كِتَاب الْإِيمَانِ ایمان کے احکام و مسائل The Book of Faith 73. باب بَدْءِ الْوَحْيِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: باب: اس بات کا بیان کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی (یعنی اللہ کا پیام) اترنا کیونکر شروع ہوا۔ Chapter: The beginning of the revelation to the messenger of Allah (saws) حدثني ابو الطاهر احمد بن عمرو بن عبد الله بن عمرو بن سرح ، اخبرنا ابن وهب ، قال: اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، قال: حدثني عروة بن الزبير ، ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم اخبرته انها، قالت: " كان اول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحي، الرؤيا الصادقة في النوم، فكان لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح، ثم حبب إليه الخلاء، فكان يخل وبغار حراء يتحنث فيه، وهو التعبد الليالي اولات العدد، قبل ان يرجع إلى اهله ويتزود لذلك، ثم يرجع إلى خديجة فيتزود لمثلها حتى فجئه الحق وهو في غار حراء فجاءه الملك، فقال: اقرا، قال: ما انا بقارئ، قال: فاخذني، فغطني حتى بلغ مني الجهد، ثم ارسلني، فقال: اقرا، قال: قلت: ما انا بقارئ، قال: فاخذني، فغطني الثانية، حتى بلغ مني الجهد، ثم ارسلني، فقال: اقرا، فقلت: ما انا بقارئ، فاخذني فغطني الثالثة، حتى بلغ مني الجهد، ثم ارسلني، فقال: اقرا باسم ربك الذي خلق {1} خلق الإنسان من علق {2} اقرا وربك الاكرم {3} الذي علم بالقلم {4} علم الإنسان ما لم يعلم {5} سورة العلق آية 1-5 فرجع بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، ترجف بوادره حتى دخل على خديجة، فقال: زملوني، زملوني، فزملوه حتى ذهب عنه الروع، ثم قال لخديجة: اي خديجة: ما لي، واخبرها الخبر "، قال: لقد خشيت على نفسي، قالت له خديجة: كلا ابشر، فوالله لا يخزيك الله ابدا، والله إنك لتصل الرحم، وتصدق الحديث، وتحمل الكل، وتكسب المعدوم، وتقري الضيف، وتعين على نوائب الحق، فانطلقت به خديجة، حتى اتت به ورقة بن نوفل بن اسد ابن عبد العزى وهو ابن عم خديجة اخي ابيها، وكان امرا تنصر في الجاهلية، وكان يكتب الكتاب العربي ويكتب من الإنجيل بالعربية ما شاء الله ان يكتب، وكان شيخا كبيرا قد عمي، فقالت له خديجة: اي عم، اسمع من ابن اخيك، قال ورقة بن نوفل: يا ابن اخي، ماذا ترى؟ فاخبره رسول الله صلى الله عليه وسلم خبر ما رآه، فقال له ورقة: هذا الناموس الذي انزل على موسى عليه السلام، يا ليتني فيها جذعا، يا ليتني اكون حيا حين يخرجك قومك، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: او مخرجي هم، قال ورقة: نعم، لم يات رجل قط بما جئت به إلا عودي، وإن يدركني يومك انصرك نصرا مؤزرا.حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا، قَالَتْ: " كَانَ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ، الرُّؤْيَا الصَّادِقَةَ فِي النَّوْمِ، فَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ، ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلَاءُ، فَكَانَ يَخْلُ وَبِغَارِ حِرَاءٍ يَتَحَنَّثُ فِيهِ، وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ أُولَاتِ الْعَدَدِ، قَبْلَ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا حَتَّى فَجِئَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ فَجَاءَهُ الْمَلَكُ، فَقَالَ: اقْرَأْ، قَالَ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، قَالَ: فَأَخَذَنِي، فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، قَالَ: قُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، قَالَ: فَأَخَذَنِي، فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ، حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، فَقُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ، حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ {1} خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ {2} اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ {3} الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ {4} عَلَّمَ الإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ {5} سورة العلق آية 1-5 فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَرْجُفُ بَوَادِرُهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ، فَقَالَ: زَمِّلُونِي، زَمِّلُونِي، فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ، ثُمَّ قَالَ لِخَدِيجَةَ: أَيْ خَدِيجَةُ: مَا لِي، وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ "، قَالَ: لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي، قَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ: كَلَّا أَبْشِرْ، فَوَاللَّهِ لَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، وَاللَّهِ إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ، فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ، حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ ابْنِ عَبْدِ الْعُزَّى وَهُوَ ابْنُ عَمِّ خَدِيجَةَ أَخِي أَبِيهَا، وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعَرَبِيَّ وَيَكْتُبُ مِنَ الإِنْجِيلِ بِالْعَرَبِيَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ، وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ، فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ: أَيْ عَمِّ، اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ، قَالَ وَرَقَةُ بْنُ نَوْفَلٍ: يَا ابْنَ أَخِي، مَاذَا تَرَى؟ فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَ مَا رَآهُ، فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ: هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ، يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا، يَا لَيْتَنِي أَكُونُ حَيًّا حِينَ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ، قَالَ رَسُولُ اللّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوَ مُخْرِجِيَّ هُمْ، قَالَ وَرَقَةُ: نَعَمْ، لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِيَ، وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا. یونس نے ابن شہاب (زہری) سے خبر دی، انہوں نے کہا: مجھے عروہ بن زبیر نے حدیث سنائی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کا آغاز سب سے پہلے نیند میں سچےخواب آنے سے ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو خواب بھی دیکھتے اس کی تعبیر صبح کے روشن ہونے کی طرح سامنے آ جاتی، پھر خلوت نشینی آپ کو محبوب ہو گئی، آپ غار حراء میں خلوت اختیار فرماتے اور گھر واپس جا کر (دوبارہ) اسی غرض کے لیے زاد راہ لانے سے پہلے (مقررہ) تعداد مں راتیں تحنث میں مصروف رہتے، تحنث عبادت گزاری کو کہتے ہیں، (اس کے بعد) آپ پھر خدیجہ ؓ کے پاس واپس آ کر، اتنی ہی راتوں کے لیے زاد (سامان خور و نوش) لے جاتے، (یہ سلسلہ چلتا رہا) یہاں تک کہ اچانک آپ کے پاس حق (کا پیغام) آ گیا، اس وقت آ پ غار حراء ہی میں تھے، چنانچہ آپ کے فرشتہ آیا اور کہا: پڑھیے! آپ نے جواب دیا: میں پڑھ سکنے والا نہیں ہوں، آپ نے فرمایا: تو اس (فرشتے) نے مجھے پکڑ کر زور سے بھینچا یہاں تک کہ (اس کا دباؤ) میری برداشت کی آخری حد کو پہنچ گیا، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا: پڑھیے! میں میں نے کہا: میں پڑھ سکنے والا نہیں ہوں، پھر اس نے مجھے پکڑا اور دوبارہ بھینچا یہاں تک کہ میری برداشت کی آخری حد آ گئی اور دوبارہ بھینچا یہاں تک کہ میری برداشت کی آخری حد آ گئی، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا: پڑھیے! میں نے کہا: میں پڑھ سکنے والا نہیں ہوں، پھر اس نے تیسری دفعہ مجھے پکڑ کر پوری قوت سے بھینچا یہاں تک کہ میری برداشت کی آخری حد آ گئی، پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا: ”اپنے رب کے نام سے پڑھیے جس نے پیدا کیا، اس نے انسان کو گوشت کے جونک جیسے لوتھڑے سے پیدا کیا، پڑھیے اور آپ کا رب سب سے بڑھ کر کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے سے تعلیم دی اور انسان کو سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان آیات کے ساتھ واپس لوٹے، (اس وقت) آپ کے کندھوں اور گردن کے درمیان کے گوشت کے حصے لرز رہے تھے یہاں تک کہ آپ خدیجہ ؓ کے پاس پہنچے اور فرمایا: ”مجھے کپڑے اوڑھا ؤ، مجھے کپڑا اوڑھا ؤ۔“ انہوں (گھر والوں) نے کپڑا اوڑھا دیا دیا یہاں تک کہ آپ کا خوف زائل ہو گیا تو آپ نے حضرت خدیجہؓ سے کہا: ” خدیجہ! یہ مجھے کیا ہوا ہے؟“ خدیجہ نے جواب دیا: ہر گز نہیں! (بلکہ) آپ کو خوش خبری ہو اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز رسوا نہ کرے گا، اللہ کی قسم! آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، سچی بات کہتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، اسے کما کر دیتے ہیں جس کے پاس کچھ نہ ہو، مہمان نوازی کرتے ہیں، حق کے لیے پیش آنےوالی مشکلات میں اعانت کرتے ہیں، پھر خدیجہؓ آپ کو لے کر ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزیٰ کے پاس پہنچیں، وہ حضرت خدیجہ ؓ کے چچازاد، ان کووالد کے بھائی کے بیٹے تھے، وہ ایسے آدمی تھے جو جاہلیت کے دور میں عیسائی ہو گئے تھے، عربی خط میں لکھتے تھے، اور جس قدر الہ کو منظور تھا، انجیل کوعربی زبان میں لکھتے تھے، بہت بوڑھے تھے اور بینائی جاتی رہی تھی۔ خدیجہ ؓ نے ان سےکہا: چچا! اپنے بھتیجے کی بات سنیے، ورقہ بن نوفل نے پوچھا: برادرز دے! آپ کیا دیکھتے ہیں؟ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا، ا س کا حال بتایا تو ورقہ نے آپ سے کہا: یہ وہی ناموس (رازوں کا محافظ) ہے جسے موسیٰ رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجا گیا تھا، کاش! اس وقت میں جوان ہوتا، کا ش! میں اس وقت زندہ (موجود) ہوں جب آپ کی قوم آپ کو نکال دیں گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا؟ ” تو کیا یہی لوگ مجھے نکالنے والے ہوں گے؟“ ورقہ نے کہا: ہاں، کبھی کوئی آدمی آپ جیسا پیغام لے کر نہیں آیا مگر اس سے دشمنی کی گئی اور اگر آپ کا (وہ) دن میری زندگی میں آ گیا تو میں آپ کی بھر پور مدد کروں گا۔ سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں: کہ وحی کا آغاز سب سے پہلے نیند میں سچے خوابوں سے ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو خواب بھی دیکھتے، اس کی تعبیر روشن صبح کی طرح ہوتی۔ پھر خلوت گزینی آپ کے نزدیک محبوب بنا دی گئی اور آپ غارِ حرا میں تنہائی اختیار کرتے، اور اپنے اہل کی طرف واپسی سے پہلے کئی کئی راتیں وہاں گناہ سے بچتے، یعنی: بندگی کرتے، اور اس کے لیے خورد ونوش کا سامان لے جاتے۔ پھرخدیجہؓ کے پاس واپس آکر اتنی ہی راتوں کے لیے پھر سامانِ خوردونوش لے جاتے، یہاں تک کہ آپ کے پاس اچانک حق (فرشتۂ وحی) آگیا اور آپ غارِ حرا میں تھے، چنانچہ آپ کے پاس فرشتہ آیا اور اس نے کہا: پڑھیے! آپؐ نے جواب دیا: ”میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ تو اس نے مجھے پکڑ کر زور سے دبایا، یہاں تک کہ اس کا دباؤ میری طاقت کی انتہا کو پہنچ گیا، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا: پڑھیے! تو میں نے کہا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ پھر اس نے مجھے پکڑا اور دوبارہ مجھے بھینچا یہاں تک اس کا دباؤ میری طاقت کی انتہا کو پہنچ گیا۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا: پڑھیے! میں نے کہا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ پھر اس نے مجھے پکڑا اور تیسری دفعہ دبوچا حتیٰ کہ مجھے پوری قوت سے دبایا پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا: ”اپنے اس رب کے نام کی برکت و توفیق سے پڑھیے، جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو گوشت کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھیے اور آپ کا رب بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جو وہ نہیں جانتا تھا۔“ (سورۃ علق آیت: 1-5) یہ آیات لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں واپس خدیجہؓ کے پاس پہنچے کہ آپ پر کپکپی طاری تھی۔ آپؐ نے فرمایا: ”مجھے کپڑا اوڑھاؤ! مجھ پر کپڑا ڈالو۔“ گھر والوں نے کپڑا اوڑھایا، یہاں تک کہ آپ کا خوف زائل ہوگیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدیجہؓ سے کہا: ”اے خدیجہ! مجھے کیا ہوا؟“ اور اسے پورا واقعہ سنایا، کہا: ”کہ مجھے تو اپنی جان کا خطرہ پڑ گیا۔“ خدیجہؓ نے آپؐ کو جواب دیا: ہر گز نہیں! خوش ہو جائیے، اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز رسوا نہیں کرے گا۔ اللہ شاہد ہے آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، سچی بات کرتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، نایاب چیزیں دیتے ہیں (نایاب سے مراد: وہ چیز ہے جو کسی اور سے نہ مل سکتی ہو، اس کی توجیہ آگے موجود ہے)، مہمان نوازی کرتے ہیں، حق کے لیے پیش آمدہ مصائب میں مدد کرتے ہیں۔ خدیجہؓ آپؐ کو لے کر اپنے چچا زاد ورقہ بن نوفل کے پاس پہنچیں، جس نے جاہلیت کے دور میں عیسائیت اختیار کر لی تھی، اور وہ عربی خط میں لکھتے تھے، اور انجیل کا عربی میں ترجمہ، جس قدر اللہ کو منظور ہوتا کرتے تھے، بہت بوڑھے تھے اور بینائی جاتی رہی تھی۔ خدیجہؓ نے اس سے کہا: اے چچا! اپنے بھتیجے کی بات سنیے۔ ورقہ بن نوفل نے پوچھا: اے بھتیجے! آپ نے کیا دیکھا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا اسے بتایا، تو ورقہ نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یہی وہ رازداں (فرشتہ) ہے جسے موسیٰ ؑ کی طرف بھیجا گیا تھا۔ اے کاش! میں اس وقت میں جواں ہوتا۔ اے کاش! میں اس وقت زندہ ہوں، جب آپ کی قوم آپ کو نکالے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟“ ورقہ نے کہا: ہاں! کبھی کوئی آدمی آپ جیسا پیغام لے کر نہیں آیا، مگر اس سے دشمنی کی گئی، اور اگر آپ کے اس دن کو میں نے پا لیا! تو آپ کی بھرپور مدد کروں گا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في التفسير، باب: ﴿ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴾ برقم (4953) انظر ((التحفة)) برقم (16706)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني محمد بن رافع ، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، قال: قال الزهري : واخبرني عروة ، عن عائشة ، انها قالت: اول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحي، وساق الحديث بمثل حديث يونس، غير انه قال: فوالله لا يحزنك الله ابدا وقال: قالت خديجة: اي ابن عم اسمع من ابن اخيك.وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، قَالَ: قَالَ الزُّهْرِيُّ : وَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ: أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ حَدِيثِ يُونُسَ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: فَوَاللَّهِ لَا يُحْزِنُكَ اللَّهُ أَبَدًا وَقَالَ: قَالَتْ خَدِيجَةُ: أَيِ ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ. ہمیں معمر نے خبر دی کہ انہوں نے کہا: مجھے عروہ نے حضرت عائشہ ؓ سے خبر دی کہ انہوں نے کہا: رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کی ابتدا...... آگے یونس کی حدیث کی طرح بیا کیا، سوائے اس کے کہ معمر نے لایحزنک اللہ أبداً” آپ کو اللہ کبھی غمگین نہ کرے گا“ کہا۔ انہوں نے (یہ بھی) کہا کہ حضرت خدیجہ ؓ نے یہ الفاظ کہا: ”چچا کے بیٹے! اپنے بھتیجے کی بات سنیں۔“ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کی ابتدا.... آگے یونسؒ کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی صرف اتنا فرق ہے کہ معمرؒ نے کہا: "لَا يُحْزِنُكَ اللهُ أَبَدًا" ”اللہ کی قسم! اللہ کبھی تمھیں پریشان نہیں کرے گا۔“ اور خدیجہؓ کے الفاظ یہ نقل کیے: ”اے چچا کے بیٹے! اپنے بھتیجے کی بات سن۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في التعبير اول ما بدی به رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم من الوحى الرويا الصالحة مطولا برقم (6982) وفي التفسير، باب: قوله ﴿ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ﴾ برقم (4956) انظر ((التحفة)) برقم (16637)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني عبد الملك بن شعيب بن الليث ، قال: حدثني ابي ، عن جدي ، قال: حدثني عقيل بن خالد ، قال ابن شهاب : سمعت عروة بن الزبير ، يقول: قالت عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم: فرجع إلى خديجة يرجف فؤاده، واقتص الحديث بمثل حديث يونس ومعمر، ولم يذكر اول حديثهما من قوله، اول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحي الرؤيا الصادقة، وتابع يونس على قوله، فوالله لا يخزيك الله ابدا، وذكر قول خديجة: اي ابن عم اسمع من ابن اخيك.وحَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : سَمِعْتُ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ ، يَقُولُ: قَالَتْ عَائِشَةُ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَرَجَعَ إِلَى خَدِيجَةَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ، وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ حَدِيثِ يُونُسَ وَمَعْمَرٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ أَوَّلَ حَدِيثِهِمَا مِنْ قَوْلِهِ، أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ، وَتَابَعَ يُونُسَ عَلَى قَوْلِهِ، فَوَاللَّهِ لَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، وَذَكَرَ قَوْلَ خَدِيجَةَ: أَيِ ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ. عقیل بن خالد نے بیان کیا کہ ابن شہاب نے کہا: میں نے عروہ بن زبیر کو یہ کہتے ہوئے سنا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہؓ کے پاس آئے، آپ کا دل شدت سے دھڑک رہا تھا..... پھر (عقیل نے) یونس اور معمر کی طرح حدیث بیان کی۔ اور ان دونوں کی روایت کا ابتدائی حصہ، یعنی ان کا یہ قول کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کا آغاز سچے خوابوں کی صورت میں ہوا، بیان ہیں کیا۔ نیز عقیل بن خالد نے یونس کے ان الفاظ فواللہ!لا یخزیک اللہ أبداً ” اللہ کی قسم! اللہ آپ کو ہرگز رسوا نہ کرے گا“ میں متابعت کرنے کے ساتھ حضرت خدیجہ ؓ کا یہ قول بھی ذکر کیا ہے: ” چچا کے بیٹے! اپنے بھتیجے کی بات سنیں۔“ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں ”کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدیجہؓ کے پاس آئے، آپؐ کا دل دھڑک رہا تھا۔“ پھر یونسؒ اور معمرؒ کی طرح حدیث بیان کی اور ان دونوں کی روایت کا ابتدائی حصہ ”کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کا آغاز سچے خوابوں کی صورت میں ہوا۔“ بیان نہیں کیا، اور عقیل بن خالدؒ نے یونسؒ کی طرح "فَوَاللهِ ِ لَا يُخْزِيكَ اللهُ أَبَدًا" کے الفاظ استعمال کیے۔ اور خدیجہؓ کا قول "أَيْ ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ" ”اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ اے چچا کے بیٹے! بھتیجے کی بات سن۔“ نقل کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) فى بدء الوحى، باب: كيف كان بدء الوحي الى رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم برقم (3) مطولا بتمامه، وفي التفسير، باب: قوله ﴿خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ﴾ مختصرا برقم (4955) انظر ((التحفة)) برقم (16540)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني ابو الطاهر ، اخبرنا ابن وهب ، قال: حدثني يونس ، قال: قال ابن شهاب ، اخبرني ابو سلمة بن عبد الرحمن ، ان جابر بن عبد الله الانصاري وكان من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، كان يحدث، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يحدث عن فترة الوحي، قال في حديثه: " فبينا انا امشي، سمعت صوتا من السماء، فرفعت راسي، فإذا الملك الذي جاءني بحراء، جالسا على كرسي بين السماء والارض، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فجئثت منه فرقا، فرجعت، فقلت: زملوني، زملوني، فدثروني، فانزل الله تبارك وتعالى يايها المدثر {1} قم فانذر {2} وربك فكبر {3} وثيابك فطهر {4} والرجز فاهجر {5} سورة المدثر آية 1-5، وهي الاوثان، قال: ثم تتابع الوحي ".وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يُونُسُ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيَّ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يُحَدِّثُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ، قَالَ فِي حَدِيثِهِ: " فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي، سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ، فَرَفَعْتُ رَأْسِي، فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ، جَالِسًا عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَجُئِثْتُ مِنْهُ فَرَقًا، فَرَجَعْتُ، فَقُلْتُ: زَمِّلُونِي، زَمِّلُونِي، فَدَثَّرُونِي، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ {1} قُمْ فَأَنْذِرْ {2} وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ {3} وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ {4} وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ {5} سورة المدثر آية 1-5، وَهِيَ الأَوْثَانُ، قَالَ: ثُمَّ تَتَابَعَ الْوَحْيُ ". یونس نے (اپنی سند کے ساتھ) ابن شہاب سے بیان کیا، انہوں نے کہا: مجھے ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف نے خبر دی کہ حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ جو اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے، یہ حدیث سنایا کرتے تھے، کہا: وقفہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس دوران میں جب میں چل رہا تھا، میں نے آسمان سے ایک آواز سنی، اس پر میں اپنا سر اٹھایا تو اچانک (دیکھا) وہی فرشتہ تھا جومیرے پاس غار حراء میں آیاتھا، آسمان و زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا تھا۔“ آپ نے فرمایا: ” اس کے خوف کی وجہ سے مجھ پر گھبراہٹ طاری ہو گئی اور میں گھر واپس آگیا اور کہا: مجھے کپڑا اوڑھاؤ، مجھے کپڑا اوڑھاؤ تو انہوں (گھر والوں) نے مجھے کمبل اوڑھا دیا۔“ اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیات اتاریں: ” اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے اٹھو اور خبردار کرواور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو۔اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔اور گندگی سے دور رہیے۔“ اور اس (الرجزیعنی گندگی) سے مراد بت ہیں۔ فرمایا: پھر وحی مسلسل نازل ہونے لگی۔ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ؓ جو صحابہ کرام ؓ میں سے تھے، بندش ِوحی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ”دریں اثنا کہ میں چل رہا تھا، میں نے آسمان سے آواز سنی تو میں نے سر اٹھایا، دیکھا کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس غارِ حرا میں آیا تھا، وہ آسمان و زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہے، تو میں خوف زدہ ہو کر گھبرا کر گھر واپس آگیا، اور میں نے کہا مجھے کپڑا اوڑھاؤ! مجھ پر کپڑا ڈالو، تو گھر والوں نے مجھ پر کپڑا ڈال دیا۔ اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیات اتاریں ”اے کپڑے میں لپٹنے والے اٹھیے! پھر لوگوں کو ڈرائیے اور اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کیجیے اور اپنے کپڑے پاک رکھیے اور بتوں سے الگ رہیے۔“ (مدثر:1-5) رجز سے مراد بت ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر وحی مسلسل نازل ہونے لگی۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في بدء الوحي، باب: كيف كان بدء الوحي الی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم برقم (3) وفي التفسير برقم (4922 و 4923 و 4925) وفي، باب: سورة ﴿ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴾ برقم (4953) وفى بدء الخلق، باب: اذا قال احدکم آمین والملائكة في السماء فوافقت احداهما الاخرى غفر له ما تقدم من ذنبه برقم (3238) وفى الادب، باب: رفع البصر الى السماء، وقوله تعالى ﴿ أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ ﴾ برقم (6214) والترمذى في ((جامعه)) في التفسير، باب: ومن سورة المدثر وقال: هذا حدیث حسن صحيح برقم (3325) انظر ((التحفة)) برقم (3152)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عقیل بن خالد نے ابن شہاب سے بیان کیا، انہوں نے کہا: میں نے ابو سلمہ بن عبد الرحمن کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہوں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ”پھر وحی ایک وقفے کے لیے مجھ سے منقطع ہو گئی، اسی دوران میں جب میں چل رہا تھا.....“ پھر (عقیل نے) یونس کی طرح روایت بیان کی، البتہ انہوں نے (مزید یہ) کہا: ” تو خوف سے مجھ پر گھبراہٹ طاری ہو گئی حتی کہ میں زمین پر گر پڑا“ (ابن شہاب نےکہا: ابوسلمہ نےبتایا: الرجز سے بت مراد ہیں) کہا: پھر نزول وحی (کی رفتار) میں گرمی آ گئی اور مسلسل نازل ہونے لگی۔ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ”پھر مجھ سے کچھ وقت وحی بالکل بند ہو گئی، اس اثنا میں کہ میں چل رہا تھا۔“ پھر یونسؒ کی طرح روایت بیان کی صرف اتنا فرق ہے کہ عقیلؒ نے کہا: ”تو میں خوف سے مرعوب ہو گیا حتیٰ کہ میں زمین پر گر گیا۔“ اور ابو سلمہؒ نے بتایا: رِجز سے مراد: بت ہیں اور کہا: پھر وحی گرم ہو گئی اور اس میں تسلسل پیدا ہوگیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (404)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني محمد بن رافع ، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، بهذا الإسناد نحو حديث يونس، وقال: فانزل الله تبارك وتعالى: يايها المدثر، إلى قوله والرجز فاهجر سورة المدثر آية 1 - 5، قبل ان تفرض الصلاة وهي الاوثان، وقال: فجثثت منه، كما قال عقيل.وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ يُونُسَ، وَقَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ، إِلَى قَوْلِهِ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ سورة المدثر آية 1 - 5، قَبْلَ أَنْ تُفْرَضَ الصَّلَاةُ وَهِيَ الأَوْثَانُ، وَقَالَ: فَجُثِثْتُ مِنْهُ، كَمَا قَالَ عُقَيْلٌ. معمر نے زہری سے اسی سند کےساتھ یونس کی طرح حدیث بیان کی (اس میں یہ) کہا: تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے: ﴿﴾ سے لے کر﴿﴾ تک (کی آیتیں) نازل فرمائیں (نماز فرض ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے) اور اس (الرجز ) سے بت مراد ہیں، نیز معمر نے عقیل کی طرح ” مجھ پر خوف طاری ہو گیا“ کہا۔ امام صاحبؒ ایک اور سند سے مذکورہ بالا روایت نقل کرتے ہیں آخر میں ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اتارا: ”اے کپڑے میں لپٹنے والے“ سے لے کر”بتوں سے دور رہیے۔“ (مدثر: 1-5) یہ نماز کی فرضیت سے پہلے کا واقعہ ہے۔ رجز سے مراد: بت ہیں اور عقیلؒ کی طرح کہا: "فَجُثِثْتُ مِنْهُ" ”میں اس سے گھبرا گیا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (404)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا زهير بن حرب ، حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثنا الاوزاعي ، قال: سمعت يحيى ، يقول: سالت ابا سلمة : اي القرآن انزل قبل؟ قال: يا ايها المدثر، فقلت: او اقرا، فقال: سالت جابر بن عبد الله: اي القرآن انزل قبل؟ قال: يا ايها المدثر، فقلت: او اقرا، قال جابر : احدثكم ما حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " جاورت بحراء شهرا، فلما قضيت جواري، نزلت فاستبطنت بطن الوادي، فنوديت فنظرت امامي، وخلفي، وعن يميني، وعن شمالي، فلم ار احدا، ثم نوديت فنظرت فلم ار احدا، ثم نوديت فرفعت راسي، فإذا هو على العرش في الهواء يعني جبريل عليه السلام، فاخذتني رجفة شديدة فاتيت خديجة، فقلت: دثروني، فدثروني، فصبوا علي ماء "، فانزل الله عز وجل: يايها المدثر {1} قم فانذر {2} وربك فكبر {3} وثيابك فطهر {4} سورة المدثر آية 1-4.وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى ، يَقُولُ: سَأَلْتُ أَبَا سَلَمَةَ : أَيُّ الْقُرْآنِ أُنْزِلَ قَبْلُ؟ قَالَ: يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ، فَقُلْتُ: أَوِ اقْرَأْ، فَقَالَ: سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ: أَيُّ الْقُرْآنِ أُنْزِلَ قَبْلُ؟ قَالَ: يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ، فَقُلْتُ: أَوِ اقْرَأْ، قَالَ جَابِرٌ : أُحَدِّثُكُمْ مَا حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " جَاوَرْتُ بِحِرَاءٍ شَهْرًا، فَلَمَّا قَضَيْتُ جِوَارِي، نَزَلْتُ فَاسْتَبْطَنْتُ بَطْنَ الْوَادِي، فَنُودِيتُ فَنَظَرْتُ أَمَامِي، وَخَلْفِي، وَعَنْ يَمِينِي، وَعَنْ شِمَالِي، فَلَمْ أَرَ أَحَدًا، ثُمَّ نُودِيتُ فَنَظَرْتُ فَلَمْ أَرَ أَحَدًا، ثُمَّ نُودِيتُ فَرَفَعْتُ رَأْسِي، فَإِذَا هُوَ عَلَى الْعَرْشِ فِي الْهَوَاءِ يَعْنِي جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام، فَأَخَذَتْنِي رَجْفَةٌ شَدِيدَةٌ فَأَتَيْتُ خَدِيجَةَ، فَقُلْتُ: دَثِّرُونِي، فَدَثَّرُونِي، فَصَبُّوا عَلَيَّ مَاءً "، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ {1} قُمْ فَأَنْذِرْ {2} وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ {3} وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ {4} سورة المدثر آية 1-4. اوزاعی نے کہا: میں نے یحییٰ سے سنا، کہتے تھے: میں نے ابوسلمہ سے سوال کیا: ” قرآن کا کون سا حصہ پہلے نازل ہوا؟ کہا: ﴿یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ﴾۔ میں نے کہا: یا ﴿اِقْرَاْ﴾؟ ابو سلمہ نے کہا: میں جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: قرآن کا کون سا حصہ پہلے اتارا گیا؟ انہوں نے جواب دیا: ﴿ یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ ﴾۔ میں نےکہا: یا ﴿ اِقْرَاْ ﴾؟ جابر رضی اللہ عنہ نےکہا: میں تمہیں وہی بات بتاتا ہوں جوہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” میں نے حراء میں ایک ماہ اعتکاف کیا۔ جب میں نے اپنا اعتکاف ختم کیا تو میں اترا، پھر میں وادی کے درمیان پہنچا تو مجھے آواز دی گئی، اس پر میں نے اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں نظر دوڑائی تو مجھے کوئی نظر نہ آیا، مجھے پھر آواز دی گئی میں میں نے دیکھا، مجھے کوئی نظر نہ آیا، پھر (تیسری بار) مجھے آواز دی گئی تو میں نے سر اوپر اٹھایا تو وہی (فرشت (فضا میں تخت (کرسی) پر بیٹھا ہوا تھا (یعنی جبرییل رضی اللہ عنہ) اس کی وجہ سے مجھ پر سخت لرزہ طاری ہو گیا۔ میں خدیجہ ؓ کے پاس آ گیا اور کہا: مجھے کمبل اوڑھا دو، مجھے کمبل اوڑھا دو، انہوں نے مجھے کمبل اوڑھا دیا اور مجھ پرپانی ڈالا۔ تو اس (موقع) پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات اتاریں: ” اے کمبل اوڑھنے والے! اٹھ اور ڈرا اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر اور اپنے کپڑے پاک رکھ۔“ یحییٰ نے ابو سلمہ ؒ سے سوال کیا: سب سے پہلے قرآن کا کون سا حصہ نازل ہوا؟ اس نے جواب دیا: ﴿يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ﴾ تو میں نے کہا: کیا ﴿اِقْرَاْ﴾ نہیں؟ تو ابو سلمہؒ نے کہا: میں نے جابر بن عبداللہ ؓ سے پوچھا: سب سے پہلے قرآن کا کون سا حصہ اتارا گیا؟ تو جابر نے جواب دیا ﴿يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ﴾ تو میں نے کہا: ﴿اِقْرَاْ﴾ نہیں؟ جابر ؓ نے کہا میں تمھیں وہی بتاتا ہوں جو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے ایک ماہ حرا میں گزارا، جب میں نے اپنا اعتکاف مکمل کر لیا، تو میں اتر کر وادی کے درمیان پہنچ گیا، تو مجھے آواز دی گئی، اس پر میں نے اپنے آگے اور اپنے پیچھے، اپنے دائیں اور اپنے بائیں نظر دوڑائی تو مجھے کوئی نظر نہ آیا۔ پھر مجھے آواز دی گئی تو میں نے دیکھا، مجھے کوئی نظر نہ آیا، پھر مجھے (تیسری بار) آواز دی گئی، اس پر میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو وہ، یعنی جبرائیل علیہ السلام فضا میں عرش (تخت کرسی) پر بیٹھا ہوا تھا، تو مجھ پر سخت لرزہ طاری ہو گیا۔ میں خدیجہؓ کے پاس آگیا اور کہا: مجھے کپڑا اوڑھا دو! انھوں نے کپڑا اوڑھا دیا اور مجھ پر پانی ڈالا۔ اللہ تعالیٰ نے آیات اتاریں: ”اے کپڑے میں لِپٹنے والے! اٹھ کر ڈرا اور اپنے رب کی کبریائی بیان کر اور اپنے کپڑے پاک صاف رکھ۔“ (سورۃ المدثر: 1-4)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (404)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
علی بن مبارک نے بھی یحییٰ بن ابی کثیر سے اسی سند کے ساتھ روایت کی اور کہا: ” تو وہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔“ امام صاحبؒ ایک اور سند سے دوسری روایت بیان کرتے ہیں اور آخر میں ہے: ”اچانک وہ آسمان و زمین کے درمیان تخت پر بیٹھا ہوا تھا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (404)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|