كِتَاب الْإِيمَانِ ایمان کے احکام و مسائل The Book of Faith 2ق. باب الإِيمَانُ مَا هُوَ وَبَيَانُ خِصَالِهِ: باب: ایمان کی حقیقت اور اس کے خصال کا بیان۔ Chapter: What is Al-Iman (Faith)? Explaining Its Characteristics وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وزهير بن حرب جميعا، عن ابن علية ، قال زهير: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن ابي حيان ، عن ابي زرعة بن عمرو بن جرير ، عن ابي هريرة ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما بارزا للناس، فاتاه رجل، فقال: يا رسول الله، ما الإيمان؟ قال:" ان تؤمن بالله، وملائكته، وكتابه، ولقائه، ورسله، وتؤمن بالبعث الآخر"، قال: يا رسول الله، ما الإسلام؟ قال:" الإسلام، ان تعبد الله ولا تشرك به شيئا، وتقيم الصلاة المكتوبة، وتؤدي الزكاة المفروضة، وتصوم رمضان"، قال: يا رسول الله، ما الإحسان؟ قال:" ان تعبد الله، كانك تراه، فإنك إن لا تراه، فإنه يراك"، قال: يا رسول الله، متى الساعة؟ قال: ما المسئول عنها باعلم من السائل، ولكن ساحدثك عن اشراطها،" إذا ولدت الامة ربها، فذاك من اشراطها، وإذا كانت العراة الحفاة رءوس الناس، فذاك من اشراطها، وإذا تطاول رعاء البهم في البنيان، فذاك من اشراطها في خمس، لا يعلمهن إلا الله"، ثم تلا صلى الله عليه وسلم إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الارحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس باي ارض تموت إن الله عليم خبير سورة لقمان آية 34، قال: ثم ادبر الرجل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ردوا علي الرجل، فاخذوا ليردوه فلم يروا شيئا"، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هذا جبريل، جاء ليعلم الناس دينهم".وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ جميعا، عَنِ ابْنِ عُلَيَّةَ ، قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بَارِزًا لِلنَّاسِ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الإِيمَانُ؟ قَالَ:" أَنْ تؤمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكِتَابِهِ، وَلِقَائِهِ، وَرُسُلِهِ، وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ الآخِرِ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الإِسْلَامُ؟ قَالَ:" الإِسْلَامُ، أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ وَلَا تُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ، وَتُؤَدِّيَ الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الإِحْسَانُ؟ قَالَ:" أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ، كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنَّكَ إِنْ لَا تَرَاهُ، فَإِنَّهُ يَرَاكَ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ: مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، وَلَكِنْ سَأُحَدِّثُكَ عَنْ أَشْرَاطِهَا،" إِذَا وَلَدَتِ الأَمَةُ رَبَّهَا، فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، وَإِذَا كَانَتِ الْعُرَاةُ الْحُفَاةُ رُءُوسَ النَّاسِ، فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، وَإِذَا تَطَاوَلَ رِعَاءُ الْبَهْمِ فِي الْبُنْيَانِ، فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا فِي خَمْسٍ، لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ"، ثُمَّ تَلَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ سورة لقمان آية 34، قَالَ: ثُمَّ أَدْبَرَ الرَّجُلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" رُدُّوا عَلَيَّ الرَّجُلَ، فَأَخَذُوا لِيَرُدُّوهُ فَلَمْ يَرَوْا شَيْئًا"، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَذَا جِبْرِيل، جَاءَ لِيُعَلِّمَ النَّاسَ دِينَهُمْ". اسماعیل بن ابراہیم (ابن علیہ) نے ابو حیان سے، انہوں نے ابو زرعہ بن عمرو بن جریر سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن لوگوں کے سامنے (تشریف فرما) تھے، ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھا: اے اللہ کے رسول! ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتاب، (قیامت کے روز) اس سے ملاقات (اس کے سامنے حاضری) اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور آخری (بار زندہ ہو کر) اٹھنے پر (بھی) ایمان لے آؤ۔“ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ، لکھی (فرض کی) گئی نمازوں کی پابندی کرو، فرض کی گئی زکاۃ ادا کرو۔ اور رمضان کے روزے رکھو۔“ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! احسان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ یقیناً تمہیں دیکھ رہا ہے۔“ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! قیامت کب (قائم) ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس سے سوال کیا گیا ہے، وہ ا س کے بارے میں پوچھنے والے سےزیادہ آگاہ نہیں۔ لیکن میں تمہیں قیامت کی نشانیاں بتائے دیتا ہوں: جب لونڈی اپنا مالک جنے گی تو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے، اور جب ننگے بدن اور ننگے پاؤں والے لوگوں کے سردار بن جائیں گے تو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے، اور جب بھیڑ بکریاں چرانے والے، اونچی اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے تو یہ اس کی علامات میں سے ہے۔ (قیامت کے وقت کا علم) ان پانچ چیزوں میں سے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: ”بے شک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ارحام (ماؤں کے پیٹوں) میں کیا ہے، کوئی ذی روح نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا، نہ کسی متنفس کویہ معلوم ہے کہ وہ زمین کے کس حصے میں فوت ہو گا، بلاشبہ اللہ تعالیٰ علم والا خبردار ہے۔“ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: پھر وہ آدمی واپس چلا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اس آ دمی کو میرے پاس واپس لاؤ۔“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اسے واپس لانے کے لیے بھاک دوڑ کرنےلگے تو انہیں کچھ نظر نہ آیا، رسول اللہ نے فرمایا: ”یہ جبریل رضی اللہ عنہ تھے جو لوگوں کو ان کا دین سکھانے آئے تھے۔“ ابو ہریرہ رضی الله عنه سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن لوگوں کے سامنے تشریف فرما تھے تو ایک آدمی نے آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم اللہ کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کی ملاقات اور اس کے رسولوں کو مان لو اور دوبارہ اٹھنے کا یقین کر لو۔“ اس نے پوچھا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”اسلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ، فرض نماز کی پابندی کرو، فرض زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔“ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! احسان کی حقیقت کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ کی بندگی اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، کیونکہ بے شک تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو وہ تو تمھیں دیکھ رہا ہے۔“ اس نے عرض کی، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! قیامت کب قائم ہوگی؟ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس سے سوال کیا گیا ہے وہ اس کے بارے میں پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، لیکن میں تمھیں اس کی نشانیوں سے آگاہ کیے دیتا ہوں، جب لونڈی اپنے مالک کو جنے گی تو یہ اس کی علامات میں سے ہو گا۔ اور جب ننگے جسم، ننگے پاؤں (والے) لوگوں کے سردار (حاکم) ہوں گے تو یہ بھی اس کی نشانی ہوگی اور جب بھیڑ بکریوں کے چرانے والے بڑی بڑی عمارات بنانے میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کریں گے (اور اس میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے) تو یہ بھی اس کی علامات میں سے ہے۔ قیامت کے وقوع کا علم ان پانچ چیزوں میں سے ہے جنھیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔“ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ”بے شک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے قیامت کا علم، وہی بارش برساتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو کچھ ہے اسے جانتا ہے، کوئی نفس نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا، نہ کسی نفس کو یہ معلوم ہے کہ وہ کس زمین میں (کس جگہ) فوت ہو گا۔ بے شک اللہ ہی خوب جاننے والا خبردار ہے۔“ (لقمان:34) راوی نے بتایا پھر وہ آدمی پشت پھیر کر چلا گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس آدمی کو واپس میرے پاس لاؤ۔“ صحابہ کرام ؓ اسے واپس لانے کے لیے نکلے تو انھیں کچھ نظر نہ آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ جبرائیل علیہ السلام تھے جو لوگوں کو ان کا دین سکھانے کے لیے آئے تھے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((صحيحه)) فى الايمان، باب: سوال جبريل النبى صلى الله عليه وسلم عن الايمان والاسلام والاحسان وعلم الساعة برقم (50) وفى التفسير، باب: ان الله عنده علم الساعة برقم (4777) وابن ماجه فى ((سننه)) فى المقدمة، باب: فى الايمان بتمامه برقم (64) وفي الفتن، باب: اشراط الساعة مختصرا برقم (4044) انظر ((التحفة)) برقم (14929) وهو فى ((جامع الاصول)) برقم (3)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
(ابن علیہ کے بجائے) محمد بن بشر نےکہا: ہمیں ابو حیان نے سابقہ سند سے وہی حدیث بیان کی، البتہ ان کی روایت میں: إذا ولدت الأمۃ بعلہا ” جب لونڈی اپنا مالک جنے گی“ (رب کی جگہ بعل، یعنی مالک) کے الفاظ ہیں۔ (أمۃ سے مملوکہ) لونڈیاں مراد ہیں۔ امام صاحب نے اوپر والی روایت دوسرے استاد سے بیان کی ہے۔ صرف ان الفاظ کا فرق ہے «إِذَا وَلَدَتِ الْأَمَةُ بَعْلَهَا» ”لونڈی اپنے مالک کو جنے گی“ یعنی ربّ کی جگہ بَعل کا لفظ ہے۔ یعنی السراری: لونڈیاں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه في الحديث السابق (97)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|