بن طارق سے حدیث سنائی، انہوں نے ربعی سے اور انہوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نےکہا: ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کےپاس تھے، انہوں نے پوچھا: تم میں سے کس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتنوں کا ذکر کرتے ہوئے سنا؟ کچھ لوگوں نے جواب دیا: ہم نے یہ ذکر سنا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: شاید تم و ہ آزمائش مراد لے رہے ہو جو آدمی کو اس کے اہل، مال اور پڑوسی (کے بارے) میں پیش آتی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس فتنے (اہل، مال اور پڑوسی کے متعلق امور میں سرزد ہونے والی کوتاہیوں) کا کفارہ نماز، روزہ اور صدقہ بن جاتے ہیں۔ لیکن تم میں سے کس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس فتنے کا ذکر سنا ے جو سمندر کی طرح موجزن ہو گا؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اس پر سب لوگ خاموش ہو گئے تو میں نے کہا: میں نے (سنا ہے۔) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تو نے، تیرا باپ اللہ ہی کا (بندہ) ہے (کہ اسے تم سا بیٹا عطا ہوا۔) حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےسنا، آپ فرما رہے تھے: فتنے دلوں پر ڈالیں جائیں گے، چٹائی (کی بنتی) کی طرح تنکا تنکا (ایک ایک) کر کے اور جو دل ان سے سیراب کر دیا گیا (اس نے ان کو قبول کر لیا اور اپنے اندر بسا لیا)، اس میں ایک سیاہ نقطہ پڑ جائے گا اور جس دل میں ان کو رد کر دیا اس میں سفید نقطہ پڑ جائے گا یہاں تک کہ دل دو طرح کے ہو جائیں گے: (ایک دل) سفید، چکنے پتھر کے مانند ہو جائے گا، جب تک آسمان و زمین قائم رہیں گے، کوئی فتنہ اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ دوسرا کالا مٹیالے رنگ کا اوندھے لوٹے کے مانند (جس پر پانی کی بوند بھی نہیں ٹکتی) جو نہ کسی نیکی کو پہچانے کا اور نہ کسی برائی سے انکار کرے گا، سوائے اس بات کے جس کی خواہش سے وہ (دل) لبریز ہو گا۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نےعمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ آپ کے اور ان فتنوں کے درمیان بند دروازے ہے، قریب ہے کہ اسے توڑ دیا جائے گا؟ اگر اسے کھول دیا گیا تو ممکن ہے کہ اسے دوبارہ بند کیا جاسکے۔ میں نے کہا: نہیں! بلکہ توڑ دیا جائے گا۔ اور میں نے انہیں بتا دیا: وہ دروازہ آدمی ہے جسے قتل کر دیا جائے گا یا فوت ہو جائے گا۔ (حذیفہ نے کہا: میں نے انہیں) حدیث (سنائی کوئی)، مغالطے میں ڈالنے والی باتیں نہیں۔ ابو خالدنے کہا: میں نے سعد سے پوچھا: ابو مالک!أسودمرباداً سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا: کالے رنگ میں شدید سفیدی (مٹیالے رنگ۔) کہا: میں نے پوچھا: الکوز مجخیاسے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا: الٹا کیا ہوا کوزہ۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (3319)»
حدیث نمبر: 370
Save to word اعراب
وحدثني ابن ابي عمر ، حدثنا مروان الفزاري ، حدثنا ابو مالك الاشجعي ، عن ربعي ، قال: لما قدم حذيفة من عند عمر جلس فحدثنا، فقال: إن امير المؤمنين امس، لما جلست إليه سال اصحابه: ايكم يحفظ قول رسول الله صلى الله عليه وسلم في الفتن؟ وساق الحديث بمثل حديث ابي خالد، ولم يذكر تفسير ابي مالك لقوله: مربادا مجخيا.وحَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ الْفَزَارِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو مَالِكٍ الأَشْجَعِيُّ ، عَنْ رِبْعِيٍّ ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ حُذَيْفَةُ مِنْ عِنْدِ عُمَرَ جَلَسَ فَحَدَّثَنَا، فَقَالَ: إِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَمْسِ، لَمَّا جَلَسْتُ إِلَيْهِ سَأَلَ أَصْحَابَهُ: أَيُّكُمْ يَحْفَظُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتَنِ؟ وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ حَدِيثِ أَبِي خَالِدٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ تَفْسِيرَ أَبِي مَالِكٍ لِقَوْلِهِ: مُرْبَادًّا مُجَخِّيًا.
مروان فزاری نے کہا: ہمیں ابو مالک اشجعی نے حضرت ربعی سے حدیث سنائی، انہوں نےکہا: جب حذیفہ رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس سے آئے تو بیٹھ کر ہمیں باتیں سنانے لگے اور کہا: کل جب میں امیر المومنین کی مجلس میں بیٹھا تو انہوں نے اپنے رفقاء سے پوچھا: تم میں سے کس نے فتنوں کے بارے میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد رکھا ہواہے؟....... پھر (مروان فزاری نے) ابو خالد کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی لیکن مرباداً مجخیاً سے متعلق ابو مالک کی تفسیر ذکر نہیں کی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (367)»
حدیث نمبر: 371
Save to word اعراب
وحدثني محمد بن المثنى ، وعمرو بن علي ، وعقبة بن مكرم العمي ، قالوا: حدثنا محمد بن ابي عدي ، عن سليمان التيمي ، عن نعيم بن ابي هند ، عن ربعي بن حراش ، عن حذيفة ان عمر، قال: من يحدثنا؟ او قال: ايكم يحدثنا، وفيهم حذيفة، ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في الفتنة، قال حذيفة: انا، وساق الحديث كنحو حديث ابي مالك، عن ربعي، وقال في الحديث، قال حذيفة: حدثته حديثا ليس بالاغاليط، وقال: يعني انه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم.وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَعَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ ، وَعُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ أَنَّ عُمَرَ، قَالَ: مَنْ يُحَدِّثُنَا؟ أَوَ قَالَ: أَيُّكُمْ يُحَدِّثُنَا، وَفِيهِمْ حُذَيْفَةُ، مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتْنَةِ، قَالَ حُذَيْفَةُ: أَنَا، وَسَاقَ الْحَدِيثَ كَنَحْوِ حَدِيثِ أَبِي مَالِكٍ، عَنْ رِبْعِيٍّ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ، قَالَ حُذَيْفَةُ: حَدَّثْتُهُ حَدِيثًا لَيْسَ بِالأَغَالِيطِ، وَقَالَ: يَعْنِي أَنَّهُ عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
نعیم بن ابی ہند نے ربعی بن حراش سے اور انہوں نےحضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم میں کون ہمیں بتائے گا (اور ان میں حذیفہ رضی اللہ عنہ موجود تھے) جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنے کے بارے میں فرمایا تھا؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں۔ آگے ابو مالک کی وہی روایت بیان کی ہے جو انہوں نے ربعی سے بیان کی اور اس میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول بھی بیان کیا کہ میں نے انہیں حدیث سنائی تھی، مغالطے میں ڈالنے والی باتیں نہیں، یعنی وہ حدیث رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے تھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (367)»

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.