كِتَاب الْإِيمَانِ ایمان کے احکام و مسائل The Book of Faith 6. باب الْأَمْرِ بِالْإِيمَانِ بِاللَّهِ تَعَالَى وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَائِعِ الدِّينِ وَالدُّعَاءِ إِلَيْهِ وَالسُّؤَالِ عَنْهُ وَحِفْظِهِ وَتَبْلِيغِهِ مَنْ لَمْ يَبْلُغْهُ باب: اللہ و رسول اور دینی احکام پر ایمان لانے کا حکم کرنا اور اس کی طرف لوگوں کو بلانا دین کی باتوں کو پوچھنا یاد رکھنا اور دوسروں کو پہنچانا۔ Chapter: The command to believe in Allah and His Messenger (saws) and the laws of Islam, calling people to it, asking about it, memorizing it and conveying it to those who have not heard the message حدثنا خلف بن هشام ، حدثنا حماد بن زيد ، عن ابي جمرة ، قال: سمعت ابن عباس . ح وحدثنا يحيى بن يحيى واللفظ له، اخبرنا عباد بن عباد ، عن ابي جمرة ، عن ابن عباس ، قال: قدم وفد عبد القيس، على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: يا رسول الله، إنا هذا الحي من ربيعة، وقد حالت بيننا وبينك كفار مضر، فلا نخلص إليك إلا في شهر الحرام، فمرنا بامر نعمل به وندعو إليه من وراءنا، قال: آمركم باربع، وانهاكم عن اربع، الإيمان بالله، ثم فسرها لهم، فقال: " شهادة ان لا إله إلا الله وان محمدا رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وان تؤدوا خمس ما غنمتم، وانهاكم عن الدباء، والحنتم، والنقير، والمقير "، زاد خلف في روايته: شهادة ان لا إله إلا الله، وعقد واحدة.حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ . ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى وَاللَّفْظُ لَهُ، أَخْبَرَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَدِمَ وَفْدُ عَبْدِ الْقَيْسِ، عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا هَذَا الْحَيَّ مِنْ رَبِيعَةَ، وَقَدْ حَالَتْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ كُفَّارُ مُضَرَ، فَلَا نَخْلُصُ إِلَيْكَ إِلَّا فِي شَهْرِ الْحَرَامِ، فَمُرْنَا بِأَمْرٍ نَعْمَلُ بِهِ وَنَدْعُو إِلَيْهِ مَنْ وَرَاءَنَا، قَالَ: آمُرُكُمْ بِأَرْبَعٍ، وَأَنْهَاكُمْ عَنْ أَرْبَعٍ، الإِيمَانِ بِاللَّهِ، ثُمَّ فَسَّرَهَا لَهُمْ، فَقَالَ: " شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَأَنْ تُؤَدُّوا خُمُسَ مَا غَنِمْتُمْ، وَأَنْهَاكُمْ عَنِ الدُّبَّاءِ، وَالْحَنْتَمِ، وَالنَّقِيرِ، وَالْمُقَيَّرِ "، زَادَ خَلَفٌ فِي رِوَايَتِهِ: شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَعَقَدَ وَاحِدَةً. خلف بن ہشام نے بیان کیا (کہا) ہمیں حماد بن زید نے ابو جمرہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا، نیز یحییٰ بن یحییٰ نے کہا: (الفاظ انہی کے ہیں) ہمیں عباد بن عباد نے ابو جمرہ سے خبر دی کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عبدالقیس کا وفد آیا۔ وہ (لوگ) کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! ہم لوگ (یعنی) بنو ربیعہ کا یہ قبیلہ ہے۔ ہمارے اور آپ کے درمیان (قبیلہ) مضر کے کافر حائل ہیں اور ہم حرمت والے مہینے کے سوا بحفاظت آپ تک نہیں پہنچ سکتے، لہٰذا آپ ہمیں وہ حکم دیجیے جس پر خود بھی عمل کریں اور جو پیچھے ہیں ان کو بھی اس کی دعوت دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں: (جن کا حکم دیتا ہوں وہ ہیں:) ”اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا“ پھر آپ نے ان کے سامنے ایمان باللہ کی وضاحت کی، فرمایا: ” اس حقیقت کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم بالیقین اللہ کے رسول ہیں۔ نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا اور جومال غنیمت تمہیں حاصل ہو، اس میں سے خمس (پانچواں حصہ) ادا کرنا۔ اور میں تمہیں روکتا ہوں کدو کے برتن، سبز گھڑے، لکڑی کے اندر سے کھود کر (بنائے ہوئے) برتن اور ا یسے برتنوں کے استعمال سے جن پر تارکول ملا گیا ہو۔“ خلف نےاپنی روایت میں یہ اضافہ کیا: ” اس (سچائی) کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔“ اسے انہوں نےانگلی کے اشارے سے ایک شمار کیا۔ حضرت ابنِ عباس رضی الله عنهما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عبد القیس کا وفد حاضر ہوا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسولؐ! ہم ربیعہ قبیلے کے افراد ہیں، ہمارے اور آپ کے درمیان مضر قبیلہ جو کافر ہے، حائل ہے اور ہم حرمت والے مہینے کے سوا آپ تک پہنچ نہیں سکتے۔ لہذٰا آپ ہمیں کسی ایسے امر(حکم، بات) کا حکم دیجیے جس پرہم عمل پیرا ہوں اور اپنے پیچھے رہ جانے والے لوگوں کو اس کی دعوت دیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: ”میں تمھیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور تمھیں چار چیزوں سے روکتا ہوں- 1۔ اللہ تعالیٰ پر اایمان لانا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ایمان باللہ کی تفسیر کی، فرمایا: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں اور بے شک محمد اللہ کے رسول ہیں۔ 2۔ نماز قائم کرنا۔ 3۔ زکوٰۃ ادا کرنا۔ 4۔ مالِ غنیمت جو تمھیں حاصل ہو اس سے پانچواں حصہ ادا کرنا۔ اور میں تمھیں دُباء (کدّو کا تونبہ) سبز گھڑے، لکڑی کے برتن، تار کول ملے ہوئے برتن کے استعمال سے منع کرتا ہوں۔“ خلف نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا، ”اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں کا اقرار۔“ اور اس کو آپ نےانگلی کے اشارے سے ایک شمار کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((صحيحه)) فى الايمان، باب: اداء الخمس من الايمان برقم (53) وفى المواقيت، باب: ﴿ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴾ برقم (523) وفي الزكاة باب: وجوب الزكاة برقم (1398) وفى فرض الخمس، باب: اداء الخمس من الدين برقم (3095) وفى المناقب، باب: 5 - برقم (3510) وفي المغازي باب: وقد عبد القيس برقم (4368 و 4369) وأخرجه ايضا فى الادب، باب: قول الرجل: مرحبا برقم (6176) وفى اخبار الاحاد، باب: وصاة النبى صلى الله عليه وسلم وفود العرب ان يبلغوا من ورائهم برقم (7266) وفى التوحيد، باب: قول الله تعالى: ﴿ وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ ﴾ برقم (7556)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، ومحمد بن المثنى ، ومحمد بن بشار والفاظهم متقاربة، قال ابو بكر: حدثنا غندر ، عن شعبة ، قال الآخران: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي جمرة ، قال: كنت اترجم بين يدي ابن عباس وبين الناس، فاتته امراة تساله عن نبيذ الجر، فقال: إن وفد عبد القيس، اتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من الوفد، او من القوم؟ قالوا: ربيعة، قال: مرحبا بالقوم، او بالوفد، غير خزايا ولا الندامى، قال: فقالوا: يا رسول الله، إنا ناتيك من شقة بعيدة، وإن بيننا وبينك هذا الحي من كفار مضر، وإنا لا نستطيع ان ناتيك إلا في شهر الحرام، فمرنا بامر فصل نخبر به، من وراءنا ندخل به الجنة، قال: فامرهم باربع، ونهاهم عن اربع، قال: امرهم بالإيمان بالله وحده، وقال: هل تدرون ما الإيمان بالله؟ قالوا: الله ورسوله اعلم، قال: " شهادة ان لا إله إلا الله وان محمدا رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وصوم رمضان، وان تؤدوا خمسا من المغنم، ونهاهم عن الدباء، والحنتم، والمزفت "، قال شعبة، وربما قال النقير، قال شعبة، وربما قال المقير: وقال: احفظوه، واخبروا به من ورائكم، وقال ابو بكر في روايته: من وراءكم، وليس في روايته المقير.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بشار وَأَلْفَاظُهُمْ مُتَقَارِبَة، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ ، قَالَ الآخَرَانِ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ ، قَالَ: كُنْتُ أُتَرْجِمُ بَيْنَ يَدَيْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَبَيْنَ النَّاسِ، فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ تَسْأَلُهُ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ، فَقَالَ: إِنَّ وفدَ عَبْدِ الْقَيْسِ، أَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنِ الْوَفْدُ، أَوْ مَنِ الْقَوْمُ؟ قَالُوا: رَبِيعَةُ، قَالَ: مَرْحَبًا بِالْقَوْمِ، أَوْ بِالْوَفْدِ، غَيْرَ خَزَايَا وَلَا النَّدَامَى، قَالَ: فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نَأْتِيكَ مِنْ شُقَّةٍ بَعِيدَةٍ، وَإِنَّ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ هَذَا الْحَيَّ مِنْ كُفَّارِ مُضَرَ، وَإِنَّا لَا نَسْتَطِيعُ أَنْ نَأْتِيَكَ إِلَّا فِي شَهْرِ الْحَرَامِ، فَمُرْنَا بِأَمْرٍ فَصْلٍ نُخْبِرْ بِهِ، مَنْ وَرَاءَنَا نَدْخُلُ بِهِ الْجَنَّةَ، قَالَ: فَأَمَرَهُمْ بِأَرْبَعٍ، وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ، قَالَ: أَمَرَهُمْ بِالإِيمَانِ بِاللَّهِ وَحْدَهُ، وَقَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَا الإِيمَانُ بِاللَّهِ؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامُ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَصَوْمُ رَمَضَانَ، وَأَنْ تُؤَدُّوا خُمُسًا مِنَ الْمَغْنَمِ، وَنَهَاهُمْ عَنِ الدُّبَّاءِ، وَالْحَنْتَمِ، وَالْمُزَفَّتِ "، قَالَ شُعْبَةُ، وَرُبَّمَا قَالَ النَّقِيرِ، قَالَ شُعْبَةُ، وَرُبَّمَا قَالَ الْمُقَيَّرِ: وَقَالَ: احْفَظُوهُ، وَأَخْبِرُوا بِهِ مِنْ وَرَائِكُمْ، وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ فِي رِوَايَتِهِ: مَنْ وَرَاءَكُمْ، وَلَيْسَ فِي رِوَايَتِهِ الْمُقَيَّرِ. شعبہ نے ابو جمرہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور (دوسرے) لوگوں کے درمیان ترجمان تھا، ان کے پاس ایک عورت آئی، وہ ان سے گھڑے کی نبیذ کے بارے میں سوال کر رہی تھی توحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عبد القیس کا وفد آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ کون سا وفد ہے؟ (یا فرمایا: یہ کو ن لوگ ہیں؟)“ انہوں نے کہا: ربیعہ (قبیلہ سے ہیں۔) فرمایا: ” اس قوم (یا وفد) کو خوش آمدید جو رسوا ہوئے نہ نادم۔“ (ابن عباس رضی اللہ عنہ نے) کہا، ان لوگوں نے عرض کی: اے اللہ کےرسول! ہم لوگ آپ کے پاس بہت دور سے آتے ہیں، ہمارے اور آپ کے درمیان مضر کے کافروں کا یہ قبیلہ (حائل) ہے، ہم (کسی) حرمت والے مہینے کے سوا آپ کے پاس نہیں آ سکتے، آپ ہمیں فیصلہ کن بات بتائیے جو ہم اپنے (گھروں میں) پیچھے لوگوں کو (بھی) بتائیں اور اس کے ذریعے سے ہم جنت میں داخل ہو جائیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بتایا: آپ نے ان چار باتوں کا حکم دیا اور چار چیزیں سے روکا۔ آپ نے ان کو اکیلے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا کا حکم دیا اور پوچھا: ”جانتے ہو، صرف اللہ پر ایمان لانا کیا ہے؟“ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”اس حقیقت کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکاۃ دینا، رمضان کے روزے رکھنا اور یہ کہ تم مال غنیمت میں سے اس کا پانچواں حصہ ادا کرو۔“ اور انہیں خشک کدو سے بنائے ہوئے برتن، سبز مٹکے اور تارکول ملے ہوئے برتن (استعمال کرنے) سے منع کیا (شعبہ نے کہا:) ابو جمرہ نے شاید نقیر (لکڑی میں کھدائی کر کے بنایا ہوا برتن کہا یا شاید مقیر (تارکول ملا ہوا برتن) کہا۔ اور آپ نے فرمایا: ”ان کو خوب یاد رکھو اور اپنے پیچھے (والوں کو) بتا دو۔“ ابو بکر بن ابی شیبہ کی روایت میں (من ورائکم کے بجائے) من وراءکم (ان کو (بتاؤ) جو تمہارے پیچھے ہیں) کے الفاظ ہیں اور ان کی روایت میں مقیر کا ذکر نہیں (بلکہ نقیر کا ہے۔) ابو جمرہ ؒ بیان کرتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما اور دوسرے لوگوں کے درمیان ترجمان تھا۔ ان کے پاس ایک عورت ان سے گھڑے کے نبیذ کے بارے میں سوال کرنے کے لیے آئی۔ ابنِ عباس رضی اللہ عنھما نے جواب دیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عبد القیس کا وفد آیا تو آپؐ نے پوچھا یہ وفد کون ہے؟ یا یہ کون لوگ ہیں؟ انھوں نے کہا: ربیعہ فرمایا قوم یا وفد کو خوش آمدید! جسے رسوائی ذلت اور شرمندگی و ندامت نہیں اٹھانی پڑی۔ ان لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسولؐ! ہم لوگ آپ کے پاس بہت دور سے آئے ہیں اور ہمارے اور آپ کے درمیان یہ کافر قبیلہ مُضَر حائل ہےاور ہم آپ ؐ کے پاس حرمت والے مہینوں کے سوا نہیں آ سکتے۔ لہذا آپؐ ہمیں دوٹوک (فیصلہ کُن) بات بتائیے۔ ہم اس کو اپنے پچھلےلوگوں کو بتائیں اور اس کے ذریعہ سے ہم جنت میں چلے جائیں۔ ابنِ عباس رضی اللہ عنھما نے بتایا کہ آپؐ نے ان کو چار باتوں کا حکم دیا اور چار باتوں سے روکا۔ آپؐ نے ان کو صرف اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا حکم دیا اور پوچھا: جانتے ہو! صرف اللہ پر ایمان لانا کیا ہے؟ انھوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جانتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: ”گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ دینا، رمضان کے روزے رکھنا اور تم مالِ غنیمت میں سےاس کا پانچواں حصہ دینا اور انھیں خشک کدّو سے بنائے ہوئے برتن، سبز مٹکے اور تارکول ملے ہوئے برتن سے منع کیا۔“ شعبہ کہتے ہیں: ابو جمرہ ؒ نے بعض دفعہ نقیر لکڑی میں کھدائی کیا ہوا برتن کہا اور بعض دفعہ مقیر تارکول ملا ہوا برتن کہا اور آپؐ نے فرمایا: ”اس کو خود یاد رکھو اور اس کی اپنے پچھلوں کو خبر د۔“ ابو بکر بن ابی شیبہ کی روایت میں مِنْ وَّرَاءَكُمْ کی بجائے مَنْ وَرَاءَكُمْ کے الفاظ ہیں اور اس کی روایت میں مُقیر کا ذکر نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخرجه في الحديث السابق برقم (115)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني عبيد الله بن معاذ ، حدثنا ابي . ح وحدثنا نصر بن علي الجهضمي ، قال: اخبرني ابي ، قالا: جميعا حدثنا قرة بن خالد ، عن ابي جمرة ، عن ابن عباس ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، بهذا الحديث نحو حديث شعبة، وقال: " انهاكم عما ينبذ في الدباء، والنقير، والحنتم، والمزفت "، وزاد ابن معاذ في حديثه، عن ابيه، قال: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم للاشج: اشج عبد القيس: " إن فيك خصلتين يحبهما الله، الحلم والاناة ".وحَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي . ح وحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي ، قَالَا: جَمِيعًا حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِهَذَا الْحَدِيثِ نَحْوَ حَدِيثِ شُعْبَةَ، وَقَالَ: " أَنْهَاكُمْ عَمَّا يُنْبَذُ فِي الدُّبَّاءِ، وَالنَّقِيرِ، وَالْحَنْتَمِ، وَالْمُزَفَّتِ "، وَزَادَ ابْنُ مُعَاذٍ فِي حَدِيثِهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْأَشَجِّ: أَشَجِّ عَبْدِ الْقَيْسِ: " إِنَّ فِيكَ خَصْلَتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللَّهُ، الْحِلْمُ وَالأَنَاةُ ". قرہ بن خالد نے ابوجمرہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شعبہ کی (سابقہ روایت کی) طرح حدیث بیان کی (اس کے الفاظ ہیں:) رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں اس نبیذ سے منع کرتا ہوں جو خشک کدو کے برتن، لکڑی سے تراشیدہ برتن، سبز مٹکے اور تارکول ملے برتن میں تیار کی جائے (اس میں زیادہ خمیر اٹھنے کا خدشہ ہے جس سے نبیذ شراب میں بدل جاتی ہے۔)“ ابن معاذ نے اپنے والد کی روایت میں اضافہ کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد القیس کے پیشانی پر زخم والے شخص (اشج) سے کہا: ”تم میں دو خوبیاں ہیں جنہیں اللہ پسند فرماتا ہے: عقل اور تحمل۔“ ابو جمرہ ؒ ابنِ عباس رضی اللہ عنھما کی یہ مرفوع حدیث بیان کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: میں تمھیں اس نبیذ سے منع کرتا ہوں جو دباء (تونبہ لکڑی کے تراشیدہ برتن) سبز مٹکے اور تار کول ملے برتن میں تیار کیا جائے۔ ابنِ معاذ ؒ نے اپنے باپ کی روایت میں یہ اضافہ کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد القیس کے اشج سے فرمایا: ”تم میں دو خوبیاں ایسی ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے:"عقل و سمجھ داری اور ٹھہراؤ و وقار۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخرجه في الحديث قبل السابق برقم (115)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا يحيي بن ايوب ، حدثنا ابن علية ، حدثنا سعيد بن ابي عروبة ، عن قتادة ، قال: حدثنا من لقي الوفد، الذين قدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم من عبد القيس، قال سعيد: وذكر قتادة ابا نضرة ، عن ابي سعيد الخدري في حديثه هذا، ان اناسا من عبد القيس، قدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: يا نبي الله، إنا حي من ربيعة، وبيننا وبينك كفار مضر، ولا نقدر عليك إلا في اشهر الحرم، فمرنا بامر نامر به من وراءنا وندخل به الجنة، إذا نحن اخذنا به، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " آمركم باربع وانهاكم عن اربع، اعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا، واقيموا الصلاة، وآتوا الزكاة، وصوموا رمضان، واعطوا الخمس من الغنائم، وانهاكم عن اربع، عن الدباء، والحنتم، والمزفت، والنقير "، قالوا: يا نبي الله، ما علمك بالنقير؟ قال: بلى، جذع تنقرونه فتقذفون فيه من القطيعاء، قال سعيد او قال: من التمر، ثم تصبون فيه من الماء، حتى إذا سكن غليانه شربتموه، حتى إن احدكم او إن احدهم ليضرب ابن عمه بالسيف، قال: وفي القوم رجل اصابته جراحة كذلك، قال: وكنت اخباها حياء من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: ففيم نشرب يا رسول الله؟ قال: في اسقية الادم التي يلاث على افواهها، قالوا: يا رسول الله، إن ارضنا كثيرة الجرذان، ولا تبقى بها اسقية الادم، فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم: وإن اكلتها الجرذان، وإن اكلتها الجرذان، وإن اكلتها الجرذان، قال: وقال نبي الله صلى الله عليه وسلم لاشج عبد القيس: " إن فيك لخصلتين يحبهما الله، الحلم والاناة ".حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ أَيُّوبَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَنْ لَقِيَ الْوَفْدَ، الَّذِينَ قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عَبْدِ الْقَيْسِ، قَالَ سَعِيدٌ: وَذَكَر قَتَادَةُ أَبَا نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ فِي حَدِيثِهِ هَذَا، أَنَّ أُنَاسًا مِنْ عَبْدِ الْقَيْسِ، قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنَّا حَيٌّ مِنْ رَبِيعَةَ، وَبَيْنَنَا وَبَيْنَكَ كُفَّارُ مُضَرَ، وَلَا نَقْدِرُ عَلَيْكَ إِلَّا فِي أَشْهُرِ الْحُرُمِ، فَمُرْنَا بِأَمْرٍ نَأْمُرُ بِهِ مَنْ وَرَاءَنَا وَنَدْخُلُ بِهِ الْجَنَّةَ، إِذَا نَحْنُ أَخَذْنَا بِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " آمُرُكُمْ بِأَرْبَعٍ وَأَنْهَاكُمْ عَنْ أَرْبَعٍ، اعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ، وَآتُوا الزَّكَاةَ، وَصُومُوا رَمَضَانَ، وَأَعْطُوا الْخُمُسَ مِنَ الْغَنَائِمِ، وَأَنْهَاكُمْ عَنْ أَرْبَعٍ، عَنِ الدُّبَّاءِ، وَالْحَنْتَمِ، وَالْمُزَفَّتِ، وَالنَّقِيرِ "، قَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، مَا عِلْمُكَ بِالنَّقِيرِ؟ قَالَ: بَلَى، جِذْعٌ تَنْقُرُونَهُ فَتَقْذِفُونَ فِيهِ مِنَ الْقُطَيْعَاءِ، قَالَ سَعِيدٌ أَوَ قَالَ: مِنَ التَّمْرِ، ثُمَّ تَصُبُّونَ فِيهِ مِنَ الْمَاءِ، حَتَّى إِذَا سَكَنَ غَلَيَانُهُ شَرِبْتُمُوهُ، حَتَّى إِنَّ أَحَدَكُمْ أَوْ إِنَّ أَحَدَهُمْ لَيَضْرِبُ ابْنَ عَمِّهِ بِالسَّيْفِ، قَالَ: وَفِي الْقَوْمِ رَجُلٌ أَصَابَتْهُ جِرَاحَةٌ كَذَلِكَ، قَالَ: وَكُنْتُ أَخْبَأُهَا حَيَاءً مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: فَفِيمَ نَشْرَبُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: فِي أَسْقِيَةِ الأَدَمِ الَّتِي يُلَاثُ عَلَى أَفْوَاهِهَا، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَرْضَنَا كَثِيرَةُ الْجِرْذَانِ، وَلَا تَبْقَى بِهَا أَسْقِيَةُ الأَدَمِ، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَإِنْ أَكَلَتْهَا الْجِرْذَانُ، وَإِنْ أَكَلَتْهَا الْجِرْذَانُ، وَإِنْ أَكَلَتْهَا الْجِرْذَانُ، قَالَ: وَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَشَجِّ عَبْدِ الْقَيْسِ: " إِنَّ فِيكَ لَخَصْلَتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللَّهُ، الْحِلْمُ وَالأَنَاةُ ". (اسماعیل) ابن علیہ نے کہا: ہمیں سعید بن ابی عروبہ نے قتادہ سے حدیث سنائی، انہوں نےکہا: مجھے اس شخص نے بتایا جو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے والے عبد القیس کے وفد سے ملے تھا (سعید نےکہا: قتادہ نے ابو نضرہ کا نام لیا تھا یہ وفد سے ملے تھے، اور تفصیل حضرت ابو سعید سے سن کر بیان کی) انہوں نےحضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے یہ روایت کی کہ عبد القیس کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہم ربیعہ کے لوگ ہیں، ہمارے اور آپ کے درمیان مضر کے کافر حائل ہیں اور ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ آپ کی خدمت میں نہیں پہنچ سکتے، اس لیے آپ ہمیں وہ حکم دیجیے جو ہم اپنے پچھلوں کو بتائیں اور اگر اس پر عمل کر لیں تو ہم (سب) جنت میں داخل ہو جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہ و: (حکم دیتا ہوں کہ) اللہ تعالیٰ کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز کی پابندی کرو، زکاۃ دیتے رہو، رمضان کے روزے رکھو اور غنیمتوں کا پانچواں حصہ ادا کرو۔ اور چار چیزیں سے میں تمہیں روکتا ہوں: خشک کدو کے برتن سے، سبز مٹکے سے، ایسے برتن سے جس کو روغن زفت (تارکول) لگایا گیا ہو اور نقیر (لکڑی کے تراشے ہوئے برتن) سے۔“ ان لوگوں نے کہا: اے اللہ کے نبی! آپ کو نقیر کے بارے میں کیا علم ہے؟ فرمایا: ”کیوں نہیں! (یہ) تنا ہے، تم اسے اندر سے کھوکھلا کرتے ہو، اس میں ملی جلی چھوٹی کھجوریں ڈالتے ہو) پھر اس میں پانی ڈالتے ہو، پھر جب اس کا جوش (خمیر اٹھنے کے بعد کا جھاگ) ختم ہو جاتا ہے تواسے پی لیتے ہو یہاں تک کہ تم میں سے ایک (یا ان میں ایک) اپنے چچازاد کو تلوار کا نشانہ بناتا ہے۔“ ابو سعید نے کہا: لوگوں میں ایک آدمی تھا جس کو اسی طرح ایک زخم لگا تھا۔ اس نے کہا: میں شرم و حیا کی بنا پر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھپا رہا تھا، پھر میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! تو ہم کس پیا کریں؟ آپ نے فرمایا: ”چمڑے کی ان مشکوں میں پیو جن کے منہ (دھاگے وغیرہ سے) باندھ دیے جاتے ہیں۔“ اہل وفد بولے: اے اللہ کے رسول! ہماری زمین میں چوہے بہت ہیں، وہاں چمڑے کے مشکیزے نہیں بچ پاتے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چاہے انہیں چوہے کھا جائیں، چاہے انہیں چوہے کھا جائیں، چاہے انہیں کھا جائیں۔“ کہا: (پھر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد القیس کے اس شخص سے جس کے چہرے پر زخم تھا، فرمایا: ”تمہارے اندر دو ایسی خوبیاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے: عقل اور تحمل۔“ قتادہ ؒ کہتے ہیں مجھے اس شخص نےبتایا جس نے عبد القیس کے اس وفد سے ملاقات کی تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ سعید ؒ کہتے ہیں قتادہ ؒ نے ابو نضرہ ؒ کے واسطہ سے ابو سعید خدری رضی الله عنه سے ان کی یہ روایت بیان کی کہ عبدالقیس کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! ہم ربیعہ کے لوگ ہیں اور ہمارے اور آپؐ کے درمیان مضر قبیلہ جو کافر ہے، حائل ہے اور ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ آپؐ تک نہیں پہنچ سکتے، اس لیے آپؐ ہمیں ایسا حکم بتائیےجو ہم اپنے پچھلوں تک پہنچائیں اور اس پرعمل کر کے جنت میں داخل ہو جائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمھیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی چیزکوشریک نہ ٹھہراؤ، نماز کی پابندی کرو، زکوٰۃ دیتے رہو، رمضان کے روزے رکھواور غنیمتوں میں سے پانچواں حصہ ادا کرو اور میں تمھیں چار چیزوں سے روکتا ہوں، خشک کدّو کے برتن سے، سبز مٹکے سے، لکڑی کے تراشے ہوئے برتن اور تار کول ملے برتن سے۔“ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! نقیر کو آپؐ جانتے ہیں؟ فرمایا: ”کیوں نہیں، تنا، تم اسے اندر سے کریدتے ہو، اس میں کھجوریں ڈالتے ہو۔“ سعید ؒ کہتے ہیں یا آپ نے کہا تمر (چھوہارے) ڈالتے ہو، پھر اس میں پانی ڈالتے ہو جب اس کا جوش ساکن ہو جاتا ہے (یعنی جوش ختم ہو جاتا ہے) اسے پی لیتے ہو، یہاں تک کہ تم میں سے ایک یا ان میں سے ایک اپنے چچا زاد کو تلوار کا نشانہ بناتا ہے۔ لوگوں میں ایک آدمی تھا جس کو اسی صورت میں ایک زخم لگا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ میں اسے حیا و شرم کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھپاتا تھا تومیں نے پوچھا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم )! ہم کس چیز میں پیا کریں؟ آپؐ نے فرمایا: ”چمڑے کی ان مشکوں میں پیو جن کے منھ بندھے ہوئے ہوں۔“ اہلِ وفد نے کہا: اے اللہ کے نبی! ہماری زمین میں چوہے بہت ہیں وہاں چمڑے کے مشکیزے نہیں بچ سکتے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگرچہ ان کو چوہے کھا لیں اگرچہ ان کو چوہے کاٹ لیں۔“ راوی کا بیان ہے کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد القیس کے اشج سے فرمایا: ”تمھارے اندر دو ایسی خوبیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں، عقل و دانشمندی اور تحمّل و ٹھہراؤ۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (4375)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابن ابی عدی نے سعید کےحوالے سے قتادہ سے روایت کی، انہوں نے کہا کہ مجھے عبد القیس کے وفد سے ملاقات کرنےوالے ایک سے زائد افراد نے بتایا اور ان میں سے ابو نضرہ کانام لیا (ابو نضرہ نے) حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ جب عبدالقیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ....، پھر ابن علیہ کی حدیث کے مانند روایت بیان کی، البتہ اس میں یہ الفاظ ہیں: ”تم اس میں ملی جلی کھجوریں، (عام) کھجوریں اور پانی ڈالتے ہو۔“ (اور ابن ابی عدی نے اپنی روایت میں) یہ الفاظ ذکر نہیں کیے کہ سعید نے کہا، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کچھ کھجوریں ڈالتے ہو۔“ قتادہؒ کہتے ہیں مجھے بہت سے ان لوگوں نے جن کی ملاقات عبد القیس کے وفد سے ہوئی تھی، حدیث سنائی اور ابو نضرہ نے ابو سعید الخدری رضی الله عنه سے نقل کیا کہ جب عبد القیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا پھر ابن علیہ کی حدیث جیسی حدیث بیان کی۔ ہاں اس میں یہ الفاظ ہیں تم اس میں چھوٹی کھجوریں ڈالتے ہو اور چھوہارے اور پانی اور اس میں سعید کا قول أَوْ قَالَ مِنَ التَّمْرِ یا چھوہارے نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد تخريجه في الحديث السابق برقم (118)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
محمد بن بکار بصری، عاصم بن جریج، محمد بن رافع، عبد الرزاق، ابن جریج، ابو قرعہ، ابو نضرہ، ابو سعید حدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب قبیلہ عبد قیس کا وفدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے بنی صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کون سے برتن میں پینا حلال ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لکڑی کے برتن میں نہ پیا کرولوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکڑی کا کھٹلا کیا ہوتا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا لکڑی کو اندر سے کھود کر برتن بنانے کو کھٹلا کہتے ہیں اور لکڑی کے تونبے میں بھی نہ پیا کرواور سبز کھڑی میں بھی نہ پیا کرومگر چمڑے کے برتن میں پی لیا کرو جس کا منہ ڈوری سے باندھ دیا ۃ جاتا ہو- حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ جب عبد القیس کا وفد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو انھوں نے پوچھا: اے اللہ کے نبی! اللہ تعالیٰ ہمیں آپ پر فدا کرے۔ کون سے مشروبات ہمارے لیے درست ہیں؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے جواب دیا: ”لکڑی میں کھدے ہوئے برتن میں نہ پیو۔ کہنے لگے: اے اللہ کے نبی! اللہ تعالیٰ ہمیں آپ پر قربان کرے۔ آپ ؐ جانتےہیں نقیر کیا ہے؟ فرمایا: ”ہاں“ درخت کا تنا جس کو درمیان سے کھود لیا جاتا ہے (یعنی چٹو) اور نہ خشک کدّو کے برتن میں اور نہ سبز گھڑے میں، مشکیزوں میں پیو جن کا منھ بندھا ہوا ہو۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (4355)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|