سنن دارمي
من كتاب الفرائض
وراثت کے مسائل کا بیان
5. باب في الْمُشَرَّكَةِ:
مشرکہ یعنی بھائیوں کی شرکت کا بیان
حدیث نمبر: 2921
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ، حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ، عَنْ الْحَجَّاجِ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ فَيْرُوزَ، عَنْ أَبِيه: أَنَّ عُمَرَ قَالَ فِي الْمُشَرَّكَة: "لَمْ يَزِدْهُمْ الْأَبُ إِلَّا قُرْبًا.
سعید بن فیروز نے اپنے والد سے روایت کیا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مشرکہ کے مسئلہ میں کہا: تینوں قسم کے بھائیوں میں باپ اور قربت پیدا کر دیتا ہے۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف من أجل حجاج وهو: ابن أرطاة، [مكتبه الشامله نمبر: 2929]»
حجاج بن ارطاة کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے، لیکن اوپر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول صحیح سند سے گذر چکا ہے۔ دیکھئے: رقم (2916) و [ابن أبى شيبه 255/11]، [عبدالرزاق 19009]
وضاحت: (تشریح احادیث 2916 سے 2921)
ان تمام آثار سے معلوم ہوا کہ سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا زید رضی اللہ عنہم اور قاضی شریح رحمہ اللہ وغیرہ حقیقی، علاتی اخیافی یعنی مادری و پدری سب بھائیوں کو شریک کرتے تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ شریک نہ کرتے تھے۔
اور صورت مسئلہ اس طرح بنے گی کہ ایک عورت خاوند، ماں (یا دادی)، مادری بھائیوں، اور ایک یا ایک سے زیادہ حقیقی بھائیوں کو چھوڑ کر فوت ہو جائے تو اس صورت میں مسئلہ 6 سے ہوگا، جن میں سے نصف یعنی 3 حصے خاوند کے، چھٹا یعنی ایک حصہ ماں کا، اور ایک تہائی یعنی دو حصے مادری بھائیوں کو، اور حقیقی بھائیوں کو کیونکہ وہ عصبہ ہیں کچھ نہ ملے گا، اور ترکہ کے اصحاب الفروض میں مکمل ہونے کی صورت میں عصبہ محروم ہوتے ہیں۔
خاوند . . . . نصف . . . . 3
ماں . . . . سدس . . . . 1
مادری بھائی . . . . ثلث . . . . 2
حقیقی بھائی . . . . کچھ نہیں
لیکن امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اجتہاد کر کے حقیقی بھائی یا بھائیوں کو مادری بھائیوں کے حصہ تہائی میں شریک قرار دیا، لہٰذا سب یہی برابر تقسیم کریں گے، اور یہ ایک مخصوص صورت ہے جس میں حقیقی بھائی مادری بھائی کے مانند ہے، اور وراثت کے ایک تنہائی میں سب شریک ہوں گے، اس مسئلہ کو مشترکہ، مشترکہ حجریہ (اور عمریہ و حماریہ) بھی کہتے ہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل حجاج وهو: ابن أرطاة