حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں طرف ایک جماعت (کی صورت) میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ہمارے ساتھ حضرت ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان سے اٹھے (اور کسی طرف چلے گئے)، پھر آپ نے ہماری طرف (واپسی میں) بہت تاخیر کر دی تو ہم ڈر گئے کہ کہیں ہمارے بغیر آپ کو کوئی گزند نہ پہنچائی جائے۔ اس پر ہم بہت گھبرائے اور (آپ کی تلاش میں نکل) کھڑے ہوئے۔ سب سے پہلے میں ہی گھبرایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈ نے نکلا یہاں تک کہ میں انصار کے خاندان بنو نجاز کے چار دیواری (فصیل) سے گھرے ہوئے ایک باغ تک پہنچا اور میں نے اس کے ارد گرد چکر لگایا کہ کہیں پر دروازہ مل جائے لیکن مجھے نہ ملا۔ اچانک پانی کی ایک گزر گاہ دکھائی دی جو باہر کے کنوئیں سے باغ کے اندر جاتی تھی (ربیع آب پاشی کی چھوٹی سی نہر کو کہتے ہیں) میں لومڑی کی طرح سمٹ کر داخل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا۔ آپ نے پوچھا: ” ابو ہریرہ ہو؟“ میں نے عرض کی: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”تمہیں کیا معاملہ درپیش ہے؟“ میں نے عرض کی: آپ ہمارے درمیان تشریف فرماتھے، پھر وہاں سے اٹھ گئے، پھر آپ نے ہماری طرف (واپس) آنے میں دیر کر دی تو ہمیں خطرہ لاحق ہوا کہ آپ ہم سے کاٹ نہ دیے جائیں۔ اس پر ہم گھبرا گئے، سب سے پہلے میں گھبرا کر نکلا تو اس باغ تک پہنچا اور اس طرح سمٹ کر (اندر گھس) آیا ہوں جس طرح لومڑی سمٹ کر گھستی ہے اور یہ دوسرے لوگ میرے پیچھے (آرہے) ہیں۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ!“ او رمجھے اپنے نعلین (جوتے) عطا کیے اور ارشاد فرمایا: ”میرے یہ جوتے لے جاؤ اور اس چار دیواری کی دوسری طرف تمہیں جو بھی ایسا آدمی ملے جو دل کے پورے یقین کے ساتھ لا الہ الااللہ کی شہادت دیتا ہو، اسے جنت کی خوش خبری سنا دو۔“ سب سے پہلے میری ملاقات عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ہوئی، انہوں نے نے کہا: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ! (تمہاری ہاتھ میں) یہ جوتے کیسے ہیں؟ میں نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین (مبارک) ہیں۔ آپ نے مجھے یہ نعلین (جوتے) دے کر بھیجا ہے کہ جس کسی کو ملوں جو دل کے یقین کے ساتھ لا الہ الااللہ کی شہادت دیتا ہو، اسے جنت کی بشارت دے دوں۔ عمر رضی اللہ عنہ نےمیرے سینے پر اپنے ہاتھ سے ایک ضرب لگائی جس سے میں اپنی سرینوں کے بل گر پڑا اور انہوں نے کہا: اے ابو ہریرہ! پیچھے لوٹو۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس عالم میں واپس آیا کہ مجھے رونا آرہا تھا اور عمر رضی اللہ عنہ میرے پیچھے لگ کر چلتے آئے تو اچانک میرے عقب سے نمودار ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھ سے) کہا: ” اے ابوہریرہ!تمہیں کیا ہوا؟ میں نے عرض کی: میں نے عرض: میں عمر سے ملا اور آپ نے مجھے جو پیغام دے کر بھیجا تھا، میں نے انہیں بتایا تو انہوں نے میرے سینے پر ایک ضرب لگائی ہے جس سے میں اپنی سرینوں کے بل گر پڑا، اور مجھ سے کہا کہ پیچھے لوٹو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” عمر! تم نے جو کیا اس کا سبب کیا ہے؟“ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں! کیا آپ نے ابوہریرہ کو اس لیے نعلین دے کر بھیجا تھا کہ دل کے یقین کے ساتھ لا الہ الااللہکی شہادت دینے والے جس کسی کو ملے، اسے جنت کی بشارت دے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: تو ایسا نہ کیجیے، مجھے ڈر ہے کہ لوگ بس اسی (شہادت) پر بھروسا کر بیٹھیں گے، انہیں چھوڑ دیں کہ وہ عمل کرتے رہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا تو ان کو چھوڑ دو۔“
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گردا گرد بیٹھے تھے، ساتھ ابو بکراور عمر رضی اللہ عنہما بھی ایک جماعت کے ساتھ موجود تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان سے اٹھے (اور کسی طرف چلے گئے) پھر آپ کی واپسی میں بہت تاخیر ہو گئی تو ہمیں ڈر پیدا ہوا کہ کہیں ہم سے علیحدہ آپؐ کو کوئی تکلیف نہ پہنچائی جائے (ہماری عدم موجودگی میں دشمن وغیرہ کی طرف سے آپ کو کوئی گزند نہ پہنچے) اس پر ہم بہت گھبرائے اور ہم لوگ (آپ کی تلاش میں) نکل کھڑے ہوئے اور سب سے پہلےمیں ہی گھبرا کر آپ کی تلاش میں نکلا یہاں تک کہ انصار کے خاندان بنو النجار کے ایک باغ میں پہنچ گیا، جو چہار دیواری سے گھرا ہوا تھا، اور میں نے اس کے چاروں طرف چکر لگایا کہ اندر جانے کے لیے مجھے راستہ مل جائے، لیکن نہیں ملا۔ اچانک ایک نالا دکھائی دیا جو باہر کے کنویں سے باغ کے اندر جاتا تھا، ربیع جدول (نالے) کو کہتے ہیں۔ میں لومڑی کی طرح سمٹ اور سکڑ کر اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا۔ آپؐ نے پوچھا: ”ابو ہریرہ!“ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! میں ہی ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: ”تم کیسے آئے؟“ (کیا بات ہے؟) میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ہمارے درمیان تشریف رکھتے تھے، پھر وہاں سے اٹھ کر چلے آئے، پھر دیر تک آپؐ کی واپسی نہیں ہوئی تو ہمیں خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں دشمن آپؐ کو تنہا دیکھ کر ایذا نہ پہنچائے، تو اس پر ہم گھبرا گئے۔ سب سے پہلے میں گھبرایا، تو میں اس باغ تک پہنچا اور لومڑی کی طرح سکڑ کے (اندر گھس آیا ہوں) اور دوسرے لوگ میرے پیچھے آرہے ہیں۔ تو آپؐ نے فرمایا: ”اے ابو ہریرہ!“ اور مجھے اپنے نعلین (جوتے) مبارک عطا فرمائے اور ارشاد فرمایا: ”میرے یہ جوتے لے جاؤ اور اس باغ سے باہر جو آدمی بھی ایسا ملے، جو دل کے پورے یقین کے ساتھ لا الٰہ الّا اللہ کی شہادت دیتا ہو، اس کو جنّت کی خوش خبری سنادو!“ تو سب سے پہلے میری ملاقات عمر بن الخطاب ؓ سے ہوئی، انھوں نے مجھ سے پوچھا: ابو ہریرہ! تمھارے ہاتھ میں یہ دو جوتیاں کیسی ہیں؟ میں نے کہا: یہ نعلین مبارک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں، آپؐ نے یہ دونوں جوتیاں مجھے دے کر بھیجا ہے کہ جو کوئی بھی دل کے اطمینان کے ساتھ لا الٰہ الّا اللہ کی شہادت دیتا ہو، مجھے ملے، میں اس کو جنّت کی بشارت دے دوں۔ ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں: پس عمر نے میرے سینے پر ایک ہاتھ مارا جس سے میں اپنی سرینوں کے بَل پیچھے کو گر پڑا، اور مجھ سے انھوں نے کہا: اے ابو ہریرہ! پیچھے کو لوٹو۔ میں روتی صورت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آیا اور عمر رضی اللہ عنہ بھی میرے پیچھے پیچھے آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اے ابو ہریرہ! تمھیں کیا ہوا؟“ میں نے عرض کیا: عمرؓ مجھے ملے تھے، آپؐ نے مجھے جو پیغام دے کر بھیجا تھا، میں نے انھیں وہ بتلایا، تو انھوں نے میرے سینے پر ایک تھپڑ مارا، جس سے میں اپنی سرین کے بَل گر پڑا اور مجھ سے کہا کہ پیچھے لوٹو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر کو مخاطب کر کے فرمایا: ”عمر! تم نے ایسا کیوں کیا؟“ انھوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپؐ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، کیا آپؐ نے ابوہریرہ کو اپنے نعلین مبارک دے کر اس لیے بھیجا تھا کہ جو کوئی بھی دل کے یقین کے ساتھ لا الٰہ الّا اللہ کی شہادت دینے والا ان کو ملے، وہ اس کو جنّت کی بشارت دے دیں؟ آپؐ نے فرمایا: ”ہاں!“ (میں نے یہی کہہ کر بھیجا تھا) عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: تو ایسا نہ کیجیے، مجھے خطرہ ہے کہ کہیں لوگ بس اس شہادت پر بھروسا کر کے (سعی وعمل سے بے پروا ہو کر) نہ بیٹھ جائیں، لہذا انھیں عمل کرنے دیجیے۔“ تو رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا ان کو عمل کرنے دو۔“