كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام The Book of Mosques and Places of Prayer 26. باب اسْتِحْبَابِ الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلاَةِ وَبَيَانِ صِفَتِهِ: باب: نماز کے بعد کیا ذکر کرنا چاہئیے۔ Chapter: It is recommended to recite statements of remembrance after the prayer, and how that is to be done ولید نے اوزاعی سے، انہوں نے ابو عمار۔ ان کا نام شداد بن عبداللہ ہے۔ سے، انھوں نے ابو اسماء سے اور انھوں نے حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی نماز سے فارغ ہوتے تو تین دفعہ استغفار کرتےاور اس کے بعد کہتے: اللہم انت السلام و منک السلام، تبارکت ذاالجلال والاکرام ” اے اللہ! تو ہی سلام ہے اور سلامتی تیری ہی طرف سے ہے، تو صاحب رفعت و برکت ہے، اے جلال والے اور عزت بخشنے والے!“ ولید نے کہا: میں نے اوزاعی سے پوچھا: استغفار کیسے کیا جائے؟ انھوں نے کہا: استغفر اللہ، استغفر اللہ کہے۔ حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی نماز سے فارغ ہوتے تو تین دفعہ بخشش طلب کرتے اور اس کے بعد کہتے: ”اے اللہ! تو ہی سالم اور تیری ہی طرف سلامتی ملتی ہے تو برکت و عظمت والا ہے، اے بزرگی اور برتری والے۔“ ولید کہتے ہیں میں نے اوزاعی سے پوچھا، اِستِغْفَار کیسے ہے؟ اس نے کہا، یوں کہو: (اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ، اَسْتَغْفِرُالّٰلہ)۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابو بکر بن ابی شبیہ اور ابن نمیر نے حدیث بیان کی، کہا ہمیں ابو معاویہ نے عاصم سے حدیث سنائی، انھوں نے عبداللہ بن حارث سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے روایت کی، کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرنے کے بعد صرف یہ ذکر پڑھنے تک ہی (قبلہ رخ) بیٹھتے: اللہم! انت السلام ومنک السلام تبارکت ذاالجلال والاکرام ”اے اللہ! تو ہی سلام ہے اور سلامتی تیری ہی طرف سے ہے، تو صاحب رفعت وبرکت ہے، اے جلال والے اور عزت بخشنے والے!“ ابن نمیر کی روایت میں: یا ذالجلال والاکرام (یا کے اضافے کے ساتھ) ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرنے کے بعد صرف (اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ، وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ) پڑھنے کی مقدار تک بیٹھتے تھے اور ابن نمیر کی روایت: (يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ) یعنی یا کے اضافہ کے ساتھ ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابو خالد احمر نے عاصم سے اسی سند کے ساتھ یہی حدیث بیان کی اور یا ذالجلال والاکرام (یا کے اضافے کے ساتھ) کہا۔ امام صاحب ایک اور استاد سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں، جس میں ہے اور کہا: (یَا ذَاالْجَلَالِ وَالْاِکْرَام) اے عظمت و احسان کے مالک۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
شعبہ نے عاصم اور خالد سے روایت کرتے ہوئے عبداللہ بن حارث سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند روایت کی، مگر وہ (شعبہ یا کے اضافے کے ساتھ) یا ذاالجلال والاکرام کہا کرتے تھے۔ امام صاحب ایک اور استاد سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں، جس میں ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم (یَا ذَاالْجَلَالِ وَالْاِکْرَام) کہا کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا جرير ، عن منصور ، عن المسيب بن رافع ، عن وراد مولى المغيرة بن شعبة، قال: كتب المغيرة بن شعبة إلى معاوية، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، " كان إذا فرغ من الصلاة، وسلم، قال: " لا إله إلا الله، وحده لا شريك له، له الملك، وله الحمد، وهو على كل شيء قدير، اللهم لا مانع لما اعطيت، ولا معطي لما منعت، ولا ينفع ذا الجد منك الجد ".حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ ، عَنْ وَرَّادٍ مَوْلَى الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: كَتَبَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ إِلَى مُعَاوِيَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " كَانَ إِذَا فَرَغَ مِنَ الصَّلَاةِ، وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ ". منصور نے مسیّب بن رافع سے، انھوں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے مولیٰ وراد سے روایت کی، انھوں نے کہا: حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے (ان کے مطالبے پر) معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھ کر بھیجا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو کر سلام پھیرتے تو فرماتے: ” ایک اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، حکومت اور فرمانروائی اسی کی ہے، وہی شکرو ستائش کا حقدار ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اے اللہ! جو کچھ تو کسی کودے اسے کوئی روک سکنے والا نہیں اورجس چیز کو تو روک لے کوئی اسے دے سکنے والا نہیں اور تیرے سامنے کسی شان والے کو اس کی شان کوئی فاعدہ نہیں دے سکتی حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لکھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو کر سلام پھیرتے تو فرماتے: ”اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اور یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اس کی حکومت اور فرمانروائی ہے اور وہی شکر و ستائش کا حقدار ہے اور ہر چیز پر اس کو قدرت حاصل ہے، اے اللہ! جو کچھ تو کسی کو دینا چاہے، اسے کوئی روک سکنے والا نہیں اور جس چیز کے تو نہ دینے کا فیصلہ کر لے، کوئی اسے دے سکنے والا نہیں اور کسی سرمایہ دار، صاحبِ جاہ و عظمت کو اس کا سرمایہ اور جاہ و عظمت تجھ سے مستغنی نہیں کر سکتا، بڑے سے بڑا سرمایا دار اور صاحبِ عظمت وجاہ ہر آن تیرا محتاج ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابو کریب اور احمد بن سنان نے ہمیں حدیث بیان کی، ان سب نے کہا: ہمیں ابو معاویہ نے اعمش سےحدیث سنائی، انھوں نے مسیب بن رافع سے، انھون نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے مولیٰ وراد سے، انھوں نےحضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت بیا ن کی۔ ابو بکر اور ابو کریب نے اپنی روایت میں: (وراد نے) کہا: مغیرہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات مجھے لکھوائی اور میں نے یہ بات حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف لکھ بھیجی۔ امام صاحب مذکورہ بالا روایت اپنے مختلف اساتذہ سے بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابن عون نے ابو سعید سے، انھوں نے ورّاد سے۔ جو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کےکاتب تھے۔روایت کی، کہا: معاویہ رضی اللہ عنہ نےمغیرہ رضی اللہ عنہ کی طرف لکھا (مسئلہ دریافت کیا)۔۔۔۔۔۔ (آگے) منصور اور اعمش کی حدیث کے مطابق (ہے۔) حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لکھوایا (یہ تحریر ان کی طرف وراد نے لکھی) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سلام کے وقت سنا پھر مذکورہ بالا روایت بیان کی، مگر اس میں (وَھُُُُوَ عَلیٰ کُلِّ شَيْءٍ قَدِیْرٌ) کے الفاظ بیان نہیں کیے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
سفیان نے کہا: ہمیں عبدہ بن ابی لبابہ اور عبدالملک بن عمیر نے حدیث سنائی، انھوں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے کاتب ورّاد سے سنا، وہ کہتے تھے: حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے مغیرہ رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ مجھے کوئی ایسی چیز لکھ بھیجیں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو، تو انھوں نے لکھ بھیجا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، جب آپ نماز ختم کر لیتے تو فرماتے: لاإلہ إلا اللہ وحدہ لاشریک لہ، لہ مالملک ولاہ الحمد، وہو علی کل شیء قدیر، اللہم لا مانع لما أعطیت ولا معطی لما منعت ولا ینفع ذالجد منک الجد ” اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا اور یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، حکومت اور فرمانروائی اسی کی ہے، وہی شکرو ستائش کا حقدار ہے اور وہی ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اے اللہ! جو کچھ تو کسی کو دینا چاہے اسے کوئی روک سکنے والا نہیں اور تیرے سامنے کسی شان والے کو اس کی شان کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔“ امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا ابن ابي عمر المكي ، حدثنا سفيان ، حدثنا عبدة بن ابي لبابة وعبد الملك بن عمير ، سمعا ورادا كاتب المغيرة بن شعبة ، يقول: كتب معاوية إلى المغيرة، اكتب إلي بشيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فكتب إليه، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول إذا قضى الصلاة: " لا إله إلا الله، وحده لا شريك له، له الملك، وله الحمد، وهو على كل شيء قدير، اللهم لا مانع لما اعطيت، ولا معطي لما منعت، ولا ينفع ذا الجد منك الجد ".وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَكِّيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ أَبِي لُبَابَةَ وَعَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ ، سَمِعَا وَرَّادًا كَاتِبَ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، يَقُولُ: كَتَبَ مُعَاوِيَةُ إِلَى الْمُغِيرَةِ، اكْتُبْ إِلَيَّ بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَكَتَبَ إِلَيْهِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ إِذَا قَضَى الصَّلَاةَ: " لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ ". سفیان نے کہا: ہمیں عبدہ بن ابی لبابہ اور عبدالملک بن عمیر نے حدیث سنائی، انھوں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے کاتب ورّاد سے سنا، وہ کہتے تھے: حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے مغیرہ رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ مجھے کوئی ایسی چیز لکھ بھیجیں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو، تو انھوں نے لکھ بھیجا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، جب آپ نماز ختم کر لیتے تو فرماتے: لاإلہ إلا اللہ وحدہ لاشریک لہ، لہ مالملک ولاہ الحمد، وہو علی کل شیء قدیر، اللہم لا مانع لما أعطیت ولا معطی لما منعت ولا ینفع ذالجد منک الجد ” اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا اور یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، حکومت اور فرمانروائی اسی کی ہے، وہی شکرو ستائش کا حقدار ہے اور وہی ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اے اللہ! جو کچھ تو کسی کو دینا چاہے اسے کوئی روک سکنے والا نہیں اور تیرے سامنے کسی شان والے کو اس کی شان کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔“ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خط لکھا کہ مجھے کوئی ایسی حدیث لکھ بھیجو، جو تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو تو انہوں نے لکھ بھیجا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ جب آپصلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ لیتے تو فرماتے: (لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، اللهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ)۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا هشام ، عن ابي الزبير ، قال: كان ابن الزبير، يقول في دبر كل صلاة، حين يسلم " لا إله إلا الله، وحده لا شريك له، له الملك، وله الحمد، وهو على كل شيء قدير، لا حول ولا قوة إلا بالله، لا إله إلا الله، ولا نعبد إلا إياه، له النعمة، وله الفضل، وله الثناء الحسن، لا إله إلا الله، مخلصين له الدين ولو كره الكافرون "، وقال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، يهلل بهن دبر كل صلاة.وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، قَالَ: كَانَ ابْنُ الزُّبَيْرِ، يَقُولُ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ، حِينَ يُسَلِّمُ " لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَلَا نَعْبُدُ إِلَّا إِيَّاهُ، لَهُ النِّعْمَةُ، وَلَهُ الْفَضْلُ، وَلَهُ الثَّنَاءُ الْحَسَنُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ "، وَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُهَلِّلُ بِهِنَّ دُبُرَ كُلِّ صَلَاةٍ. محمد کے والد عبداللہ بن نمیر نے کہا: ہمیں ہشام نے ابو زبیر سے حدیث سنائی، کہا: (عبداللہ) زبیر رضی اللہ عنہما سلام پھیر کر ہر نماز کے بعد یہ کلمات کہتے تھے: ” ایک اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، حکومت اور فرمانروائی اسی کی ہے اور وہی شکر و ستائش کا حقدار ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔گناہوں سے بچنے کی توفیق اور نیکی کرنے کی قوت اللہ ہی سے (ملتی) ہے، اس کے سوا کوئی الہ و معبود نہیں۔ ہم اس کےسوا کسی کی بندگی نہیں کرتے، ہر طرح کی نعمت اور سارا فضل و کرم اسی کا ہے، خوبصورت تعریف کا سزا وار بھی وہی ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، ہم اس کے لیے دین میں اخلاص رکھنے والے ہیں، چاہے کافر اس کو (کتنا ہی) نا پسند کریں۔“ اور کہا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد بلند آواز سے لا الہ الا اللہ والے یہ کلمات کہا کرتے تھے۔ حضرت ابو زبیر رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نماز کے بعد، سلام پھیرتے وقت یہ کلمات کہتے تھے: (لَاإِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَلَا نَعْبُدُ إِلَّا إِيَّاهُ، لَهُ النِّعْمَةُ وَلَهُ الْفَضْلُ، وَلَهُ الثَّنَاءُ الْحَسَنُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ) ”اللّٰہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں اور ساجھی نہیں، اس کی حکومت اور فرمانروائی ہے اور وہی شکروستائش کا حقدار ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، گناہوں سے بچنے کی توفیق اور نیکی کرنے کی قوت سب اللّٰہ ہی کے ارادے سے ہے اس کے سوا کوئی الٰہ (معبود) نہیں، ہم صرف اس کی بندگی کرتے ہیں، سب نعمتیں اسی کی ہیں اور فضل و کرم اس کا ہے، اچھی تعریف کا مستحق بھی وہی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، ہم پورے اخلاص کے ساتھ اس کی بندگی کرتے ہیں، اگرچہ منکروں کو کتنا ہی ناگوار ہو“ اور بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہر نماز کے بعد ان کلمات کو بلند آوازسے کہتے تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبدہ بن سلیمان نے ہشام بن عروہ سے اور انھوں نے اپنے خاندان کے مولیٰ ابو زبیر سے روایت کی کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ہر نماز کے بعد بلند آواز سے پڑھتے تھے (آگے) ابن نمیر کی روایت کے مانند ہے اور انھوں نے اپنی حدیث کے آخر میں کہا: پھر ابن زبیر کہتےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد ان (کلمات) کو بلند آواز سے کہتے تھے۔ حضرت ابو زبیر رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللّٰہ بن زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہما ہر نماز کے بعد کلمات تہلیل کہتے تھے جیسا کہ ابن نمیر کی روایت میں ہے اور آخر میں کہا، ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد یہ کلمات کہتے تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ہشام کے بجائے) حجاج بن ابی عثمان نے مجھے حدیث بیان کی، کہا: مجھ سے ابو زبیر نے حدیث بیان کی کہا: میں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ اس منبر پر خطبہ دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز یا نمازوں کے آخر میں سلام پھیرنے کے بعد کہا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔ (آگے) ہشام بن عروہ کی حدیث کی طرح بیان کیا۔ حضرت ابو زبیر رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے سنا ہے، وہ اس منبر پر خطبہ دیتے ہوئے بیان کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرنے کے بعد نماز ختم کرتے وقت کہا کرتے تھے اور ہشام ابن عروہ کی طرح حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
موسیٰ بن عقبہ سے روایت ہے کہ ابو زبیر مکی نے انھیں حدیث سنائی کہ انھوں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے سنا، جب وہ نماز کے بعد سلام پھیرتے تو کہتے۔۔۔ (بقیہ روایت) ان دونوں (ہشام اور حجاج) کی (مذکورہ بالا) روایت کے مانند ہے، اور آخر میں کہا: وہ اسے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کرتے تھے حضرت زبیر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ اس نے عبداللّٰہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے سنا، وہ ہر نماز کے بعد، جب سلام پھیرتے تو کلمات تہلیل کہتے تھے، جیسا کہ مذکورہ بالا روایت ہے اور آخر میں کہا وہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا عاصم بن النضر التيمي ، حدثنا المعتمر ، حدثنا عبيد الله . ح، قال: وحدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث ، عن ابن عجلان كلاهما، عن سمي ، عن ابي صالح ، عن ابي هريرة ، وهذا حديث قتيبة، ان فقراء المهاجرين، اتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: ذهب اهل الدثور بالدرجات العلى، والنعيم المقيم، فقال: وما ذاك؟ قالوا: يصلون كما نصلي، ويصومون كما نصوم، ويتصدقون ولا نتصدق، ويعتقون ولا نعتق، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: افلا اعلمكم شيئا تدركون به من سبقكم، وتسبقون به من بعدكم، ولا يكون احد افضل منكم، إلا من صنع مثل ما صنعتم؟ " قالوا: بلى يا رسول الله. قال: " تسبحون، وتكبرون، وتحمدون، دبر كل صلاة، ثلاثا وثلاثين مرة "، قال ابو صالح: فرجع فقراء المهاجرين، إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: سمع إخواننا اهل الاموال بما فعلنا، ففعلوا مثله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ذلك فضل الله، يؤته من يشاء، وزاد غير قتيبة في هذا الحديث، عن الليث، عن ابن عجلان، قال: سمي، فحدثت بعض اهلي هذا الحديث، فقال: وهمت، إنما قال: " تسبح الله ثلاثا وثلاثين، وتحمد الله ثلاثا وثلاثين، وتكبر الله ثلاثا وثلاثين "، فرجعت إلى ابي صالح، فقلت له ذلك، فاخذ بيدي، فقال: الله اكبر، وسبحان الله، والحمد لله، الله اكبر، وسبحان الله، والحمد لله، حتى تبلغ من جميعهن ثلاثة وثلاثين، قال ابن عجلان : فحدثت بهذا الحديث، رجاء بن حيوة ، فحدثني بمثله، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ النَّضْرِ التَّيْمِيُّ ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ . ح، قَالَ: وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ كِلَاهُمَا، عَنْ سُمَيٍّ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، وَهَذَا حَدِيثُ قُتَيْبَةَ، أَنَّ فُقَرَاءَ الْمُهَاجِرِينَ، أَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: ذَهَبَ أَهْلُ الدُّثُورِ بِالدَّرَجَاتِ الْعُلَى، وَالنَّعِيمِ الْمُقِيمِ، فَقَالَ: وَمَا ذَاكَ؟ قَالُوا: يُصَلُّونَ كَمَا نُصَلِّي، وَيَصُومُونَ كَمَا نَصُومُ، وَيَتَصَدَّقُونَ وَلَا نَتَصَدَّقُ، وَيُعْتِقُونَ وَلَا نُعْتِقُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَفَلَا أُعَلِّمُكُمْ شَيْئًا تُدْرِكُونَ بِهِ مَنْ سَبَقَكُمْ، وَتَسْبِقُونَ بِهِ مَنْ بَعْدَكُمْ، وَلَا يَكُونُ أَحَدٌ أَفْضَلَ مِنْكُمْ، إِلَّا مَنْ صَنَعَ مِثْلَ مَا صَنَعْتُمْ؟ " قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: " تُسَبِّحُونَ، وَتُكَبِّرُونَ، وَتَحْمَدُونَ، دُبُرَ كُلِّ صَلَاةٍ، ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ مَرَّةً "، قَالَ أَبُو صَالِحٍ: فَرَجَعَ فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ، إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: سَمِعَ إِخْوَانُنَا أَهْلُ الأَمْوَالِ بِمَا فَعَلْنَا، فَفَعَلُوا مِثْلَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ، يُؤْتِهِ مَنْ يَشَاءُ، وَزَادَ غَيْرُ قُتَيْبَةَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، عَنِ اللَّيْثِ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، قَالَ: سُمَيٌّ، فَحَدَّثْتُ بَعْضَ أَهْلِي هَذَا الْحَدِيثَ، فَقَالَ: وَهِمْتَ، إِنَّمَا قَالَ: " تُسَبِّحُ اللَّهَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَتَحْمَدُ اللَّهَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَتُكَبِّرُ اللَّهَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ "، فَرَجَعْتُ إِلَى أَبِي صَالِحٍ، فَقُلْتُ لَهُ ذَلِكَ، فَأَخَذَ بِيَدِي، فَقَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، حَتَّى تَبْلُغَ مِنْ جَمِيعِهِنَّ ثَلَاثَةً وَثَلَاثِينَ، قَالَ ابْنُ عَجْلَانَ : فَحَدَّثْتُ بِهَذَا الْحَدِيثِ، رَجَاءَ بْنَ حَيْوَةَ ، فَحَدَّثَنِي بِمِثْلِهِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. عاصم بن نضر تیمی نے کہا: ہمین معتمر نے حدیث سنائی، کہا: ہمین عبیداللہ نے حدیث سنائی نیز (ایک اور سند سے) قتیبہ بن سعید نے کہا: ہمیں لیث نے ابن عجلان سے حدیث سنائی، ان دونوں (عبیداللہ اور ابن عجلان) نے سًمَیّ سے، انھوں نے ابو صالح سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔۔یہ قتیبہ کی روایت کردہ حدیث ہے۔ کہ کچھ تنگدست مہاجر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گزارش کی: بلند درجے اور دائمی نعمت تو زیادہ مال والے لوگ لے گئے! آپ نے پوچھا: ” وہ کیسے؟“ انھوں نے کہا: وہ اسی طرح نمازیں پڑھتے ہیں جس طرح ہم پڑھتے ہیں، وہ اسی طرح روزے رکھتے ہیں جیسے ہم رکھتے ہیں اور وہ صدقہ کرتے ہیں جبکہ ہم صدقہ نہیں کر سکتے، وہ (بندھے ہوؤں اور غلاموں کو) آزاد کرتے ہیں جبکہ ہم آزاد نہیں کر سکتے تو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تو کیا پھر میں تمھیں اسی چیز نہ سکھاؤں جس سے تم ان لوگوں کو پالو گے جو تم سے سبقت لے گے ہیں اور اس کے ذریعے سے ان سے بھی سبقت لے جاؤ گے جو تم سے بعد (آنے والے) ہیں؟ اور تم سے وہی افضل ہو گا جو تمھاری طرح عمل کرے گا۔“ انھوں نے کہا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول! (ضرور بتائیں۔) آپ نے فرمایا: ”تم ہر نماز کے بعد تینتیس مرتبہ تسبیح: تکبیر اور تحمید (سبحان اللہ: اللہ اکبر، اور الحمد اللہ) کا ورد کیا کرو“ ابو صالح نےکہا: فقرائے مہاجرین دوبارہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے: ہمارے مالدار بھائیوں نے بھی جو ہم کرتے ہیں اس کے بارے میں سن لیا ہے اور اسی طرح عمل کرنا شروع کر دیا ہے (وہ بھی تسبیح، تکبیر اور تحمید کرنے لگے ہیں۔) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عنایت فرمادے۔“ قتیبہ کے علاوہ لیث سے ابن عجلان کے حوالے سے دیگر روایت کرنے والوں نے یہ اضافہ کیا کہ سمی نے کہا: میں نے یہ حدیث اپنے گھر کے ایک فرد کو سنائی تو انھوں نے کہا: تمھیں وہم ہوا ہے، انھوں (ابو صالح) نے تو کہا تھا: ”تینتیس مرتبہ سبحان اللہ کہو، تینتیس بار الحمد اللہ کہو اور تینتیس بار اللہ اکبر کہو۔“ میں دوبارہ ابو صالح کی خدمت میں حاضر ہوا اور انھیں یہ بتا یا تو انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا: اللہ اکبر، سبحان اللہ اور الحمد اللہ، اللہ اکبر، سبحان اللہ اور الحمد اللہ (اس طرح کہو) کہ سب کی تعداد تینتیس ہو جائے۔ ابن عجلان نے کہا: میں نے یہ حدیث رجاء بن حیوہ کو سنائی تو انھوں نے مجھے ابو صالح کے واسطے سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (روایت کرتے ہوئے) اسی کی مانند حدیث سنائی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ تنگدست مہاجرین، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گزارش کہ مالدار بلند درجات اور سدا بہار نعمتیں لے گئے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیسے؟ انہوں نے کہا، وہ ہماری طرح نماز پڑھتے ہیں، وہ روزے رکھتے ہیں، جیسے ہم روزے رکھتے ہیں اور وہ صدقہ کرتے ہیں، ہم صدقہ نہیں کرسکتے، وہ آزادی دیتے ہیں، ہم آزاد نہیں کر سکتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ سکھاؤں جس سے تم اپنے سے سبقت لے جانے والوں کو پہنچ جاؤ اور اس کے سبب اپنے بعد والوں سے سبقت لے جاؤ؟ اور تم سے کوئی افضل نہ ہو مگر وہ جو تمہاری طرح کا عمل کرے۔“ انہوں نے کہا، کیوں نہیں (ضرور بتلائیں) اے اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم تینتیس مرتبہ ہر نماز کے بعد سُبْحَانَ اللّٰہ، اَللُّٰہُ اَکْبَر اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہو“، ابو صالح بیان کرتے ہیں، محتاج مہاجرین دوبارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا، ہمارے مالدار بھائیوں نے ہمارے عمل کو سن کر، ہماری طرح عمل شروع کر دیا ہے۔ (وہ بھی تسبیح، تکبیر تحمید کرنے لگے ہیں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہ اللّٰہ کا فضل ہے جسے چاہے عنایت فرما دے) قتیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا کسی اور نے لیث سے ابن عجلان کے واسطہ سے سَمَیّ سے بیان کیا، میں نے یہ حدیث اپنے گھر کے کسی فرد کو سنائی تو اس نے کہا تم بھول گئے ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا تھا، تینتیس مرتبہ سُبْحَانَ اللّٰہ کہو تینتیس بار اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہو اور تینتیس بار اَللُّٰہ اَکْبَر کہو تو میں دوبارہ ابوصالح کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسے یہ بتایا تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا، اَللُّٰہ اَکْبَر، سُبْحَانَ اللِّٰہ اور اَلْحَمْدُ لِلِّٰہ، اَللّٰہُ اَکْبَر، سُبْحَانَ اللّٰہ اَلْحَمْد لِلّٰہ اس طرح کل تینتیس ہو جائے ابن عجلان کہتے ہیں، میں نے یہ حدیث رجاء بن حیوہ کو سنائی تو اس نے مجھے اس طرح ابو صالح کے واسطہ سے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سنائی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني امية بن بسطام العيشي ، حدثنا يزيد بن زريع ، حدثنا روح ، عن سهيل ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انهم قالوا: يا رسول الله، ذهب اهل الدثور بالدرجات العلى، والنعيم المقيم، بمثل حديث قتيبة، عن الليث، إلا انه ادرج في حديث ابي هريرة، قول ابي صالح: ثم رجع فقراء المهاجرين 61، إلى آخر الحديث، وزاد في الحديث، يقول سهيل: إحدى عشرة، إحدى عشرة، فجميع ذلك كله ثلاثة وثلاثون.وحَدَّثَنِي أُمَيَّةُ بْنُ بِسْطَامَ الْعَيْشِيُّ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُمْ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ذَهَبَ أَهْلُ الدُّثُورِ بِالدَّرَجَاتِ الْعُلَى، وَالنَّعِيمِ الْمُقِيمِ، بِمِثْلِ حَدِيثِ قُتَيْبَةَ، عَنِ اللَّيْثِ، إِلَّا أَنَّهُ أَدْرَجَ فِي حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَوْلَ أَبِي صَالِحٍ: ثُمَّ رَجَعَ فُقَرَاءُ المهاجرين 61، إِلَى آخِرِ الْحَدِيثِ، وَزَادَ فِي الْحَدِيثِ، يَقُولُ سُهَيْلٌ: إِحْدَى عَشْرَةَ، إِحْدَى عَشْرَةَ، فَجَمِيعُ ذَلِكَ كُلِّهِ ثَلَاثَةٌ وَثَلَاثُونَ. امیہ بسطام عیشی نے مجھے حدیث سنائی، کہا: ہمیں یزید بن زریع نےحدیث سنائی، کہا ہمیں روح نے سہیل سے حدیث سنائی انھون نے اپنے والد (ابو صالح سے) سے، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انھون نے رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! بلند مراتب اور دائمی نعمتیں تو زیادہ مال والے لوگ لے گئے۔۔۔جس طرح لیث سےقتیبہ کی بیان کی ہوئی حدیث ہے، مگر انھوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ابو صالح کا یہ قول داخل کر دیا ہے کہ پھر فقراء مہاجرین لوٹ کر آئے، حدیث کے آخر تک۔ اور حدیث میں اس بات کا اضافہ کیا: سہیل کہتے تھے: (ہر کلمہ) گیارہ گیارہ دفعہ اور یہ سب ملا کر تینتیس بار۔ (یہ سہیل کا اپنا فہم تھا۔) سہیل اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا، اے اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! سرمایہ دار، بلند مراتب اور دائمی نعمتیں لے گئے، جیسا کہ قتیبہ کی لیث سے روایت ہے، مگر اس نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں ابو صالح کا یہ قول داخل کر دیا ہے کہ پھر فُقَرَاءُ الْمُھَاجِرِیْن لوٹ کر آئے آخر حدیث تک اور حدیث میں یہ اضافہ کیا، سہیل نےکہا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ کلمہ گیارہ گیارہ دفعہ اور یہ سب ملا کر مجموعی طور پر تینتیس بار۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
مالک بن مغول نے ہمیں خبر دی، کہا: میں نے حکم بن عتیبہ سے سنا، وہ عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے حدیث بیان کررہے تھے، انھوں نے حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے رسو ل اللہ سے روایت کی، آپ نے فرمایا: ” (نماز کے یا) ایک دوسرے کے پیچھے کہے جانے والے ایسے کلمات ہیں کہ ہرفرض نماز کے بعد انھیں کہنے والا۔۔یا ان کو ادا کرنے والا۔کبھی نامراد و ناکام نہیں رہتا، تینتیس بار سبحان اللہ، تینتیس بار الحمد اللہ اورچونتیس با ر اللہ اکبر۔“ حضرت عبد الرحمٰن بن ابی یعلیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنا کہ نماز کے پیچھے کہے جانے والے کلمات یہ ہیں کہ ان کے فرض نماز کے بعد کہنے والا یا ان کو بجا لانے والا (ہر فرض نماز کے بعد) نامراد و ناکام نہیں رہتا یا بلند درجات سے محروم نہیں رہتا۔ تینتیس بار سُبْحَانَ اللہ، تینتیس بار اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اور چونتیس بار اَللہُ اَکْبَر۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حمزہ زیات نے ہمیں حکم سے حدیث بیان کی، انھوں نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے، انھوں نے حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ نے فرمایا: ” ایک دوسرے کےبعد کہے جانے والے (کچھ) کلمات ہیں، ان کو کہنے والا۔ یا ادا کرنے والا۔ نا کام یا نامراد نہیں رہتا۔ ہر (فرض) نماز کے بعد تینتیس دفعہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ الحمد اللہ اور چونتیس بار اللہ اکبر کہنا۔“ حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز کے بعد کہے جانے والے کلمات یہ ہیں، ہر نماز کے بعد ان کو کہنے والا یا ان کو بجالانے والا نامراد نہیں رہتا، تینتیس دفعہ تسبیح، تینتیس مرتبہ تحمید اور چونتیس بار تکبیر۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عمرو بن قیس ملائی نے حکم سے اسی سند کے ساتھ اسی کی مانند حدیث بیان کی۔ امام صاحب ایک اور استاد سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
خالد بن عبداللہ نے ہمیں سہیل سے خبر دی، انھوں نے ابو عبید مذحجی سے روایت کی۔امام مسلم رحمۃ اللہ نے کہا: ابو عبید سلیمان بن عبدالملک کے مولیٰ تھے۔ انھوں نے عطاء بن یزید لیثی سے، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی: ”جس نے ہر نماز کے بعد تینتیس مرتبہ سبحان اللہ تینتیس دفعہ الحمد اللہ اور تینتیس بار اللہ اکبر کہا، یہ ننانوے ہو گے اور سو پورا کرنے کے لیے لا الہ الا اللہ وحد ہ لا شریک لہ، لہ الملک ولاہ الحمد، وہو علی کل شیء قدیر“ کیا اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے، چاہے وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔“ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ہر نماز کے بعد تینتیس مرتبہ سُبْحَانَ اللہ تینتیس دفعہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اور تینتیس بار اَللہُ اَکْبَر کہا، یہ ننانوے ہو گئے اور سو پورا کرنے کے لیے (لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ) کہا، اس کی لغزشیں اور قصور معاف کر دیئے جائیں گے، خواہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
اسماعیل بن زکریا نے سہیل سے، انھوں نے ابو عبید سے، انھوں نے عطاء سے اور انھوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آگے (مذکورہ بالا روایت) کے مانند روایت کی۔ امام صاحب ایک اور استاد سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|