من كتاب الرقاق دل کو نرم کرنے والے اعمال کا بیان 49. باب النَّهْيِ أَنْ يَقُولَ مُطِرْنَا بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا: یہ کہنے کی ممانعت کہ فلاں اور فلاں تارے کی وجہ سے بارش ہوئی
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر الله تعالیٰ دس سال تک میری امت سے بارش کو روک لے پھر بارش برسا دے تو میری امت میں سے ایک گروہ اس کی وجہ سے کافر ہو جائے اور وہ کہنے لگیں کہ: یہ مجدح تارے کی وجہ سے ہے۔“
کہا جاتا ہے کہ مجدح ایک کوکب ہے جس کو دبران کہا جاتا ہے۔ (دورِ جاہلیت میں عرب کا عقیدہ تھا کہ مجدح کی وجہ سے بارش ہوتی ہے)۔ تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2804]»
اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أبويعلی 1312]، [ابن حبان 188]، [موارد الظمآن 606]، [الحميدي 832]۔ اور اس کا شاہد صحیح صحیحین میں ہے۔ دیکھئے: [بخاري 846]، [مسلم 71] جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں جب بارش ہوئی تو نمازِ فجر کے بعد فرمایا: ”الله تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندوں میں کچھ مومن رہے اور کچھ کافر ہوگئے، جس نے کہا کہ ہم پر اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوئی وہ مومن ہے، اور جس نے کہا ہم پر یہ بارش تاروں (کواکب) کے اثر سے ہوئی ہے وہ میرا منکر ہوا اور تاروں کی تاثیر پر ایمان لایا“ ( «أو كما قال عليه السلام» )۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 2796) اس حدیث میں ایمان کی حقیقت اور نزاکت کا ذکر ہے، نیز یہ کہ معمولی بات کہنے سے انسان مومن ہو جاتا ہے یا کافر، یہ کہنا کہ فلاں برج یا فلاں ستارہ مفید ہے اور اس کے اچھے یا برے اثرات ہیں کفر میں داخل ہے، سب اللہ کی مخلوق ہیں، بذاتِ خود کسی میں تصرف کی طاقت و قوت نہیں ہے، سب کچھ اللہ کے حکم سے ہی ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو ایمان کی حقیقت سمجھنے کی اور کفر و شرک اور بدعت سے دور رہنے کی توفیق بخشے، آمین۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
|