كِتَاب الْحَجِّ حج کے احکام و مسائل The Book of Pilgrimage 10. باب جَوَازِ حَلْقِ الرَّأْسِ لِلْمُحْرِمِ إِذَا كَانَ بِهِ أَذًى وَوُجُوبِ الْفِدْيَةِ لِحَلْقِهِ وَبَيَانِ قَدْرِهَا: باب: تکلیف لاحق ہونے کی صورت میں محرم کو سر منڈانے کی اجازت اور اس پر فدیہ کا بیان۔ Chapter: It is permissible for a Muhrim to shave his head if there is a problem, but it is obligatory to offer a Fidyah for shaving it, and Clarifying what the Fidyah is مجھے عبید اللہ بن عمر قواریری اور ابو ربیع نے حدیث بیان کی (دونوں نے کہا) ہمیں حما د بن زید نے حدیث سنائی (حماد بن زید نے کہا) ہمیں ایو ب نے حدیث بیا ن کی، کہا: میں نے مجا ہد سے سنا، وہ عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے حدیث بیان کر رہے تھے انھوں نے کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: حدیبیہ کے د نوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشر یف لا ئے میں۔۔۔قواریری کے بقول اپنی ہنڈیا کے نیچے اور ابو ربیع کے بقول۔۔۔اپنی پتھر کی دیگ کے نیچے آگ جلا رہا تھا اور (میرے سر کی) جو ئیں میرے چہرے پر گر رہی تھیں آپ نے فرمایا: " کیا تمھا رے سر کی مخلوق (جوئیں رضی اللہ عنہ تمھا رے لیے با عث اذیت ہیں؟کہا: میں نے جواب دیا جی ہاں، آپ نے فرمایا: " تو اپنا سر منڈوادو (اور فدیے کے طور پر) تین دن کے روزےرکھو۔یا چھ مسکینوں کو کھا نا کھلا ؤ یا (ایک) قربا نی دے دو۔ایو ب نے کہا: مجھے علم نہیں ان (فدیے کی صورتوں میں) سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس چیز کا پہلے ذکر کیا۔ حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے دوران حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، جبکہ میں ہنڈیا کے نیچے آگ جلا رہا تھا اور جوئیں میرے چہرے پر گر رہی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تیرے سر کی جوئیں تجھے تکلیف پہنچا رہی ہیں؟“ میں نے کہا، ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سرمنڈوا لیجئے اور تین دن روزہ رکھ لیجئے، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دیں، یا ایک قربانی کر دیجئے۔“ ایوب رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں، مجھے معلوم نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین چیزوں میں سے پہلے کس کا نام لیا، یعنی آغاز کس سے کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابن علیہ نے ایوب سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند روایت کی۔ امام صاحب اپنے تین اور اساتذہ سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا ابن ابي عدي ، عن ابن عون ، عن مجاهد ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن كعب بن عجرة رضي الله عنه، قال: في انزلت هذه الآية فمن كان منكم مريضا او به اذى من راسه ففدية من صيام او صدقة او نسك سورة البقرة آية 196، قال: فاتيته، فقال:" ادنه فدنوت"، فقال:" ادنه فدنوت"، فقال صلى الله عليه وسلم:" ايؤذيك هوامك؟"، قال ابن عون: واظنه، قال: نعم، قال:" فامرني بفدية من صيام او صدقة او نسك ما تيسر".وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: فِيَّ أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ سورة البقرة آية 196، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ، فَقَالَ:" ادْنُهْ فَدَنَوْتُ"، فَقَالَ:" ادْنُهْ فَدَنَوْتُ"، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُؤْذِيكَ هَوَامُّكَ؟"، قَالَ ابْنُ عَوْنٍ: وَأَظُنُّهُ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" فَأَمَرَنِي بِفِدْيَةٍ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ مَا تَيَسَّرَ". ابن عون نے مجا ہد سے انھوں نے عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے انھوں نے کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا: یہ آیت میرے بارے میں نا زل ہوئی: پھر اگر تم میں سے کوئی شخص بیمار ہو یا اس کے سر میں تکلیف ہو (اور وہ سر منڈوالے) تو فدیے میں روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے۔کہا میں آپ کی خدمت میں حا ضر ہوا آپ نے فرمایا: " ذرا قریب آؤ۔میں آپ کے (کچھ) قیریب ہو گیا آپ نے فرمایا: " اور قریب آؤ۔تو میں آپ کے اور قریب ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پو چھا: کیا تمھا ری جو ئیں تمھیں ایذا دیتی ہیں؟ ابن عون نے کہا: میرا خیال ہے کہ انھوں (کعب رضی اللہ عنہ) نے کہا جی ہاں (کعب رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو آپ نے مجھے حکم دیا کے روزے صدقے یا قر بانی میں سے جو آسان ہو بطور فدیہ دوں۔ حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت مبارکہ: میرے بارے میں اتری ہے تو تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا اس کے سر میں تکلیف ہو اور وہ سر منڈا لے تو وہ فدیہ کے طور پر روزہ رکھے یا صدقہ کرے، یا قربانی کرے۔ (آیت نمبر 196، سورۃ البقرۃ) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب ہو جا۔“ میں قریب ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب ہو جا،“ میں قریب ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا جوئیں تجھے تکلیف پہنچا رہی ہیں؟“ ابن عون کہتے ہیں، میرے خیال میں کعب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا، ہاں۔ کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بطور فدیہ حکم دیا کہ روزے، صدقہ اور قربانی میں سے جو آسان ہو اس پر عمل کرو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا ابن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا سيف ، قال: سمعت مجاهدا ، يقول: حدثني عبد الرحمن بن ابي ليلى ، حدثني كعب بن عجرة رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم وقف عليه، وراسه يتهافت قملا، فقال:" ايؤذيك هوامك؟، قلت: نعم، قال: فاحلق راسك، قال: ففي نزلت هذه الآية فمن كان منكم مريضا او به اذى من راسه ففدية من صيام او صدقة او نسك سورة البقرة آية 196، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: صم ثلاثة ايام او تصدق بفرق بين ستة مساكين او انسك ما تيسر".وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا سَيْفٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُجَاهِدًا ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى ، حَدَّثَنِي كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ عَلَيْهِ، وَرَأْسُهُ يَتَهَافَتُ قَمْلًا، فَقَالَ:" أَيُؤْذِيكَ هَوَامُّكَ؟، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَاحْلِقْ رَأْسَكَ، قَالَ: فَفِيَّ نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ سورة البقرة آية 196، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ أَوْ تَصَدَّقْ بِفَرَقٍ بَيْنَ سِتَّةِ مَسَاكِينَ أَوِ انْسُكْ مَا تَيَسَّرَ". سیف (بن سلیمان) نے کہا: میں نے مجا ہد سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ مجھے عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے حدیث سنا ئی کہا مجھے کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اوپر (کی طرف) کھڑے ہو ئے اور ان کےسر سے جو ئیں گر رہی تھیں آپ نے فرمایا "کیا تمھا ری جو ئیں تمھیں اذیت دیتی ہیں؟ میں نے کہا جی ہاں، آپ نے فرمایا: "تو اپنا سر منڈوا لو۔ (کعب رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو میرے بارے میں یہ آیت نازل ہو ئی پھر اگر کوئی شخص بیما رہو یا اس کے سر میں تکلیف ہو (اور وہ سر منڈوا لے) تو فدیے میں رو زے رکھے یا صدقہ دے یا قر بانی کرے۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: " تین دن کے روزے رکھویا (کسی بھی جنس کا) ایک فرق (تین صاع) چھ مسکینوں میں صدقہ کر و یا قر بانی میسر ہو کرو۔ حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ کر اس کے پاس رکے درآں حالیکہ اس کے سر سے جوئیں جھڑ رہی تھیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تیری جوئیں تیرے لیے تکلیف کا باعث بن رہی ہیں؟“ میں نے کہا، ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنا سر منڈوالو۔“ کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، یہ آیت مبارکہ: ”تم میں سے جو بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو جس کی بنا پر وہ سر منڈوا لے تو اس پر فدیہ ہے، روزے رکھے یا صدقہ کرے یا قربانی کرے۔“ (سورۃ البقرۃ، آیت 196) میرے بارے میں اتری ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”تین روزے رکھ لو، یا ایک فَرَق (تین صاع) چھ مسکینوں پر صدقہ کر دو، یا جو قربانی میسر ہو کر ڈالو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابن ابی نجیح ایوب حمید اور عبد الکریم نے مجا ہد سے انھوں نے ابن ابی لیلیٰ سے انھوں نے کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں دا خل ہو نے سے پہلے جب حدیبیہ میں تھے ان کے پاس سے گزرے جبکہ وہ کعب رضی اللہ عنہ) احرا م کی حالت میں تھے اور ایک ہنڈیا کے نیچے آگ جلا نے میں لگے ہو ئے تھے جو ئیں ان کے چہرے پر گر رہی تھیں آپ نے فرمایا: " کیا تمھا ری سر کی جوئیں تمھیں اذیت دے رہی ہیں؟ انھوں نے عرض کی جی ہاں، آپ نے فرمایا: " تو اپنا سر منڈوالو اور ایک فرق کھا نا چھ مسکینوں کو کھلا دو۔۔۔ایک فرق تین صاع کا ہو تا ہے۔۔۔یا تین دن کے روزے رکھو یا قربانی کے ایک جا نور کی قربانی کر دو۔۔ حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے گزرے اور وہ مکہ میں داخل ہونے سے پہلے حدیبیہ میں تھا۔ اور وہ محرم تھا، وہ ہنڈیا کے نیچے آگ جلا رہا تھا اور جوئیں اس کے چہرے پر گر رہی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تجھے یہ زہریلے جانور تکلیف دیتے ہیں؟“ اس نے کہا: ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنا سر منڈوا اور چھ مسکینوں کے درمیان ایک فَرَق (تین صاع) کھانا تقسیم کر یا تین روزے رکھ لے یا ایک قربانی کر دے۔“ ابن نجیح کہتے ہیں یا ایک بکری ذبح کر دے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابو قلا بہ نے عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے انھوں نے کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے دنو میں ان کے پاس گزرے اور ان سے پو چھا تمھا رے سر کی جوؤں نے تمھیں اذیت دی ہے؟انھوں نے کہا: جی ہاں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: " سر منڈوادو۔پھر ایک بکری بطور قر بانی ذبح کرو یا تین دن کے روزے رکھو یا کھجوروں کے تین صاع چھ مسکینوں کو کھلا دو۔ حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے زمانہ میں اس کے پاس سے گزرے اور اس سے پوچھا: ”کیا تیرے سر کی جوئیں تمہیں تکلیف پہنچا رہی ہیں؟“ اس نے کہا، ہاں۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”اپنا سر منڈا لو، پھر ایک بکری کی قربانی ذبح کر دو، یا تین روزے رکھ لو، یا تین صاع کھجوریں چھ مساکین کو دے دو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا محمد بن المثنى ، وابن بشار ، قال ابن المثنى: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عبد الرحمن بن الاصبهاني ، عن عبد الله بن معقل ، قال: قعدت إلى كعب رضي الله عنه وهو في المسجد، فسالته عن هذه الآية ففدية من صيام او صدقة او نسك سورة البقرة آية 196، فقال كعب رضي الله عنه: نزلت في، كان بي اذى من راسي، فحملت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم والقمل يتناثر على وجهي، فقال:" ما كنت ارى ان الجهد بلغ منك ما ارى، اتجد شاة؟، فقلت: لا، فنزلت هذه الآية ففدية من صيام او صدقة او نسك سورة البقرة آية 196، قال: صوم ثلاثة ايام، او إطعام ستة مساكين، نصف صاع طعاما لكل مسكين"، قال: فنزلت في خاصة وهي لكم عامة.وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَصْبَهَانِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْقِلٍ ، قَالَ: قَعَدْتُ إِلَى كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ سورة البقرة آية 196، فَقَالَ كَعْبٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: نَزَلَتْ فِيَّ، كَانَ بِي أَذًى مِنْ رَأْسِي، فَحُمِلْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْقَمْلُ يَتَنَاثَرُ عَلَى وَجْهِي، فَقَالَ:" مَا كُنْتُ أُرَى أَنَّ الْجَهْدَ بَلَغَ مِنْكَ مَا أَرَى، أَتَجِدُ شَاةً؟، فَقُلْتُ: لَا، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ سورة البقرة آية 196، قَالَ: صَوْمُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، أَوْ إِطْعَامُ سِتَّةِ مَسَاكِينَ، نِصْفَ صَاعٍ طَعَامًا لِكُلِّ مِسْكِينٍ"، قَالَ: فَنَزَلَتْ فِيَّ خَاصَّةً وَهِيَ لَكُمْ عَامَّةً. شعبہ نے عبد الرحمٰن بن اصبہانی سے حدیث بیان کی انھوں نے عبد اللہ بن معقل سے انھوں نے کہا: میں کعب (بن عجرہ) رضی اللہ عنہ کے پاس جا بیٹھا وہ اس وقت (کو فہ کی ایک) مسجد میں تشریف فر ما تھے میں نے ان سے اس آیت کے متعلق سوال کیا: فَفِدْیَۃٌ مِّن صِیَامٍ أَوْ صَدَقَۃٍ أَوْ نُسُکٍ ۚ"تو روزوں یا صدقہ یا قر بانی سے فدیہ دے۔حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہ آیت میرے بارے میں نازل ہو ئی تھی۔میرے سر میں تکلیف تھی مجھے اس حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جا یا گیا کہ جو ئیں میرے چہرے پر پڑرہی تھیں تو آپ نے فرمایا: " میرا خیال نہیں تھا کہ تمھا ری تکلیف اس حد تک پہنچ گئی ہے جیسے میں دیکھ رہا ہوں۔کیا تمھارے پاس کوئی بکری ہے؟میں نے عرض کی نہیں اس پر یہ آیت نازل ہو ئی۔ فَفِدْیَۃٌ مِّن صِیَامٍ أَوْ صَدَقَۃٍ أَوْ نُسُکٍ ۚ" (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا: " (تمھا رے ذمے) تین دنوں کے روزے ہیں یا چھ مسکینوں کا کھا نا ہر مسکین کے لیے آدھا صاع کھا نا۔ (پھر کعب رضی اللہ عنہ نے) کہا: یہ آیت خصوصی طور پر میرے لیے اتری اور عمومی طور پر یہ تمھا رے لیے بھی ہے۔ حضرت عبداللہ بن معقل بیان کرتے ہیں کہ میں مسجد میں حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بیٹھا اور ان سے اس آیت کے بارے میں پوچھا تو اس پر فدیہ ہے، روزے یا صدقہ یا قربانی؟ تو کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، (یہ آیت) میرے بارے میں اتری ہے، میرے سر میں تکلیف تھی تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جایا گیا، جبکہ جوئیں میرے چہرے پر جھڑ رہی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نہیں سمجھتا تھا کہ تجھے تکلیف اس حد تک پہنچ رہی ہے، جو میں دیکھ رہا ہوں، کیا تیرے پاس بکری ہے؟“ میں نے کہا، نہیں تو یہ آیت اتری، اس پر فدیہ ہے روزے یا صدقہ یا قربانی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا: ”روزے تین ہیں، یا چھ مسکینوں کا کھانا، ہر مسکین کے لیے آدھا صاع کھانا۔“ کہا خاص طور پر میرے بارے میں اتری ہے اور اس کا حکم تم سب کے لیے ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
زکریا بن ابی زائد ہ سے روایت ہے کہا: ہمیں عبدالرحٰمن بن اصبہانی نے حدیث بیان کی انھوں نے کہا مجھے عبد اللہ بن معقل نے انھوں نے کہا: مجھے کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ نے حدیث سنا ئیکہ وہ احرا م باندھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے ان کے سر اور داڑھی میں (کثرت سے) جو ئیں پڑ گئیں۔اس (بات) کی خبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے انھیں بلا بھیجا اور ھجا م کو بلا کر ان کا سر مونڈ دیا پھر ان سے پو چھا: " کیا تمھا رے پاس کوئی قربانی ہے؟ انھوں نے جواب دیا: (اے اللہ کے رسول) میں اس کی استطاعت نہیں رکھتا آپ نے انھیں حکم دیا: تین دن کے روزے عکھ لو یا چھ مسکینوں کو کھا نا مہیا کر دو مسکینو ں کے لیے ایک صاعہو اللہ عزوجل نے خاص ان کے بارے میں یہ آیت نازل فر ما ئی: " جو شخص تم میں سے مریض ہو یا اس کے سر میں تکلیف ہو، اس کے بعد یہ (اجازت) عمومی طور پر تمام مسلمانوں کے لیے ہے۔ حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ احرام باندھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور ان کے سر اور داڑھی میں کثرت سے جوئیں پڑ گئیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر پہنچ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف پیغام بھیجا اور ایک سر مونڈنے والے کو بلوایا، اس نے اس کا سر مونڈ دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”کیا تجھ میں قربانی کی استطاعت ہے؟“ کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، مجھ میں اتنی استطاعت نہیں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا: ”تین روزے رکھ لو، یا چھ مساکین کو کھانا دے دو، ہر دو مسکینوں کو ایک صاع، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت خاص طور پر اس کے بارے میں اتاری کہ تم میں سے جو بیمار ہے یا اس کے سر میں تکلیف ہو۔“ لیکن اس کا حکم تمام مسلمانوں کے لیے عام ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|