كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام The Book of Mosques and Places of Prayer 19. باب السَّهْوِ فِي الصَّلاَةِ وَالسُّجُودِ لَهُ: باب: نماز میں بھولنے اور سجدہ سہو کرنے کا بیان۔ Chapter: As-Sahw (forgetfulness) in prayer and prostrating to compensate for it امام مالک نے ابن شہاب (زہری) سے، انھوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلا شبہ تم میں سے کوئی جب نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو شیطان آکر اسے التباس (شبہ) میں ڈالتا ہے حتی کہ وہ نہیں جانتا کہ اس نے کتنی (رکعتیں) پڑھی ہیں۔ تم میں سے کوئی جب یہ (کیفیت) پائے تووہ (آخری تشہد میں) بیٹھے ہوئے دو سجدے کر لے۔“ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی جب نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو شیطان آ کر اسے التباس (شبہ) میں ڈالتا ہے، حتیٰ کہ اسے پتہ نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعت پڑھی ہیں، تم میں سے کوئی جب اس فعل میں مبتلا ہو جائے تو وہ بیٹھ کر یعنی آخر میں دو سجدے کر لے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
سفیان بن عیینہ اور لیث بن سعد نے زہری سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح حدیث بیان کی ہے۔ امام صاحب اپنے چار اساتذہ سے مذکورہ بالا حدیث کے ہم معنی حدیث بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا معاذ بن هشام ، حدثني ابي ، عن يحيى بن ابي كثير ، حدثنا ابو سلمة بن عبد الرحمن ، ان ابا هريرة حدثهم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا نودي بالاذان، ادبر الشيطان له ضراط، حتى لا يسمع الاذان، فإذا قضي الاذان اقبل، فإذا ثوب بها ادبر، فإذا قضي التثويب اقبل، يخطر بين المرء ونفسه، يقول: اذكر كذا، اذكر كذا، لما لم يكن يذكر، حتى يظل الرجل إن يدري كم صلى، فإذا لم يدر احدكم كم صلى، فليسجد سجدتين وهو جالس " ,حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ حَدَّثَهُمْ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا نُودِيَ بِالأَذَانِ، أَدْبَرَ الشَّيْطَانُ لَهُ ضُرَاطٌ، حَتَّى لَا يَسْمَعَ الأَذَانَ، فَإِذَا قُضِيَ الأَذَانُ أَقْبَلَ، فَإِذَا ثُوِّبَ بِهَا أَدْبَرَ، فَإِذَا قُضِيَ التَّثْوِيبُ أَقْبَلَ، يَخْطُرُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَنَفْسِهِ، يَقُولُ: اذْكُرْ كَذَا، اذْكُرْ كَذَا، لِمَا لَمْ يَكُنْ يَذْكُرُ، حَتَّى يَظَلَّ الرَّجُلُ إِنْ يَدْرِي كَمْ صَلَّى، فَإِذَا لَمْ يَدْرِ أَحَدُكُمْ كَمْ صَلَّى، فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ " , ) یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت ہے، کہا: ہمیں ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے حدیث سنائی کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے انھیں حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اذان کہی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے گوزمار رہا ہوتا ہے تاکہ اذان (کی آواز) نہ سنے۔ جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو (واپس) آتا ہے، پھر جب نماز کے لیےتکبیر کہی جاتی ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے، جب تکبیر ختم ہو جاتی ہے تو آجاتا ہے تاکہ انسان اور اس کے دل کے درمیان خیال آرائی شروع کروائے، وہ کہتا ہے: فلاں بات یاد کرو، فلاں چیز یاد کرو۔ وہ چیزیں (اسے یاد کراتا ہے) جو اسے یاد نہیں ہوتیں حتی کہ وہ شخص یوں ہو جاتا ہے کہ اسے یا د نہیں رہتا اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں، چنانچہ جب تم میں سے کسی کو یاد نہ رہے کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں تو وہ (تشہد میں) بیٹھے بیٹھے دو سجدے کر لے۔“ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اذان کہی جاتی تو شیطان گوز مارتا ہوا، پشت پھیر کر بھاگتا ہے تاکہ اذان سنائی نہ دے، جب اذان مکمل ہو جاتی ہے واپس آتا ہے، جب نماز کے لیے تکبیر کہی جاتی ہے، پھر جاتا ہے جب تکبیر کہی جا چکتی ہے تو آ کر انسان اور اس کے دل میں حائل ہوتا ہے یعنی اس کے دل میں شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے، کہتا ہے فلاں بات یاد کرو، فلاں چیز یاد کرو، وہ چیزیں جو اسے یاد نہیں ہوتیں حتیٰ کہ اسے یاد نہیں رہتا اس نے کتنی رکعت پڑھی ہیں، جب تم میں سے کسی کہ یہ یاد نہ رہے کہ اس نے کتنی رکعت پڑھی ہیں تو بیٹھے بیٹھے (تشہد میں) دو سجدے کر لے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبدالرحمن اعرج نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ”جب نماز کے لیے تکبیر کہی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر گوز مارتا ہوا بھاگتا ہے ......“ آگے اوپر کی روایت کی طرح ذکر کیا اور یہ اضافہ کیا: ”اسے رغبت اور امید دلاتا ہے اور اسے اس کی ایسی ضرورتیں یاد دلاتا ہے جو اسے یاد نہیں ہوتیں۔“ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے تکبیر کہی جاتی ہے تو شیطان ہوا خارج کرتا ہوا پشت پھیر کر بھاگتا ہے“، اوپر کی طرح روایت سنائی اور اس میں یہ اضافہ کیا، ”اسے رغبتیں اور امیدیں دلاتا ہے اور اسے اس کی وہ ضرورتیں یاد دلاتا ہے جو اسے یاد نہ تھیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
مالک نے ابن شہاب سے، انھوں نے عبدالرحمن اعرج سے اور انھوں نے حضرت عبداللہ بن بحسینہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کسی ایک نماز کی دو رکعتیں پڑھائیں، پھر (تیسری کے لیے) کھڑے ہو گئے اور (درمیان کے تشہد کے لیے) نہ بیٹھے تو لوگ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے، جب آپ نے نماز پوری کر لی اور ہم آپ کے سلام کے انتظار مین تھے توآپ نے تکبیر کہی اور بیٹھے بیٹھے سلام سے پہلے دو سجدے کیے، پھر سلام پھیر دیا۔ حضرت عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی نماز کی دو رکعتیں پڑھائیں پھر (تیسری کے لیے) کھڑے ہو گئے درمیانی تشہد کے لیے نہ بیٹھے اور لوگ بھی آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہو گئے، تو جب آپصلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کر لی اور ہم نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے سلام کا انتظار کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی اور بیٹھے بیٹھے سلام سے پہلے دو سجدے کیے پھر سلام پھیرا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
لیث نے ابن شہاب سے، انھوں نےاعرج سے اور انھوں نے حضرت عبداللہ بن بحسینہ اسدی رضی اللہ عنہ سے، جو بنو بعدالمطلب کے حلیف تھے، روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز میں، جب آپ کو (دوسری رکعت کےبعد) بیٹھنا تھا، کھڑے ہوگئے، پھر جب آپ نے اپنی نماز مکمل کر لی تو آپ نے بیٹھے بیٹھے ہر سجدے کے لیے تکبیر کہتےہوئے سلام سے پہلے دو سجدے کیے، اور لوگوں نے بھی (تشہد کے لیے) بیٹھے کی جگہ، جو آپ بھول گئے تھے، آپ کے ساتھ د و سجدے کیے۔ عبداللہ بن بحینہ اسدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو عبد المطلب کی اولاد کا حلیف تھا اس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز میں (دوسری رکعت کے بعد) بیٹھنے کی بجائے (تیسری رکعت کے لیے) کھڑے ہو گئے، تو جب آپصلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کر لی، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھے بیٹھے سلام سے پہلے ہر سجدہ کے لیے تکبیر کہہ کر دو سجدے کر لیے اور لوگوں نے بھی آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو سجدے کیے، اس جلوس (بیٹھنا) کی جگہ جو آپصلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابن شہاب کے بجائے) یحییٰ بن سعید نے عبدالرحمن اعرج سے اور انھوں نے حضرت عبداللہ بن مالک ابن بحسینہ ازدی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں کےبعد جہاں نماز میں آپ کا بیٹھنے کا ارادہ تھا، (وہاں) کھڑے ہو گئے، آپ نے اپنی نماز جاری رکھی۔پھر جب نماز کے آخرمیں پہنچے تو سلا م سے پہلے سجدے کیے، اس کے بعد سلام پھیرا۔ حضرت عبداللہ بن مالک ابن بحینہ ازدی رضی اللہ تعا لیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے دوگانہ کے بعد جس میں آپصلی اللہ علیہ وسلم بیٹھنا چاہتے تھے کھڑے ہو گئے اور نماز پڑھتے رہے تو جب نماز کے آخر میں پہنچ گئے تو سلام سے پہلے دو سجدے کیے اور پھر سلام پھیرا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
سلیمان بن بلال نے زید بن اسلم سے، انھوں نے عطاء بن یسار سے اور انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہو جائے اور اسے معلوم نہ ہو کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھ لی ہیں؟ تین یا چار؟ تو وہ شک کو چھوڑ دے اور جتنی رکعتوں پر اسے یقین ہے ان پر بنیاد رکھے (تین یقینی ہیں تو چوتھی پڑھ لے) پھر سلام سے پہلے دو سجدے کر لے، اگر اس نے پانچ رکعتیں پڑھ لی ہیں تو یہ سجدے اس کی نماز کو جفت (چھ رکعتیں) کر دیں گے ارو اگر اس نے چار کی تکمیل کر لی تھی تو یہ سجدے شیطان کی ذلت و رسوائی کا باعث ہوں گے۔“ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز کے بارے میں شک پڑ جائے اور اسے معلوم نہ ہو سکے کہ اس نے تین رکعت پڑھی ہیں یا چار تو وہ شک کو پھینک دے (نظر انداز کر دے) اور یقین پر بِنَا کرے پھر سلام سے پہلے دو سجدے کرے، اگر اس نے پانچ رکعت پڑھ لی ہیں تو اس کی نماز کو جوڑا (چھہ رکعت) کر دیں گے اور اگر اس نے اس رکعت سے چار کی تکمیل کر لی ہے تو یہ سجدے شیطان کی ذلت و رسوائی کا باعث ہوں گے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
داؤد بن قیس نے زید بن اسلم سے اسی سند کے ساتھ روایت کی اور اس کے معنی کے مطابق یہ کہا: وہ ” (نمازی) سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کر لے۔“ جس طرح سلیمان بن بلال نے کہا۔ امام صاحب ایک اور استاد سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا عثمان ، وابو بكر ابنا ابي شيبة، وإسحاق بن إبراهيم ، جميعا، عن جرير، قال عثمان: حدثنا جرير ، عن منصور ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، قال: قال عبد الله : صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال إبراهيم، زاد او نقص: فلما سلم، قيل له: يا رسول الله، احدث في الصلاة شيء؟ قال: وما ذاك؟ قالوا: صليت كذا وكذا، قال: فثنى رجليه، واستقبل القبلة، فسجد سجدتين، ثم سلم، ثم اقبل علينا بوجهه. فقال: " إنه لو حدث في الصلاة شيء، انباتكم به، ولكن إنما انا بشر انسى، كما تنسون، فإذا نسيت فذكروني، وإذا شك احدكم في صلاته، فليتحر الصواب، فليتم عليه، ثم ليسجد سجدتين ".وحَدَّثَنَا عُثْمَانُ ، وَأَبُو بَكْرِ ابْنَا أَبِي شَيْبَةَ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، جَمِيعًا، عَنْ جَرِيرٍ، قَالَ عُثْمَانُ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ : صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ إِبْرَاهِيمُ، زَادَ أَوْ نَقَصَ: فَلَمَّا سَلَّمَ، قِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَحَدَثَ فِي الصَّلَاةِ شَيْءٌ؟ قَالَ: وَمَا ذَاكَ؟ قَالُوا: صَلَّيْتَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: فَثَنَى رِجْلَيْهِ، وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ. فَقَالَ: " إِنَّهُ لَوْ حَدَثَ فِي الصَّلَاةِ شَيْءٌ، أَنْبَأْتُكُمْ بِهِ، وَلَكِنْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَنْسَى، كَمَا تَنْسَوْنَ، فَإِذَا نَسِيتُ فَذَكِّرُونِي، وَإِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ، فَلْيَتَحَرَّ الصَّوَابَ، فَلْيُتِمَّ عَلَيْهِ، ثُمَّ لِيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ ". جریر نے ہمیں حدیث بیان کی، انھوں نے منصور سے، انھوں نے ابراہیم سے اور انھوں نے علقمہ سے روایت کی، کہا: حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی۔ابراہیم نے کہا: آپ نے اس میں زیادتی یا کمی کر دی۔ پھر جب آپ نے سلام پھرا تو آپ سے عرض کی گئی: اے اللہ کے رسول! کیانماز میں کوئی نئی چیز (تبدیلی) آگئی ہے؟ آپ نے پوچھا: ”وہ کیا؟“ صحابہ نے عرض کی: آپ نے اتنی اتنی رکعتیں پڑھائی ہیں۔ (راوی نے کہا:) آپ نے اپنے پاؤں موڑے، قبلہ کی طرف رخ کیا اور دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا، پھر آپ نے ہماری طرف رخ کیا اور فرمایا: ”اگر نماز میں کوئی نئی بات ہوتی تو میں تمھیں بتا دیتا، لیکن میں ایک انسان ہوں، جس طرح تم بھولتے ہومیں بھی بھول جاتا ہوں، اس لیے جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلا دیا کرو اور جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز کے بارے میں شک ہو جائے تو وہ صحیح کی جستجو کرے اور ا س کے مطابق (نماز کی) تکمیل کرے، پھر (سہو کے) دو سجدے کر لے۔“ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، ابراہیم نے کہا اس میں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے زیادتی یا کمی کی تو جب آپصلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا نماز میں کوئی نیا حکم آ گیا ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”وہ کیا ہے؟“ صحابہ نے کہا آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی اتنی رکعتیں پڑھائی ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں پاؤں موڑے، قبلہ کی طرف رخ کیا اور دو سجدے کیے پھر سلام پھیرا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف رخ کیا اور فرمایا: ”اگر نماز میں کوئی نیا حکم نازل ہوتا تو میں تمہیں بتا دیتا، لیکن میں بھی انسان ہوں، تمہاری طرح بھول جاتا ہوں،اس لیے جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلا دیا کرو۔ اور جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز کے بارے میں شک پڑ جائے تو وہ درستگی یا صحیح بات کی طرف پہنچنے کی کوشش کرے اور اس کے مطابق نماز پوری کر لے، پھر دو سجدے کرلے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابن بشر اور وکیع دونوں نے مسعر سے اور انھوں نے منصور سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی ابن بشر کی روایت مین ہے: ”وہ غور کرے کہ اس میں سے صحت کے قریب ترکیا ہے؟“ اور وکیع کی روایت میں ہے: ” وہ صحیح (صورت کو یاد رکرنے) کی جستجو کرے۔“ امام صاحب دو اور اساتذہ سے روایت بیان کرتے ہیں، ابن بشر کی روایت میں، ”وہ غور و فکر کرے صحت کے قریب تر کیا ہے“ اور وکیع کی روایت میں ہے ”وہ صحت کا قصد کرے یعنی ظن غالب پر عمل کرے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وہیب بن خالد نے کہا: ہمیں منصور نے اسی سند کےس اتھ حدیث بیان کی۔ منصور نے کہا: ”وہ غور کرے کہ اس میں صحت کے قریب تر کیا ہے۔“ امام صاحب ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں کہ فَلْیَنْظُرْ اَحْریٰ ذَالِكَ لِلصَّوَابِ، وہ غور و فکر کرے صحت و درستگی کے قریب تر صورت کونسی ہے؟
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
سفیان نے منصور سے مذکورہ سند کے ساتھ یہی حدیث بیان کی اور کہا: ”وہ صحیح کی جستجو کرے امام صاحب ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں کہ ”فَلْیَتَحَرَّ الصَّوَابَ“ وہ صحیح کا قصد کرے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
شعبہ نے منصور سے اسی سند کے ساتھ یہی حدیث بیان کی اور کہا: ” اس میں جو صحیح کے قریب تر ہے اس کی جستجو کرے۔“ امام صاحب ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں کہ: ”فَلْيَتَحَرَّ أَقْرَبَ ذَلِكَ إِلَى الصَّوَاب“ ان میں سے جو صورت صحیح کے قریب تر ہو اس تک پہنچنے کا ارادہ کرے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
فضیل بن عیاض نے منصور سے اسی سند کے ساتھ خبر دی اور کہا: ”وہ اس کی جستجو کرے جسے وہ صحیح سمجھتا ہے۔“ امام صاحب ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں کہ: ”فَلْیَتَحَرَّ الَّذِیْ یَریٰ اَنَّهُ الصَّوَابَ“، وہ اس کا قصد کرے جس کے بارے میں یہ سمجھا جائے گا کہ وہ صحیح ہے یا درست ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبدالعزیز بن عبد الصمد نے منصور سے ان سب راویوں کی سند کے ساتھ یہی حدیث بیان کی اور کہا: ”وہ صحیح کی جستجو کرے امام صاحب ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں کہ ”فَلْیَتَحَرَّ الصَّوَابَ“، وہ صحیح کا قصد کرے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حکم نے ابراہیم سے، انھوں نے علقمہ سے اور انھوں نے حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز (میں) پانچ رکعات پڑھا دیں، جب آپ نے سلام پھیر ا تو آپ سے عرض کی گئی: کیا نماز میں اضافہ کر دیا گیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ” وہ کیا ہے؟“ صحابہ نے کہا: آپ نے پانچ رکعات پڑھی ہیں۔ توآپ نے دو سجدے کیے۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پانچ رکعت پڑھائیں، جب آپصلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا، کیا نمازمیں اضافہ کر دیا گیا ہے۔؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”وہ کیا ہے؟“ صحابہ نے کہا آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ رکعات پڑھی ہیں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دو سجدے کر لیے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابن نمیر نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابن ادریس نے حسن بن عبید اللہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے ابراہیم (بن سوید) سے اور انھوں نے علقمہ سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں پانچ رکعات پڑھائیں۔ حضرت ابراہیم سے روایت ہے کہ کہ علقمہ نے بیان کیا آپصلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پانچ رکعات پڑھا دیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ح حدثنا عثمان بن ابي شيبة واللفظ له، حدثنا جرير ، عن الحسن بن عبيد الله ، عن إبراهيم بن سويد ، قال: صلى بنا علقمة الظهر خمسا، فلما سلم، قال القوم: يا ابا شبل، قد صليت خمسا؟ قال: كلا ما فعلت؟ قالوا: بلى، قال: وكنت في ناحية القوم وانا غلام، فقلت: بلى، قد صليت خمسا، قال لي: وانت ايضا يا اعور، تقول ذاك؟ قال: قلت: نعم، قال: فانفتل فسجد سجدتين، ثم سلم، ثم قال: قال عبد الله : صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم خمسا، فلما انفتل، توشوش القوم بينهم، فقال: ما شانكم؟ قالوا: يا رسول الله، هل زيد في الصلاة؟ قال: لا، قالوا: فإنك قد صليت خمسا، فانفتل، ثم سجد سجدتين، ثم سلم، ثم قال: " إنما انا بشر مثلكم، انسى كما تنسون، "، وزاد ابن نمير في حديثه، " فإذا نسي احدكم، فليسجد سجدتين ".ح حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سُوَيْدٍ ، قَالَ: صَلَّى بِنَا عَلْقَمَةُ الظُّهْرَ خَمْسًا، فَلَمَّا سَلَّمَ، قَالَ الْقَوْمُ: يَا أَبَا شِبْلٍ، قَدْ صَلَّيْتَ خَمْسًا؟ قَالَ: كَلَّا مَا فَعَلْتُ؟ قَالُوا: بَلَى، قَالَ: وَكُنْتُ فِي نَاحِيَةِ الْقَوْمِ وَأَنَا غُلَامٌ، فَقُلْتُ: بَلَى، قَدْ صَلَّيْتَ خَمْسًا، قَالَ لِي: وَأَنْتَ أَيْضًا يَا أَعْوَرُ، تَقُولُ ذَاكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَانْفَتَلَ فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ : صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمْسًا، فَلَمَّا انْفَتَلَ، تَوَشْوَشَ الْقَوْمُ بَيْنَهُمْ، فَقَالَ: مَا شَأْنُكُمْ؟ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ زِيدَ فِي الصَّلَاةِ؟ قَالَ: لَا، قَالُوا: فَإِنَّكَ قَدْ صَلَّيْتَ خَمْسًا، فَانْفَتَلَ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ، أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ، "، وَزَادَ ابْنُ نُمَيْرٍ فِي حَدِيثِهِ، " فَإِذَا نَسِيَ أَحَدُكُمْ، فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ ". عثمان بن ابی شیبہ نے ہمیں حدیث بیان کی۔ لفظ انھی کے ہیں۔ انھوں نے کہا: ہمیں جریر نے حسن بن عبیداللہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے ابراہیم بن سوید سے روایت کی، کہا: ہمیں علقمہ نے ظہر کی پانچ رکعتیں پڑھا دیں۔ جب انھوں نے سلام پھیرا تو لوگوں نے کہا: ابو شبل! آپ نے پانچ رکعتیں پڑھائی ہیں۔ انھوں نے کہا: بالکل نہیں، میں نے ایسا نہیں کیا۔ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں! (آپ نے ایسا ہی کیا ہے۔) ابراہیم نے کہا: میں لوگوں کے کنارے (والے حصے) میں تھا اور بچہ تھا، میں نے کہا: ہاں!آپ نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں۔ انھوں نے مجھ سے کہا: ایک آنکھ والے! تو بھی یہی کہتا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں! تو وہ مڑے اور دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا، پھر کہا: عبداللہ رضی اللہ عنہ (بن مسعود) نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پانچ رکعتیں پڑھا دیں، جب آپ مڑے تو لوگوں نے آپس میں کھسر پھسر شروع کر دی۔ آپ نے پوچھا: ” تمھیں کیا ہوا ہے؟“ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا نماز میں اضافہ کر دیا گیا ہے؟آپ نے فرمایا: ” نہیں۔“ لوگوں نے کہا: آپ نے پانچ رکعتیں پڑھائی ہیں۔ تو آپ پلٹے، پھر دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا، پھر فرمایا: ” میں تمھاری ہی طرح کا انسان ہوں، میں (بھی) بھول جاتا ہوں جس طرح تم لوگ بھول جاتے ہو۔“ ابن نمیر نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا: ”جب تم میں سے کوئی بھول جائے تو وہ دو سجدے کر لے۔“ ابراہیم بن سوید رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں ظہر کی نماز پانچ رکعت پڑھا دیں تو جب اس نے سلام پھیرا لوگوں نے کہا اے ابو شبل آپ نے تو پانچ رکعات پڑھا دی ہیں۔ اس نے کہا ہرگز میں نے یہ کام نہیں کیا لوگوں نے کہا کیوں نہیں اور میں لوگوں کے ایک طرف تھا اور میں نوجوان تھا تو میں نے کہا کیوں نہیں! آپ نے واقعی پانچ رکعات پڑھائی ہیں اس نے مجھے کہا اے اعور تو بھی یہی کہتا ہے تو میں نے کہا، ہاں ابراہیم نے کہا تو وہ پھر گئے اور دو سجدے کیے پھر سلام پھیرا اور پھر کہا: عبداللہ نے کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ رکعات پڑھا دیں تو جب آپصلی اللہ علیہ وسلم پھرے لوگوں میں تشویش پیدا ہوئی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہیں کیا ہے۔“ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا نماز میں اضافہ ہو گیا ہے آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ لوگوں نے کہا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ رکعات پڑھا دی ہیں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم پھرے اور دو سجدے کیے پھر سلام پھیرا اور پھر فرمایا: ”نہیں، بس تمھاری طرح بشر ہوں میں بھی بھول جاتا ہوں جیسے تم بھول جاتے ہو۔“ اور ابن نمیر نے اپنی حدیث میں یہ اضافہ کیا، ”تو جب تم میں سے کوئی بھول جائے تو وہ دو سجدے کر لے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبدالرحمن بن اسود نے اپنے والد سے، انھوں نےحضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پانچ رکعتیں پڑھا دیں تو ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا نماز میں اضافہ کر دیا گیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ” وہ کیا؟“ صحابہ نے کہا: آپ نے پانچ رکعات پڑھائی ہیں۔ آپ نے فرمایا: ” میں تمھاری طرح انسان ہوں، میں بھی اسی طرح یا د رکھتا ہوں، جس طرح تم یاد رکھتے ہو اور میں (بھی) اسی طرح بھو ل جاتا ہوں، جس طرح تم بھول جاتے ہو۔“ پھر آپ نے سہو کے دو سجدے کیے۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پانچ رکعات پڑھا دیں تو ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا نماز میں اضافہ کر دیا گیا ہے آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ کیا“ لوگوں نے کہا آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ رکعات پڑھائی ہیں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں بھی تمھاری طرح بشر ہوں میں یاد رکھتا ہوں جس طرح تم یاد رکھتے ہو اور میں بھول جاتا ہوں جس طرح تم بھولتے ہو“ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے بھولنے کے دو سجدے کیے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا منجاب بن الحارث التميمي ، اخبرنا ابن مسهر ، عن الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله ، قال: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فزاد او نقص، قال إبراهيم: والوهم مني؟ فقيل: يا رسول الله، ازيد في الصلاة شيء؟ فقال: " إنما انا بشر مثلكم، انسى كما تنسون، فإذا نسي احدكم، فليسجد سجدتين وهو جالس "، ثم تحول رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسجد سجدتين.وحَدَّثَنَا مِنْجَابُ بْنُ الْحَارِثِ التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ مُسْهِرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَزَادَ أَوْ نَقَصَ، قَالَ إِبْرَاهِيمُ: وَالْوَهْمُ مِنِّي؟ فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَزِيدَ فِي الصَّلَاةِ شَيْءٌ؟ فَقَالَ: " إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ، أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ، فَإِذَا نَسِيَ أَحَدُكُمْ، فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ "، ثُمَّ تَحَوَّلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ. علی) بن مسہر نے اعمش سے، انھوں نے ابراہیم سے، انھوں نے علقمہ سے اور انھوں نے حضر عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور اس میں کچھ اضافہ کر دیا۔ ابراہیم نے کہا کہ یہاں وہم مجھے ہوا ہے، علقمہ کو نہیں۔ عرض کی گئی: اللہ کے رسول! کیا نماز مین اضافہ کر دیا گیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ” میں تمھاری طرح انسان ہی ہوں، میں بھی بھولتا ہوں، جیسے تم بھولتے ہو، اس لیے جب تم میں سے کوئی بھول جائے تو وہ بیٹھے بیٹھے دو سجدے کر لے۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رخ (قبلہ کی طرف) پھیرا اور دو سجدے کیے۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، اس میں اضافہ یا کمی کی (ابراہیم کا قول ہے یہاں وہم مجھے ہوا) پوچھا گیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا نماز میں اضافہ کر دیا گیا ہے؟ تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں بھی تمھاری طرح انسان ہوں، میں بھی بھول سکتا ہوں، جیسے تم بھولتے ہو تو جب تم میں سے کوئی بھول جائے تو وہ بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرلے۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رخ ہوئے اور دو سجدے کیے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حفص اور ابو معاویہ نے اعمش سے باقی ماندہ اس سند کے ساتھ حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام اور گفتگو کےبعد سہو کے دو سجدے کیے۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجودِ سہو سلام و کلام (گفتگو) کے بعد کیے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني القاسم بن زكرياء ، حدثنا حسين بن علي الجعفي ، عن زائدة ، عن سليمان ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله ، قال: صلينا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإما زاد او نقص، قال إبراهيم: وايم الله، ما جاء ذاك، إلا من قبلي، قال: فقلنا: يا رسول الله، احدث في الصلاة شيء؟ فقال: لا، قال: فقلنا له: الذي صنع، فقال: " إذا زاد الرجل او نقص، فليسجد سجدتين "، قال: ثم سجد سجدتين.وحَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّاءَ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِمَّا زَادَ أَوْ نَقَصَ، قَالَ إِبْرَاهِيمُ: وَايْمُ اللَّهِ، مَا جَاءَ ذَاكَ، إِلَّا مِنْ قِبَلِي، قَالَ: فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَحَدَثَ فِي الصَّلَاةِ شَيْءٌ؟ فَقَالَ: لَا، قَالَ: فَقُلْنَا لَهُ: الَّذِي صَنَعَ، فَقَالَ: " إِذَا زَادَ الرَّجُلُ أَوْ نَقَصَ، فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ "، قَالَ: ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ. زائدہ نے سلیمان (اعمش) سے باقی ماندہ اسی سند کے ساتھ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے زیادہ پڑھا دی تھی یا کم۔ ابراہیم نے کہا: اللہ کی قسم! یہ (وہم) میری طرف سے ہے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تو ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیانماز میں کوئی نیا حکم آگیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ” نہیں“ تو ہم نے آپ کو جو آپ نے کیا تھا اس سے آگا ہ کیا تو آپ نے فرمایا: ” جب آدمی زیادتی یا کمی کر لے تو دو سجدے کر ے۔“ (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے) کہا: اس کے بعد آپ نے دو سجدے کیے۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اضافہ یا کمی کی، ابراہیم کہتے ہیں، اللہ کی قسم یہ (وہم) میری ہی طرف سے ہے تو ہم نے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا نماز کے بارے میں کوئی نیا حکم نازل ہوا ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ تو ہم نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو آپصلی اللہ علیہ وسلم کے کیے سے آگاہ کیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی زیادتی یا کمی کر بیٹھے تو وہ دو سجدے کر لے۔“ اس کے بعد آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دو سجدے کیے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني، زهير بن حرب وعمرو الناقد جميعا عن ابن عيينة ، قال عمرو: حدثنا سفيان بن عيينة، حدثنا ايوب ، قال: سمعت محمد بن سيرين ، يقول: سمعت ابا هريرة ، يقول: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، إحدى صلاتي العشي، إما الظهر، وإما العصر، فسلم في ركعتين، ثم اتى جذعا في قبلة المسجد، فاستند إليها مغضبا، وفي القوم ابو بكر، وعمر، فهابا ان يتكلما، وخرج سرعان الناس، قصرت الصلاة، فقام ذو اليدين، فقال: يا رسول الله، اقصرت الصلاة، ام نسيت؟ فنظر النبي صلى الله عليه وسلم، يمينا، وشمالا، فقال: ما يقول ذو اليدين؟ قالوا: صدق، لم تصل إلا ركعتين، " فصلى ركعتين، وسلم، ثم كبر، ثم سجد، ثم كبر، فرفع، ثم كبر، وسجد، ثم كبر، ورفع "، قال: واخبرت، عن عمران بن حصين ، انه قال: وسلم.حَدَّثَنِي، زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وعَمْرٌو النَّاقِدُ جميعا عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ عَمْرٌو: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ سِيرِينَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِحْدَى صَلَاتَيِ الْعَشِيِّ، إِمَّا الظُّهْرَ، وَإِمَّا الْعَصْرَ، فَسَلَّمَ فِي رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أَتَى جِذْعًا فِي قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ، فَاسْتَنَدَ إِلَيْهَا مُغْضَبًا، وَفِي الْقَوْمِ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرَ، فَهَابَا أَنْ يَتَكَلَّمَا، وَخَرَجَ سَرَعَانُ النَّاسِ، قُصِرَتِ الصَّلَاةُ، فَقَامَ ذُو الْيَدَيْنِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَقُصِرَتِ الصَّلَاةُ، أَمْ نَسِيتَ؟ فَنَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَمِينًا، وَشِمَالًا، فَقَالَ: مَا يَقُولُ ذُو الْيَدَيْنِ؟ قَالُوا: صَدَقَ، لَمْ تُصَلِّ إِلَّا رَكْعَتَيْنِ، " فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَسَلَّمَ، ثُمَّ كَبَّرَ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ كَبَّرَ، فَرَفَعَ، ثُمَّ كَبَّرَ، وَسَجَدَ، ثُمَّ كَبَّرَ، وَرَفَعَ "، قَالَ: وَأُخْبِرْتُ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، أَنَّهُ قَالَ: وَسَلَّمَ. سفیان بن عیینہ نے کہا: ہم سے ایوب نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: میں نے محمد بن سیرین سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: میں نےحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوپہر کے بعد کی ایک نماز ظہر یا عصر پڑھائی اور دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دیا، پھر قبلے کی سمت (گڑے ہوئے) کجھور کے ایک تنےکے پاس آئے اور غصے کی کیفیت میں اس سے ٹیک لگا لی۔ لوگوں میں ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہ موجود (بھی) تھے، انھوں نے آپ کی ہیبت کی بنا پر گفتگو نہ کی جبکہ جلد باز لوگ (نماز پڑھتے ہی) نکل گئے، اور کہنے لگے: نماز میں کمی ہو گئی ہے۔ تو ذوالیدین (نامی شخص) کھڑا ہوا اور کہا: اے اللہ کے رسول! کیا نماز مختصر کر دی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں اور بائیں دیکھ کر پوچھا: ” ذوالیدین کیا کہہ رہا ہے؟“ لوگوں نے کہا: سچ کہہ رہا ہے، آپ نے دو رکعتیں ہی پڑھی ہیں۔ چنانچہ آپ نے دو رکعتیں (مزید) پڑھیں اور سلام پھیر دیا، پھر اللہ اکبر کہا اور سجدہ کیا، بھر اللہ اکبر کہا اور سر اٹھایا، پھر اللہ اکبر کہا اور سجد ہ کیا، پھر اللہ اکبر کہا اور سر اٹھایا۔ (محمد بن سیرین نے) کہا: عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مجھے بتایا گیا کہ انھوں نے کہا: اور سلام پھیرا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوپہر کی ایک نماز ظہر یا عصر پڑھائی اور دو رکعتوں پر سلام پھیردیا، پھر مسجد کے سامنے ایک تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر غصہ کی حالت میں کھڑے ہو گئے، لوگوں میں ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود تھے، انہوں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی ہیبت کی بنا پر گفتگو نہ کی، اور جلد باز لوگ نکل گئے (یہ سمجھتے ہوئے) کہ نماز میں کمی ہو گئی ہے تو ذُوالْیَدَیْن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نامی شخص کھڑا ہوا اور کہا، اے اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا نماز کم کردی گئی ہے یا آپصلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے ہیں؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں اور بائیں دیکھ کر فرمایا: ”ذوالیدین کیا کہہ رہا ہے؟“ لوگوں نے کہا سچ کہہ رہا ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دو ہی رکعتیں پڑھی ہیں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں (اور) پڑھ کر سلام پھیر دیا پھر اَللُّٰہ اَکْبَر کہہ کر سجدہ کیا، پھر اَللُّٰہ اَکْبَر کہہ کر سر اٹھایا، پھر اَللُّٰہ اَکْبَر کہہ کر سجدہ کیا، پھر اَللُّٰہ اَکْبَر کہہ کر سجدہ سے اٹھے، محمد بن سیرین کہتے ہیں، عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے مجھے بتایا گیا اس کے بعد آپصلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
) (سفیان کے بجائے) حماد نے ہمیں حدیث بیان کی (کہا:) ہمیں ایوب نے محمد بن سیرین سے حدیث سنائی، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو پہر کے بعد کی دو نمازو ں میں سے ایک نماز پڑھائی ......آگے سفیان (بن عیینہ) کے ہم معنی حدیث (سنائی۔) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوپہر کی ایک نماز پڑھائی، سفیان کے ہم معنی حدیث سنائی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا قتيبة بن سعيد ، عن مالك بن انس ، عن داود بن الحصين ، عن ابي سفيان مولى ابن ابي احمد، انه قال: سمعت ابا هريرة ، يقول: صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة العصر، فسلم في ركعتين، فقام ذو اليدين، فقال: اقصرت الصلاة يا رسول الله، ام نسيت؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كل ذلك لم يكن، فقال: قد كان بعض ذلك يا رسول الله، فاقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم على الناس، فقال: اصدق ذو اليدين؟ فقالوا: نعم، يا رسول الله، " فاتم رسول الله صلى الله عليه وسلم ما بقي من الصلاة، ثم سجد سجدتين وهو جالس بعد التسليم ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ مَوْلَى ابْنِ أَبِي أَحْمَدَ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْعَصْرِ، فَسَلَّمَ فِي رَكْعَتَيْنِ، فَقَامَ ذُو الْيَدَيْنِ، فَقَالَ: أَقُصِرَتِ الصَّلَاةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمْ نَسِيتَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كُلُّ ذَلِكَ لَمْ يَكُنْ، فَقَالَ: قَدْ كَانَ بَعْضُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ: أَصَدَقَ ذُو الْيَدَيْنِ؟ فَقَالُوا: نَعَمْ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، " فَأَتَمَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَقِيَ مِنَ الصَّلَاةِ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَ التَّسْلِيمِ ". ) ابن ابی احمد کے آزاد کردہ غلام ابو سفیان سے روایت ہے کہ اس نے کہا: میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہو ئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عصر کی نماز پڑھائی اور دو رکعتوں میں سلام پھیر دیا۔ ذوالیدین (نامی شخص) کھڑا ہوا اور کہا: اے اللہ کے رسول! نماز کم کر دی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” ایسا کوئی کام نہیں ہوا۔“ اس نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کوئی ایک کام تو ہوا ہے۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا: ” کیا ذوالیدین نے سچ کہا؟“ انھوں کہا: جی ہاں! اے اللہ کے رسول! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نماز رہ گئی تھی پوری کی، پھر بیٹھے بیٹھے سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کیے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھائی۔ اور دو رکعتوں پر سلام پھیردیا تو ذوالیدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھڑے ہو کر پوچھا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! نماز کم کر دی گئی ہے یا آپصلی اللہ علیہ وسلم ہی بھول گئے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دونوں کام نہیں ہوئے۔ تو اس نے عرض کی، ایک کام تو ہوا ہے، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا: ”کیا ذوالیدین سچ کہہ رہا ہے؟“ انہوں نے کہا ہاں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی ماندہ نماز پوری کی، پھر دو سجدے سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے بیٹھے کیے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
علی بن مبارک نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں یحییٰ نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہمیں ابو سلمہ نےحدیث سنائی، کہا: ہمیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نےحدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی دور کعتیں پڑھائیں، پھر سلام پھیر دیا تو بنو سلیم کا ایک آدمی آپ کے قریب آیا اور عرض یک: اے اللہ کے رسول! نماز کم کر دی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟.......اور آگے (سابقہ) حدیث بیان کی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی دو رکعتیں پڑھیں، پھر سلام پھیر دیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سلیم قبیلہ کا ایک آدمی آیا اور پوچھا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! نماز کم کر دی گئی ہے یا آپصلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے ہیں؟ پھر مذکورہ حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
شیبان نےیحییٰ سے، انھوں نے ابو سلمہ سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نبی اکر صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (اقتدا میں) ظہر کی نماز پڑھ رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتوں پر سلام پھیر دیا، اس پر بنی سلیم کا ایک آدمی کھڑا ہوا .......آگے (مذکورہ بالا) حدیث بیان کی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھ رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتوں پر سلام پھیر دیا تو سلیم خاندان کا ایک آدمی کھڑا ہوا، آگے مذکورہ بالا حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
) اسماعیل بن ابراہیم نے خالد (حذاء) سے، انھوں نے ابو قلابہ سے، انھوں نے ابو مہلب سے اور انھوں نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےعصر کی نماز پڑھائی اور تین رکعات پر سلام پھیر دیا، پھر اپنے گھر تشریف لے گئے تو ایک آدمی جسے خرباق کہا جاتا تھا اور اس کے ہاتھ لمبے تھے، وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہواا ور آپ سے عرض کی: اے اللہ کے رسول! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو (سہو) ہوا تھا اس کا آپ کے سامنے تذکرہ کیا، آپ غصے کی حالت میں، چادر گھسیٹتے ہوئے نکلے حتی کہ لوگوں کے پا س آ پہنچے اور پوچھا: ” کیا یہ سچ کہہ رہا ہے؟“ لوگوں نے کہا: جی ہاں! توآپ نے ایک رکعت پڑھائی، پھر سلام پھیرا، پھر سہو کے دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھائی اور تین رکعات پر سلام پھیردیا، پھر اپنے گھر جانے لگے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا، جسے خرباق کہا جاتا تھا اور اس کے ہاتھ لمبے تھے، اس نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپصلی اللہ علیہ وسلم کو کیا ہوا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم غصے کی حالت میں چادر کھینچتے ہوئے نکلے، حتیٰ کہ لوگوں کے پاس آ گئے۔ اور پوچھا: ”کیا یہ سچ کہہ رہا ہے؟“ لوگوں نے کہا: ہاں۔ تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت پڑھائی اور سلام پھیر دیا، پھر دو سجدے (سہو کے لیے) کیے، پھر سلام پھیرا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبدالوہاب تقفی نے خالد حذاء سے باقی ماندہ اسی سند کے ساتھ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی تیسری رکعت میں سلام پھیر دیا، پھر اٹھ کر اپنے حجرے میں داخل ہو گئے، ایک (لمبے) چوڑے ہاتھوں والا آدمی کھڑا ہوا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا نماز کم کر دی گئی ہے؟ پھر آپ غصے کے عالم میں نکلے اور چھوڑی ہوئی رکعت پڑھائی، پھر سلام پھیر دیا، پھر سہو کے دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی تیسری رکعت کے بعد سلام پھیر دیا، پھر اٹھ کر کمرے میں داخل ہونے لگے تو کھلے ہاتھوں والا آدمی کھڑا ہوا اور کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا نماز کم کر دی گئی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ کی حالت میں نکلے اور رکعت جو چھوٹ گئی تھی پڑھائی پھر سلام پھیر دیا پھر بھول کے دو سجدے کئے پھر سلام پھیرا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|