كِتَاب الْحَجِّ حج کے احکام و مسائل The Book of Pilgrimage 8. باب تَحْرِيمِ الصَّيْدِ الْمَأُكُولِ الْبَرِّيِّ، وَمَا أَصْلُهُ ذٰلِكَ عَلَي الْمُحْرِمِ بِحَجُ أَوُ عمْرَةٍ أَوْ بِهِمَا باب: حج یا عمرہ یا ان دونوں کا احرام باندھنے والے پر خشکی کا شکار کرنے کی حرمت کا بیان۔ Chapter: The prohibition of hunting game for the one who has entered Ihram for Hajj or for Umrah or for both مالک نے ابن شہاب سے انھوں نے عبید اللہ بن عبد اللہ سے انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے انھوں نے صعب بن جثامہ لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انھوں نے آپ کو ایک زیبراہدیتاً پیش کیا آپ ابو اء یاودان مقام پر تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کر دیا (انھوں نے) کہا: جب رسول اللہ نے میرے چہرے کی کیفیت دیکھی تو فرمایا: بلا شبہ ہم نے تمھا را ہدیہ رد نہیں کیا لیکن ہم حالت احرا م میں ہیں (اس لیے اسے نہیں کھا سکتے۔) حضرت صعب بن جثامہ لیثی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگلی گدھا پیش کیا، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابواء یا ودان میں تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کر دیا، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے چہرے کی کیفیت (ملال) کو دیکھا تو فرمایا: ”ہم نے صرف اس بنا پر اسے تجھے واپس کیا ہے کہ ہم محرم ہیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
لیث بن سعد معمر اور ابو صالح ان سب نے زہری سے اسی سند کے ساتھ روایت کی (کہ حضرت صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ نے کہا) میں نےآپ کو ایک زیبرا ہدایتاً پیش کیا جس طرح مالک کے الفاظ ہیں اور لیث اور صالح کی روایت میں (یوں) ہے کہ صعب بن جثامہ نے انھیں (ابن عباس رضی اللہ عنہ کو) خبر دی۔ امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ سے حضرت صعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں کہ میں نے آپٗ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگلی گدھا پیش کیا، آگے مذکورہ بالا واقعہ ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
سفیان بن عیینہ نے زہری سے اسی سند کے ساتھ روایت کی اور کہا: میں نے آپ کو زیبرے کا گو شت ہدیتاً پیش کیا۔ امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں اور اس میں ہے، میں نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو جنگلی گدھے کا گوشت پیش کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
اعمش نے حبیب بن ابی ثابت سے انھوں نے سعید بن جبیر سے انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہا صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیتاً زبیراپیش کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرا م میں تھے سو آپ نے اسے لو ٹا دیا اور فرمایا: اگر ہم احرا م کی حالت میں نہ ہو تے تو ہم اسے تمھا ری طرف سے (ضرور) قبول کرتے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت صعب بن جثامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگلی گدھا بطور تحفہ پیش کیا، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم محرم تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کر دیا اور فرمایا: ”اگر ہم محرم نہ ہوتے تو اسے قبول کر لیتے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
منصور نے حکم سے اسی طرح شعبہ نے حکم کے واسطے سے اور واسطے کے بغیر (براہ راست) بھی حبیب سے انھوں نے سعید بن جبیر سے اور انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔حکم سے منصور کی روایت کے الفاظ ہیں کہ صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زیبے کی ران ہدیتاً پیش کی۔ حکم سے شعبہ کی روایت کے الفاظ ہیں زیبرے کا پچھلا دھڑپیش کیا جس سے خون ٹپک رہا تھا۔ اور حبیب سے شعبہ کی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زیبرے کا (ایک جانب کا) آدھا حصہ ہدیہ کیا گیا تو آپ نے اسے واپس کر دیا۔ امام صاحب مذکورہ بالا روایت اپنے مختلف اساتذہ سے پیش کرتے ہیں، حکم سے منصور بیان کرتے ہیں کہ صعب بن جثامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگلی گدھے کی ٹانگ تحفتا پیش کی اور شعبہ کہتے ہیں، جنگلی گدھے کا عَجُز (پچھلا دھڑ) پیش کیا، جس سے خون بہہ رہا تھا اور شعبہ دوسرے استاد حبیب سے نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگلی گدھے کا آدھا یا ایک پہلو پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رد کر دیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني زهير بن حرب ، حدثنا يحيى بن سعيد ، عن ابن جريج ، قال: اخبرني الحسن بن مسلم ، عن طاوس ، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: قدم زيد بن ارقم، فقال له عبد الله بن عباس يستذكره: كيف اخبرتني عن لحم صيد اهدي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو حرام؟، قال: قال: اهدي له عضو من لحم صيد فرده، فقال: " إنا لا ناكله إنا حرم ".وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَدِمَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ يَسْتَذْكِرُهُ: كَيْفَ أَخْبَرْتَنِي عَنْ لَحْمِ صَيْدٍ أُهْدِيَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ حَرَامٌ؟، قَالَ: قَالَ: أُهْدِيَ لَهُ عُضْوٌ مِنْ لَحْمِ صَيْدٍ فَرَدَّهُ، فَقَالَ: " إِنَّا لَا نَأْكُلُهُ إِنَّا حُرُمٌ ". طاوس نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہا: (ایک بار) زید بن ارقم رضی اللہ عنہ تشریف لا ئے تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے انھیں یاد کراتے ہو ئے کہا: آپ نے مجھے اس شکار کے گو شت کے متعلق کس طرح بتا یا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احرا م کی حالت میں ہدیتاً پیش کیا گیا تھا؟ (طاوس نے) کہا (زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے) بتا یا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شکار کے گو شت کا ایک ٹکڑا پیش کیا گیا تو آپ نے اسے واپس کر دیا اور فرمایا: ہم اسے نہیں کھا سکتے (کیونکہ) ہم احرا م میں ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے یاد داشت کے لیے پوچھا، آپ نے مجھے شکار کے اس گوشت کے بارے میں کیا بتایا تھا، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو محرم ہونے کی حالت میں ہدیۃ پیش کیا گیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گوشت کا ایک ٹکڑا یا ایک عضو ہدیۃ پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رد کر دیا اور فرمایا: ”ہم اسے کھا نہیں سکتے کیونکہ ہم محرم ہیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا سفيان ، عن صالح بن كيسان . ح وحدثنا ابن ابي عمر واللفظ له، حدثنا سفيان ، حدثنا صالح بن كيسان ، قال: سمعت ابا محمد مولى ابي قتادة، يقول: سمعت ابا قتادة ، يقول: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى إذا كنا بالقاحة فمنا المحرم ومنا غير المحرم، إذ بصرت باصحابي يتراءون شيئا، فنظرت فإذا حمار وحش، فاسرجت فرسي واخذت رمحي، ثم ركبت فسقط مني سوطي، فقلت لاصحابي وكانوا محرمين: ناولوني السوط، فقالوا: والله لا نعينك عليه بشيء، فنزلت فتناولته، ثم ركبت فادركت الحمار من خلفه، وهو وراء اكمة، فطعنته برمحي فعقرته، فاتيت به اصحابي، فقال بعضهم: كلوه، وقال بعضهم: لا تاكلوه، وكان النبي صلى الله عليه وسلم امامنا، فحركت فرسي فادركته، فقال: " هو حلال فكلوه ".وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مُحَمَّدٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا قَتَادَةَ ، يَقُولُ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْقَاحَةِ فَمِنَّا الْمُحْرِمُ وَمِنَّا غَيْرُ الْمُحْرِمِ، إِذْ بَصُرْتُ بِأَصْحَابِي يَتَرَاءَوْنَ شَيْئًا، فَنَظَرْتُ فَإِذَا حِمَارُ وَحْشٍ، فَأَسْرَجْتُ فَرَسِي وَأَخَذْتُ رُمْحِي، ثُمَّ رَكِبْتُ فَسَقَطَ مِنِّي سَوْطِي، فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي وَكَانُوا مُحْرِمِينَ: نَاوِلُونِي السَّوْطَ، فَقَالُوا: وَاللَّهِ لَا نُعِينُكَ عَلَيْهِ بِشَيْءٍ، فَنَزَلْتُ فَتَنَاوَلْتُهُ، ثُمَّ رَكِبْتُ فَأَدْرَكْتُ الْحِمَارَ مِنْ خَلْفِهِ، وَهُوَ وَرَاءَ أَكَمَةٍ، فَطَعَنْتُهُ بِرُمْحِي فَعَقَرْتُهُ، فَأَتَيْتُ بِهِ أَصْحَابِي، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: كُلُوهُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا تَأْكُلُوهُ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَامَنَا، فَحَرَّكْتُ فَرَسِي فَأَدْرَكْتُهُ، فَقَالَ: " هُوَ حَلَالٌ فَكُلُوهُ ". صالح بن کیسان نے کہا: میں نے ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کے مولیٰ ابو محمد سے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ میں ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہو ئے سنا، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے حتی کہ جب ہم (مدینہ سے تین منزل دو ر وادی) قاحہ میں تھے تو ہم میں سے بعض احرا م کی حا لت میں تھے اور کوئی بغیر احرام کے تھا۔اچا نک میری نگا ہ اپنے ساتھیوں پر پڑی تو وہ ایک دوسرے کو کچھ دکھا رہے تھے میں نے دیکھا تو ایک زیبرا تھا میں نے (فوراً) اپنے گھوڑے پر زین کسی اپنا نیز ہ تھا مااور سوار ہو گیا۔ (جلدی میں) مجھ سے میرا کو ڑا گر گیا میں نے اپنے ساتھیوں سے جو احرا م باند ھے ہو ئے تھے کہا: مجھے کو ڑا پکڑا دو انھوں نے کہا: اللہ کی قسم!ہم اس (شکار) میں تمھاری کوئی مدد نہیں کریں گے۔بالآخر میں اترا اسے پکڑا۔ پھر سوار ہوا اور زیبرے کو اس کے پیچھے سے جا لیا اور وہ ایک ٹیلے کے پیچھے تھا۔میں نے اسے اپنے نیزے کا نشانہ بنا یا اور اسے گرا لیا۔پھر میں اسے ساتھیوں کے پاس لے آیا۔ ان میں سے کچھ نے کہا: اسے کھا لو اور کچھ نے کہا: اسے مت کھانا نبی صلی اللہ علیہ وسلم (کچھ فاصلے پر) ہم سے آگے تھے۔میں نے اپنے گھوڑے کو حرکت دی اور آپ کے پاس پہنچ گیا (اور اس کے بارے میں پوچھا) آپ نے فرمایا: "وہ حلال ہے اسے کھا لو۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، حتی کہ جب ہم قاحہ مقام پر پہنچے ہم میں سے بعض محرم تھے، بعض غیر محرم تھے، اچانک میں نے اپنے ساتھیوں کو دیکھا، وہ ایک دوسرے کو کوئی چیز دکھا رہے ہیں، میں نے دیکھا تو وہ جنگلی گدھا تھا، میں نے اپنے گھوڑے پر کاٹھی ڈالی اور اپنا نیزہ لے کر میں سوار ہو گیا تو مجھ سے میرا کوڑا گر گیا، میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا اور وہ سب محرم تھے، مجھے میرا کوڑا پکڑا دو، انہوں نے جواب دیا، اللہ کی قسم! شکار کے سلسلہ میں ہم تمہاری کسی قسم کی مدد نہیں کریں گے تو اتر کر میں نے اپنا کوڑا اٹھایا اور پھر سوار ہو گیا اور میں نے پیچھے سے جنگلی گدھے کو جا لیا اور وہ ایک ٹیلے کے پیچھے تھا، میں نے اسے نیزے کا نشانہ بنایا اور اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں (اسے شکار کر لیا) اور اسے لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس آ گیا، بعض کہنے لگے اسے کھا لو اور بعض نے کہا نہ کھاؤ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے آگے تھے، میں نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جا ملا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ حلال ہے، اسے کھا لو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك . ح وحدثنا قتيبة ، عن مالك فيما قرئ عليه، عن ابي النضر ، عن نافع مولى ابي قتادة، عن ابي قتادة رضي الله عنه، انه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا كان ببعض طريق مكة، تخلف مع اصحاب له محرمين وهو غير محرم، فراى حمارا وحشيا فاستوى على فرسه، فسال اصحابه ان يناولوه سوطه فابوا عليه، فسالهم رمحه فابوا عليه فاخذه، ثم شد على الحمار فقتله، فاكل منه بعض اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وابى بعضهم، فادركوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسالوه عن ذلك، فقال: " إنما هي طعمة اطعمكموها الله "،وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، عَنْ مَالِكٍ فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ ، عَنْ نَافِعٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ كَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِبَعْضِ طَرِيقِ مَكَّةَ، تَخَلَّفَ مَعَ أَصْحَابٍ لَهُ مُحْرِمِينَ وَهُوَ غَيْرُ مُحْرِمٍ، فَرَأَى حِمَارًا وَحْشِيًّا فَاسْتَوَى عَلَى فَرَسِهِ، فَسَأَلَ أَصْحَابَهُ أَنْ يُنَاوِلُوهُ سَوْطَهُ فَأَبَوْا عَلَيْهِ، فَسَأَلَهُمْ رُمْحَهُ فَأَبَوْا عَلَيْهِ فَأَخَذَهُ، ثُمَّ شَدَّ عَلَى الْحِمَارِ فَقَتَلَهُ، فَأَكَلَ مِنْهُ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَى بَعْضُهُمْ، فَأَدْرَكُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلُوهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: " إِنَّمَا هِيَ طُعْمَةٌ أَطْعَمَكُمُوهَا اللَّهُ "، ابو نضر نے ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کے مولیٰ نافع سے انھوں نے ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ وہ (عمرہ حدیبیہ میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے حتی کہ جب وہ مکہ کے راستے کے ایک حصے میں تھے، وہ اپنے چند احرا م والے ساتھیوں کی معیت میں پیچھے رہ گئے وہ خود احرا م کے بغیر تھے۔ تو (اچا نک) انھوں نے زبیرا دیکھا وہ اپنے گھوڑے کی پشت پر سیدھے ہو ئے اور اپنے ساتھیوں سے اپنا کو ڑا پکڑا نے کو کہا انھوں نے انکا ر کر دیا پھر ان سے اپنا نیزہ مانگا (کہ ان کو ہاتھ میں تھما دیں) انھوں نے (اس سے بھی) انکا ر کر دیقا۔ انھوں نے خود ہی نیزہ اٹھا یا پھر زیبرے پر حملہ کر کے اسے مار لیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض ساتھیوں نے اس میں سے کھا یا اور بعض نے (کھانے سے) انکا ر کر دیا۔جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س پہنچے تو آپ سے اس (شکار) کے بارے میں پو چھا: آپ نے فرمایا: " یہ کھا نا ہی ہے جو اللہ تعا لیٰ نے تمھیں کھلا یا ہے۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، حتی کہ جب مکہ کا کچھ راستہ طے کر لیا تو وہ اپنے کچھ محرم ساتھیوں کے ساتھ پیچھے رہ گئے، جبکہ وہ خود محرم نہیں تھے تو انہوں نے ایک جنگلی گدھا دیکھا اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو گئے اور اپنے ساتھیوں سے درخواست کی کہ اسے اس کا چابک پکڑا دیں، انہوں نے اس سے انکار کر دیا، انہوں نے ان سے اپنا نیزہ مانگا، اس سے بھی انہوں نے انکار کر دیا، انہوں نے اسے خود ہی لیا پھر گدھے پر حملہ کر کے اسے قتل کر ڈالا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ ساتھیوں نے اس سے کھا لیا اور کچھ نے (کھانے سے) انکار کر دیا، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جا ملے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ رزق ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں عنایت فرمایا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
زید بن اسلم نے عطا ء بن یسار سے انھوں نے سے ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے ابو نضر کی حدیث کے مانند حدیث بیان کی البتہ زید بن اسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تمھا رے پاس اس کے گو شت میں سے کچھ باقی ہے؟ مصنف یہی روایت جنگلی گدھے کے بارے میں، زید بن اسلم سے ابو نضر کی مذکورہ بالا روایت کی طرح بیان کرتے ہیں، صرف اتنا فرق ہے کہ زید بن اسلم بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تمہارے پاس اس کا کچھ گوشت ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا صالح بن مسمار السلمي ، حدثنا معاذ بن هشام ، حدثني ابي ، عن يحيى بن ابي كثير ، حدثني عبد الله بن ابي قتادة ، قال: انطلق ابي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الحديبية، فاحرم اصحابه ولم يحرم، وحدث رسول الله صلى الله عليه وسلم ان عدوا بغيقة فانطلق رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فبينما انا مع اصحابه يضحك بعضهم إلى بعض، إذ نظرت فإذا انا بحمار وحش فحملت عليه فطعنته فاثبته، فاستعنتهم فابوا ان يعينوني، فاكلنا من لحمه وخشينا ان نقتطع، فانطلقت اطلب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ارفع فرسي شاوا واسير شاوا، فلقيت رجلا من بني غفار في جوف الليل، فقلت: اين لقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: تركته بتعهن وهو قائل السقيا، فلحقته فقلت: يا رسول الله إن اصحابك يقرءون عليك السلام ورحمة الله، وإنهم قد خشوا ان يقتطعوا دونك، انتظرهم فانتظرهم، فقلت: يا رسول الله إني اصدت ومعي منه فاضلة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم للقوم: " كلوا "، وهم محرمون.وحَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ مِسْمَارٍ السُّلَمِيُّ ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي قَتَادَةَ ، قَالَ: انْطَلَقَ أَبِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ، فَأَحْرَمَ أَصْحَابُهُ وَلَمْ يُحْرِمْ، وَحُدِّثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ عَدُوًّا بِغَيْقَةَ فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَبَيْنَمَا أَنَا مَعَ أَصْحَابِهِ يَضْحَكُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، إِذْ نَظَرْتُ فَإِذَا أَنَا بِحِمَارِ وَحْشٍ فَحَمَلْتُ عَلَيْهِ فَطَعَنْتُهُ فَأَثْبَتُّهُ، فَاسْتَعَنْتُهُمْ فَأَبَوْا أَنْ يُعِينُونِي، فَأَكَلْنَا مِنْ لَحْمِهِ وَخَشِينَا أَنْ نُقْتَطَعَ، فَانْطَلَقْتُ أَطْلُبُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَرْفَعُ فَرَسِي شَأْوًا وَأَسِيرُ شَأْوًا، فَلَقِيتُ رَجُلًا مِنْ بَنِي غِفَارٍ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ، فَقُلْتُ: أَيْنَ لَقِيتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: تَرَكْتُهُ بِتَعْهِنَ وَهُوَ قَائِلٌ السُّقْيَا، فَلَحِقْتُهُ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَصْحَابَكَ يَقْرَءُونَ عَلَيْكَ السَّلَامَ وَرَحْمَةَ اللَّهِ، وَإِنَّهُمْ قَدْ خَشُوا أَنْ يُقْتَطَعُوا دُونَكَ، انْتَظِرْهُمْ فَانْتَظَرَهُمْ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَصَدْتُ وَمَعِي مِنْهُ فَاضِلَةٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْقَوْمِ: " كُلُوا "، وَهُمْ مُحْرِمُونَ. یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت ہے انھوں نے کہا:) مجھ سے عبد اللہ بن ابی قتادہ رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہا: میرے والد حدیبیہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہو ئے ان کے ساتھیوں نے (عمرے) کا احرام باندھا لیکن انھوں نے نہ باندھا۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا یا گیا کہ غیقہ مقام پر دشمن (گھا ت میں) ہے (مگر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چل پڑے۔ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ہمرا ہ تھا وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ہنس رہے تھے۔اتنے میں میں نے دیکھا تو میری نظر زیبرے پر پڑی میں نے اس پر حملہ کر دیا اور اسے نیزہ مار کر بے حرکت کر دیا پھر میں نے ان سے مدد چا ہی تو انھوں نے میری مدد کرنے سے انکا ر کر دیا۔ پھر ہم نے اس کا گو شت تناول کیا۔ اور ہمیں اندیشہ ہوا کہ ہم (آپ سے) کاٹ (کر الگ کر) دیے جا ئیں گے۔ تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلا ش میں روانہ ہوا کبھی میں گھوڑے کو بہت تیز تیز دوڑاتا تو کبھی (آرام سے) چلا تا آدھی را ت کے وقت مجھے بنو غفار کا ایک شخص ملا میں نے اس سے پو چھا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ں ملے تھے؟ اس نے کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تعہن کے مقام پر چھورا ہے آپ فر ما رہے تھے سُقیا (پہنچو) چنانچہ میں آپ سے جا ملا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول!!آپ کے صحابہ کرا م رضوان اللہ عنھم اجمعین آپ کو سلام عرض کرتے ہیں اور انھیں ڈر ہے کہ انھیں آپ سے کا ٹ (کر الگ کر) دیا جا ئے گا۔ آپ ان کا انتظار فر ما لیجیے۔تو آپ نے (وہاں) انکا انتظار فرمایا۔ پھر میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول!!میں نے شکار کیا تھا اور اس کا بچا ہوا کچھ (حصہ) میرے پاس باقی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا۔"کھا لو" جبکہ وہ سب احرا م کی حا لت میں تھے۔ حضرت عبداللہ بن ابی قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حدیبیہ والے سال میرے باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے، ان کے ساتھیوں نے احرام باندھا اور انہوں نے احرام نہ باندھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ دشمن غیقہ نامی جگہ میں گھات میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہو گئے، ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں اس دوران میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ تھا، وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنس رہے تھے، ناگہاں میں نے دیکھا تو میری نظر ایک جنگلی گدھے پر پڑی، میں نے اس پر حملہ کر دیا اور اسے نیزہ مار کر، اسے حرکت کرنے سے روک دیا، میں نے ان سے مدد مانگی، انہوں نے میری مدد کرنے سے انکار کر دیا، ہم نے اس کا گوشت کھایا اور ہمیں خطرہ محسوس ہوا، ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ کر دیا جائے گا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلا، کبھی گھوڑے کو دوڑاتا اور کبھی آہستہ چلتا تو آدھی رات میں بنو غفار کے ایک آدمی کو ملا، میں نے پوچھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تیری ملاقات کہاں ہوئی تھی؟ اس نے جواب دیا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تَهِن نامی چشمہ پر چھوڑا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سُقيا مقام پر جا کر قیلولہ فرمائیں گے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جا ملا اور میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام اور رحمت بھیجتے ہیں اور انہیں خطرہ ہے کہ کہیں دشمن انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ نہ کر ڈالے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا انتظار فرمائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا انتظار فرمایا، میں نے پوچھا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے شکار کیا ہے اور میرے پاس اس کا کچھ بچا ہوا ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا: ”اسے کھا لو۔“ حالانکہ وہ سب محرم تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني ابو كامل الجحدري ، حدثنا ابو عوانة ، عن عثمان بن عبد الله بن موهب ، عن عبد الله بن ابي قتادة ، عن ابيه رضي الله عنه، قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم حاجا وخرجنا معه، قال: فصرف من اصحابه فيهم ابو قتادة، فقال: " خذوا ساحل البحر حتى تلقوني "، قال: فاخذوا ساحل البحر فلما انصرفوا قبل رسول الله صلى الله عليه وسلم احرموا كلهم، إلا ابا قتادة فإنه لم يحرم، فبينما هم يسيرون إذ راوا حمر وحش، فحمل عليها ابو قتادة فعقر منها اتانا، فنزلوا فاكلوا من لحمها، قال: فقالوا: اكلنا لحما ونحن محرمون، قال: فحملوا ما بقي من لحم الاتان، فلما اتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالوا: يا رسول الله إنا كنا احرمنا وكان ابو قتادة لم يحرم فراينا حمر وحش فحمل عليها ابو قتادة فعقر منها اتانا، فنزلنا فاكلنا من لحمها، فقلنا ناكل لحم صيد ونحن محرمون، فحملنا ما بقي من لحمها، فقال: " هل منكم احد امره او اشار إليه بشيء؟، قال: قالوا: لا، قال: " فكلوا ما بقي من لحمها "،حَدَّثَنِي أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجًّا وَخَرَجْنَا مَعَهُ، قَالَ: فَصَرَفَ مِنْ أَصْحَابِهِ فِيهِمْ أَبُو قَتَادَةَ، فَقَالَ: " خُذُوا سَاحِلَ الْبَحْرِ حَتَّى تَلْقَوْنِي "، قَالَ: فَأَخَذُوا سَاحِلَ الْبَحْرِ فَلَمَّا انْصَرَفُوا قِبَلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْرَمُوا كُلُّهُمْ، إِلَّا أَبَا قَتَادَةَ فَإِنَّهُ لَمْ يُحْرِمْ، فَبَيْنَمَا هُمْ يَسِيرُونَ إِذْ رَأَوْا حُمُرَ وَحْشٍ، فَحَمَلَ عَلَيْهَا أَبُو قَتَادَةَ فَعَقَرَ مِنْهَا أَتَانًا، فَنَزَلُوا فَأَكَلُوا مِنْ لَحْمِهَا، قَالَ: فَقَالُوا: أَكَلْنَا لَحْمًا وَنَحْنُ مُحْرِمُونَ، قَالَ: فَحَمَلُوا مَا بَقِيَ مِنْ لَحْمِ الْأَتَانِ، فَلَمَّا أَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا أَحْرَمْنَا وَكَانَ أَبُو قَتَادَةَ لَمْ يُحْرِمْ فَرَأَيْنَا حُمُرَ وَحْشٍ فَحَمَلَ عَلَيْهَا أَبُو قَتَادَةَ فَعَقَرَ مِنْهَا أَتَانًا، فَنَزَلْنَا فَأَكَلْنَا مِنْ لَحْمِهَا، فَقُلْنَا نَأْكُلُ لَحْمَ صَيْدٍ وَنَحْنُ مُحْرِمُونَ، فَحَمَلْنَا مَا بَقِيَ مِنْ لَحْمِهَا، فَقَالَ: " هَلْ مِنْكُمْ أَحَدٌ أَمَرَهُ أَوْ أَشَارَ إِلَيْهِ بِشَيْءٍ؟، قَالَ: قَالُوا: لَا، قَالَ: " فَكُلُوا مَا بَقِيَ مِنْ لَحْمِهَا "، عثمان بن عبد اللہ بن مو ہب نے عبد اللہ بن ابی قتادہ رضی اللہ عنہ سے انھوں نے اپنے والد سے روایت کی کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے لیے نکلے۔ہم بھی آپ کے ساتھ نکلے، کہا آپ نے اپنے صحابہ کرا م رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کچھ لوگوں کو جن میں ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے ہٹا (کر ایک سمت بھیج دیا اور فرمایا "ساحل سمندر لے لے کے چلو حتی کہ مجھ سے آملو۔"کہا: انھوں نے ساھل سمندر کا را ستہ اختیار کیا۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رخ کیا تو ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ سب نے احرا م باندھ لیا (بس) انھوں نے احرا م نہیں باندھا تھا۔اسی اثنا میں جب وہ چل رہے تھے انھوں نے زبیرے دیکھے ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے ان پر حملہ کر دیا اور ان میں سے ایک مادہزیبرا کوگرا لیا۔وہ (لو گ) اترے اور اس کا گو شت تناول کیا۔کہا وہ (صحا بہ کرا م رضوان اللہ عنھم اجمعین) کہنے لگے۔ہم نے (تو شکار کا گو شت کھا لیا جبکہ ہم احرا م کی حا لت میں ہیں۔ (راوی نے) کہا: انھوں نے مادہ زیبرے کا بچا ہوا گو شت اٹھا لیا (اور چل پڑے) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے کہنے لگے۔ہم سب نے احرا م باند ھ لیا تھا جبکہ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے ان پر حملہ کر دیا اور ان میں سے ایک مادہ زیبرا مار لیا۔ پس ہم اترے اور اس کا گو شت کھایا۔بعد میں ہم نے کہا: ہم احرا م باندھے ہو ئے ہیں اور شکار کا گو شت کھا رہے ہیں! پھر ہم نے اس کا باقی گو شت اٹھا یا (اور آگئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " کیا تم میں سے کسی نے ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے (شکار کرنے کو) کہا تھا۔؟یا کسی چیز سے اس (شکار) کی طرف اشارہ کیا تھا؟انھوں نے کہا نہیں آپ نے فرمایا: "اس کا باقی گو شت بھی تم کھا لو۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے قصد و ارادہ سے نکلے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کچھ ساتھیوں کو جن میں ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے، ایک طرف بھیج دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ چلو حتی کہ مجھ سے آ ملو۔ ”انہوں نے ساحل سمندر کا راستہ اختیار کیا، جب وہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھرے تو ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا سب نے احرام باندھ لیا، انہوں نے احرام نہ باندھا، چلتے چلتے انہوں نے جنگلی گدھے دیکھے، ابو قتادہ رضی اللہ تالیٰ عنہ نے ان پر حملہ کیا اور ان میں سے ایک گدھی کی کونچیں کاٹ ڈالیں، ساتھیوں نے پڑاؤ کیا اور اس کا گوشت کھا لیا اور کہنے لگے، ہم نے محرم ہونے کے باوجود گوشت کھا لیا، ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں تو انہوں نے گدھی کا باقی ماندہ گوشت اٹھا لیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو کہنے لگے، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم محرم تھے اور ابو قتادہ رضی اللہ عنہ محرم نہ تھے اور ہم نے جنگلی گدھے دیکھے، ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے ان پر حملہ کر دیا ارو ان میں سے ایک گدھے کا شکار کر لیا، ہم نے پڑاؤ کیا اور اس میں سے گوشت کھا لیا، پھر ہم نے کہا، ہم شکار کا گوشت کھا رہے ہیں، حالانکہ ہم محرم ہیں تو ہم نے اس کا بقایا گوشت ساتھ لے لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم میں سے کسی نے اس کو مشورہ دیا تھا یا کسی قسم کا اس کی طرف اشارہ کیا تھا؟“ انہوں نے جواب دیا، نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا باقی ماندہ گوشت بھی کھا لو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
شعبہ اور شیبان دو نوں نے عثمان بن عبد اللہ بن مو ہب سے اسی سند کے ساتھ روایت کی۔ شیبان کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم میں سے کسی نے ان سے کہا تھا کہ وہ اس پر حملہ کریں یا اس کی طرف اشارہ کیا تھا؟ شعبہ کی روایت میں ہے کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا: کیا تم لوگوں نے اشارہ کیا یا مدد کی شکار کرا یا؟ شعبہ نے کہا: میں نہیں جا نتا کہ آپ نے کہا: تم لوگوں نے مدد کی" یا کہا: "تم لو گوں نے شکار کرا یا۔ امام صاحب یہی روایت دو اور اساتذہ سے بیان کرتے ہیں، شیبان کی روایت میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم میں سے کسی نے اس کو ان پر حملہ کرنے کا مشورہ دیا تھا یا اس کی طرف اشارہ کیا تھا؟،، شعبہ کی روایت میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم نے اشارہ کیا، یا مدد کی، یا شکار کیا؟ (شکار کا مشورہ دیا) “ شعبہ کہتے ہیں، مجھے پتہ نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اَعَنتُم (تم نے مدد کی) کہا یا اَصَدتُم، تم نے شکار کیا کہا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
یحییٰ (بن ابی کثیر) نے خبر دی کہا: مجھے عبد اللہ بن ابی قتادہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ان کے والدنے اللہ ان سے را ضی ہو۔ انھیں خبر دی کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ حدیبیہ میں شر کت کی، کہا: میرے علاوہ سب نے عمرے کا (احرا م باند ھ لیا اور) تلبیہ شروع کر دیا۔کہا: میں نے ایک زیبرا شکار کیا اور اپنے ساتھیوں کو کھلا یا جبکہ وہ سب احرا م کی حالت میں تھے۔پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا انھیں بتا یا کہ ہما رے پاس اس (شکار) کا کچھ گو شت بچا ہوا ہے۔آپ نے (ساتھیوں سے رضی اللہ عنہ فرمایا: " اسے کھا ؤ " حالا نکہ وہ سب احرا م میں تھے، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں غزوہ حدیبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوا، میرے سوا سب نے عمرہ کا احرام باندھا اور میں نے جنگلی گدھے کا شکار کیا اور میں نے اپنے محرم ساتھیوں کو کھلایا، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا کہ ہمارے پاس اس سے بچا ہوا گوشت ہے، آپ نے فرمایا: ”اسے کھا لو۔“ اور مخاطب سب محرم تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ہمیں ابو حا زم نے عبد اللہ بن ابی قتادہ رضی اللہ عنہ سے انھوں نے اپنے والد (ابو قتادہ رضی اللہ عنہ) سے حدیث سنا ئی کہ وہ لو گ (مدینہ سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے وہ احرام میں تھے اور ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بغیر احرا م کے تھے۔اور (مذکورہبا لا) حدیث بیان کی اور اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمھا رے پاس اس میں سے کچھ (بچا ہوا) ہے؟انھوں نے عرض کی، اس کی ایک ران ہمارے پاس موجو د ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ لے لی اور اسے تنا ول فرمایا۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور وہ سب ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کے سوا محرم تھے اور وہ غیر محرم تھے اور آگے مذکورہ بالا روایت ہے اور اس میں یہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تمہارے پاس اس کا کوئی حصہ ہے؟“ انہوں نے جواب دیا، اس کی ٹانگ ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لے کر کھا لیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبد العزیز بن رفیع نے عبد اللہ بن ابی قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ابو قتادہ رضی اللہ عنہ صحا بہ کرا م رضوان اللہ عنھم اجمعین کی نفری میں تھے انھوں نے احرا م باندھا ہوا تھا اور وہ خود احرا م کے بغیر تھے اورحدیث بیان کی اور اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " کیا تم میں سے کسی انسا ن نے اس (شکار) کی طرف اشارہ کیا تھا یا انھیں (ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کو) کچھ کرنے کو کہا تھا؟ انھوں نے کہا: نہیں اے اللہ کے رسول!! آپ نے فرمایا: " تو پھر تم اسے کھا ؤ۔ عبداللہ بن ابی قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ایک محرم جماعت کے ساتھ تھے اور وہ غیر محرم تھے، پھر مذکورہ بالا روایت بیان کی، اس میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم میں سے کسی انسان نے انہیں اشارہ کیا تھا، یا کسی قسم کا مشورہ دیا تھا؟“ انہوں نے جواب دیا، نہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو کھا لو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
معاذ بن عبد الرحمٰن بن عثمان تیمی نے اپنے والد سے روایت کی، کہا ہم احرام کی حا لت میں طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ایک (شکار شدہ) پرندہ بطور ہدیہ ان کے لیے لا یا گیا۔طلحہ (اس وقت) سورہے تھے۔ہم میں سے بعض نے (اس کا گو شت) کھا یا اور بعض نے احتیاط برتی۔جب حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بیدار ہو ئے تو آپ نے ان کی تا ئید کی جنھوں اسے کھا یا تھا اور کہا ہم نے اسے (شکار کے گو شت کو حا لت احرا م میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھا یا تھا۔ معاذ بن عبدالرحمٰن بن عثمان تیمی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ احرام کی حالت میں تھے، انہیں پرندہ تحفتا پیش کیا گیا، جبکہ وہ سوئے ہوئے تھے، ہم میں سے بعض نے کھا لیا اور بعض نے پرہیز کیا تو جب حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بیدار ہوئے، انہوں نے کھانے والوں سے موافقت کی اور کہا، ہم نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھایا تھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|