كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام 34. باب اسْتِحْبَابِ التَّبْكِيرِ بِالْعَصْرِ: باب: عصر اول وقت پڑھنے کا بیان۔
قتیبہ بن سعید اور محمد بن رمح نے کہا: لیث نے ہمیں ابن شہاب سے روایت کی، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انھوں نے ان کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصرکی نماز (ایسے وقت میں) پڑھتے تھے جب سورج بلند اور زندہ (روشنی میں کمی کے بغیر) ہوتا تھا، عوالی کی طرف جانے والا (عصر پڑھ کر) چلتا اور عوالی (مدینہ کے بالائی حصے کی بستیوں میں) پہنچتا تو سورج ابھی بلند ہوتا تھا۔یہ بستیاں مدینہ سے دو تا آٹھ میل کی میل کی مسافت پر تھیں۔ قتیبہ نے (اپنی حدیث میں) عوالی پہنچنے کا ذکر نہیں کیا۔
عمرو نے ابن شہاب سے، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز پڑھتے تھے۔۔۔ (آگے) بالکل (اوپرکی روایت) کے مطابق ہے۔
امام مالک نے ابن شہاب سے، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ہم عصر کی نماز پڑھتے تھے، پھر جانے والا قباء جاتا، ان لوگوں کے پاس پہنچتا اور سورج ابھی اونچا ہوتا۔ (قباء مدینہ سے دو میل کی مسافت پر ہے۔)
اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے حضرت اسن بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ، کہا ہم عصر کی نماز پڑھتے، پھر ایک انسان بنو عمرو بن عوف کے محلے (قباء میں) جاتا تو انھیں عصر کی نماز پڑھتے ہوئے پاتا۔
علاء بن عبدالرحمان سے روایت ہے کہ وہ نماز ظہر سے فارغ ہو کر حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ہاں بصرہ میں ان کے گھر حاضر ہوئے، ان کا گھر مسجد کے پہلو میں تھا، جب ہم ان کی خدمت میں پہنچے تو انھوں نے پوچھا: کیا تم لوگوں نے عصر کی نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے ان سے عرض کی: ہم تو ابھی ظہر کی نماز پڑھ کر لوٹے ہیں۔ انھوں نے فرمایا: تو عصر پڑھ لو۔ ہم نے اٹھ کر (عصر کی) نماز پڑھ لی، جب ہم فارغ ہوئے تو انھوں نےکہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ” یہ منافق کی نماز ہے، وہ بیٹھا ہوا سورج کو دیکھتا رہتا ہے یہاں تک کہ (جب وہ زرد پڑ کر) شیطان کے دو سنگوں کے درمیان چلا جاتا ہے تو کھڑا ہو کر اس (نماز) کی چار ٹھونگیں مار دیتا ہے اور اس میں اللہ کو بہت ہی کم یاد کرتا ہے۔“
حضرت ابو اامامہ بن سہل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم نے عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھی، پھر ہم باہر نکلے اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ہم نے انھیں حاصر کی نماز پڑھتے ہوئے پایا، میں نے پوچھا: چچا جان! یہ کون سی نماز ہےجو آپ نے پڑھی ہے؟ انھوں نے جواب دیا: عصر کی ہے، اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہے جو ہم آپ کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔
عمرو بن سواد عامری، محمد بن سلمہ مرادی اور احم د بن عیسیٰ نےہمیں حدیث بیان کی۔ اس سب کے الفاظ ملتے جلتے ہیں۔ عمرو نے کیا: ہمیں خبر دی اور باقی دونوں نے کہا: ہمیں حدیث سنائی ابن وہب نے، کہا: مجھے عمرو بن حارث نے یزید بن ابی حبیب سے خبر دی کہ موسیٰ بن سعد انصاری نےانھیں حدیث بیان کی، انھوں نے حفص بن عبید اللہ سے اورانھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عصر کی نماز پڑھا ئی تو جب آپ فارغ ہوئے، آپ کے پاس بنو سلمہ کا ایک آدمی آیا اور کہا: اللہ کے رسول! ہم اپنا اونٹ نحر کرنے کا اردہ رکھتے ہیں۔ اور ہم چاہتے ہیں آپ بھی اس موقع پر موجود ہوں۔ آپ نے فرمایا: ” اچھا۔“ آپ نکل پڑے، ہم بھی آپ کے ساتھ چل پڑے، ہم نے دیکھا، اونٹ ابھی ذبح نہیں کیا گیا تھا، اسے ذبح کیا گیا، پھر اس کا گوشت کاٹا گیا، پھر اس میں سے کچھ پکایا گیا، پھر ہم نے سورج غروب ہونے سے پہلے (اسے) کھا لیا۔مرادی کا قول ہے کہ ہمیں یہ حدیث ابن وہب نے ابن لہیعہ اورعمروبن حارث دونوں سے روایت کرتے ہوئے سنائی۔
ہمیں ولید بن مسلم نےحدیث سنائی، کہا: اوزاعی نےہمیں حدیث بیان کی، انھوں نے ابو نجاشی سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نےحضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز عصر پڑھتے، پھر اونٹ ذبح کیا جاتا، اس کے دس حصے کیے جاتے، پھر ہم اسے پکاتے اور سورج کےغروب ہونے سے پہلے ہم اچھی طرح پکا ہوا گوشت کھا لیتے۔
اسحاق بن ابراہیم نے کہا: ہمیں عیسیٰ بن یونس اور شعیب بن اسحاق دمشقی نے خبر دی، ان دونوں نے کہا: ہمیں اوزاعی نے اسی سند کے ساتھ یہی حدیث بیان کی، البتہ انھوں (اسحاق) نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےعہدمیں عصر کے بعد اونٹ ذبح کرتےتھے، نہیں کہا: ہم آپ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے۔
|