كِتَاب الْإِيمَانِ ایمان کے احکام و مسائل The Book of Faith 9. باب الدَّلِيلِ عَلَى صِحَّةِ إِسْلَامِ مَنْ حَضَرَهُ الْمَوْتُ مَا لَمْ يَشْرَعْ فِي النَّزْعِ وَهُوَ الْغَرْغَرَةُ وَنَسْخِ جَوَازِ الِاسْتِغْفَارِ لِلْمُشْرِكِينَ وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ مَنْ مَاتَ عَلَى الشِّرْكِ فَهُوَ فِي أَصْحَابِ الْجَحِيمِ وَلَا يُنْقِذُهُ مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ مِنْ الْوَسَائِلِ باب: بیان اس بات کا کہ جو شخص مرتے وقت مسلمان ہو تو اس کا اسلام صحیح ہے جب تک حالت نزع نہ ہو یعنی جان کنی نہ شروع ہو اور مشرکین کے لیے دعا کرنا منع ہے اور جو شرک پر مرے گا وہ جہنمی ہے کوئی وسیلہ اس کے کام نہ آئے گا۔ Chapter: Evidence that the islam of one who becomes muslim on his deathbed is valid, so long as the death thoes have not begun; Abrogation of permission to supplicate for forgiveness for the idolators; Evidence that one who dies an idolator is one of the people of hell and no intervention can save him from that وحدثني حرملة بن يحيي التجيبي ، اخبرنا عبد الله بن وهب ، قال: اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، قال: اخبرني سعيد بن المسيب ، عن ابيه ، قال: لما حضرت ابا طالب الوفاة، جاءه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فوجد عنده ابا جهل وعبد الله بن ابي امية بن المغيرة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا عم، " قل: لا إله إلا الله، كلمة اشهد لك بها عند الله "، فقال ابو جهل وعبد الله بن ابي امية: يا ابا طالب، اترغب عن ملة عبد المطلب، فلم يزل رسول الله صلى الله عليه وسلم، يعرضها عليه، ويعيد له تلك المقالة، حتى قال ابو طالب آخر ما كلمهم هو على ملة عبد المطلب وابى، ان يقول: لا إله إلا الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اما والله لاستغفرن لك ما لم انه عنك، فانزل الله عز وجل ما كان للنبي والذين آمنوا ان يستغفروا للمشركين ولو كانوا اولي قربى من بعد ما تبين لهم انهم اصحاب الجحيم سورة التوبة آية 113 وانزل الله تعالى في ابي طالب، فقال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: إنك لا تهدي من احببت ولكن الله يهدي من يشاء وهو اعلم بالمهتدين سورة القصص آية 56.وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي التُّجِيبِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاةُ، جَاءَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَجَدَ عِنْدَهُ أَبَا جَهْلٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أُمَيَّةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا عَمِّ، " قُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، كَلِمَةً أَشْهَدُ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ "، فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ: يَا أَبَا طَالِبٍ، أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَعْرِضُهَا عَلَيْهِ، وَيُعِيدُ لَهُ تِلْكَ الْمَقَالَةَ، حَتَّى قَالَ أَبُو طَالِبٍ آخِرَ مَا كَلَّمَهُمْ هُوَ عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَأَبَى، أَنْ يَقُولَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَا وَاللَّهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ سورة التوبة آية 113 وَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِي أَبِي طَالِبٍ، فَقَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ سورة القصص آية 56. یونس نے ابن شہاب سے، انہوں نے سعید بن مسیب سے اور انہوں نے اپنے والد سے ورایت کی کہ جب ابو طالب کی موت کا وقت آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لا ئے۔ آپ نے ان کے پاس ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ کو موجود پایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” چچا! ایک کلمہ لا الہ ا للہ اللہ کہہ دیں، میں اللہ کے ہاں آب کے حق میں اس کا گواہ بن جاؤں گا۔“ ابو جہل اور عبد اللہ بن امیہ نے کہا: ابو طالب! آپ عبدالمطلب کے دین کو چھوڑ دیں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل ان کویہی پیش کش کرتے رہے اور یہی بات دہراتے رہے یہاں تک کہ ابو طالب نے ان لوگوں سے آخری بات کرتے ہوئے کہا: ”وہ عبدالمطلب کی ملت پر (قائم) ہیں“ اور لا ا لہ الا اللہ کہنے سے انکار کر دیا۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اللہ کی قسم! میں آپ کے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا جب تک کہ مجھے آپ (کے حوالے) سے روک نہ دیا جائے۔“ اس پر ا للہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”نبی اور ایمان لانے والوں کے لیے جائز نہیں کہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا کریں، خواہ وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں جبکہ ان کے سامنے واضح ہو چکا کہ وہ (مشرکین) جہنمی ہیں۔“ اللہ تعالیٰ نے ابو طالب کے بارے میں یہ آیت بھی نازل فرمائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا: ” (اے نبی!) بے شک آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے لیکن اللہ جس کو چاہے ہدایت دے دیتا ہے او روہ سیدھی راہ پانے والوں کے بارے میں زیادہ آگاہ ہے۔“ سعید بن المسیبؒ نے اپنے باپ سے روایت سنائی کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت آ پہنچا تو اس کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ ابو طالب کے پاس ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیّہ بن مغیرہ بھی موجود تھے، سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے چچا! ایک بار لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کہو، میں تمھارے حق میں اللہ کے ہاں اس کے سبب تمھارے (ایمان کی) گواہی دوں گا۔ ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیّہ نے کہا: اے ابو طالب! کیا تم اپنے باپ عبدالمطلب کی ملّت سے اعراض کرو گے (چھوڑ دو گے)؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل اس کو کلمہ پیش کرتے رہے اور اپنی بات دہراتے رہے۔ یہاں تک کہ ابو طالب نے جو آخری بات ان سے کی وہ یہ تھی ”وہ عبدالمطلب کی ملّت پر قائم ہے۔“ اور لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کہنے سے انکار کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اللہ کی قسم! میں تیرے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا جب تک مجھے اس سے روک نہ دیا جائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”نبی اور مسلمانوں کے لیے مشرکین کی مغفرت کی دعا کرنا جائز نہیں ہے، خواہ ان کے رشتے دار ہی کیوں نہ ہوں، جب کہ ان کے سامنے ان کا جہنمی ہونا واضح ہو چکا ہے۔“ (توبہ:113) اور اللہ تعالیٰ نے ابو طالب کے بارے میں یہ آیت بھی اتاری اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب فرمایا: ”ہر وہ شخص جس کو آپ چاہیں، آپ اسے راہِ راست پر نہیں لا سکتے، لیکن اللہ تعالیٰ جس کو چاہے راہِ راست پر لے آتا ہے اور وہ راہ یاب ہونے والوں کو خوب جانتا ہے۔“ (قصص: 28)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((صحيحه)) فى الجنائز، باب: اذا قال المشرك عند الموت: لا اله الا الله برقم (1360) وفى فضائل الصحابة، باب: قصة ابو طالب برقم (4884) وفى التفسير، باب: ﴿ مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ ﴾ برقم (4675) وباب: ﴿ إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ﴾ برقم (4772) وفي الايمان والنذور باب: اذا قال والله لا اتكلم اليوم فصلى اوفرا، او سبح، اكبر، او حمد، او هلل فهو على نيته برقم (6681) - والنسائي فى ((المجتبى من السنن)) 90/4 فى الجنائز، باب النهي عن الاستغفار للمشركين۔»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
معمر اور صالح، دونوں نے زہری سے ان کی سابقہ سند کےساتھ یہی روایت بیان کی، فرق یہ ہے کہ صالح کی روایت: فأنزل اللہ فیہ ”اس کےبارے میں اللہ تعالیٰ نے آیت اتاری“ پر ختم ہو گئی، انہوں نے دو آیتیں بیان نہیں کیں۔ انہوں نے اپنی حدیث میں یہ بھی کہا کہ وہ دونوں (ابوجہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ) یہی بات دہراتے رہے۔ معمر کی روایت میں المقالۃ (بات) کے بجائے الکلمۃ (کلمہ) ہے، وہ دونوں ان کے ساتھ لگے رہے۔ معمرؒ اور صالحؒ زہری سے اوپر والی سند کے ساتھ مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں، فرق یہ ہے کہ صالح ؒ کی روایت: "فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيهِ" ” اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آیت اتاری پر ختم ہو گئی“ اور اس نے دونوں آیتوں کو بیان نہیں کیا اور اپنی حدیث میں یہ بھی کہا کہ وہ دونوں (ابوجہل اور عبداللہ بن امیّہ) اپنی بات دہراتے رہے اور معمرؒ کی روایت میں اس کی بجائے یہ ہے، ”وہ دونوں برابر اس کے پاس رہے یا بات دہراتے رہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (131)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
مروان بن یزید سے، جو کیسان کے بیٹے ہیں، حدیث سنائی، انہوں نے ابو حازم سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنےچچا کی موت کے وقت ان سے کہا: ”لا الہ الا اللہ کہہ دیں، میں قیامت کے دن آپ کے لیے اس کے بارے میں گواہی دوں گا۔“ لیکن انہوں نے ا نکار کر دیا۔ کہا: اس پر ا للہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری، ﴿إِنَّکَ لَا تَہْدِی مَنْ أَحْبَبْتَ﴾ ”بے شک آپ جسے چاہیں راہ راست پر نہیں لا سکتے ...“ آیت کے آخر تک۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کی موت کے وقت چچا سے فرمایا: ”لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کہہ لیں، میں قیامت کے دن اس کی بنیاد پر تیرے حق میں (آپ کے اسلام کی) گواہی دوں گا۔“ لیکن چچا نے انکار کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ ”آپ جسے چاہیں ہدایت پر نہیں لا سکتے۔“ (قصص:28)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه الترمذي فى ((جامعه)) فى تفسير القرآن، باب: ومن سورة القصص وقال: هذا حديث حسن غريب برقم (3188) انظر ((التحفة)) برقم (13442)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
یحییٰ بن سعید نے کہا: ہمیں یزید بن کیسان نے حدیث سنائی.... (اس کے بعد مذکورہ سند کے ساتھ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا سے فرمایا: ”لا الہ الا اللہ کہہ دیجیے، میں قیامت کے دن آپ کے لیے اس کےبارے میں گواہ بن جاؤں گا۔“ انہوں نے (جواب میں) کہا: اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ قریش مجھے عار دلائیں گے (کہیں گے کہ اسے (موت کی) گھبراہٹ نےاس بات پر آمادہ کیا ہے) تو میں یہ کلمہ پڑھ کر تمہاری آنکھیں ٹھنڈی کر دیتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”آپ جسے چاہتے ہوں اسے براہ راست پر نہیں لاسکتے لیکن اللہ تعالیٰ جسے چاہے راہ راست پر لے آتا ہے۔“ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا (ابو طالب) سے فرمایا: "لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ" کہہ دو میں قیامت کے دن اس کی بنا پر تیرے حق میں گواہی دوں گا۔ اس نے جواب دیا: اگر مجھے قریش کے اس عار دلانے کا ڈر نہ ہوتا، کہ وہ کہیں گے کہ اسے اس بات پر (آخرت کی) گھبراہٹ نے آمادہ کیا ہے، تو میں یہ کلمہ پڑھ کر تیری آنکھوں کو ٹھنڈا کرتا۔ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے اُتارا: ”آپ جسے چاہیں راہِ راست پر نہیں لا سکتے، لیکن اللہ تعالیٰ جسے چاہے راہِ راست پر لے آتا ہے۔“ (قصص: 28)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقديم تخريجه فى الحديث السابقه برقم (133)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|