كِتَاب الْحَجِّ حج کے احکام و مسائل The Book of Pilgrimage 31. باب جَوَازِ الْعُمْرَةِ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ: باب: حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کا جواز۔ Chapter: It is permissible to perform 'Umrah during the months of Hajj وحدثني محمد بن حاتم ، حدثنا بهز ، حدثنا وهيب ، حدثنا عبد الله بن طاوس ، عن ابيه ، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: كانوا يرون ان العمرة في اشهر الحج من افجر الفجور في الارض، ويجعلون المحرم صفرا، ويقولون إذا برا الدبر وعفا الاثر وانسلخ صفر، حلت العمرة لمن اعتمر، فقدم النبي صلى الله عليه وسلم واصحابه صبيحة رابعة مهلين بالحج، فامرهم ان يجعلوها عمرة، فتعاظم ذلك عندهم، فقالوا: يا رسول الله، اي الحل؟ قال: " الحل كله ".وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانُوا يَرَوْنَ أَنَّ الْعُمْرَةَ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ مِنْ أَفْجَرِ الْفُجُورِ فِي الْأَرْضِ، وَيَجْعَلُونَ الْمُحَرَّمَ صَفَرًا، وَيَقُولُونَ إِذَا بَرَأَ الدَّبَرْ وَعَفَا الْأَثَرْ وَانْسَلَخَ صَفَرْ، حَلَّتِ الْعُمْرَةُ لِمَنِ اعْتَمَرْ، فَقَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ صَبِيحَةَ رَابِعَةٍ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ، فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَجْعَلُوهَا عُمْرَةً، فَتَعَاظَمَ ذَلِكَ عِنْدَهُمْ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْحِلِّ؟ قَالَ: " الْحِلُّ كُلُّهُ ". عبداللہ بن طاوس نے اپنے والد طاوس بن کیسان سے، انھوں نےحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے فرمایا: (جاہلیت میں) لوگوں کا خیال تھا کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا، زمین میں سب سے براکام ہے۔اور وہ لوگ محرم کے مہینے کو صفر بنا لیا کرتے تھے، اور کہا کرتے تھے: جب (اونٹوں کا) پیٹھ کا زخم مندمل ہو جائے، (مسافروں کا) نشان (قدم) مٹ جائے اورصفر (اصل میں محر م) گزر جائے تو عمرہ والے کے لئے عمرہ کرنا جائز ہے۔ (حالانکہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ چار ذوالحجہ کی صبح کو حج کا تلبیہ پکارتے ہوئے مکہ پہنچے، اور ان (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) کو حکم دیا کہ اپنے حج (کی نیت) کو عمرے میں بدل دیں، یہ بات ان (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) پر بڑی گراں تھی، سب نے بیک زبان کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کیسی حلت (احرام کا خاتمہ) ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مکمل حلت۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (جاہلیت کے دور میں) لوگ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا زمین میں سب سے بڑی برائی سمجھتے تھے، اور وہ محرم کے مہینہ کو صفر قرار دیتے اور کہتے تھے، جب اونٹوں کی پشتوں کے زخم ٹھیک ہو جائیں، اور نقش قدم مٹ جائیں یا زخموں کے نشان مٹ جائیں اور ماہ صفر گزر جائے تو عمرہ کرنے والوں کے لیے عمرہ حلال ہو جاتا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی چار ذوالحجہ کی صبح (مکہ مکرمہ) پہنچے اور انہوں نے حج کا احرام باندھا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں، اس کو عمرہ قرار دینے کا حکم دیا، یہ بات ان کے لیے انتہائی گرانی کا باعث بنی، تو انہوں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کس قسم کا حلال ہونا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مکمل طور پر حلال ہو جاؤ۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
نصر بن علی جحضمی نے ہمیں حدیث سنائی، (کہا:) میرے والد نے ہمیں حدیث سنائی، (کہا:) شعبہ نے ہمیں حدیث سنائی، انھوں نے ایوب سے، انھوں نے ابو عالیہ براء سے روایت کی، انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ فرمارہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کاتلبیہ پکارا اور چار ذوالحجہ کو تشریف لائے اور فجر کی نماز ادا کی، جب نماز فجر ادا کرچکے تو فرمایا: " جو (اپنے حج کو) عمرہ بنانا چاہے، وہ اسے عمرہ بنا لے۔" حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے لیے احرام باندھا، اور چار ذوالحجہ کو پہنچ کر، صبح کی نماز (مکہ مکرمہ میں) ادا کی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھ لی تو فرمایا: ”جو حج کے احرام کو عمرہ سے بدلنا چاہتا ہو، وہ اس کو عمرہ کا احرام قرار دے لے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
یہی حدیث روح، ابو شہاب اور یحییٰ بن کثیر ان تمام نے شعبہ سے اسی سند سے روایت کی، روح اور یحییٰ بن کثیر دونوں نے ویسے ہی کہا جیسا کہ نصر (بن علی جہضمی نے کہا کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا تلبیہ پکا را البتہ ابو شہاب کی روایت میں ہے: ہم تمام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کا تلبیہ پکا رتے ہو ئے نکلے۔ (آگے) ان سب کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطحا ء میں فجر کی نماز ادا کی، سوائے جہضمی کے کہ انھوں نے یہ بات نہیں کی- امام صاحب مذکورہ بالا روایت اپنے مختلف اساتذہ سے، کچھ لفظی فرق کے ساتھ بیان کرتے ہیں، روح اور یحییٰ بن کثیر نے تو نصر کی مذکورہ روایت کی طرح یہی کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا تلبیہ کہا، لیکن ابو شہاب کی روایت میں ہے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کا احرام باندھ کر چلے، ان سب اساتذہ کی روایت یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز بطحاء میں ادا کی، لیکن جہضمی (نصر) کی مذکورہ بالا روایت میں بطحاء کا تذکرہ نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ہمیں وہیب نے حدیث سنا ئی، (کہا) ہمیں ایو ب نے حدیث سنا ئی انھوں نے ابو عالیہ برا ء سے انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحا بہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سمیت عشرہ ذوالحجہ کی چار راتیں گزارنے کے بعد (مکہ) تشریف لا ئے۔وہ (صحابہ کرا م رضوان اللہ عنھم اجمعین) حج کا تلبیہ پکاررہے تھے (وہاں پہنچ کر) آپ نے انھیں حکم دیا کہ اس (نسک جس کے لیے وہ تلبیہ پکار رہے تھے) کو عمر ے میں بدل دیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی عشرہ ذوالحجہ کی چار تاریخ کو حج کا تلبیہ کہتے ہوئے پہنچے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں، اسے عمرہ بنا دینے کا حکم صادر فرمایا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا عبد بن حميد ، اخبرنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن ايوب ، عن ابي العالية ، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: " صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الصبح بذي طوى، وقدم لاربع مضين من ذي الحجة، وامر اصحابه ان يحولوا إحرامهم بعمرة، إلا من كان معه الهدي ".وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ بِذِي طَوًى، وَقَدِمَ لِأَرْبَعٍ مَضَيْنَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، وَأَمَرَ أَصْحَابَهُ أَنْ يُحَوِّلُوا إِحْرَامَهُمْ بِعُمْرَةٍ، إِلَّا مَنْ كَانَ مَعَهُ الْهَدْيُ ". معمر نے ہمیں ہمیں خبردی انھوں نے ایوب سے انھوں نے ابو عالیہ سے انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز ذی طوی میں ادا فر ما ئی اور ذوالحجہ کی چا ر راتیں گزری تھیں کہ تشریف لا ئے اور اپنے صحا بہ کرام حکم فرمایا کہ جس کے پاس قربانی ہے ان کے علاوہ باقی سب لو گ اپنے (حج کے) احرام کوعمرے میں بدل دیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز مقام ذو طویٰ میں پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار ذوالحجہ کو پہنچے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا، جس کے پاس قربانی نہیں ہے، وہ اپنے اس احرام کو عمرہ کا احرام قرار دیں لیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
محمد بن جعفر نے اور عبید اللہ بن معاذ نے اپنے والد کے واسطے سے حدیث بیان کی۔۔۔لفظ عبید اللہ کے ہیں۔۔۔کہا شعبہ نے ہمیں حدیث بیان کی، انھوں نے حکم سے، انھوں نے مجا ہد سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: "یہ عمرہ (اداہوا) ہے جس سے ہم نے فائدہ اٹھا لیا ہے (اب) جس کے پاس قربانی کا جا نور نہ ہو وہ مکمل طور پر حلال ہو جا ئے۔ (احرا م کھول دے) یقیناً (اب) قیامت کے دن تک کے لیے عمرہ حج میں داخل ہو گیا ہے (دونوں ایک ساتھ ادا کیے جا سکتے ہیں) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ عمرہ ہے جس سے ہم نے فائدہ اٹھا لیا ہے، (اس کے لیے الگ سفر نہیں کرنا پڑا) تو جس کے ساتھ قربانی نہیں ہے، وہ مکمل طور پر حلال ہو جائے (احرام کھول دے) کیونکہ عمرہ قیامت تک کے لیے حج میں داخل ہو چکا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا محمد بن المثنى ، وابن بشار ، قالا: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت ابا جمرة الضبعي ، قال: تمتعت فنهاني ناس عن ذلك، فاتيت ابن عباس فسالته عن ذلك، فامرني بها، قال: ثم انطلقت إلى البيت فنمت، فاتاني آت في منامي، فقال: " عمرة متقبلة وحج مبرور "، قال: فاتيت ابن عباس فاخبرته بالذي رايت، فقال: " الله اكبر الله اكبر سنة ابي القاسم صلى الله عليه وسلم ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا جَمْرَةَ الضُّبَعِيَّ ، قَالَ: تَمَتَّعْتُ فَنَهَانِي نَاسٌ عَنْ ذَلِكَ، فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَأَمَرَنِي بِهَا، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقْتُ إِلَى الْبَيْتِ فَنِمْتُ، فَأَتَانِي آتٍ فِي مَنَامِي، فَقَالَ: " عُمْرَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ وَحَجٌّ مَبْرُورٌ "، قَالَ: فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي رَأَيْتُ، فَقَالَ: " اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ سُنَّةُ أَبِي الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ". ابو حمزہ ضبعی نے کہا: میں نے حج تمتع (کا ارادہ) کیا تو (متعدد) لوگوں نے مجھے اس سے روکا، میں (اسی شش و پنج میں) ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور اس معاملے میں استفسارکیا تو انھوں نے مجھے اس (حج تمتع) کا حکم دیا۔کہا پھر میں اپنے گھر لوٹا اور آکر سو گیا، نیند میں دورا ن خواب میرے پاس ایک شخص آیا۔اور کہا (تمھا را) عمرہ قبول اور (تمھا را) حج مبرو (ہر عیب سےپاک) ہے۔انھوں نے کہا میں (دوباراہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حا ضر ہوا اور جو دیکھا تھا۔کہہ سنا یا۔وہ (خوشی سے) کہہ اٹھے (عربی۔۔۔۔۔۔۔۔۔) یہ ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے (تمھا را خواب اسی کی بشارت ہے) ابو جمرہ ضعبی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں، میں نے حج تمتع کا ارادہ کیا، تو لوگوں نے مجھے اس سے روکا، میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، تو انہیں نے مجھے حج تمتع کرنے کا مشورہ دیا، پھر میں بیت اللہ کی طرف چل پڑا، عمرہ کر کے سو گیا، تو خواب میں میرے پاس آنے والا (فرشتہ) آیا اور کہا، عمرہ قبول ہے، اور حج مبرور (ہر عیب و نقص اور جرم و گناہ سے پاک) ہے، میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر انہیں اپنے خواب سے آ گاہ کیا، انہوں نے کہا، اَللہُ اَکْبَر، اَللہُ اَکْبَر،
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|