كِتَاب الْحَجِّ حج کے احکام و مسائل The Book of Pilgrimage 28. باب مَا يَلْزَمُ مَنْ أَحْرَمَ بِالْحَجِّ ثُمَّ قَدِمَ مَكَّةَ مِنَ الطَّوَافِ وَالسَّعْيِ بعده: باب: حاجی کے لئے طواف قدوم اور اس کے بعد سعی کرنے کا استحباب۔ Chapter: It is recommended for the pilgrim to perform Tawaf Al-Qudum and As-Sa'i after it حدثنا يحيى بن يحيى ، اخبرنا عبثر ، عن إسماعيل بن ابي خالد ، عن وبرة ، قال: كنت جالسا عند ابن عمر، فجاءه رجل، فقال: ايصلح لي ان اطوف بالبيت قبل ان آتي الموقف؟، فقال: نعم، فقال: فإن ابن عباس، يقول: لا تطف بالبيت حتى تاتي الموقف، فقال ابن عمر : " فقد حج رسول الله صلى الله عليه وسلم فطاف بالبيت قبل ان ياتي الموقف، فبقول رسول الله صلى الله عليه وسلم احق ان تاخذ، او بقول ابن عباس إن كنت صادقا ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا عَبْثَرٌ ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ وَبَرَةَ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ، فَجَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: أَيَصْلُحُ لِي أَنْ أَطُوفَ بِالْبَيْتِ قَبْلَ أَنْ آتِيَ الْمَوْقِفَ؟، فَقَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ: فَإِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: لَا تَطُفْ بِالْبَيْتِ حَتَّى تَأْتِيَ الْمَوْقِفَ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : " فَقَدْ حَجَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَ الْمَوْقِفَ، فَبِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَقُّ أَنْ تَأْخُذَ، أَوْ بِقَوْلِ ابْنِ عَبَّاسٍ إِنْ كُنْتَ صَادِقًا ". اسماعیل بن ابی خالد نے وبرہ سے روایت کی، کہا: میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ان کے پاس ایک شخص آیا، اس نے پوچھا: کیا عرفات پہنچنے سے پہلے میں بیت اللہ کا طواف کرسکتا ہوں؟انھوں نے جواب دیا، ہاں (کرسکتے ہو) اس نے کہا: ابن عباس رضی اللہ عنہ نے تو کہا ہے کہ عرفہ پہنچنے سے قبل بیت اللہ کا طواف نہ کرنا۔ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اسے جواب دیا: (سنو!) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حج فرمایا تو آپ نے میدان عرفات پہنچنے سے قبل بیت اللہ کا طواف کیاتھا۔ (اب سوچو) کہ تم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ا پناؤ یہ زیادہ حق ہے؟یا یہ کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول؟اگر تم (ان کے بارے میں) سچ کہہ رہے ہو۔ وبرہ سے روایت ہے کہ میں ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، کہ ایک شخص نے آ کر پوچھا، کیا عرفات میں وقوف سے پہلے میرے لیے بیت اللہ کا طواف کرنا درست ہے، انہوں نے جواب دیا، ہاں۔ تو اس آدمی نے کہا، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، عرفات پہنچنے سے پہلے بیت اللہ کا طواف نہ کر، تو ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا، اور عرفات جانے سے پہلے بیت اللہ کا طواف کیا، تو کیا تیرے لیے، اگر تیرا، دعویٰ ایمان سچا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو اختیار کرنا صحیح ہے یا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا جرير ، عن بيان ، عن وبرة ، قال: سال رجل ابن عمر رضي الله عنهما: اطوف بالبيت وقد احرمت بالحج؟، فقال: وما يمنعك؟، قال: إني رايت ابن فلان يكرهه، وانت احب إلينا منه، رايناه قد فتنته الدنيا، فقال: واينا او ايكم لم تفتنه الدنيا، ثم قال: " راينا رسول الله صلى الله عليه وسلم احرم بالحج، وطاف بالبيت وسعى بين الصفا والمروة، فسنة الله وسنة رسوله صلى الله عليه وسلم احق ان تتبع من سنة فلان إن كنت صادقا ".وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ بَيَانٍ ، عَنْ وَبَرَةَ ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَطُوفُ بِالْبَيْتِ وَقَدْ أَحْرَمْتُ بِالْحَجِّ؟، فَقَالَ: وَمَا يَمْنَعُكَ؟، قَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ ابْنَ فُلَانٍ يَكْرَهُهُ، وَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيْنَا مِنْهُ، رَأَيْنَاهُ قَدْ فَتَنَتْهُ الدُّنْيَا، فَقَالَ: وَأَيُّنَا أَوْ أَيُّكُمْ لَمْ تَفْتِنْهُ الدُّنْيَا، ثُمَّ قَالَ: " رَأَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْرَمَ بِالْحَجِّ، وَطَافَ بِالْبَيْتِ وَسَعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَسُنَّةُ اللَّهِ وَسُنَّةُ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَقُّ أَنْ تَتَّبِعَ مِنْ سُنَّةِ فُلَانٍ إِنْ كُنْتَ صَادِقًا ". بیان نے وبرہ سے روایت کی، کہا: ایک شخص نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا: میں نےحج کا احرام باندھا ہے، تو کیا میں بیت اللہ کاطواف کرلوں؟انھوں نے فرمایا: (ہاں) تمھیں کیا مانع ہے؟اس نے کہا: میں نے ابن فلاں (ابن عباس رضی اللہ عنہ) کو دیکھا ہے کہ وہ اسے ناپسندکرتے ہیں اور آپ ہمیں ان سے زیادہ محبوب ہیں ہم نے دیکھا ہے کہ دنیا نے انھیں فتنے میں ڈال دیا ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم میں سے کون یاتم میں سے کون۔جسے دنیا نے فتنے میں نہیں ڈالا؟ (تم ان پر دنیا داری کا اعتراض نہ کرو،) پھر فرمایا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ نے حج کااحرام باندھا، بیت اللہ کاطواف کیا اور صفا مروہ کی سعی فرمائی، (اب سوچو) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی پیروی کا زیادہ حق ہے۔یافلاں کے راستے کا کہ اس کی اتباع کی جائے؟اگر تم سچ کہہ رہے ہو۔ وبرہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی نے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا، میں نے حج کا احرام باندھا ہے، تو کیا میں بیت اللہ کا طواف کروں؟ انہوں نے فرمایا: تیرے لیے کیا رکاوٹ ہے؟ اس نے کہا، میں نے فلاں کے بیٹے کو دیکھا ہے، وہ اسے ناپسند کرتا ہے، اور آپ ہمیں اس سے زیادہ محبوب ہیں۔ کیونکہ انہیں ہم نے دنیا کی آزمائش میں پڑتے دیکھا ہے، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، ہم میں سے یا تم میں سے کون دنیا کے فتنہ میں مبتلا نہیں ہے؟ پھر فرمایا، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا احرام باندھا، اور بیت اللہ کا طواف کر کے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی، اگر تم دعویٰ ایمان میں سچے ہو تو تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کا طریقہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ، فلاں کے طریقہ سے اتباع کے زیادہ لائق ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني زهير بن حرب ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن عمرو بن دينار ، قال: سالنا ابن عمر عن رجل قدم بعمرة فطاف بالبيت ولم يطف بين الصفا والمروة، اياتي امراته؟، فقال: " قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فطاف بالبيت سبعا، وصلى خلف المقام ركعتين، وبين الصفا والمروة سبعا، وقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة "،حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، قَالَ: سَأَلْنَا ابْنَ عُمَرَ عَنْ رَجُلٍ قَدِمَ بِعُمْرَةٍ فَطَافَ بِالْبَيْتِ وَلَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، أَيَأْتِي امْرَأَتَهُ؟، فَقَالَ: " قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا، وَصَلَّى خَلْفَ الْمَقَامِ رَكْعَتَيْنِ، وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ سَبْعًا، وَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ "، سفیان بن عینیہ نے عمرو بن دینار سے حدیث بیان کی، کہا: ہم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اس شخص کے متعلق پوچھا جو عمرے کی غرض سے آیا، اس نے بیت اللہ کاطواف کرلیا (لیکن ابھی) صفا مروہ کی سعی نہیں کی، کیا وہ اپنی بیوی سے صحبت کرسکتا ہے؟انھوں نے فرمایا: (جب) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے تو آپ نے بیت اللہ کا سات بار طواف کیا، مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعتیں ادا فرمائیں، اور (پھر) صفا مروہ کے درمیان سات بار چکر لگائے۔اور (یاد رکھو) تمھارے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (کے طریقے) میں بہترین نمونہ ہے۔ عمرو بن دینار بیان کرتے ہیں، ہم نے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایسے آدمی کے بارے میں سوال کیا، جو مکہ آ کر عمرہ کرنا چاہتا ہے، اس نے بیت اللہ کا طواف کر لیا، لیکن صفا اور مروہ کی سعی نہیں کی، کیا وہ اپنی بیوی سے تعلقات قائم کر سکتا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لائے، بیت اللہ کے سات چکر لگائے اور مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز ادا کی، اور صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر لگائے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لیے بہترین نمونہ ہیں، (کوئی انسان سعی سے پہلے احرام نہیں کھول سکتا)۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حماد بن زید اور ابن جریج دونوں نے عمرو بن دینار کے واسطے سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ابن عینیہ کی (گزشتہ) حدیث کے مانند روایت بیان کی۔ امام صاحب مذکورہ بالا روایت اپنے تین اور اساتذہ سے بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|