Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کے احکام و مسائل
94. باب الدَّلِيلِ عَلَى دُخُولِ طَوَائِفَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ وَلاَ عَذَابٍ:
باب: مسلمانوں کے ایک گروہ کا بغیر حساب و عذاب کے جنت میں داخل ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 527
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: " كُنْتُ عِنْدَ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ رَأَى الْكَوْكَبَ الَّذِي انْقَضَّ الْبَارِحَةَ؟ قُلْتُ: أَنَا، ثُمَّ قُلْتُ: أَمَا إِنِّي لَمْ أَكُنْ فِي صَلَاةٍ، وَلَكِنِّي لُدِغْتُ، قَالَ: فَمَاذَا صَنَعْتَ؟ قُلْتُ: اسْتَرْقَيْتُ، قَالَ: فَمَا حَمَلَكَ عَلَى ذَلِكَ؟ قُلْتُ: حَدِيثٌ حَدَّثَنَاهُ الشَّعْبِيُّ ، فَقَالَ: وَمَا حَدَّثَكُمْ الشَّعْبِيُّ؟ قُلْتُ: حَدَّثَنَا عَنْ بُرَيْدَةَ بْنِ حُصَيْبٍ الأَسْلَمِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: لَا رُقْيَةَ إِلَّا مِنْ عَيْنٍ أَوْ حُمَةٍ، فَقَالَ: قَدْ أَحْسَنَ مَنِ انْتَهَى إِلَى مَا سَمِعَ، وَلَكِنْ حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " عُرِضَتْ عَلَيَّ الأُمَمُ، فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ وَمَعَهُ الرُّهَيْطُ، وَالنَّبِيَّ وَمَعَهُ الرَّجُلُ وَالرَّجُلَانِ، وَالنَّبِيَّ لَيْسَ مَعَهُ أَحَدٌ، إِذْ رُفِعَ لِي سَوَادٌ عَظِيمٌ، فَظَنَنْتُ أَنَّهُمْ أُمَّتِي، فَقِيلَ لِي: هَذَا مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ وَقَوْمُهُ، وَلَكِنِ انْظُرْ إِلَى الأُفُقِ، فَنَظَرْتُ، فَإِذَا سَوَادٌ عَظِيمٌ، فَقِيلَ لِي: انْظُرْ إِلَى الأُفُقِ الآخَرِ، فَإِذَا سَوَادٌ عَظِيمٌ، فَقِيلَ لِي: هَذِهِ أُمَّتُكَ، وَمَعَهُمْ سَبْعُونَ أَلْفًا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ، وَلَا عَذَابٍ، ثُمَّ نَهَضَ فَدَخَلَ مَنْزِلَهُ فَخَاضَ النَّاسُ فِي أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ، وَلَا عَذَابٍ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: فَلَعَلَّهُمُ الَّذِينَ صَحِبُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: فَلَعَلَّهُمُ الَّذِينَ وُلِدُوا فِي الإِسْلَامِ وَلَمْ يُشْرِكُوا بِاللَّهِ، وَذَكَرُوا أَشْيَاءَ، فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا الَّذِي تَخُوضُونَ فِيهِ؟، فَأَخْبَرُوهُ، فَقَالَ: هُمُ الَّذِينَ لَا يَرْقُونَ، وَلَا يَسْتَرْقُونَ، وَلَا يَتَطَيَّرُونَ، وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ، فَقَامَ عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ، فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، فَقَالَ: أَنْتَ مِنْهُمْ؟، ثُمَّ قَامَ رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، فَقَالَ: سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَةُ،
ہشیم نے کہا: ہمیں حصین بن عبد الرحمن نے خبر دی، کہا کہ میں سعید بن جبیر کے پاس موجود تھا، انہوں نے پوچھا: تم میں سے وہ ستارا کس نے دیکھا تھا جو کل رات ٹوٹا تھا۔ میں نے کہا: میں نے، پھر میں نے کہا کہ میں نماز میں نہیں تھا بلکہ مجھے ڈس لیا گیا تھا (کسی موذی جانور نے ڈس لیا تھا۔) انہوں نے پوچھا: پھر تم نے کیا کیا؟ میں نے کہا: میں نے دم کروایا۔ انہوں نےکہا: تمہیں کس چیز نےاس پر آمادہ کیا؟ میں نے جواب دیا: اس حدیث نے جو ہمیں شعبی نے سنائی۔ انہوں نے پوچھا: شعبی نے تمہیں کون سی حدیث سنائی؟ میں نے کہا: انہوں (شعبی) نےہمیں بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت سنائی، انہوں نے بتایا کہ نظر بد لگنے اور زہریلی چیز کےڈسنے کے علاوہ اور کسی چیز کے لیے جھاڑ پھونک نہیں۔ تو سعید نے کہا: جس نے سنا، اسے اختیار کیا تو اچھا کیا۔ لیکن ہمیں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سنائی کہ آپ نے فرمایا: میرے سامنے امتیں پیش کی گئیں، میں نے ایک نبی کو دیکھا، ان کے ساتھ ایک چھوٹا سا (دس سے کم کا) گروہ تھا، کسی (اور) نبی کو دیکھا کہ اس کےساتھ ایک یا دو امتی تھے، کوئی نبی ایسا بھی تھا کہ اس کے ساتھ کوئی امتی نہ تھا، اچانک ایک بڑی جماعت میرے سامنے لائی گئی، مجھے گمان ہوا کہ یہ میرے امتی ہیں، اس پر مجھ سے کہا گیا کہ یہ موسیٰ رضی اللہ عنہ اور ان کی قوم ہے لیکن آپ افق کی طرف دیکھیں، میں نے دیکھا تو (وہاں بھی) ایک بہت بڑی جماعت تھی، مجھے بتایا گیا: یہ آپ کی امت ہے۔ اور ان کےساتھ ایسے ستر ہزار (لوگ) ہیں جو کسی حساب کتاب اور کسی عذاب کے بغیر جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ پھر آپ اٹھے اور ا پنے گھر کے اندر چلے گئے، وہ (صحابہ کرام رضی اللہ عنہ) ان لوگوں کے بارے میں گفتگو میں مصروف ہو گئے، جو بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ ان میں سے بعض نے کہا: شاید وہ لوگ ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل ہے۔ بعض نے کہا: شاید یہ لوگ وہ ہوں گے جو اسلامی دور میں پیدا ہوئے اور (ایک لمحہ بھی) اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کیا اور انہوں نے بعض دوسری باتوں کا بھی تذکرہ کیا پھر (کچھ دیربعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (گھر سے) نکل کر ان کے پاس تشریف لائے اور پوچھا: تو کن باتوں میں لگے ہوئے ہو؟ انہوں نے آپ کو وہ باتیں بتائیں، اس پر آپ نے فرمایا: وہ ایسے لوگ ہیں جو نہ دم کرتے ہیں، نہ دم کرواتے ہیں، نہ شگون لیتے ہیں اور وہ اپنے رب پر پوراتوکل کرتے ہیں۔ اس پر عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئےاور عرض کی: اللہ سے دعا فرمائیے کہ وہ مجھے بھی ان لوگوں میں (شامل) کر دے تو آپ نے فرمایا: تو ان میں سے ہے۔ پھر ایک اور آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا: دعا فرمائیے! اللہ مجھے (بھی) ان میں سے کردے تو آپ نے فرمایا: عکاشہ اس (فرمائش) کے ذریعے سے تم سے سبقت لے گئے۔
حصین بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں، کہ میں سعید بن جبیر کے پاس تھا، انھوں نے پوچھا: کل شام ٹوٹنے والا ستارہ تم میں سے کس نے دیکھا؟ میں نے کہا: میں نے۔ پھر میں نے کہا: میں نماز میں نہیں تھا، کیونکہ مجھے بچھو نے ڈسا تھا۔ انھوں نے کہا: تو تم نے کیا کیا؟ میں نے کہا: میں نے دم کروایا۔ انھوں نے کہا: تو تمھیں کس چیز نے اس پر آمادہ کیا؟ میں نے جواب دیا: اس حدیث نے، جو ہمیں شعبی نے سنائی۔ تو انھوں نےکہا: شعبی نے تمھیں کون سی حدیث سنائی؟ میں نے کہا: شعبی نے ہمیں بریدہ بن حصیب اسلمیؓ سے روایت سنائی، انھوں نے بتایا: دم، نظرِ بد لگنے اور زہریلی چیز کے ڈسنے سے ہی ہے۔ تو سعید نے کہا: جس نے جو سنا اس پر عمل کیا، تو نے اچھا کیا، لیکن ہمیں عبداللہ بن عباس ؓ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنایا آپ نے فرمایا: مجھ پر تمام امتیں پیش کی گئیں، میں نے بعض انبیاءؑ کو دیکھا، ان کے ساتھ ایک چھوٹا سا (دس سے کم کا) گروہ تھا۔ کسی نبیؑ کے ساتھ ایک یا دو امتی تھے، بعض کے ساتھ کوئی امتی نہ تھا۔ اچانک میرے سامنے ایک بہت بڑی جماعت ظاہر ہوئی، میں نے خیال کیا یہ لوگ میرے امتی ہیں، تو مجھے بتایا گیا: یہ موسیٰؑ اور ان کی قوم ہے، لیکن آپ آسمان کے افق (کنارے) کی طرف دیکھیں۔ میں نے دیکھا، تو ایک بہت بڑی جماعت تھی، تو مجھے کہا گیا: دوسرے آسمانی کنارے کی طرف دیکھو! تو میں نے دیکھا، ایک بہت بڑی جماعت تھی۔ تو مجھے بتایا گیا یہ تیری امت ہے اور ان کے ساتھ ستر ہزار افراد ہیں، جو بلا حساب و عذاب جنت میں داخل ہوں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور گھر چلے گئے، تو لوگ (صحابہ کرام ؓ) ان لوگوں کے بارے میں گفتگو کرنے لگے، جو بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ تو بعض نے کہا: شاید یہ وہ لوگ ہوں گے، جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رفاقت کا شرف حاصل ہے۔ بعض نے کہا: شاید یہ وہ لوگ ہوں گے، جو اسلامی دور میں پیدا ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کیا۔ اور بعض نے کچھ اور باتوں کا تذکرہ کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور پوچھا: تم کن باتوں میں مشغول ہو؟ یعنی (کس مسئلہ پر بحث کر رہے ہو) انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا، اس پر آپ نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں، جو نہ دم کرتے ہیں، نہ دم کرواتے ہیں اور اور نہ بد شگونی پکڑتے ہیں، اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس پر عکاشہ بن محصنؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اللہ سے دعا فرمائیے! کہ مجھے بھی ایسے لوگوں سے کر دے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو ان میں سے ہے۔ پھر ایک اور آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسولؐ! دعا فرمائیے! اللہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے عکاشہ سبقت لے گیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في احاديث الانبياء وفاة موسى ذكره بعد حدیث (3410) مختصراً وفى الطب، باب: مناکتوی، او کوی غیره، وفضل من لم يكتو برقم (5705) وفي باب: من لم يرق برقم (5752) وفي الرقاق، باب: ﴿ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ﴾ برقم (6472) وفي، باب: يدخل الجنة سبعون الفا بغير حساب برقم (6541) والترمذي في ((جـامـعـه)) في الزهد، باب: 16 برقم (22446) وقال: هذا حديث حسن صحيح ((تحفة الاشراف)) (5493)»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 527 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 527  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
انْقَضَّ:
ٹوٹا،
گرا۔
(2)
الْبَارِحَة:
گزشتہ رات۔
(3)
لُدِغْتُ:
مجھے بچھو یا زہریلی چیز نے ڈس لیا۔
(4)
عَيْنٌ:
نظر بد لگنا۔
(5)
حُمَةٌ:
زہر،
ڈنک یا اس کی شدت و حرارت۔
(6)
الرُّهَيْطُ:
رَهْطٌ کی تصغیر ہے،
دس سے کم افراد کا گروہ۔
(7)
خَاضَ فِيْهِ:
کسي چیز میں مشغول ہونا،
"خَاضَ فِيْ الْحَدِيْثِ" کا معنی ہوتا ہے،
گفتگو میں مشغول ہونا۔
فوائد ومسائل:
حضرت بریدہ ؓ کی حدیث کا مطلب یہ ہے،
کہ نظرِ بد اور زہریلی چیز کے ڈسنے سے صحیح دم کرنا بہت جلد فائدہ پہنچاتا ہے،
جیسا کہ حضرت ابو سعید خدریؓ نے فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا،
تو وہ شخص فوراً صحت مند ہوگیا تھا اور ایسے محسوس ہوتا تھا کہ اس کو کوئی تکلیف ہی نہ تھی۔
دونوں حدیثوں میں تعارض نہیں ہے،
دوسری حدیث کا صحیح مفہوم ہم بیان کر چکے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 527