صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کے احکام و مسائل
6. باب الْأَمْرِ بِالْإِيمَانِ بِاللَّهِ تَعَالَى وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَائِعِ الدِّينِ وَالدُّعَاءِ إِلَيْهِ وَالسُّؤَالِ عَنْهُ وَحِفْظِهِ وَتَبْلِيغِهِ مَنْ لَمْ يَبْلُغْهُ
باب: اللہ و رسول اور دینی احکام پر ایمان لانے کا حکم کرنا اور اس کی طرف لوگوں کو بلانا دین کی باتوں کو پوچھنا یاد رکھنا اور دوسروں کو پہنچانا۔
حدیث نمبر: 118
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ أَيُّوبَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَنْ لَقِيَ الْوَفْدَ، الَّذِينَ قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عَبْدِ الْقَيْسِ، قَالَ سَعِيدٌ: وَذَكَر قَتَادَةُ أَبَا نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ فِي حَدِيثِهِ هَذَا، أَنَّ أُنَاسًا مِنْ عَبْدِ الْقَيْسِ، قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنَّا حَيٌّ مِنْ رَبِيعَةَ، وَبَيْنَنَا وَبَيْنَكَ كُفَّارُ مُضَرَ، وَلَا نَقْدِرُ عَلَيْكَ إِلَّا فِي أَشْهُرِ الْحُرُمِ، فَمُرْنَا بِأَمْرٍ نَأْمُرُ بِهِ مَنْ وَرَاءَنَا وَنَدْخُلُ بِهِ الْجَنَّةَ، إِذَا نَحْنُ أَخَذْنَا بِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " آمُرُكُمْ بِأَرْبَعٍ وَأَنْهَاكُمْ عَنْ أَرْبَعٍ، اعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ، وَآتُوا الزَّكَاةَ، وَصُومُوا رَمَضَانَ، وَأَعْطُوا الْخُمُسَ مِنَ الْغَنَائِمِ، وَأَنْهَاكُمْ عَنْ أَرْبَعٍ، عَنِ الدُّبَّاءِ، وَالْحَنْتَمِ، وَالْمُزَفَّتِ، وَالنَّقِيرِ "، قَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، مَا عِلْمُكَ بِالنَّقِيرِ؟ قَالَ: بَلَى، جِذْعٌ تَنْقُرُونَهُ فَتَقْذِفُونَ فِيهِ مِنَ الْقُطَيْعَاءِ، قَالَ سَعِيدٌ أَوَ قَالَ: مِنَ التَّمْرِ، ثُمَّ تَصُبُّونَ فِيهِ مِنَ الْمَاءِ، حَتَّى إِذَا سَكَنَ غَلَيَانُهُ شَرِبْتُمُوهُ، حَتَّى إِنَّ أَحَدَكُمْ أَوْ إِنَّ أَحَدَهُمْ لَيَضْرِبُ ابْنَ عَمِّهِ بِالسَّيْفِ، قَالَ: وَفِي الْقَوْمِ رَجُلٌ أَصَابَتْهُ جِرَاحَةٌ كَذَلِكَ، قَالَ: وَكُنْتُ أَخْبَأُهَا حَيَاءً مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: فَفِيمَ نَشْرَبُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: فِي أَسْقِيَةِ الأَدَمِ الَّتِي يُلَاثُ عَلَى أَفْوَاهِهَا، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَرْضَنَا كَثِيرَةُ الْجِرْذَانِ، وَلَا تَبْقَى بِهَا أَسْقِيَةُ الأَدَمِ، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَإِنْ أَكَلَتْهَا الْجِرْذَانُ، وَإِنْ أَكَلَتْهَا الْجِرْذَانُ، وَإِنْ أَكَلَتْهَا الْجِرْذَانُ، قَالَ: وَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَشَجِّ عَبْدِ الْقَيْسِ: " إِنَّ فِيكَ لَخَصْلَتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللَّهُ، الْحِلْمُ وَالأَنَاةُ ".
(اسماعیل) ابن علیہ نے کہا: ہمیں سعید بن ابی عروبہ نے قتادہ سے حدیث سنائی، انہوں نےکہا: مجھے اس شخص نے بتایا جو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے والے عبد القیس کے وفد سے ملے تھا (سعید نےکہا: قتادہ نے ابو نضرہ کا نام لیا تھا یہ وفد سے ملے تھے، اور تفصیل حضرت ابو سعید سے سن کر بیان کی) انہوں نےحضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے یہ روایت کی کہ عبد القیس کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہم ربیعہ کے لوگ ہیں، ہمارے اور آپ کے درمیان مضر کے کافر حائل ہیں اور ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ آپ کی خدمت میں نہیں پہنچ سکتے، اس لیے آپ ہمیں وہ حکم دیجیے جو ہم اپنے پچھلوں کو بتائیں اور اگر اس پر عمل کر لیں تو ہم (سب) جنت میں داخل ہو جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہ و: (حکم دیتا ہوں کہ) اللہ تعالیٰ کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز کی پابندی کرو، زکاۃ دیتے رہو، رمضان کے روزے رکھو اور غنیمتوں کا پانچواں حصہ ادا کرو۔ اور چار چیزیں سے میں تمہیں روکتا ہوں: خشک کدو کے برتن سے، سبز مٹکے سے، ایسے برتن سے جس کو روغن زفت (تارکول) لگایا گیا ہو اور نقیر (لکڑی کے تراشے ہوئے برتن) سے۔“ ان لوگوں نے کہا: اے اللہ کے نبی! آپ کو نقیر کے بارے میں کیا علم ہے؟ فرمایا: ”کیوں نہیں! (یہ) تنا ہے، تم اسے اندر سے کھوکھلا کرتے ہو، اس میں ملی جلی چھوٹی کھجوریں ڈالتے ہو) پھر اس میں پانی ڈالتے ہو، پھر جب اس کا جوش (خمیر اٹھنے کے بعد کا جھاگ) ختم ہو جاتا ہے تواسے پی لیتے ہو یہاں تک کہ تم میں سے ایک (یا ان میں ایک) اپنے چچازاد کو تلوار کا نشانہ بناتا ہے۔“ ابو سعید نے کہا: لوگوں میں ایک آدمی تھا جس کو اسی طرح ایک زخم لگا تھا۔ اس نے کہا: میں شرم و حیا کی بنا پر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھپا رہا تھا، پھر میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! تو ہم کس پیا کریں؟ آپ نے فرمایا: ”چمڑے کی ان مشکوں میں پیو جن کے منہ (دھاگے وغیرہ سے) باندھ دیے جاتے ہیں۔“ اہل وفد بولے: اے اللہ کے رسول! ہماری زمین میں چوہے بہت ہیں، وہاں چمڑے کے مشکیزے نہیں بچ پاتے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چاہے انہیں چوہے کھا جائیں، چاہے انہیں چوہے کھا جائیں، چاہے انہیں کھا جائیں۔“ کہا: (پھر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد القیس کے اس شخص سے جس کے چہرے پر زخم تھا، فرمایا: ”تمہارے اندر دو ایسی خوبیاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے: عقل اور تحمل۔“
قتادہ ؒ کہتے ہیں مجھے اس شخص نےبتایا جس نے عبد القیس کے اس وفد سے ملاقات کی تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ سعید ؒ کہتے ہیں قتادہ ؒ نے ابو نضرہ ؒ کے واسطہ سے ابو سعید خدری رضی الله عنه سے ان کی یہ روایت بیان کی کہ عبدالقیس کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! ہم ربیعہ کے لوگ ہیں اور ہمارے اور آپؐ کے درمیان مضر قبیلہ جو کافر ہے، حائل ہے اور ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ آپؐ تک نہیں پہنچ سکتے، اس لیے آپؐ ہمیں ایسا حکم بتائیےجو ہم اپنے پچھلوں تک پہنچائیں اور اس پرعمل کر کے جنت میں داخل ہو جائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمھیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی چیزکوشریک نہ ٹھہراؤ، نماز کی پابندی کرو، زکوٰۃ دیتے رہو، رمضان کے روزے رکھواور غنیمتوں میں سے پانچواں حصہ ادا کرو اور میں تمھیں چار چیزوں سے روکتا ہوں، خشک کدّو کے برتن سے، سبز مٹکے سے، لکڑی کے تراشے ہوئے برتن اور تار کول ملے برتن سے۔“ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! نقیر کو آپؐ جانتے ہیں؟ فرمایا: ”کیوں نہیں، تنا، تم اسے اندر سے کریدتے ہو، اس میں کھجوریں ڈالتے ہو۔“ سعید ؒ کہتے ہیں یا آپ نے کہا تمر (چھوہارے) ڈالتے ہو، پھر اس میں پانی ڈالتے ہو جب اس کا جوش ساکن ہو جاتا ہے (یعنی جوش ختم ہو جاتا ہے) اسے پی لیتے ہو، یہاں تک کہ تم میں سے ایک یا ان میں سے ایک اپنے چچا زاد کو تلوار کا نشانہ بناتا ہے۔ لوگوں میں ایک آدمی تھا جس کو اسی صورت میں ایک زخم لگا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ میں اسے حیا و شرم کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھپاتا تھا تومیں نے پوچھا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم )! ہم کس چیز میں پیا کریں؟ آپؐ نے فرمایا: ”چمڑے کی ان مشکوں میں پیو جن کے منھ بندھے ہوئے ہوں۔“ اہلِ وفد نے کہا: اے اللہ کے نبی! ہماری زمین میں چوہے بہت ہیں وہاں چمڑے کے مشکیزے نہیں بچ سکتے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگرچہ ان کو چوہے کھا لیں اگرچہ ان کو چوہے کاٹ لیں۔“ راوی کا بیان ہے کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد القیس کے اشج سے فرمایا: ”تمھارے اندر دو ایسی خوبیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں، عقل و دانشمندی اور تحمّل و ٹھہراؤ۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (4375)»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 118 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 118
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
جِذْعٌ:
کھجور کے درخت کا تنا یا نچلا حصہ۔
(2)
أَسْقِيَةِ:
تم ڈالتے ہو۔
(3)
الْقُطَيْعَاء:
کھجوروں کی ایک قسم ہے،
جو چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں۔
(4)
تَصُبُّونَ:
تم ڈالتے ہوئے یا انڈیلتے ہو۔
(5)
سَكَنَ غَلَيَانَه:
جوش کا ماند پڑنا اور اس کا تھم جانا۔
(6)
أَسْقِيَة:
سِقَاءٌ کی جمع ہے مشک،
مشکیزہ۔
(7)
الْأَدَمِ،
أَدِيم:
کی جمع ہے چمڑا،
جِرذَانٌ جیم کے کسرہ کے ساتھ،
جُرذ کی جمع ہے،
چوہوں کی ایک قسم ہے۔
فوائد ومسائل:
(1)
جب انسان نشہ آور چیز استعمال کرتا ہے تو ا س کی عقل ماؤف ہوجاتی ہے اور وہ عقل وشعور سے محروم ہو کر دوست دشمن میں امتیاز نہیں کر سکتا،
اپنے قریبی عزیز تک کو نقصان پہنچاتا ہے،
اس لیے شریعت اسلامیہ میں نشہ آور اشیاء کے استعمال کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
(2)
جب شریعت کسی چیز سے روک دے تو اس کی اجازت کے لیے عذر اور بہانے تلاش کرنا درست نہیں،
اس لیے آپ (ﷺ) نے فرمایا:
”اگرچہ مشکیزوں کو چوہے کاٹ لیں۔
“ کسی کی حوصلہ افزائی کےلیے اس کی خوبیوں کا اس کے سامنے اعتراف کرنا درست ہے۔
(4)
ایمان اور اسلام:
مترادف یا ہم معنی ہیں،
اس لیے آپ نے وفد عبد القیس کے سامنے ایمان کی تفسیر وتشریح میں انہی اعمال کا تذکرہ فرمایا،
جن کو عبد اللہ بن عمر (رضی اللہ عنہما)
کی حدیث میں اسلام کے تحت شمار کیا گیا ہے۔
(5)
مسائل پوچھنے کےلیے اہل علم کے پاس وفد بھیجنا درست ہے تا کہ وہ آکر پیچھے رہ جانے والے لوگوں کو آگاہ کریں۔
(6)
اہل علم کے سامنے اپنا صحیح عذر پیش کرنا تا کہ بار بار آنے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے۔
(7)
آنے والوں کے سامنے مسرت وشادمانی کا اظہار کرنا اور انہیں خوش آمدید کہنا تا کہ انہیں اپنی آمد کا مقصد بیان کرنے میں سہولت اور آسانی پیدا ہو،
بہتر ہے۔
(8)
بات سمجھنے کےلیے دوبارہ پوچھنا جائز ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 118