كِتَاب الْحَجِّ حج کے احکام و مسائل The Book of Pilgrimage 23. باب جَوَازِ التَّمَتُّعِ: باب: حج تمتع کا جواز۔ Chapter: The Permissibilty of Tamattu' محمد بن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے قتادہ سے حدیث بیان کی، کہا: عبداللہ بن شقیق نے بیان کیا: عثمان رضی اللہ عنہ حج تمتع سے منع فرمایا کرتے تھے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کا حکم دیتے تھے۔ (ایک مرتبہ) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس بارے میں کوئی بات کہی۔اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج تمتع کیا تھا۔ (حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے) کہا: جی بالکل (کیا تھا) لیکن اس وقت ہم خوفزدہ تھے۔ عبداللہ بن شقیق رحمۃاللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حج تمتع سے روکتے تھے، اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کا حکم دیتے تھے، تو حضرت عثمان رضی اللہ عتالیٰ عنہ نے اس سلسلہ میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے گفتگو کی، پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، تمہیں خوب معلوم ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج تمتع کیا تھا، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، ہاں، لیکن ہم اس وقت خوف زدہ تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
خالد، یعنی ابن حارث نے ہمیں حدیث بیان کی، ہمیں شعبہ نے اسی سند کے ساتھ اسی (مذکورہ بالا حدیث) کے مانند حدیث بیان کی۔ امام صاحب مذکورہ بالا حدیث اپنے دوسرے استاد سے شعبہ ہی کی مذکورہ سند سے بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عمرو بن مرہ نے سعید بن مسیب سے روایت کی، کہا: (ایک مرتبہ) مقام عسفان پر حضرت علی رضی اللہ عنہ اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہ اکھٹے ہوئے۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حج تمتع سے یا (حج کے مہینوں میں) عمرہ کرنے سے منع فرماتے تھے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: آپ اس معاملے میں کیا کرنا چاہتے ہیں جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور آپ رضی اللہ عنہ اس سے منع فرماتے ہیں؟حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: آپ اپنی ر ائے کی بجائے ہمیں ہماری رائے پر چھوڑ دیں۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: (آپ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کےخلاف حکم دے رہے ہیں) میں آپ کو نہیں چھوڑ سکتا۔جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ (اصرار) دیکھا توحج وعمرہ دونوں کا تلبیہ پکارنا شروع کردیا (تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق تمتع بھی رائج رہے۔) حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہما عُسفان نامی مقام پر اکٹھے ہوئے، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حج تمتع سے یا (حج کے ایام میں) عمرہ کرنے سے منع کرتے تھے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، کس مقصد سے آپ اس کام سے روکتے ہیں، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے؟ تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، آپ ہمیں اس بحث سے معذور ہی سمجھیں، تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، میں اس مسئلہ میں تمہیں (آزاد) کیسے چھوڑ سکتا ہوں، تو جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حالات دیکھے تو دونوں (حج و عمرہ) کا تلبیہ کہنا شروع کر دیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
اعمش نے ابراہیم تیمی سے، انھوں نے اپنے والد (یزید بن شریک) سے، انھوں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے فرمایا: حج میں تمتع (حج کا احرام باندھنا پھرعمرہ کرکے احرام کھول دینا) صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے لئے خاص تھا۔ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں حج تمتع، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے ساتھ خاص تھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عیاش عامری نے ابراہیم تیمی سے، انھوں نے اپنے والد (یزید بن شریک) سے، انھوں نے ابو زر رضی اللہ عنہ سےروایت کی، انھوں نے کہا: یہ رخصت صرف ہمارے ہی لئے تھی، یعنی حج میں تمتع کی۔ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، کہ حج تمتع کی رخصت صرف ہمارے لیے تھی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
زبید نے ابراہیم تیمی سے، انھوں نے اپنے والد سے روایت کی، کہا: ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دو متعے ہمارے علاوہ کسی کے لئے صحیح نہیں (ہوئے) یعنی عورتوں سے (نکاح) متعہ کرنا اور حج میں تمتع (حج کا احرام باندھ کرآنا، پھر اس سے عمرہ کرکے حج سے پہلےاحرام کھول دینا، درمیان کے دنوں میں بیویوں اور خوشبو وغیرہ سے متمتع ہونا اورآخر میں روانگی کے وقت حج کا احرام باندھنا۔) حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، دو متعے ہمارے لیے ہی جائز تھے، یعنی، حج تمتع اور عورتوں سے متعہ۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ہمیں قتیبہ نے حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں جریر نے بیان سے، انھوں نے عبدالرحمان بن ابی شعشاء سے روایت کی، کہا: میں ابراہیم نخعی اورابراہیم تیمی کے پاس آیا اور ان سے کہا: میں چاہتا ہوں کہ اس سال حج اور عمرے د ونوں کواکھٹا ادا کروں۔ابراہیم نخعی نے (میری بات سن کر) کہا: تمھارے والد (ابو شعثاء) تو کبھی ایسا ارادہ بھی نہ کرتے۔ قتیبہ نے کہا: ہمیں جریر نے بیان سے حدیث بیا ن کی، انھوں نے ابراہیم تیمی سے انھوں نے اپنے والد (یزید بن شریک) سے روایت کی کہ ایک مرتبہ ان کا گزر ربذہ کے مقام پر حضرت ابو زر رضی اللہ عنہ کے پاس سےہوا، انھوں نے اس سے، (حج میں تمتع) کا ذکر کیا۔حضرت ابوزر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: یہ تم لوگوں کو چھوڑ کر خاص ہمارے لئے تھا۔ عبدالرحمٰن بن ابی الشعثاء بیان کرتے ہیں کہ میں ابراہیم نخعی اور ابراہیم تیمی کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے کہا، میرا اس سال حج اور عمرہ دونوں اکٹھے کرنے کا ارادہ ہے، تو ابراہیم نخعی نے کہا، لیکن تیرا باپ تو یہ ارادہ نہیں کر سکتا تھا، اور ابراہیم تیمی نے اپنے باپ سے بیان کیا، کہ اس کا ربذہ مقام پر حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سے گزر ہوا، تو میں نے ان سے اس کا (حج تمتع کا) تذکرہ کیا، تو انہوں نے جواب دیا، یہ ہمارے لیے خاص تھا، تمہیں اجازت نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
مروان بن معاویہ نے کہا: ہمیں سلیمان تیمی نے غنیم بن قیس سے خبر دی، انھوں نے کہا: میں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے حج تمتع کے بارے استفسارکیا۔انھوں نے کہا ہم نے حج تمتع کیا تھا۔اور یہ (معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ) ان دنوں سائبانوں (والے گھروں) میں خود کوڈھانپے ہوئے (مقیم) تھے، یعنی مکہ کے گھروں میں۔ (معاویہ رضی اللہ عنہ بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرح حج افرادپر اصرار کرتے تھے۔) غنیم بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حج تمتع کے بارے میں سوال کیا؟ انہوں نے جواب دیا، ہم نے یہ اس وقت کیا ہے، جبکہ یہ (حضرت معاویہ) عُرُش یعنی مکہ کے مکانوں میں کفر کی حالت میں تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
یحییٰ بن سعید نے سلیمان تیمی سے اسی سند کے ساتھ روایت کی اور اپنی روایت میں کہا: ان کی مرادحضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے تھی۔ امام صاحب مذکورہ بالا روایت ایک دوسرے استاد سے سلیمان تیمی ہی کی سند سے بیان کرتے ہیں، جس میں یہ صراحت ہے کہ ”هذا“ سے ان کی مراد حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
سفیان اورشعبہ دونوں نے سلیمان تیمی سے اسی سندکے ساتھ ان دونوں (مروان اور یحییٰ) کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی ہے۔ (البتہ) سفیان کی حدیث میں ہے: حج میں تمتع (کے بارے میں دریافت کیا۔) امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ سے بیان کرتے ہیں، سفیان کی روایت میں اَلْمُتْعَةُ فِي الْحَجِّ کے الفاظ ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ہمیں اسماعیل بن ابراہیم نے حدیث بیا ن کی، (کہا:) ہمیں جریری نے حدیث سنائی، انھوں نے ابو العلاء سے، انھوں نے مطرف سے روایت کی، (مطرف نے) کہا: عمران بن حصین نے مجھ سے کہا: میں تمھیں آج ایک ایسی حدیث بیان کرنے لگاہوں جس سے اللہ تعالیٰ آج کے بعد تمھیں نفع دے گا۔جان لو! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں میں سے کچھ کو ذوالحجہ میں عمرہ کروایا، پھر نہ تو کوئی ایسی آیت نازل ہوئی جس نے اسے (حج کے مہینوںمیں عمرے کو) منسوخ قرار دیا ہو، اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے روکا، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی منزل کی طرف تشریف لے گئے۔بعد میں ہر شخص نے جورائے قائم کرنا چاہی کرلی۔ مطرف بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت عمران بن حصین رضی الله تعالیٰ عنہ نے کہا، میں تمہیں آج ایسی حدیث سناتا ہوں، جس سے تمہیں اللہ تعالیٰ آج کے بعد نفع پہنچائے گا، جان لو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو عشرہ ذوالحجہ میں عمرہ کرنے کا حکم دیا، اور کسی آیت کے ذریعہ اس کو منسوخ قرار نہیں دیا گیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی وفات تک اس سے منع نہیں فرمایا، اس کے بعد جو انسان چاہے اپنی رائے سے کوئی رائے قائم کر لے (اس کا اعتبار نہیں ہے۔)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
اسحاق بن ابراہیم اور محمد بن حاتم دونوں نے وکیع سے یہ حدیث بیا ن کی (کہا:) ہمیں سفیان نے جریری سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیا ن کی، (البتہ) ابن حاتم نے اپنی ر وایت میں کہا: بعد میں ایک آدمی نے اپنی رائے سے جو چاہا نظریہ بنالیا، ان کی مراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے تھی۔ امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ سے یہی روایت بیان کرتے ہیں، ان کے استاد ابن حاتم کی روایت میں یہ ہے، ایک آدمی نے اپنی رائے سے جو چاہا رائے قائم کر لی، ان کا اشارہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف تھا، (کیونکہ وہ حج تمتع سے روکتے تھے)۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني وحدثني عبيد الله بن معاذ ، حدثنا ابي ، حدثنا شعبة ، عن حميد بن هلال ، عن مطرف ، قال: قال لي عمران بن حصين : " احدثك حديثا عسى الله ان ينفعك به، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم جمع بين حجة وعمرة، ثم لم ينه عنه حتى مات ولم ينزل فيه قرآن يحرمه، وقد كان يسلم علي حتى اكتويت، فتركت ثم تركت الكي فعاد "،وحَدَّثَنِي وحَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، قَالَ: قَالَ لِي عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ : " أُحَدِّثُكَ حَدِيثًا عَسَى اللَّهُ أَنْ يَنْفَعَكَ بِهِ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بَيْنَ حَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ، ثُمَّ لَمْ يَنْهَ عَنْهُ حَتَّى مَاتَ وَلَمْ يَنْزِلْ فِيهِ قُرْآنٌ يُحَرِّمُهُ، وَقَدْ كَانَ يُسَلَّمُ عَلَيَّ حَتَّى اكْتَوَيْتُ، فَتُرِكْتُ ثُمَّ تَرَكْتُ الْكَيَّ فَعَادَ "، ہمیں معاذ نے حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں شعبہ نے حمید بن ہلال سے، انھوں نے مطرف سے رویت کی، انھوں نے کہا: عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: میں تمھیں ایک حدیث بیان کرتاہوں۔ وہ دن دور نہیں جب اللہ تعالیٰ تمھیں اس سے فائدہ دےگا۔بلاشبہ!اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اورعمرہ کو (حج کے مہینوں میں) اکھٹاکیا، پھر آپ نے وفات تک اس سے منع نہیں فرمایا، اورنہ اس کے بارے میں قرآن ہی میں کچھ نازل ہوا جو اسے حرام قرار دے اور یہ بھی (بتایا) کہ مجھے (فرشتوں کی طرف سے) سلام کیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ (بواسیر کی بناء پر) میں نے اپنے آپ کو دغوایا تو مجھے (سلام کہنا) چھوڑ دیا گیا، پھر میں نے دغواناچھوڑ دیا تو (فرشتوں کا سلام) دوبارہ شروع ہوگیا۔ مطرف بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، میں تمہیں ایک ایسی حدیث سناتا ہوں، امید ہے اللہ تعالیٰ تمہیں اس سے فائدہ پہنچائے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ دونوں کو جمع کیا، پھر اپنی وفات تک اس سے منع نہیں فرمایا، اور نہ قرآن ہی میں اس کی حرمت نازل ہوئی، حضرت عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، مجھے (فرشتوں کی طرف سے) سلام کہا جاتا تھا، حتی کہ میں نے (بیماری کی شدت کی بنا پر) داغ لگوایا تھا، تو مجھے (سلام کہنا) چھوڑ دیا گیا، پھر میں نے داغ لگوانا چھوڑ دیا، تو سلام دوبارہ شروع ہو گیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
محمد بن جعفر نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا) ہمیں شعبہ نے حدیث سنائی، انھوں نے حمید بن ہلال سے روایت کی، کہا میں نے مطرف سے سنا، انھوں نے کہا عمرا ن بن حصین رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا۔ آگے معاذ کی حدیث کے مانند ہے۔ امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے یں، صرف اس قدر فرق ہے کہ اوپر کی روایت میں عن مطرف ہے اور اس میں سمعت مطرفا ہے، یعنی سننے کی صراحت موجود ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا محمد بن المثنى ، وابن بشار ، قال ابن المثنى: حدثنا محمد بن جعفر ، عن شعبة ، عن قتادة ، عن مطرف ، قال: بعث إلي عمران بن حصين في مرضه الذي توفي فيه، فقال: " إني كنت محدثك باحاديث لعل الله ان ينفعك بها بعدي، فإن عشت فاكتم عني، وإن مت فحدث بها إن شئت، إنه قد سلم علي، واعلم ان نبي الله صلى الله عليه وسلم قد جمع بين حج وعمرة، ثم لم ينزل فيها كتاب الله، ولم ينه عنها نبي الله صلى الله عليه وسلم، قال رجل فيها برايه ما شاء ".وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، قَالَ: بَعَثَ إِلَيَّ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ فِي مَرَضِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ، فَقَالَ: " إِنِّي كُنْتُ مُحَدِّثَكَ بِأَحَادِيثَ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَنْفَعَكَ بِهَا بَعْدِي، فَإِنْ عِشْتُ فَاكْتُمْ عَنِّي، وَإِنْ مُتُّ فَحَدِّثْ بِهَا إِنْ شِئْتَ، إِنَّهُ قَدْ سُلِّمَ عَلَيَّ، وَاعْلَمْ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ جَمَعَ بَيْنَ حَجٍّ وَعُمْرَةٍ، ثُمَّ لَمْ يَنْزِلْ فِيهَا كِتَابُ اللَّهِ، وَلَمْ يَنْهَ عَنْهَا نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ رَجُلٌ فِيهَا بِرَأْيِهِ مَا شَاءَ ". قتادہ نے مطرف سے روایت کی، کہا: جس مرض میں عمرا ن بن حصین رضی اللہ عنہ کی وفا ت ہو ئی، اس دورا ن میں انھوں نے مجھے بلا بھیجا اور کہا میں تمھیں چند احادیث بیان کرا نا چا ہتا ہوں۔امید ہے کہ اللہ تعا لیٰ میرے بعد تمھیں ان سے فائدہ پہنچائے گا، اگر میں (شفا یا ب ہو کر) زندہ رہا تو ان باتوں کو میری طرف سے پو شیدہ رکھنا اگر فو ت ہو گیا تو چاہو تو بیان کر دینا مجھ پر (فرشتوں کی جا نب سے) سلام کہا جا تا تھا (تفصیل سابقہ حدیث میں ہے) اور یا د رکھو!اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرے کو اکٹھا کر دیا، اس کے بعد نہ تو اس بارے میں اللہ کی کتاب نازل ہو ئی اور نہ (آخر تک) اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا۔ایک شخص نے اس بارے میں اپنی را ئے سے جو چا ہا کہا۔ مطرف بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے، اپنی اس بیماری میں جس میں ان کی وفات ہوئی ہے، مجھے بلا بھیجا، اور کہا، میں تمہیں چند احادیث سنانا چاہتا ہوں، امید ہے، اللہ تعالیٰ میرے بعد تمہیں ان سے فائدہ پہنچائے گا، اگر میں زندہ رہا تو میرے بارے میں یہ نہ بتانا، اور اگر میں فوت ہو گیا، تو چاہو، تو بیان کر دینا، واقعہ یہ ہے کہ مجھے (فرشتوں کی طرف سے) سلام کہا جاتا ہے، (زندگی میں یہی بات چھپانا مقصود ہے) جان لو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ اکٹھا کیا، پھر اس کے بارے میں کتاب اللہ میں کچھ نہیں اترا (جس سے اس کی ممانعت ثابت ہو) اور نہ ہی اس سے نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا ہے۔ ایک آدمی نے اس کے متعلق اپنی رائے سے جو چاہا کہہ دیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ہمیں سعید بن ابی عروبہ نے قتادہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے مطرف بن عبد اللہ بن شخیر سے انھوں نے عمرا ن بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے فرمایا: جا ن لو!اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرے کو اکٹھا کیا تھا۔اس کے بعد نہ تو اس معاملے میں اللہ کی کتاب (میں کوئی بات) نازل ہو ئی۔اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان دونوں سے منع فرمایا: پھر ایک شخص نے اس کے بارے میں اپنی را ئے سے جو چا ہا کہا۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں خوب جانتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ اکٹھا کیا، پھر اس کے بارے میں کوئی حکم نہیں اترا، اور نہ ہی ان سے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا ہے، ایک آدمی نے اس کے متعلق اپنی رائے سے جو چاہا کہہ دیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ہمام نے کہا: ہمیں قتادہنے مطرف کے واسطے سے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان فر مائی: کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (حج میں) تمتع کیا تھا اور اس کے بعد اس کے متعلق قرآن نازل نہ ہوا (کہ یہ درست نہیں ہے اس کے متعلق) ایک شخص نے اپنی را ئے سے جو چا ہا کہہ دیا۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج تمتع کیا اور اس کے بارے میں (ممانعت کے سلسلہ میں) قرآن نہیں اترا، ایک آدمی نے اپنی رائے سے جو چاہا کہہ دیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
محمد بن واسع نے مطرف بن عبد اللہ بن شخر سے، انھوں نے حضرت عمرا ن بن حصین رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث بیان کی، (عمرا ن بن حصین رضی اللہ عنہ نے) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حج میں) تمتع (حج و عمرے کو ایک ساتھ ادا) کیا اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ (حج میں) تمتع کیا تھا۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قران کی صور ت میں حج و عمرہ اکٹھا ادا کیا، جو قربانیاں ساتھ نہ لا ئے تھے انھوں نے انھی دنوں میں الگ الگ احرا م باندھ کر دونوں کو ادا کیا) عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج تمتع کیا اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج تمتع کیا، (ایک ہی سفر میں، حج اور عمرہ کیا، اکٹھا ہو یا الگ الگ)۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
بشر بن مفضل نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہاJ ہمیں عمرا ن بن مسلم نے ابو رجاء سے روایت کی، کہ عمرا ن بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا: متعہ یعنی حج میں تمتع کی آیت قرآن مجید میں نازل ہو ئی۔اور اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہمیں اس کا حکم دیا، بعد ازیں نہ تو کوئی آیت نازل ہو ئی جس نے حج میں تمتع کی آیت کو منسوخ کیا ہو اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا حتی کہ آپ فوت ہو گئے بعد میں ایک شخص نے اپنی را ئے سے جو چا ہا کہا۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں آیت المتعۃ یعنی حج تمتع کے بارے میں آیت اتری اور اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا، پھر ایسی کوئی آیت نہیں اتری جو حج تمتع کی آیت کو منسوخ کر دے، اور نہ ہی اس سے اپنی وفات تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ بعد میں ایک آدمی نے اپنی رائے سے جو چاہا کہہ دیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
یحییٰ بن سعید نے ہمیں عمرا ن قصیر سے حدیث سنا ئی (انھوں نے کہا:) ہمیں ابو رجاء نے عمرا ن بن حصین رضی اللہ عنہ سے اسی سند (مذکورہ بالاروایت) کے مانند حدیث بیان کی۔البتہ اس میں یہ کہا کہ ہم نے یہ (حج میں تمتع) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا (یحییٰ بن سعید نے) یہ نہیں کہا: آپ نے ہمیں اس کا حکم دیا۔ یہی روایت امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا کی جگہ یہ ہے ہم نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|