من كتاب الرقاق دل کو نرم کرنے والے اعمال کا بیان 23. باب: {وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ}: اپنے قریبی رشتے داروں کو ڈرانے کا بیان
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جب الله تعالیٰ نے یہ آیت: «﴿وَأَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْأَقْرَبِيْنَ﴾» (شعراء: 214/26)، اپنے قریبی رشتے داروں کو ڈرایئے نازل فرمائی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے قریش کے لوگو! تم اپنی جان کو الله تعالیٰ سے (اعمالِ صالحہ کے بدلے) مول لے لو (بچالو)، میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آنے کا (یعنی اللہ کی مرضی کے خلاف میں کچھ نہیں کر سکوں گا)۔ اے عبدمناف کے بیٹو! میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آنے کا۔ اے عباس (آپ کے چچا) عبدالمطلب کے بیٹے! میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آنے کا۔ اے صفیہ (آپ کی پھوپھی) عبدالمطلب کی بیٹی! میں اللہ کے سامنے آپ کے کچھ کام نہیں آنے کا۔ اے فاطمہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی! تو چاہے تو میری بیٹی میرا مال مانگ لے، میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہ آسکوں گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2774]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2753]، [مسلم 355/204]، [ترمذي 3185]، [نسائي 3664]، [ابن حبان 646] وضاحت:
(تشریح حدیث 2766) آیتِ شریفہ کے عین مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اپنے خاص کنبہ و قبیلہ کے لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا، پھر اپنے باپ دادا کے خاص افراد چچا و پھوپھی کو، پھر خاص الخاص اپنی بیٹی کو اس حقیقت سے آگاہ کیا، دنیا میں تو میں تمہاری مانگ پوری کر سکتا ہوں لیکن آخرت میں تمہارے بھی کسی کام نہ آسکوں گا، اور وہاں تو سب کا عمل اور الله کا رحم ہی کام آئے گا: « ﴿وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا﴾ [النساء: 124] » ”جو ایمان والا ہو، مرد یا عورت، اور وہ نیک اعمال کرے تو یقیناً ایسے ہی لوگ جنت میں جائیں گے، اور کھجور کے شگاف کے برابر بھی ان کا حق نہ مارا جائے گا۔ “ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
|