صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کے احکام و مسائل
10. باب الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ مَنْ مَاتَ عَلَى التَّوْحِيدِ دَخَلَ الْجَنَّةَ قَطْعًا
باب: موحد قطعی جنتی ہے۔
حدیث نمبر: 149
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ ، عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَلَقِيتُ عِتْبَانَ، فَقُلْتُ: حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكَ، قَالَ: أَصَابَنِي فِي بَصَرِي بَعْضُ الشَّيْءِ، فَبَعَثْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنِّي أُحِبُّ أَنْ تَأْتِيَنِي فَتُصَلِّيَ فِي مَنْزِلِي، فَأَتَّخِذَهُ مُصَلًّى، قَالَ: فَأَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَنْ شَاءَ اللَّهُ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَدَخَلَ وَهُوَ يُصَلِّي فِي مَنْزِلِي، وَأَصْحَابُهُ يَتَحَدَّثُونَ بَيْنَهُمْ، ثُمَّ أَسْنَدُوا عُظْمَ ذَلِكَ، وَكِبْرَهُ إِلَى مَالِكِ بْنِ دُخْشُمٍ، قَالُوا: وَدُّوا أَنَّهُ دَعَا عَلَيْهِ فَهَلَكَ، وَوَدُّوا أَنَّهُ أَصَابَهُ شَرٌّ، فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ، وَقَالَ: أَلَيْسَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ قَالُوا: إِنَّهُ يَقُولُ ذَلِكَ وَمَا هُوَ فِي قَلْبِهِ، قَالَ: " لَا يَشْهَدُ أَحَدٌ، أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَيَدْخُلَ النَّارَ أَوْ تَطْعَمَهُ "، قَالَ أَنَسٌ: فَأَعْجَبَنِي هَذَا الْحَدِيثُ، فَقُلْتُ لِابْنِي: اكْتُبْهُ، فَكَتَبَهُ.
سلیمان بن مغیرہ نے کہا: ہمیں ثابت نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: مجھے محمود بن ریبع رضی اللہ عنہ نے حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی۔ (محمود رضی اللہ عنہ نے) کہا کہ میں مدینہ آیا تو عتبان رضی اللہ عنہ کو ملا اور میں نےکہا: ایک حدیث مجھے آپ کے حوالے سے پہنچی ہے۔ حضرت عتبان نے کہا: میری آنکھوں کو کوئی بیماری لاحق ہو گئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ اے اللہ کے رسول! میرا دل چاہتا ہے کہ آپ میرے پاس تشریف لائیں اور میرے گھر میں نماز ادا فرمائیں تاکہ میں اسی (جگہ) کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لوں۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں میں سے جن کو اللہ نے چاہا، تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں داخل ہوئے، آپ نماز پڑھ رہے تھے اور آپ کے ساتھی آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ انہوں نے زیادہ اور بڑی بڑی باتیں مالک بن دخشم کے ساتھ جوڑ دیں، وہ چاہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے حق میں بد دعا فرمائیں اور وہ ہلاک ہو جائے اور ان کی خواہش تھی کہ اس پر کوئی آفت آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے اور پوچھا: ” کیا وہ اس بات کی گواہی نہیں دیتا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں؟“ صحابہ کرام نے جواب دیا: وہ (زبان سے) یہ کہتا ہے لیکن اس کے دل میں یہ نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” کوئی ایسا شخص نہیں جو گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں تو پھر وہ آگ میں داخل ہو یا آگ اسے اپنی خوراک بنا لے۔“ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ حدیث مجھے بہت اچھی لگی (پسند آئی) تو میں نے اپنے بیٹے سے کہا: اسے لکھ لو، اس نے یہ حدیث لکھ لی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ نے عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت سنائی۔ محمود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں مدینہ آیا اورعتبان رضی اللہ عنہ کو ملا تو میں نے کہا: آپ کی ایک روایت مجھے پہنچی ہے (وہ مجھے براہ ِراست سنائیے) عتبان رضی اللہ عنہ نے کہا: میری آنکھوں میں کچھ تکلیف پیدا ہوئی، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ حضور میری تمنا ہے آپ میرے مکان پر تشریف لا کر کسی جگہ نماز ادا فرمائیں، تاکہ میں اس کو نماز گاہ بنا لوں (وہاں نماز پڑھا کروں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور جن ساتھیوں کو اللہ تعالیٰ نے چاہا وہ بھی ساتھ تھے۔ سو آپؐ داخل ہو کر میرے گھرمیں نماز پڑھنےلگے اور آپ کے ساتھی آپس میں باتیں کرنے لگے۔ باتوں کا (موضوع منافقوں کے اعمالِ بد اور ان کی بری حرکات تھیں) اکثر اور بڑا موضوع مالک بن دخشم کی حرکات تھیں۔ صحابہ نے چاہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے حق میں بد دعا فرمائیں، وہ مر جائے اور خواہش کی کہ اسے کوئی آفت پہنچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے اور پوچھا: ”کیا وہ اس بات کی گواہی نہیں دیتا کہ اللہ تعالیٰ کے سواکوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔“ صحابہ کرام ؓ نے جواب دیا: وہ زبان سے کہتا ہے لیکن دل میں یہ نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص بھی اس بات کی گواہی دے گا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، وہ جہنم میں داخل نہ ہوگا نہ اسے جہنم کھائے گی۔“ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں یہ حدیث مجھے بہت اچھی لگی (پسند آئی) تو میں نے اپنے بیٹے کو کہا اسے لکھ لو، اس نے لکھ لیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((صحيحه)) فى الصلاة، باب: اذا دخل بيتا يصلي حيث شاء، او حيث امر، ولا يتجسس برقم (424) وفي باب: فى المساجد فى البيوت برقم (425) وفي الجماعة والامامة، باب: الرخصة فى المطر والعلة ان يصلى فى رحله برقم (667) وفى باب: زار الامام قـومـا فـامهم برقم (686) وفى كتاب: صفة الصلاة، باب: يسلم حين يسلم الامام مختصراً برقم (838) وفي باب: من لم يرد السلام على الامام، باب: يسلم حين يسلم الامام مختصراً برقم (838) وفي باب: من لم يرد الاسلام على الامام، واكتفى بتسليم الصلاة برقم (840) وفي التطوع، باب: صلاة النوافل جماعة برقم (1186) مطولا وفي المغازي، باب: شهود الملائكة بدرا برقم (4009) مطولا وفى الاطعمة، باب: الخزيرة برقم (5401) وفي الرقاق، باب: العمل الذى يبتغي به وجه الله مختصراً برقم (6423) وفى استتابة المرتدين والمعائدين، مختصرا برقم (6938) والمولف (مسلم) فى ((صحيحه)) فى المساجد ومواضع الصلاة، باب: الرخصة فى التخلف عن الجماعة لعذر برقم (1494) وبرقم (1595 و 1496) والنسائي فى ((المجتبى من السنن)) فى المامة، باب: امامة الاعمى 80/2 وفي السهود، باب: تسليم الماموم حين يسلم الامام 64/3-65 وابن ماجه فى ((سننه)) فى المساجد والجماعات، باب: المساجد فى الدور مطولا برقم (754) انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (9750)»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 149 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 149
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
عُظْم:
عین کے پیش کے ساتھ،
بڑا حصہ،
كُبْر کاف کے پیش اور زیر کے ساتھ،
اکثر حصہ۔
(2)
دَعَا عَلَيْهِ:
کسی کے خلاف بد دعا کرنا۔
فوائد ومسائل:
آپ ﷺ نے توحید ورسالت کی شہادت دینےوالے کو کہا کہ وہ دوزخ پر حرام ہے یا اسے آگ نہیں کھائے گی،
اس قسم کی بشارتوں میں آپ کا مقصد اور مطمح نظر کسی عمل خیر کی ذاتی خاصیت اور اس کا اصل اثر بتانا ہے اور یہ خاصیت اور اثر اسی وقت ظاہر ہوتا ہے،
جب کوئی چیز اس کے مانع موجود نہ ہو جو اس کے اثر کو زائل کرنے والی ہو۔
مثلا طبیب کہتا ہے:
جو شخص ہمیشہ اطریفل استعمال کرتا رہے گا وہ ہمشیہ نزلہ سے محفوظ رہے گا،
تو کیا اس کا یہ معنی لینا درست ہوگا،
اس کے ساتھ کسی پرہیز اوراحتیاط کی ضرورت نہیں ہے،
وہ شخص اگرنزلہ پیدا کرنے والی اشیاء مثلا:
تیل،
ترش،
وغیرہ چیزیں بھی برابر کھاتا رہے تو کیا وہ نزلہ سے بچ سکے گا؟ توحید ورسالت کی شہادت کا اصل مقصد،
دعوت دین وایمان کو قبول کرنا اور آپ کےلائے ہوئے دین اسلام کو اپنانا ہے جیسا کہ ہم پہلے اس کی وضاحت کر چکے ہیں،
اس لیے توحید ورسالت کی شہادت کا اقتضاء یہی ہے کہ ایسا آدمی عذاب ودوزخ سے محفوظ رہے اور جنت میں جائے،
لیکن اگر اس نے اپنی بدبختی سے اکچھ ایسے اعمال بھی کیے ہیں جن کا ذاتی تقاضا یا خاصیت واثر قرآن وحدیث کی رو سے عذاب پانا اور دوزخ میں جانا بتلایا گیا ہے،
تو ظاہر ہے ان اعمال کا بھی کچھ نہ کچھ اثر ہوگا اور ان کے مطابق (اسے اگر اللہ تعالیٰ نے معاف نہ فرمایا)
تو کچھ عرصہ دوزخ میں گزارنا ہوگا۔
ایک شبہ اور اس کا ازالہ:
صحیح مسلم کے بعض شارحین نے لکھا ہے:
کہ بعض صحابہ نے مالک بن دخشم کے بارے میں یہ گمان کیا،
کہ وہ دل سے کلمہ نہیں پڑھتا،
تو رسول اللہ ﷺ نے اس کا رد کیا،
اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ دلوں کے حال پر مطلع ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے:
کہ پیچھے ایسی روایات گزر چکی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ،
ہمارا کام ظاہر کے مطابق فیصلہ کرنا ہے،
ہم کسی کے باطن سے آگاہ نہیں،
اس لیے اس پر حکم لگانا درست نہیں،
اس کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے،
اسی اصول کے تحت آپ (ﷺ) نے ایک اصولی بات فرمائی ہے کہ "لَا يَشْهَدُ أَحَدٌ" جو بھی شہادت دیتا ہے،
اور شہادت دل اور زبان کی یکسانیت کا نام ہے۔
یعنی شہادت دل کی گواہی کا نام ہے،
محض زبان سے کہہ دینا شہادت نہیں ہے،
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے سورۃ منافقون میں،
منافقوں کے نشہد کہنے کی تردید فرمائی ہے اور آپ ﷺ نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا:
(ھل شققت قلبه)
”کیا تو نے اس کا دل پھاڑ کر دیکھ لیا تھا“ کہ اس نے اسلام کا اقرار دل سے نہیں کیا اور آپ نے ابن دخشم کے بارے میں نفاق کا شبہ کرنے والے کو فرمایا تھا:
(أَلاَ تَرَاهُ قَدْ قَالَ:
لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ،
يُرِيدُ بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ؟)
”کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کا قائل ہے اور وہ اس سے اللہ ہی کی رضا چاہتا ہے۔
“ آپ نے تراہ کا لفظ استعمال فرمایا ہے تو کیا وہ اس کے دل کے حالا ت سے آگاہ تھا یا اس کے دل میں جھانک رہا تھا،
اگر آپ دلوں پر مطلع تھے تو یہ کیوں فرمایا گیا:
﴿لَا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ﴾ ”آپ آگاہ نہیں ہیں انہیں ہم ہی جانتے ہیں۔
“ (توبہ: 101)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 149