كِتَاب الْحَجِّ حج کے احکام و مسائل The Book of Pilgrimage 26. بَابُ جَوَازِ التَّحَلُّلِ بِالْإِحْصَارِ وَجَوَازِ الْقِرَانِ وَاقْتِصَارِ الْقَارِنِ عَلٰي طَوَافٍ وَاحِدٍ وَسَعْيِ وَاحِدٍ باب: احصار کے وقت احرام کھولنے کا جواز، قران کا جواز اور قارن کے لئے ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی کا جواز۔ Chapter: It is permissible to exit Ihram if one is prevented from completing Hajj; It is permissible to perform Qiran and the pilgrim performing Qiran should perform just one Tawaf and one Sa'i وحدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن نافع ، ان عبد الله بن عمر رضي الله عنهما خرج في الفتنة معتمرا، وقال: إن صددت عن البيت صنعنا كما صنعنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فخرج فاهل بعمرة، وسار حتى إذا ظهر على البيداء التفت إلى اصحابه، فقال: " ما امرهما إلا واحد: اشهدكم اني قد اوجبت الحج مع العمرة "، فخرج حتى إذا جاء البيت طاف به سبعا، وبين الصفا والمروة سبعا، لم يزد عليه، وراى انه مجزئ عنه واهدى.وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا خَرَجَ فِي الْفِتْنَةِ مُعْتَمِرًا، وَقَالَ: إِنْ صُدِدْتُ عَنِ الْبَيْتِ صَنَعْنَا كَمَا صَنَعْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ فَأَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، وَسَارَ حَتَّى إِذَا ظَهَرَ عَلَى الْبَيْدَاءِ الْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: " مَا أَمْرُهُمَا إِلَّا وَاحِدٌ: أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ الْحَجَّ مَعَ الْعُمْرَةِ "، فَخَرَجَ حَتَّى إِذَا جَاءَ الْبَيْتَ طَافَ بِهِ سَبْعًا، وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ سَبْعًا، لَمْ يَزِدْ عَلَيْهِ، وَرَأَى أَنَّهُ مُجْزِئٌ عَنْهُ وَأَهْدَى. یحییٰ بن یحییٰ نے کہا: میں نے امام مالک کے سامنے (حدیث کی) قراءت کی، انھوں نے نافع سے روایت کی کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فتنے کے ایام میں عمرے کے لیے نکلے اور کہا: اگر مجھے بیت اللہ جا نے سے روک دیا گیا تو ہم ویسے ہی کریں گے جیسے ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کیا تھا۔وہ (مدینہ سے) نکلے اور (میقات سے) عمرے کا تلبیہ پکا را، اور چل پرے جب مقا م بیداء (کی بلندی) پر نمودار ہو ئے تو اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: "دونوں (حج وعمرہ) کا معاملہ ایک ہی جیسا ہے۔میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے عمرے کے ساتھ حج کی نیت بھی کر لی ہے۔پھر آپ نکل پڑے حتی کہ بیت اللہ پہنچے تو اس کے (گرد) سات چکر لگا ئے۔ اور صفامروہ کے مابین بھی سات چکر پو رے کیے، ان پر کوئی اضافہ نہیں کیا۔ان کی را ئے تھی کہ یہی (ایک طواف اور ایک سعی) ان کی طرف سے کا فی ہے اور (بعدازاں) انھوں نے (حج قران ہو نے کی بنا پر) قربانی کی۔ نافع سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فتنہ کے دور میں عمرہ کرنے کے لیے نکلے، اور فرمایا: اگر مجھے بیت اللہ پہنچنے سے روک دیا گیا، تو ہم اس طرح کریں گے، جیسا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں کیا تھا، وہ (مدینہ) سے نکلے اور (میقات سے) عمرہ کا احرام باندھا اور چل دئیے، جب مقام بیداء پر پہنچے، اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا، حج اور عمرہ کا معاملہ یکساں ہے، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے عمرہ کے ساتھ حج کی بھی نیت کر لی ہے، پھر چل پڑے، جب بیت اللہ پہنچے تو اس کے سات چکر لگائے اور صفا اور مروہ کے درمیان بھی سات چکر لگائے، اس پر کوئی اضافہ نہیں کیا، ان کی رائے میں ان کے لیے یہی کافی تھا، اور انہوں نے قربانی کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا يحيى وهو القطان ، عن عبيد الله ، حدثني نافع ، ان عبد الله بن عبد الله ، وسالم بن عبد الله ، كلما عبد الله حين نزل الحجاج لقتال ابن الزبير، قالا: لا يضرك ان لا تحج العام، فإنا نخشى ان يكون بين الناس قتال، يحال بينك وبين البيت، قال: فإن حيل بيني وبينه فعلت كما فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا معه، حين حالت كفار قريش بينه وبين البيت، اشهدكم اني قد اوجبت عمرة، فانطلق حتى اتى ذا الحليفة فلبى بالعمرة، ثم قال: إن خلي سبيلي قضيت عمرتي، وإن حيل بيني وبينه فعلت كما فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا معه، ثم تلا لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة سورة الاحزاب آية 21 ثم سار حتى إذا كان بظهر البيداء قال: " ما امرهما إلا واحد، إن حيل بيني وبين العمرة، حيل بيني وبين الحج، اشهدكم اني قد اوجبت حجة مع عمرة "، فانطلق حتى ابتاع بقديد هديا، ثم طاف لهما طوافا واحدا بالبيت وبين الصفا والمروة، ثم لم يحل منهما، حتى حل منهما بحجة يوم النحر،وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا يَحْيَى وَهُوَ الْقَطَّانُ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، وَسَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، كَلَّمَا عَبْدَ اللَّهِ حِينَ نَزَلَ الْحَجَّاجُ لِقِتَالِ ابْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَا: لَا يَضُرُّكَ أَنْ لَا تَحُجَّ الْعَامَ، فَإِنَّا نَخْشَى أَنْ يَكُونَ بَيْنَ النَّاسِ قِتَالٌ، يُحَالُ بَيْنَكَ وَبَيْنَ الْبَيْتِ، قَالَ: فَإِنْ حِيلَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ فَعَلْتُ كَمَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ، حِينَ حَالَتْ كُفَّارُ قُرَيْشٍ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ، أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ عُمْرَةً، فَانْطَلَقَ حَتَّى أَتَى ذَا الْحُلَيْفَةِ فَلَبَّى بِالْعُمْرَةِ، ثُمَّ قَالَ: إِنْ خُلِّيَ سَبِيلِي قَضَيْتُ عُمْرَتِي، وَإِنْ حِيلَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ فَعَلْتُ كَمَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ، ثُمَّ تَلَا لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ سورة الأحزاب آية 21 ثُمَّ سَارَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِظَهْرِ الْبَيْدَاءِ قَالَ: " مَا أَمْرُهُمَا إِلَّا وَاحِدٌ، إِنْ حِيلَ بَيْنِي وَبَيْنَ الْعُمْرَةِ، حِيلَ بَيْنِي وَبَيْنَ الْحَجِّ، أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ حَجَّةً مَعَ عُمْرَةٍ "، فَانْطَلَقَ حَتَّى ابْتَاعَ بِقُدَيْدٍ هَدْيًا، ثُمَّ طَافَ لَهُمَا طَوَافًا وَاحِدًا بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ لَمْ يَحِلَّ مِنْهُمَا، حَتَّى حَلَّ مِنْهُمَا بِحَجَّةٍ يَوْمَ النَّحْرِ، عبید اللہ سے روایت ہے کہا: مجھے نافع نے حدیث بیان کی کہ جس سال حجاج بن یوسف نے حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے لڑائی کرنے کے لیے مکہ میں پڑاؤ کیا تو عبد اللہ بن عبد اللہ اور سالم بن عبد اللہ نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے گفتگو کی کہ اگر آپ اس سال حج نہ فرمائیں تو کوئی حرج نہیں ہمیں اندیشہ ہے کہ لوگوں (حجاج بن یوسف اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی فوجوں) کے درمیان جنگ ہو گی اور آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان رکاوٹ حائل ہو جا ئے گی (آپ بیت اللہ تک پہنچ نہیں پائیں گے) انھوں نے فرمایا: "اگر میرے اور بیت اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ آگئی تو میں وہی کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا (اس موقع پر) میں بھی آپ کے ساتھ (شریک سفر) تھا جب قریش مکہ آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان حا ئل ہو گئے تھے میں تمھیں گواہ بنا تا ہوں کہ میں نے عمرے کی نیت کر لی ہے۔ (پھر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ) نکلے جب ذوالحلیفہ پہنچے تو عمرے کا تلبیہ پکارا پھر فرمایا: " اگر میرا راستہ خالی رہا تو میں اپنا عمرہ مکمل کروں گا اور اگر میرے اور بیت اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ پیدا ہو گئی تو میں وہی کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا جب میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔پھر (ابن عمر رضی اللہ عنہ نے) یہ آیت تلاوت فرمائی۔"لَّقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللَّـہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ"یقیناً تمھا رے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے عمل) میں بہترین نمونہ ہے۔"پھر (حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ) چل پڑے جب مقام بیداء کی بلندی پر پہنچے تو فرمایا: "ان دونوں (حج و عمرہ) کا حکم ایک جیسا ہے۔اگر میرے اور عمرے کے درمیان کوئی رکاوٹ حائل ہو گئی تو (وہی رکا وٹ) میرے اور میرے حج کے درمیان حائل ہو گی۔میں تمھیں گواہ ٹھہراتا ہوں کہ میں نے اپنے عمرے کے ساتھ حج بھی لازم ٹھہرا لیا ہے آپ چلتے رہے حتی کہ مقام قدید آپ نے قربانی کے اونٹ خریدے، پھر آپ نے ان دونوں (حج اور عمرے) کے لیے بیت اللہ اور صفا و مروہ کا ایک (ہی) طواف کیا، اور ان دونوں کے لیے جو احرا م باندھا تھا اسے نہ کھولا یہاں تک کہ قربانی کے دن حج (مکمل) کر کے دونوں کے احرا م سے فارغ ہوئے۔ نافع بیان کرتے ہیں، جن دنون حجاج، حضرت ابن زبیر رضی الله تعالیٰ عنہ سے جنگ کے لیے مکہ پہنچا تھا، عبداللہ بن عبداللہ اور سالم بن عبداللہ نے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بات چیت کی، دونوں نے عرض کیا، اگر آپ اس سال حج نہ کریں، تو کوئی مضائقہ نہیں ہے، کیونکہ ہمیں اندیشہ ہے، لوگوں میں جنگ ہو گی، جو آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہو گی، تو انہوں نے جواب دیا، اگر میرے اور بیت اللہ کے درمیان رکاوٹ کھڑی ہوئی، تو میں ویسے ہی کروں گا، جیسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تھا، جبکہ قریش آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوئے تھے، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں، میں نے عمرہ کی نیت کر لی ہے، پھر وہ (مدینہ سے) چل پڑے جب ذوالحلیفہ پہنچے تو عمرہ کا تلبیہ کہا، پھر کہا، اگر میرا راستہ چھوڑ دیا گیا، تو میں اپنا عمرہ ادا کروں گا، اور اگر میرے اور عمرہ کے درمیان رکاوٹ کھڑی کر دی گئی تو ویسے کروں گا جیسا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تھا، پھر یہ آیت پڑھی: ﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہترین نمونہ ہیں۔) پھر چل پڑے، جب مقام بیداء کی پشت پر پہنچے، کہنے لگے دونوں (حج اور عمرہ) کا معاملہ یکساں ہی ہے، اگر میرے اور عمرہ کے درمیان رکاوٹ پیدا ہوئی، تو میرے اور حج کے درمیان بھی رکاوٹ پیدا ہو گی، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں، میں نے عمرہ کے ساتھ حج کو بھی لازم کر لیا ہے، پھر چل پڑے، حتی کہ مقام قُدَيد سے ہدی خرید لی، پھر دونوں کے لیے (حج اور عمرہ کے لیے) بیت اللہ اور صفا و مروہ کا ایک ہی طواف کیا، پھر دونوں سے اس وقت تک حلال نہیں ہوئے، حتی کہ دونوں سے حج کر کے نحر کے دن حلال ہو گئے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثناه ابن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا عبيد الله ، عن نافع ، قال: اراد ابن عمر الحج حين نزل الحجاج بابن الزبير، واقتص الحديث بمثل هذه القصة، وقال في آخر الحديث: وكان يقول: " من جمع بين الحج والعمرة كفاه طواف واحد، ولم يحل حتى يحل منهما جميعا ".وحَدَّثَنَاه ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ: أَرَادَ ابْنُ عُمَرَ الْحَجَّ حِينَ نَزَلَ الْحَجَّاجُ بِابْنِ الزُّبَيْرِ، وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ هَذِهِ الْقِصَّةِ، وَقَالَ فِي آخِرِ الْحَدِيثِ: وَكَانَ يَقُولُ: " مَنْ جَمَعَ بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ كَفَاهُ طَوَافٌ وَاحِدٌ، وَلَمْ يَحِلَّ حَتَّى يَحِلَّ مِنْهُمَا جَمِيعًا ". ابن نمیر نے ہمیں حدیث سنائی، (کہا:) ہمیں میرے والد (عبداللہ) نے عبیداللہ سے، انھوں نے نافع سے روایت کی، کہا: حضرت عبداللہ (بن عمر رضی اللہ عنہ) نے اس موقع پر حجاج بن یوسف، ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں اترا، حج کااردہ کیا۔ (ابن نمیر نے پوری) حدیث (یحییٰ قطان کے) اس قصے کی طرح بیان کی۔البتہ حدیث کے آخر میں کہا کہ (ابن عمر رضی اللہ عنہ) یہ کہا کرتے تھے: جو شخص حج وعمرہ اکھٹا (حج قران کی صورت میں) ادا کرے تو اسے ایک ہی طواف کافی ہے۔اور وہ اس وقت ک احرام سے فارغ نہیں ہوگا جب تک دونوں سے فارغ نہ ہوجائے۔ نافع بیان کرتے ہیں، جس سال حجاج، ابن زبیر رضي الله تعاليٰ عنه سے جنگ کے لیے آیا، حضرت ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے حج کا ارادہ کیا، اور مذکورہ بالا واقعہ بیان کیا، حدیث کے آخر میں ہے، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے، جس نے حج اور عمرہ اکٹھا کیا، اس کے لیے ایک طواف کافی ہے، اور وہ اس وقت حلال نہیں ہو گا، جب تک دونوں سے حلال نہ ہو جائے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا محمد بن رمح ، اخبرنا الليث . ح وحدثنا قتيبة واللفظ له، حدثنا ليث ، عن نافع ، ان ابن عمر اراد الحج عام نزل الحجاج بابن الزبير، فقيل له: إن الناس كائن بينهم قتال، وإنا نخاف ان يصدوك، فقال: " لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة، اصنع كما صنع رسول الله صلى الله عليه وسلم، إني اشهدكم اني قد اوجبت عمرة "، ثم خرج حتى إذا كان بظاهر البيداء، قال: ما شان الحج والعمرة إلا واحد اشهدوا، قال ابن رمح: اشهدكم اني قد اوجبت حجا مع عمرتي واهدى هديا اشتراه بقديد، ثم انطلق يهل بهما جميعا حتى قدم مكة، فطاف بالبيت وبالصفا والمروة ولم يزد على ذلك، ولم ينحر ولم يحلق ولم يقصر ولم يحلل من شيء حرم منه، حتى كان يوم النحر فنحر وحلق، وراى ان قد قضى طواف الحج والعمرة بطوافه الاول، وقال ابن عمر: كذلك فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم "،وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ أَرَادَ الْحَجَّ عَامَ نَزَلَ الْحَجَّاجُ بِابْنِ الزُّبَيْرِ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ النَّاسَ كَائِنٌ بَيْنَهُمْ قِتَالٌ، وَإِنَّا نَخَافُ أَنْ يَصُدُّوكَ، فَقَالَ: " لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ، أَصْنَعُ كَمَا صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنِّي أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ عُمْرَةً "، ثُمَّ خَرَجَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِظَاهِرِ الْبَيْدَاءِ، قَالَ: مَا شَأْنُ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ إِلَّا وَاحِدٌ اشْهَدُوا، قَالَ ابْنُ رُمْحٍ: أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ حَجًّا مَعَ عُمْرَتِي وَأَهْدَى هَدْيًا اشْتَرَاهُ بِقُدَيْدٍ، ثُمَّ انْطَلَقَ يُهِلُّ بِهِمَا جَمِيعًا حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ، فَطَافَ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَلَمْ يَزِدْ عَلَى ذَلِكَ، وَلَمْ يَنْحَرْ وَلَمْ يَحْلِقْ وَلَمْ يُقَصِّرْ وَلَمْ يَحْلِلْ مِنْ شَيْءٍ حَرُمَ مِنْهُ، حَتَّى كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ فَنَحَرَ وَحَلَقَ، وَرَأَى أَنْ قَدْ قَضَى طَوَافَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ بِطَوَافِهِ الْأَوَّلِ، وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: كَذَلِكَ فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، محمد بن رمح اورقتیبہ نے لیث سے، انھوں نے نافع سے روایت کی کہ جس سال حجاج بن یوسف، ابن سال حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے حج کا قصد فرمایا، ان سے کہا گیا: لوگوں کے مابین تو لڑائی ہونے والی ہے، ہمیں خدشہ ہے کہ وہ آپ کو (بیت اللہ سے پہلے ہی) روک دیں گے۔انھوں نے فرمایا: بلا شبہ تمھارے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں بہترین نمونہ ہے۔میں اس طرح کروں گا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےکیا تھا۔میں تمھیں گواہ ٹھراتا ہوں کہ میں نے (خود پر) عمرہ واجب کرلیا ہے۔پھرروانہ ہوئے، جب مقام بیداء کی بلندی پر پہنچے تو فرمایا: (کسی رکاوٹ کے باعث بیت اللہ تک نہ پہنچ سکنے کے لحاظ سے) حج وعمرے کا معاملہ یکساں ہی ہے۔ (لوگو!) تم گواہ رہو۔ابن رمح کی روایت ہے: میں تمھیں گواہ بناتا ہوں۔میں نے اپنے عمرے کے ساتھ حج بھی خود پرواجب کرلیا ہے۔اور وہ قربانی جو مقام قدید سے خریدی تھی اسے ساتھ لیا۔اور حج اور عمرہ دونوں کاتلبیہ پکارتے ہوئے آگے بڑھے، حتیٰ کہ مکہ آپہنچے، وہاں آپ نے بیت اللہ کا اورصفا مروہ کا طواف کیا۔اس سے زیادہ (کوئی اور طواف) نہیں کیا، نہ قربانی کی نہ بال منڈوائے، نہ کتروائے اور نہ کسی ایسی ہی چیز کو اپنےلئے حلال قرار دیا جو (احرام کی وجہ سے آپ پر) حرام تھی۔یہاں تک کہ جب نحر کادن (دس ذوالحجہ) آیاتو آپ نے قربانی کی اور سرمنڈایا۔ان (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ) کی رائے یہی تھی کہ انھوں نے اپنے طواف کے ذریعے سے حج وعمرے (دونوں) کاطواف مکمل کرلیا ہے۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تھا (ایک طواف کے ساتھ سعی کی) نافع سے روایت ہے کہ جس سال حجاج، ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابلہ میں اترا، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حج کرنے کا ارادہ کیا، تو ان سے عرض کیا گیا، لوگوں میں جنگ ہونے والی ہے، اور ہمیں خطرہ ہے کہ وہ آپ کو بیت اللہ تک پہنچنے سے روک دیں گے، تو انہوں نے جواب دیا، (تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہترین نمونہ ہیں) میں ویسے کروں گا، جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں، میں نے عمرہ کی نیت کر لی ہے، پھر چل پڑے حتی کہ جب مقام بیداء کی بلندی پر پہنچے، کہنے لگے، حج اور عمرہ کی صورت حال یکساں ہی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا ابو الربيع الزهراني ، وابو كامل ، قالا: حدثنا حماد . ح وحدثني زهير بن حرب ، حدثني إسماعيل كلاهما، عن ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر بهذه القصة، ولم يذكر النبي صلى الله عليه وسلم، إلا في اول الحديث حين قيل له يصدوك عن البيت، قال: إذا افعل كما فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولم يذكر في آخر الحديث: هكذا فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم، كما ذكره الليث.حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، وَأَبُو كَامِلٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ . ح وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيل كِلَاهُمَا، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، وَلَمْ يَذْكُرِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلَّا فِي أَوَّلِ الْحَدِيثِ حِينَ قِيلَ لَهُ يَصُدُّوكَ عَنِ الْبَيْتِ، قَالَ: إِذًا أَفْعَلَ كَمَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِي آخِرِ الْحَدِيثِ: هَكَذَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَمَا ذَكَرَهُ اللَّيْثُ. ایوب نے نافع سے، انھوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے یہی قصہ روایت کیا ہے، البتہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر صرف حدیث کی ابتداء میں کیا کہ جب ان سے کہا گیا کہ وہ آپ کو بیت اللہ (تک پہنچنے) سے روک دیں گے، انھوں نے کہا: میں اسی طرح کروں گا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔اورحدیث کے آخر میں یہ نہیں کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تھا جیسا کہ لیث نے کہا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ واقعہ بیان کرتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ صرف حدیث کے آغاز میں کیا ہے جب ان سے کہا گیا کہ وہ آپ کو بیت اللہ سے روک دیں گے تو کہا تب میں ویسے کروں گا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا اور حدیث کے آخر میں یہ بھی نہیں کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی کیا تھا لیث نے اس کا تذکرہ کیا تھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|