باب: عبادات کی کمی سے ایمان کا گھٹنا، اور کفر کا کفران نعمت پر اطلاق کا بیان۔
Chapter: Clarifying that faith decreases with shortcoming in obedience, and the word Kufr may be used with regard to matters other than dsbelief in Allah, such as ingratitude for blessings and not fulfilling one's duties
حدثنا محمد بن رمح بن المهاجر المصري ، اخبرنا الليث ، عن ابن الهاد ، عن عبد الله بن دينار ، عن عبد الله بن عمر ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال: " يا معشر النساء تصدقن، واكثرن الاستغفار، فإني رايتكن اكثر اهل النار، فقالت امراة منهن جزلة: وما لنا يا رسول الله اكثر اهل النار؟ قال: تكثرن اللعن، وتكفرن العشير، وما رايت من ناقصات عقل ودين اغلب لذي لب منكن، قالت: يا رسول الله، وما نقصان العقل والدين؟ قال: " اما نقصان العقل، فشهادة امراتين تعدل شهادة رجل، فهذا نقصان العقل، وتمكث الليالي، ما تصلي، وتفطر في رمضان، فهذا نقصان الدين ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحِ بْنِ الْمُهَاجِرِ الْمِصْرِيُّ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ، وَأَكْثِرْنَ الِاسْتِغْفَارَ، فَإِنِّي رَأَيْتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ جَزْلَةٌ: وَمَا لَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ؟ قَالَ: تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ، وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ، وَمَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَغْلَبَ لِذِي لُبٍّ مِنْكُنَّ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا نُقْصَانُ الْعَقْلِ وَالدِّينِ؟ قَالَ: " أَمَّا نُقْصَانُ الْعَقْلِ، فَشَهَادَةُ امْرَأَتَيْنِ تَعْدِلُ شَهَادَةَ رَجُلٍ، فَهَذَا نُقْصَانُ الْعَقْلِ، وَتَمْكُثُ اللَّيَالِي، مَا تُصَلِّي، وَتُفْطِرُ فِي رَمَضَانَ، فَهَذَا نُقْصَانُ الدِّينِ ".
لیث نے ابن ہادلیثی سے خبر دی کہ عبد اللہ بن دینار نےحضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: ” اے عورتوں کی جماعت! تم صدقہ کیا کرو، اور زیادہ سے زیادہ استغفار کیا کرو، کیونکہ میں نے دوزخیوں میں اکثریت تمہاری دیکھی ہے۔“ ان میں سے ایک دلیر اور سمجھ دار عورت نے کہا: اللہ کے رسول! ہمیں کیا ہے، دوزخ میں جانے والوں کی اکثریت ہماری (کیوں) ہے؟ آپ نے فرمایا: ” تم لعنت بہت بھیجتی ہو اور خاوند کا کفران (نعمت) کرتی ہو، میں نے عقل و دین میں کم ہونے کے باوجود، عقل مند شخص پر غالب آنے میں تم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔“ اس نے پوچھا؟ اے اللہ کے رسول! عقل و دین میں کمی کیا ہے؟ آپ نےفرمایا: ” عقل میں کمی یہ ہے کہ دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کے برابر ہے، یہ تو ہوئی عقل کی کمی اور وہ (حیض کے دوران میں) کئی راتیں (اور دن) گزارتی ہے کہ نماز نہیں پڑھتی اور رمضان میں بے روزہ رہتی ہے تو یہ دین میں کمی ہے۔“
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عورتوں کی جماعت! تم صدقہ کیا کرو اور زیادہ سے زیادہ استغفار کیا کرو، کیونکہ میں نے تمھاری کثیر تعداد کو دوزخ میں دیکھا ہے۔“ ان میں سے ایک عقل مند عورت نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! ہماری اکثریت دوزخ میں کیوں ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ”تم لعنت بہت بھیجتی ہو اور خاوند کی ناشکری کرتی ہو۔ میں نے عقل و دین میں کم ہونے کے باوجود دانا و عقل مند شخص کو مغلوب کر لینے والی تم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔“ اس نے پوچھا: عقل و دین میں کیا کمی ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ”عقل میں کمی یہ ہے کہ دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کے برابر ہے تو یہ عقل میں کمی ہوئی۔ اور وہ کئی راتیں (دن) نماز نہیں پڑھ سکتی (ماہواری کی وجہ سے) اور رمضان میں نہ روزہ رکھ سکتی ہے تو یہ دین و اطاعت کی کمی ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه ابوداؤد في ((سننه)) في السنة، باب: الدليل على زيادة الايمان ونقصانه مختصراً برقم (3680) وابن ماجه في ((سننه)) في الفتن، باب: فتنة النساء برقم (4003) انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (8261)»
سیدنا ابو سعید خدری اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما بھی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کے ہم معنی بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحـه)) في الحيض، باب: ترك الحائض الصوم برقم (298) - وفى العيدين، باب: الخروج الى المصلى بغير منبر - مطولا برقم (913) وفي الزكاة، باب: الزكاة على الاقارب مطولا برقم (1393) وفى الصوم، باب: الحائض تترك الصوم والصلاة، مختصراً برقم (1850) وفى الشهادات، باب: شهادة النساء برقم (2515) و (المولف) [مسلم] في صلاة العيدين برقم (2050) والنسائي في ((المجتبی)) 187/3 في العيدن، باب: استقبال الامام الناس بوجهه، في باب: حث الامام على الصدقة في الخطبة 188/3 وابن ماجه في ((سننه)) في اقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ما جاء في الخطبة في العيدين برقم ((1288) انظر ((التحفة)) برقم (13006 و 4271)»