كِتَاب الْحَجِّ حج کے احکام و مسائل The Book of Pilgrimage 82. باب تَحْرِيمِ مَكَّةَ وَصَيْدِهَا وَخَلاَهَا وَشَجَرِهَا وَلُقَطَتِهَا إِلاَّ لِمُنْشِدٍ عَلَى الدَّوَامِ: باب: مکہ مکرمہ کے حرم ہونے اور اس کے شکار اور گھاس اور درخت اور گری پڑی چیز کی حرمت کا بیان سوائے اس کے جو گری پڑی چیز کا اعلان کرنے والا ہو۔ Chapter: The sanctity of Makkah and the sanctity of its game, grasses, trees and lost property, except for the one who announces it, is forever حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي ، اخبرنا جرير ، عن منصور ، عن مجاهد ، عن طاوس ، عن ابن عباس ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الفتح: فتح مكة: " لا هجرة ولكن جهاد ونية، وإذا استنفرتم فانفروا، وقال يوم الفتح: فتح مكة: إن هذا البلد حرمه الله يوم خلق السماوات والارض، فهو حرام بحرمة الله إلى يوم القيامة، وإنه لم يحل القتال فيه لاحد قبلي، ولم يحل لي إلا ساعة من نهار، فهو حرام بحرمة الله إلى يوم القيامة، لا يعضد شوكه، ولا ينفر صيده، ولا يلتقط إلا من عرفها، ولا يختلى خلاها "، فقال العباس: يا رسول الله، إلا الإذخر، فإنه لقينهم ولبيوتهم، فقال: " إلا الإذخر "،حدثنا إِسْحَاقَ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ: فَتْحِ مَكَّةَ: " لَا هِجْرَةَ وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ، وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا، وَقَالَ يَوْمَ الْفَتْحِ: فَتْحِ مَكَّةَ: إِنَّ هَذَا الْبَلَدَ حَرَّمَهُ اللَّهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ، فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ الْقِتَالُ فِيهِ لِأَحَدٍ قَبْلِي، وَلَمْ يَحِلَّ لِي إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، لَا يُعْضَدُ شَوْكُهُ، وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهُ، وَلَا يَلْتَقِطُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا، وَلَا يُخْتَلَى خَلَاهَا "، فقَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِلَّا الْإِذْخِرَ، فَإِنَّهُ لِقَيْنِهِمْ وَلِبُيُوتِهِمْ، فقَالَ: " إِلَّا الْإِذْخِرَ "، جریر نے ہمیں منصور سے خبر دی انھوں نے مجا ہد سے انھوں نے طاوس سے انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا: "اب ہجرت نہیں ہے البتہ جہاد اور نیت باقی ہے اور جب تمھیں نفیر عام (جہاد میں حا ضری) کے لیے کہا جا ئے تو نکل پڑو۔اور آپ نے فتح مکہ کے دن فرمایا: بلا شبہ یہ شہر (ایسا) ہے جسے اللہ نے (اس وقت سے) حرمت عطا کی ہے جب سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ یہ اللہ کی (عطا کردہ) حرمت (کی وجہ) سے قیامت تک کے لیے محترم ہے اور مجھ سے پہلے کسی ایک کے لیے اس میں لڑا ئی کو حلال قرار نہیں دیا کیا اور میرے لیے بھی دن میں سے ایک گھڑی کے لیے ہی اسے حلال کیا گیا ہے (اب) یہ اللہ کی (عطا کردہ) حرمت کی وجہ سے قیامت کے دن تک حرا م ہے اس کے کا ٹنے نہ کا ٹے جا ئیں اس کے شکار کو ڈرا کر نہ بھگا یا جا ئے کوئی شخص اس میں گری ہو ئی چیز کو نہ اٹھا ئے سوائے اس کے جو اس کا اعلا ن کرے، نیز اس کی گھا س بھی نہ کا ٹی جا ئے۔اس پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !سوائے اذخر (خوشبو دار گھا س) کے وہ ان کے لوہا روں اور گھروں کے لیے (ضروری) ہے تو آپ نے فرمایا: " سوائے اذخر کے۔" حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب ہجرت کا حکم نہیں رہا، لیکن جہاد ہے، اور نیت، تو جب تمہیں جہاد کے لیے کوچ کرنے کو کہا جائے تو چل پڑو۔“ اور فتح کے دن، فتح مکہ کے موقع پر فرمایا: ”یہ شہر اللہ تعالیٰ نے اس کو اس دن سے محترم قرار دیا ہے، جس دن آسمان و زمین کو پیدا کیا، لہذا اللہ تعالیٰ کے حکم سے قیامت تک کے لیے اس کا ادب و احترام ضروری ہے، اور مجھ سے پہلے اللہ نے کسی کو یہاں قتال کرنے کی اجازت نہیں دی، اور مجھے بھی دن کے تھوڑے سے وقت کے لیے وقتی اجازت دی گئی، (اور وقت ختم ہو جانے کے بعد) اب قیامت تک کے لیے اللہ تعالیٰ کے محترم قرار دینے سے اس کا ادب و احترام واجب ہے (اور ہر وہ اقدام اور عمل جو اس کے تقدس و احترام کے منافی ہے، حرام ہے) اس علاقہ کے خاردار درخت اور جھاڑ بھی نہ کاٹے اور نہ چھانٹیں جائیں، یہاں کے کسی قابل شکار جانور کو پریشان نہ کیا جائے، اور اگر کوئی گری پڑی چیز نظر آئے تو اس کو وہی اٹھائے جو اس کا اعلان اور تشہیر کرتا رہے، اور یہاں کی سبز گھاس نہ کاٹی اکھاڑی جائے۔“ (اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا) حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اَذْخَرْ
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني محمد بن رافع ، حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا مفضل ، عن منصور ، في هذا الإسناد بمثله، ولم يذكر: يوم خلق السماوات والارض، وقال بدل القتال: القتل، وقال: لا يلتقط لقطته، إلا من عرفها.وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حدثنا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حدثنا مُفَضَّلٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، فِي هَذَا الْإِسْنَادِ بِمِثْلِهِ، وَلَمْ يَذْكُرْ: يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ، وَقَالَ بَدَلَ الْقِتَالِ: الْقَتْلَ، وَقَالَ: لَا يَلْتَقِطُ لُقَطَتَهُ، إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا. مفضل نے ہمیں منصور سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی، انھوں نے "جس دن سے اللہ تعا لیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا " کے الفا ظ ذکر نہیں کیے۔"قتال" (لڑائی) کے بجا ئے "قتل"کا لفظ کہا اور کہا "یہاں کی گری پڑی چیز اس شخص کے سوا جو اس کا اعلا ن کرے، کوئی نہ اٹھا ئے۔" امام صاحب یہ روایت ایک دوسرے استاد سے تھوڑے سے فرق سے لائے ہیں، اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ یہ حرمت آسمان و زمین کی تخلیق کے وقت سے ہے، اور قِتَال
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث ، عن سعيد بن ابي سعيد ، عن ابي شريح العدوي ، انه قال: لعمرو بن سعيد، وهو يبعث البعوث إلى مكة: ائذن لي ايها الامير احدثك قولا، قام به رسول الله صلى الله عليه وسلم الغد من يوم الفتح سمعته اذناي، ووعاه قلبي، وابصرته عيناي حين تكلم به، انه حمد الله واثنى عليه ثم قال: " إن مكة حرمها الله، ولم يحرمها الناس، فلا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر، ان يسفك بها دما، ولا يعضد بها شجرة، فإن احد ترخص بقتال رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها، فقولوا له: إن الله اذن لرسوله ولم ياذن لكم، وإنما اذن لي فيها ساعة من نهار، وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها بالامس، وليبلغ الشاهد الغائب "، فقيل لابي شريح: ما قال لك عمرو؟ قال: انا اعلم بذلك منك يا ابا شريح، إن الحرم لا يعيذ عاصيا، ولا فارا بدم ولا فارا بخربة.حدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حدثنا لَيْثٌ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: لِعَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ، وَهُوَ يَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلَى مَكَّةَ: ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الْأَمِيرُ أُحَدِّثْكَ قَوْلًا، قَامَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغَدَ مِنْ يَوْمِ الْفَتْحِ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، وَوَعَاهُ قَلْبِي، وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ، أَنَّهُ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ، وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، فَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا، وَلَا يَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً، فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ بِقِتَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا، فَقُولُوا لَهُ: إِنَّ اللَّهَ أَذِنَ لِرَسُولِهِ وَلَمْ يَأْذَنْ لَكُمْ، وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي فِيهَا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، وَقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ، وَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ "، فَقِيلَ لِأَبِي شُرَيْحٍ: مَا قَالَ لَكَ عَمْرٌو؟ قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ بِذَلِكَ مِنْكَ يَا أَبَا شُرَيْح، إِنَّ الْحَرَمَ لَا يُعِيذُ عَاصِيًا، وَلَا فَارًّا بِدَمٍ وَلَا فَارًّا بِخَرْبَةٍ. ابو شریح عدوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے عمرو بن سعید سے جب وہ (ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے خلا ف) مکہ کی طرف لشکر بھیج رہا تھا کہا: اے امیر! مجھے اجا زت دیں۔میں آپ کو ایک ایسا فرمان بیان کروں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن ارشاد فرمایا تھا۔اسے میرے دونوں کا نوں نے سنا، میرے دل نے یا د رکھا اور جب آپ نے اس کے الفا ظ بو لے تو میرے دونوں آنکھوں نے آپ کو دیکھا۔ آپ نے اللہ تعا لیٰ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: "بلا شبہ مکہ کو اللہ نے حرمت عطا کی ہے لوگوں نے نہیں۔۔کسی آدمی کے لیے جو اللہ اور یو آخرت پر ایما ن رکھتا ہو حلال نہیں کہ وہ اس میں خون بہا ئے اور نہ (یہ حلال ہے کہ) کسی درخت کو کا ٹے۔اگر کوئی شخص اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لڑا ئی کی بنا پر رخصت نکا لے تو اسے کہہ دینا: بلا شبہ اللہ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجا زت دی تھی تمھیں اس کی اجا زت نہیں دی تھی اور آج ہی اس کی حرمت اسی طرح واپس آگئی ہے جیسے کل اس کی حرمت موجود تھی اور جو حا ضر ہے (یہ بات) اس تک پہنچا دے جو حا ضر نہیں۔اس پر ابو شریح رضی اللہ عنہ سے کہا گیا: (جواب میں) عمرو نے تم سے کیا گہا؟ (کہا:) اس نے جواب دیا: اے ابو شریح!میں یہ بات تم سے زیادہ جا نتا ہوں جرم کسی نافر مان (باغی) کو خون کر کے بھا گ آنے والے کو اور چوری کر کے فرار ہو نے والے کو پناہ نہیں دیتا۔ حضرت ابو شریح عدوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرو بن سعید سے کہا جبکہ وہ (یزید کی طرف سے گورنر تھا اور اس کے حکم سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے خلاف) مکہ پر چڑھائی کرنے کے لیے لشکر تیار کر کے روانہ کر رہا تھا کہ: اے امیر! مجھے اجازت دیجئے، کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان بیان کروں، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے اگلے دن (مکہ میں) ارشاد فرمایا تھا، میں نے اپنے کانوں سے وہ فرمان سنا تھا، اور میرے دل و دماغ نے اسے یاد کر لیا تھا، اور جس وقت وہ فرمان آپ کی زبان مبارک سے صادر ہو رہا تھا، اس وقت میری آنکھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر فرمایا تھا: ”مکہ کو اللہ تعالیٰ نے محترم قرار دیا ہے، اس کی حرمت یا احترام کا فیصلہ لوگوں نے نہیں کیا، اس لیے جو انسان اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ یہاں خون ریزی کرے، اور وہ یہاں کے درختوں کو بھی نہ کاٹے، اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتال کو سند بنا کر رخصت کا اپنے لیے جواز نکالے، تو اس کو کہہ دو بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اجازت دی تھی، اور تجھے اجازت نہیں دی ہے، اور مجھے بھی بس، اللہ تعالیٰ نے دن کے تھوڑے سے وقت کے لیے (عارضی اور وقتی) اجازت دی تھی، اور آج اس وقت اس طرح حرمت لوٹ آئی جس طرح حرمت موجود تھی، (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) جو لوگ یہاں موجود ہیں، (جنہوں نے میری بات سنی ہے) وہ دوسرے غیر موجود لوگوں تک یہ بات پہنچا دیں“ تو ابو شریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے دریافت کیا، آپ کو عمرو نے کیا جواب دیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا، اس نے کہا کہ: اے ابو شریح! میں یہ باتیں تم سے زیادہ جانتا ہوں، حرم کسی نافرمان کو پناہ نہیں دے سکتا، نہ ہی کسی ایسے آدمی کو جو کسی کا ناحق خون کر کے بھاگ آئے، یا کسی کا نقصان کر کے بھاگ آئے، پناہ دے سکتا ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني زهير بن حرب ، وعبيد الله بن سعيد ، جميعا عن الوليد ، قال زهير: حدثنا الوليد بن مسلم، حدثنا الاوزاعي ، حدثني يحيى بن ابي كثير ، حدثني ابو سلمة هو ابن عبد الرحمن ، حدثني ابو هريرة ، قال: لما فتح الله عز وجل على رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة، قام في الناس، فحمد الله، واثنى عليه، ثم قال: " إن الله حبس عن مكة الفيل، وسلط عليها رسوله والمؤمنين، وإنها لن تحل لاحد كان قبلي، وإنها احلت لي ساعة من نهار، وإنها لن تحل لاحد بعدي، فلا ينفر صيدها، ولا يختلى شوكها، ولا تحل ساقطتها إلا لمنشد، ومن قتل له قتيل، فهو بخير النظرين، إما ان يفدى، وإما ان يقتل "، فقال العباس: إلا الإذخر يا رسول الله، فإنا نجعله في قبورنا وبيوتنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إلا الإذخر "، فقام ابو شاه رجل من اهل اليمن، فقال: اكتبوا لي يا رسول الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اكتبوا لابي شاه "، قال الوليد: فقلت للاوزاعي: ما قوله: اكتبوا لي يا رسول الله، قال: هذه الخطبة التي سمعها من رسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، جميعا عَنِ الْوَلِيدِ ، قَالَ زُهَيْرٌ: حدثنا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حدثنا الْأَوْزَاعِيُّ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ هُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ ، قَالَ: لَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ، قَامَ فِي النَّاسِ، فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ الْفِيلَ، وَسَلَّطَ عَلَيْهَا رَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ، وَإِنَّهَا لَنْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ كَانَ قَبْلِي، وَإِنَّهَا أُحِلَّتْ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، وَإِنَّهَا لَنْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ بَعْدِي، فَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا، وَلَا يُخْتَلَى شَوْكُهَا، وَلَا تَحِلُّ سَاقِطَتُهَا إِلَّا لِمُنْشِدٍ، وَمَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ، فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ، إِمَّا أَنْ يُفْدَى، وَإِمَّا أَنْ يُقْتَلَ "، فقَالَ الْعَبَّاسُ: إِلَّا الْإِذْخِرَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنَّا نَجْعَلُهُ فِي قُبُورِنَا وَبُيُوتِنَا، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِلَّا الْإِذْخِرَ "، فَقَامَ أَبُو شَاهٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ، فقَالَ: اكْتُبُوا لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اكْتُبُوا لِأَبِي شَاهٍ "، قَالَ الْوَلِيدُ: فَقُلْتُ لِلْأَوْزَاعِيِّ: مَا قَوْلُهُ: اكْتُبُوا لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: هَذِهِ الْخُطْبَةَ الَّتِي سَمِعَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ولید بن مسلم نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا) ہمیں اوزاعی نے حدیث سنا ئی۔ (کہا:) مجھے یحییٰ بن ابی کثیر نے حدیث سنا ئی۔ (کہا:) مجھے ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن نے اور (انھوں نے کہا) مجھے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حدیث بیا نکی، انھو نےکہا: جب اللہ عزوجل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ پر فتح عطا کی تو آپ لوگوں میں (خطبہ دینے کے لیے) کھڑے ہو ئے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: " بلا شبہ اللہ نے ہا تھی کو مکہ سے رو ک دیا۔ اور اپنے رسول اور مومنوں کو اس پر تسلط عطا کیا، مجھ سے پہلے یہ ہر گز کسی کے لیے حلال نہ تھا میرے لیے دن کی ایک گھڑی کے لیے حلال کیا گیا۔اور میرے بعد یہ ہر گز کسی کے لیے حلال نہ ہو گا۔اس لیے نہ اس کے شکار کو ڈرا کر بھگا یا جا ئے اور نہ اس کے کا نٹے (دار درخت) کا ٹے جا ئیں۔اور اس میں گری پڑی کوئی چیز اٹھا نا اعلان کرنے والے کے سواکسی کے لیے حلال نہیں۔اور جس کا کوئی قریبی (عزیز) قتل کر دیا جا ئے اس کے لیے دو صورتوں میں سے وہ ہے جو (اس کی نظر میں) بہتر ہو: یا اس کی دیت دی جا ئے یا (قاتل) قتل کیا جا ئے۔اس پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اذخر کے سوا ہم اسے اپنی قبروں (کی سلوں کی درزوں) اور گھروں (کی چھتوں) میں استعمال کرتے ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اذخر کے سوا۔اس پر اہل یمن میں سے ایک آدمی ابو شاہ کھڑے ہو ئے اور کہا: اے اللہ کے رسول!! (یہ سب) میرے لیے لکھوادیجیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ابو شاہ کے لیے لکھ دو۔ ولید نے کہا: میں نے اوزاعی سے پو چھا: اس (یمنی) کا یہ کہنا " اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے لکھوا دیں۔ (اس سے مراد) کیا تھا؟ انھوں نے کہا: یہ خطبہ (مراد تھا) جو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ پر فتح دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی، پھر فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مکہ سے ہاتھ روک دیا، اور اس پر اپنے رسول اور مومنوں کو غلبہ عنایت فرمایا، واقعہ یہ ہے کہ مکہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال قرار نہیں دیا گیا تھا، (کسی کو اس پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں ملی) اور یہ میرے لیے بھی دن کے کچھ وقت کے لیے حلال ٹھہرایا گیا، (جنگ کی اجازت دی گئی) اور یہ میرے بعد ہرگز کسی کے لیے حلال نہیں ہو گا۔ لہذا اس کے شکار کو پریشان نہ کیا جائے، اور نہ یہاں سے کانٹے کاٹے جائیں، اور یہاں گری پڑی چیز اٹھانا صرف اس کے لیے جائز ہے، جو اس کی تشہیر اور اعلان کرنا چاہتا ہو، اور جس انسان کا کوئی قریبی قتل کر دیا جائے اس کو دو چیزوں میں سے ایک کے انتخاب کا حق ہو گا، یا دیت لے لے یا قاتل کو (قصاص میں) قتل کر دیا جائے۔“ تو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا، اَذْخَر
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني إسحاق بن منصور ، اخبرنا عبيد الله بن موسى ، عن شيبان ، عن يحيى ، اخبرني ابو سلمة ، انه سمع ابا هريرة ، يقول: إن خزاعة قتلوا رجلا من بني ليث عام فتح مكة بقتيل منهم قتلوه، فاخبر بذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فركب راحلته فخطب، فقال: " إن الله عز وجل حبس عن مكة الفيل، وسلط عليها رسوله والمؤمنين، الا وإنها لم تحل لاحد قبلي، ولن تحل لاحد بعدي، الا وإنها احلت لي ساعة من النهار، الا وإنها ساعتي هذه حرام، لا يخبط شوكها، ولا يعضد شجرها، ولا يلتقط ساقطتها، إلا منشد، ومن قتل له قتيل، فهو بخير النظرين، إما ان يعطى، يعني الدية، وإما ان يقاد اهل القتيل "، قال: فجاء رجل من اهل اليمن، يقال له: ابو شاه، فقال: اكتب لي يا رسول الله، فقال: " اكتبوا لابي شاه "، فقال رجل من قريش: إلا الإذخر، فإنا نجعله في بيوتنا وقبورنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إلا الإذخر ".حَدَّثَنِي إِسْحَاقَ بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ شَيْبَانَ ، عَنْ يَحْيَى ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: إِنَّ خُزَاعَةَ قَتَلُوا رَجُلًا مِنْ بَنِي لَيْثٍ عَامَ فَتْحِ مَكَّةَ بِقَتِيلٍ مِنْهُمْ قَتَلُوهُ، فَأُخْبِرَ بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَكِبَ رَاحِلَتَهُ فَخَطَبَ، فقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ الْفِيلَ، وَسَلَّطَ عَلَيْهَا رَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ، أَلَا وَإِنَّهَا لَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي، وَلَنْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ بَعْدِي، أَلَا وَإِنَّهَا أُحِلَّتْ لِي سَاعَةً مِنَ النَّهَارِ، أَلَا وَإِنَّهَا سَاعَتِي هَذِهِ حَرَامٌ، لَا يُخْبَطُ شَوْكُهَا، وَلَا يُعْضَدُ شَجَرُهَا، وَلَا يَلْتَقِطُ سَاقِطَتَهَا، إِلَّا مُنْشِدٌ، وَمَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ، فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ، إِمَّا أَنْ يُعْطَى، يَعْنِي الدِّيَةَ، وَإِمَّا أَنْ يُقَادَ أَهْلُ الْقَتِيلِ "، قَالَ: فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ، يُقَالَ لَهُ: أَبُو شَاهٍ، فقَالَ: اكْتُبْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فقَالَ: " اكْتُبُوا لِأَبِي شَاهٍ "، فقَالَ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ: إِلَّا الْإِذْخِرَ، فَإِنَّا نَجْعَلُهُ فِي بُيُوتِنَا وَقُبُورِنَا، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِلَّا الْإِذْخِرَ ". شیبان نے یحییٰ سے روایت کی، (کہا:) مجھے ابو سلمہ نے خبر دی، انھوں نے حجرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے: فتح مکہ کے سال خزاعہ نے بنو لیث کا ایک آدمی اپنے ایک مقتول کے بدلے میں جسے انھوں نے (بنولیث) نے قتل کیا تھا قتل کر دیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی گئی تو آپ اپنی سواری پر بیٹھے اور خطبہ ارشاد فرمایا: " بلا شبہ اللہ عزوجل نے ہا تھی کو مکہ (پر حملے) سے روک دیا جبکہ اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کو اس پر تسلط عطا کیا۔مجھ سے پہلے یہ کسی کے لیے حلال نہیں تھا اور میرے بعد بھی ہر گز کسی کے لیے حلال نہ ہو گا۔سن لو!یہ میرے لیے دن کی ایک گھڑی بھر حلال کیا گیا تھا اور (اب) یہ میری اس موجودہ گھڑی میں بھی حرمت والا ہے نہ ڈنڈے کے ذریعے سے اس کے کانٹے جھا ڑے جا ئیں نہ اس کے درخت کا ٹے جائیں اور نہ ہی اعلان کرنے والے کے سوا اس میں گری ہو ئی چیز اٹھا ئے اور جس کا کوئی قریبی قتل کر دیا گیا اس کے لیے دو صورتوں میں سے وہ ہے جو (اس کی نظر میں) بہتر ہو: ہا سے عطا کر دیا جا ئے۔یعنی خون بہا۔۔۔یا مقتول کے گھر والوں کو اس سے بدلہ لینے دیا جا ئے۔کہا: تو اہل یمن میں سے ایک آدمی آیا جسے ابو شاہ کہا جا تا تھا اس نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے لکھوا دیں آپ نے فرمایا: "ابو شاہ کو لکھ دو۔ قریش کے ایک آدمی نے عرض کی: اذخر کے سوا، (کیونکہ) ہم اسے اپنے گھروں اور اپنی قبروں میں استعمال کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اذخر کے سوا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ خزاعہ نے فتح مکہ کے سال بنو لیث کا ایک آدمی اپنے ایک مقتول کے بدلہ میں جو بنو لیث نے قتل کیا تھا، قتل کر دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر سوار ہو کر خطبہ دیا اور فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مکہ میں ہاتھی کو (داخل ہونے سے) روک دیا تھا، اور اس پر اپنے رسول اور مومنوں کو غلبہ عنایت فرمایا ہے، خبردار! یہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال قرار نہیں دیا گیا (کہ وہ اس پر حملہ آور ہو) اور نہ ہر گز میرے بعد کسی کے لیے حلال ہو گا، خبردار! میرے لیے بھی دن کے کچھ وقت کے لیے حلال قرار دیا گیا تھا، خبردار! اب وہ اس وقت محترم ہے، اس کے کانٹے، گرائے نہیں جا سکیں گے، اور نہ ہی اس کے درخت کاٹے جائیں گے، اور اس کی گری پڑی چیز وہی اٹھا سکے گا، جو تشہیر کرنا چاہتا ہو، اور جس شخص کا کوئی عزیز قتل کر دیا جائے تو اسے دو چیزوں میں سے ایک کے انتخاب کا حق حاصل ہو گا، یا تو اسے دیت دلوائی جائے گی یا مقتول کے ورثاء کو قصاص دلوایا جائے گا۔“ (قاتل ان کے حوالہ کیا جائے گا کہ وہ قتل کر دیں) اس کے بعد ایک یمنی آدمی ابو شاہ نامی آیا اور اس نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے لکھوا دیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابو شاہ کو لکھ دو۔“ قریش میں سے ایک آدمی نے عرض کیا، اَذْخَرْ
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|