حدثني إسحاق بن منصور ، اخبرنا عبيد الله بن موسى ، عن شيبان ، عن يحيى ، اخبرني ابو سلمة ، انه سمع ابا هريرة ، يقول: إن خزاعة قتلوا رجلا من بني ليث عام فتح مكة بقتيل منهم قتلوه، فاخبر بذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فركب راحلته فخطب، فقال: " إن الله عز وجل حبس عن مكة الفيل، وسلط عليها رسوله والمؤمنين، الا وإنها لم تحل لاحد قبلي، ولن تحل لاحد بعدي، الا وإنها احلت لي ساعة من النهار، الا وإنها ساعتي هذه حرام، لا يخبط شوكها، ولا يعضد شجرها، ولا يلتقط ساقطتها، إلا منشد، ومن قتل له قتيل، فهو بخير النظرين، إما ان يعطى، يعني الدية، وإما ان يقاد اهل القتيل "، قال: فجاء رجل من اهل اليمن، يقال له: ابو شاه، فقال: اكتب لي يا رسول الله، فقال: " اكتبوا لابي شاه "، فقال رجل من قريش: إلا الإذخر، فإنا نجعله في بيوتنا وقبورنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إلا الإذخر ".حَدَّثَنِي إِسْحَاقَ بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ شَيْبَانَ ، عَنْ يَحْيَى ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: إِنَّ خُزَاعَةَ قَتَلُوا رَجُلًا مِنْ بَنِي لَيْثٍ عَامَ فَتْحِ مَكَّةَ بِقَتِيلٍ مِنْهُمْ قَتَلُوهُ، فَأُخْبِرَ بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَكِبَ رَاحِلَتَهُ فَخَطَبَ، فقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ الْفِيلَ، وَسَلَّطَ عَلَيْهَا رَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ، أَلَا وَإِنَّهَا لَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي، وَلَنْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ بَعْدِي، أَلَا وَإِنَّهَا أُحِلَّتْ لِي سَاعَةً مِنَ النَّهَارِ، أَلَا وَإِنَّهَا سَاعَتِي هَذِهِ حَرَامٌ، لَا يُخْبَطُ شَوْكُهَا، وَلَا يُعْضَدُ شَجَرُهَا، وَلَا يَلْتَقِطُ سَاقِطَتَهَا، إِلَّا مُنْشِدٌ، وَمَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ، فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ، إِمَّا أَنْ يُعْطَى، يَعْنِي الدِّيَةَ، وَإِمَّا أَنْ يُقَادَ أَهْلُ الْقَتِيلِ "، قَالَ: فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ، يُقَالَ لَهُ: أَبُو شَاهٍ، فقَالَ: اكْتُبْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فقَالَ: " اكْتُبُوا لِأَبِي شَاهٍ "، فقَالَ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ: إِلَّا الْإِذْخِرَ، فَإِنَّا نَجْعَلُهُ فِي بُيُوتِنَا وَقُبُورِنَا، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِلَّا الْإِذْخِرَ ".
شیبان نے یحییٰ سے روایت کی، (کہا:) مجھے ابو سلمہ نے خبر دی، انھوں نے حجرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے: فتح مکہ کے سال خزاعہ نے بنو لیث کا ایک آدمی اپنے ایک مقتول کے بدلے میں جسے انھوں نے (بنولیث) نے قتل کیا تھا قتل کر دیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی گئی تو آپ اپنی سواری پر بیٹھے اور خطبہ ارشاد فرمایا: " بلا شبہ اللہ عزوجل نے ہا تھی کو مکہ (پر حملے) سے روک دیا جبکہ اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کو اس پر تسلط عطا کیا۔مجھ سے پہلے یہ کسی کے لیے حلال نہیں تھا اور میرے بعد بھی ہر گز کسی کے لیے حلال نہ ہو گا۔سن لو!یہ میرے لیے دن کی ایک گھڑی بھر حلال کیا گیا تھا اور (اب) یہ میری اس موجودہ گھڑی میں بھی حرمت والا ہے نہ ڈنڈے کے ذریعے سے اس کے کانٹے جھا ڑے جا ئیں نہ اس کے درخت کا ٹے جائیں اور نہ ہی اعلان کرنے والے کے سوا اس میں گری ہو ئی چیز اٹھا ئے اور جس کا کوئی قریبی قتل کر دیا گیا اس کے لیے دو صورتوں میں سے وہ ہے جو (اس کی نظر میں) بہتر ہو: ہا سے عطا کر دیا جا ئے۔یعنی خون بہا۔۔۔یا مقتول کے گھر والوں کو اس سے بدلہ لینے دیا جا ئے۔کہا: تو اہل یمن میں سے ایک آدمی آیا جسے ابو شاہ کہا جا تا تھا اس نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے لکھوا دیں آپ نے فرمایا: "ابو شاہ کو لکھ دو۔ قریش کے ایک آدمی نے عرض کی: اذخر کے سوا، (کیونکہ) ہم اسے اپنے گھروں اور اپنی قبروں میں استعمال کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اذخر کے سوا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ خزاعہ نے فتح مکہ کے سال بنو لیث کا ایک آدمی اپنے ایک مقتول کے بدلہ میں جو بنو لیث نے قتل کیا تھا، قتل کر دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر سوار ہو کر خطبہ دیا اور فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مکہ میں ہاتھی کو (داخل ہونے سے) روک دیا تھا، اور اس پر اپنے رسول اور مومنوں کو غلبہ عنایت فرمایا ہے، خبردار! یہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال قرار نہیں دیا گیا (کہ وہ اس پر حملہ آور ہو) اور نہ ہر گز میرے بعد کسی کے لیے حلال ہو گا، خبردار! میرے لیے بھی دن کے کچھ وقت کے لیے حلال قرار دیا گیا تھا، خبردار! اب وہ اس وقت محترم ہے، اس کے کانٹے، گرائے نہیں جا سکیں گے، اور نہ ہی اس کے درخت کاٹے جائیں گے، اور اس کی گری پڑی چیز وہی اٹھا سکے گا، جو تشہیر کرنا چاہتا ہو، اور جس شخص کا کوئی عزیز قتل کر دیا جائے تو اسے دو چیزوں میں سے ایک کے انتخاب کا حق حاصل ہو گا، یا تو اسے دیت دلوائی جائے گی یا مقتول کے ورثاء کو قصاص دلوایا جائے گا۔“(قاتل ان کے حوالہ کیا جائے گا کہ وہ قتل کر دیں) اس کے بعد ایک یمنی آدمی ابو شاہ نامی آیا اور اس نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے لکھوا دیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابو شاہ کو لکھ دو۔“ قریش میں سے ایک آدمی نے عرض کیا، اَذْخَرْ
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3306
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اَذْخَرْ کا استثناء آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی سے فرمایا یا عدم حرج کے اصول کے مطابق، وضع حرج کے لیے اجتہاد فرمایا، جس کو اللہ تعالیٰ نے برقرار رکھا، اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ آپ کو احکام صادر کرنے کا اختیار تھا اور آپ حلال وحرام کا اختیار رکھتے تھے۔