كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام The Book of Mosques and Places of Prayer 39. باب وَقْتِ الْعِشَاءِ وَتَأْخِيرِهَا: باب: عشاء کا وقت اور اس میں تاخیر کرنے کا بیان۔ Chapter: The time of `Isha and delaying it وحدثنا عمرو بن سواد العامري ، وحرملة بن يحيى ، قالا: اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، ان ابن شهاب اخبره، قال: اخبرني عروة بن الزبير ، ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: اعتم رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة من الليالي بصلاة العشاء، وهي التي تدعى العتمة، فلم يخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى قال عمر بن الخطاب: " نام النساء والصبيان، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لاهل المسجد حين خرج عليهم: ما ينتظرها احد من اهل الارض غيركم، وذلك قبل ان يفشو الإسلام في الناس "، زاد حرملة في روايته، قال ابن شهاب: وذكر لي ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: وما كان لكم ان تنزروا رسول الله صلى الله عليه وسلم على الصلاة، وذاك حين صاح عمر بن الخطاب.وحَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْعَامِرِيُّ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ أَخْبَرَهُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: أَعْتَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً مِنَ اللَّيَالِي بِصَلَاةِ الْعِشَاءِ، وَهِيَ الَّتِي تُدْعَى الْعَتَمَةَ، فَلَمْ يَخْرُجْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: " نَامَ النِّسَاءُ وَالصِّبْيَانُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِأَهْلِ الْمَسْجِدِ حِينَ خَرَجَ عَلَيْهِمْ: مَا يَنْتَظِرُهَا أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ غَيْرُكُمْ، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يَفْشُوَ الإِسْلَامُ فِي النَّاسِ "، زَادَ حَرْمَلَةُ فِي رِوَايَتِهِ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَذُكِرَ لِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تَنْزُرُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الصَّلَاةِ، وَذَاكَ حِينَ صَاحَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ. عمرو بن سوّاد عامری اور حرملہ بن یحییٰ دونوں نے کہا: ہمیں ابن وہب نے خبر دی، انھوں نے کہا: مجھے یونس نےخبر دی کہ انھیں ابن شہاب نے خبر دی، کہا: مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز خوب اندھیرا ہونے تک مؤخر فرمائی اور اسی نماز کو عتمہ (گہری تاریکی کے وقت کی نماز) کہا جاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس وقت تک) گھر سے نہ نکلے یہاں تک کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: (مسجد میں آنے والی) عورتیں اور بچے سو گئے ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور نکل کر مسجد کے حاضرین سے فرمایا: ”اہل زمین میں سے تمھارے سوا اس نماز کا اور کوئی بھی انتظار نہیں کررہا“ اور یہ لوگوں میں (مدینہ سے باہر) اسلام پھیلنے سے پہلے کی بات ہے۔ حرملہ نے اپنی روایت میں اضافہ کیا کہ ابن شہاب نے کہا: مجھے بتایا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمھارے لیے مناسب نہ تھا کہ تم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے لیے اصرار کرتے۔“ یہ تب ہوا جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بلند آواز سے پکارا۔ (انھوں نے غالباً یہ سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے ہیں یا سو گئے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ کسی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز، جسے عتمہ کے نام سے پکارا جاتا ہے، کے لیے آنے میں تاخیر کر دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نہ نکلے حتیٰ کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا، (مسجد میں آنے والی) عورتیں اور بچے سو گئے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور نکل کر مسجد کے حاضرین سے فرمایا: ”اہل زمین سے تمہارے سوا اس نماز کا کوئی بھی منتظر نہیں ہے۔“ یہ اس وقت کی بات ہے جبکہ ابھی لوگوں میں اسلام نہیں پھیلا تھا، حرملہ نے اپنی روایات میں ابن شہاب سے یہ اضافہ بیان کیا: مجھے بتایا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے لیے روانہ تھا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے لیے اصرار کرتے“ یہ اس وقت فرمایا جب عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بلند آواز سے پکارا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عقیل نے ابن شہاب سے اسی سنج کے ساتھ مذکورہ بالا روایت بیان کی لیکن اس میں زہر ی کا قول: وذکرلی (مجھے بتایا گیا) اور اس کے بعد کا حصہ بیان نہیں کیا۔ امام صاحب ایک اور استاد سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں لیکن اس میں زہری کا حرملہ والا حصہ بیان نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
محمد بن بکر، حجاج بن محمد اور عبدالرزاق۔ سب کے الفاظ باہم ملتے جلتے ہیں۔ سب نے کہا: ابن جریج سے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھے مغیرہ بن حکیم نے ام کلثوم بنت ابی بکر سے خبر دی کہ انھوں نے انھیں (مغیرہ کو) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے خبر دی، انھوں نے کہا: ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ےعشاء کی نماز میں دیر کر دی یہاں تک کہ رات کا بڑا حصہ گزر گیا اور اہل مسجد سو گئے، پھر آپ باہر تشریف لے گئے، نماز پڑھائی اور فرمایا: ” اگر (مجھے) یہ (ڈر) نہ ہوتا کہ میں اپنی امت کو مشقت میں ڈالوں گا تو یہی اس کا (بہترین) وقت ہے۔“ اور عبدالرزاق کی حدیث میں ہے: ” اگریہ (ڈر) نہ ہوتا کہ یہ میری امت کے لیے مشقت کا سبب بنے گا۔“ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات دیر کر دی، حتیٰ کہ رات کا کافی حصہ گزر گیا، حتیٰ کہ اہل مسجد سو گئے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے تشریف لا کر نماز پڑھائی اور فرمایا: ”یہی اس کا بہتر وقت ہے، اگر مجھے اپنی امت کے مشقت میں مبتلا ہونے کا ڈر نہ ہوتا اور عبد الرزاق کی حدیث میں أَن أَشُقَّ کی بجائے أن یَّشُقَّ ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني زهير بن حرب ، وإسحاق بن إبراهيم ، قال إسحاق ، اخبرنا وقال زهير : حدثنا: جرير ، عن منصور ، عن الحكم ، عن نافع ، عن عبد الله بن عمر ، قال: مكثنا ذات ليلة ننتظر رسول الله صلى الله عليه وسلم لصلاة العشاء الآخرة، فخرج إلينا، حين ذهب ثلث الليل او بعده، فلا ندري اشيء شغله في اهله، او غير ذلك، فقال حين خرج: " إنكم لتنتظرون صلاة، ما ينتظرها اهل دين غيركم، ولولا ان يثقل على امتي، لصليت بهم هذه الساعة "، ثم امر المؤذن، فاقام الصلاة وصلى ".وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ إِسْحَاق ، أَخْبَرَنَا وَقَالَ زُهَيْرٌ : حَدَّثَنَا: جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ: مَكَثْنَا ذَاتَ لَيْلَةٍ نَنْتَظِرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَلَاةِ الْعِشَاءِ الآخِرَةِ، فَخَرَجَ إِلَيْنَا، حِينَ ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ أَوْ بَعْدَهُ، فَلَا نَدْرِي أَشَيْءٌ شَغَلَهُ فِي أَهْلِهِ، أَوْ غَيْرُ ذَلِكَ، فَقَالَ حِينَ خَرَجَ: " إِنَّكُمْ لَتَنْتَظِرُونَ صَلَاةً، مَا يَنْتَظِرُهَا أَهْلُ دِينٍ غَيْرُكُمْ، وَلَوْلَا أَنْ يَثْقُلَ عَلَى أُمَّتِي، لَصَلَّيْتُ بِهِمْ هَذِهِ السَّاعَةَ "، ثُمَّ أَمَرَ الْمُؤَذِّنَ، فَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَصَلَّى ". حکم نےنافع سے اور انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک رات ہم عشاء کی آخری نماز کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرتے رہے، جب رات کا تہائی حصہ گزر گیا یا اس کے (بھی) بعد آپ تشریف لائے، ہمیں معلوم نہیں کہ آپ کو گھر والوں (کے معاملے) میں کسی چیز نے مشغول رکھا تھا یا کوئی اور بات بھی، جب آپ باہر آئے تو فرمایا: ”بلا شبہ تم ایسی نماز کا انتظار کررہے ہو جسکا تمھارے سوا کسی اور دین کے پیرو کار انتظار نہیں کر رہے، اور اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ یہ میری امت کے لیے گراں ہو گا تو میں انھیں اسی گھڑی میں (یہ) نماز پڑھایا کرتا۔“ پھر آپ نے مؤذن کو حکم دیا، اس نے اقامت کہی اور آب نے نماز پڑھائی۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات ہم عشاء کی نماز کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں رکے رہے تو رات کا تہائی گزرنے پر یا اس کے بعد آپصلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہمیں معلوم نہیں گھر کی کوئی مشغولیت تھی یا کچھ اور تھا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے نکل کر فرمایا: ”بے شک تم ایسی نماز کے انتظار میں ہو کہ کسی اور دین والے اس کے منتظر نہیں اور اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ یہ میری امت کے لیے گرانی کا سبب ہو گا تو میں انہیں اسی گھڑی نماز پڑھایا کرتا۔“ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذن کو حکم دیا اس نے نماز کے لیے اقامت کہی اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني محمد بن رافع ، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، اخبرني نافع ، حدثنا عبد الله بن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، شغل عنها ليلة فاخرها، حتى رقدنا في المسجد، ثم استيقظنا، ثم رقدنا، ثم استيقظنا، ثم خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال: " ليس احد من اهل الارض الليلة، ينتظر الصلاة غيركم ".وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، شُغِلَ عَنْهَا لَيْلَةً فَأَخَّرَهَا، حَتَّى رَقَدْنَا فِي الْمَسْجِدِ، ثُمَّ اسْتَيْقَظْنَا، ثُمَّ رَقَدْنَا، ثُمَّ اسْتَيْقَظْنَا، ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: " لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ اللَّيْلَةَ، يَنْتَظِرُ الصَّلَاةَ غَيْرُكُمْ ". ہمیں ابن جریج نے خبر دی، کہا: مجھے نافع نے خبر دی، انھوں نے کہا: ہم سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کسی بنا پر) اس (عشاء کی نماز) سے مشغول ہو گئے، آپ نے اسے مؤخر کر دیا یہاں تک کہ ہم مسجد میں سو گئے، پھر بیدار ہوئے، پھر سو گئے، پھر بیدار ہوئے، پھر آپ (گھر سے) نکل کر ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”آج رات تمھارے سوا اہل زمین میں سے کوئی نہیں جو نماز کا انتظار کر رہا ہو۔“ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے مشغول ہو گئے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دیر کر دی، حتیٰ کہ ہم مسجد میں سو گئے، پھر بیدار ہوئے پھر سو گئے، پھر بیدار ہوئے، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”آج رات تمہارے سوا اہل زمین سے کوئی اس نماز کا انتظار نہیں کر رہا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني ابو بكر بن نافع العبدي ، حدثنا بهز بن اسد العمي ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ثابت ، انهم سالوا انسا ، عن خاتم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: اخر رسول الله صلى الله عليه وسلم العشاء، ذات ليلة إلى شطر الليل، او كاد يذهب شطر الليل، ثم جاء، فقال: " إن الناس قد صلوا وناموا، وإنكم لم تزالوا في صلاة، ما انتظرتم الصلاة "، قال انس: كاني انظر إلى وبيص خاتمه من فضة، ورفع إصبعه اليسرى بالخنصر.وحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ الْعَبْدِيُّ ، حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ الْعَمِّيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، أَنَّهُمْ سَأَلُوا أَنَسًا ، عَنْ خَاتَمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَخَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ، ذَاتَ لَيْلَةٍ إِلَى شَطْرِ اللَّيْلِ، أَوْ كَادَ يَذْهَبُ شَطْرُ اللَّيْلِ، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: " إِنَّ النَّاسَ قَدْ صَلَّوْا وَنَامُوا، وَإِنَّكُمْ لَمْ تَزَالُوا فِي صَلَاةٍ، مَا انْتَظَرْتُمُ الصَّلَاةَ "، قَالَ أَنَسٌ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِ خَاتَمِهِ مِنْ فِضَّةٍ، وَرَفَعَ إِصْبَعَهُ الْيُسْرَى بِالْخِنْصِرِ. ثابت سے روایت ہےکہ انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یک مہر (یا انگوٹھی) کے بارے میں پوچھا تو (حضرت انس رضی اللہ عنہ نے) کہا: ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز آدھی رات تک مؤخر کی یا آدھی رات گزرنےکو تھی، پھر آپ تشریف لائے اور فرمایا: ”بلاشبہ (دوسرے) لوگوں نے نماز پڑھ لی اور سوچکے، اور تم ہو کہ نماز ہی میں ہو جب تک نماز کے انتظار میں بیٹھے ہو۔“ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بتایا: جیسے میں (اب بھی) آپ کی چاندی سے بنی انگوٹھی کی چمک دیکھ رہا ہوں اور انھوں نے بائیں ہاتھ کی انگلی اٹھاتے ہوئے چھوٹی انگلی سے (اشارہ کیاکہ انگوٹھی اس میں تھی۔) حضرت ثابت رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا، ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز آدھی رات تک مؤخر کی، یا آدھی رات گزرنے کو تھی پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: ”لوگ نماز پڑھ کر سو چکے ہیں اور تم نماز ہی میں تصور ہو گے جب تک نماز کے انتظار بیٹھے رہو گے۔“ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا، گویا کہ ابھی میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کی چاندی کی انگوٹھی کی چمک دیکھ رہا ہوں اور انہوں نے بائیں ہاتھ کی چھنگلی اٹھا کر اشارہ کیا کہ انگوٹھی اس میں تھی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابوزید سعید بن ربیع نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں قرہ بن خالد نے قتادہ سےحدیث سنائی، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہم نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کیا حتی کہ آدھی رات کے قریب (کا وقت) ہوگیا، پھر آپ آئے اور نماز پڑھائی۔پھر آپ نے ہمارے طرف رخ فرمایا، ایسا لگتا ہے کہ میں (اب بھی) آپ کی انگوٹھی کی چمک دیکھ رہا ہوں، وہ آپ کے ہاتھ میں تھی، چاندی کی بنی ہوئی تھی حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کیا، حتیٰ کہ وقت آدھی رات کے قریب ہو گیا تو پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر نماز پڑھائی، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف توجہ فرمائی گویا کہ میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں، آپصلی اللہ علیہ وسلم کی چاندی کی انگوٹھی کی چمک دیکھ رہا ہوں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبیداللہ بن عبدالمجید حنفی نے قرہ سے اسی سند کے ساتھ (یہی) حدیث بیان کی اور یہ بیان نہ کیا: ”پھر آپ نے ہمار ی طرف رخ فرمایا۔“ امام صاحب ایک اور استاد سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں لیکن اس میں یہ نہیں بیان کیا کہ ”پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا ابو عامر الاشعري ، وابو كريب ، قالا: حدثنا ابو اسامة ، عن بريد ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: كنت انا واصحابي الذين قدموا معي في السفينة، نزولا في بقيع بطحان، ورسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة، فكان يتناوب رسول الله صلى الله عليه وسلم عند صلاة العشاء، كل ليلة نفر منهم، قال ابو موسى: فوافقنا رسول الله صلى الله عليه وسلم انا واصحابي، وله بعض الشغل في امره، حتى اعتم بالصلاة، حتى ابهار الليل، ثم خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلى بهم، فلما قضى صلاته، قال لمن حضره على رسلكم: " اعلمكم وابشروا، ان من نعمة الله عليكم، انه ليس من الناس احد يصلي هذه الساعة غيركم "، او قال: ما صلى هذه الساعة احد غيركم، لا ندري اي الكلمتين، قال: قال ابو موسى: فرجعنا فرحين بما سمعنا من رسول الله صلى الله عليه وسلم.وحَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الأَشْعَرِيُّ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ بُرَيْدٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: كُنْتُ أَنَا وَأَصْحَابِي الَّذِينَ قَدِمُوا مَعِي فِي السَّفِينَةِ، نُزُولًا فِي بَقِيعِ بُطْحَانَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ، فَكَانَ يَتَنَاوَبُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ، كُلَّ لَيْلَةٍ نَفَرٌ مِنْهُمْ، قَالَ أَبُو مُوسَى: فَوَافَقْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَأَصْحَابِي، وَلَهُ بَعْضُ الشُّغْلِ فِي أَمْرِهِ، حَتَّى أَعْتَمَ بِالصَّلَاةِ، حَتَّى ابْهَارَّ اللَّيْلُ، ثُمَّ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى بِهِمْ، فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ، قَالَ لِمَنْ حَضَرَهُ عَلَى رِسْلِكُمْ: " أُعْلِمُكُمْ وَأَبْشِرُوا، أَنَّ مِنْ نِعْمَةِ اللَّهِ عَلَيْكُمْ، أَنَّهُ لَيْسَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ يُصَلِّي هَذِهِ السَّاعَةَ غَيْرُكُمْ "، أَوَ قَالَ: مَا صَلَّى هَذِهِ السَّاعَةَ أَحَدٌ غَيْرُكُمْ، لَا نَدْرِي أَيَّ الْكَلِمَتَيْنِ، قَالَ: قَالَ أَبُو مُوسَى: فَرَجَعْنَا فَرِحِينَ بِمَا سَمِعْنَا مِنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں اور میرے (وہ) ساتھ۔ جو میرے ساتھ بڑی کشتی میں (حبشہ سے واپس) آئے تھے۔بطحان کے نشیبی میدان میں اترے ہوئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تھے اور ہر رات ان میں سے ایک جماعت باری باری عشاء کی نمازمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتی تھی۔ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یوں اتفاق پیش آیا کہ آپ اپنے کسی معاملے میں (اتنے) مشغول ہو گئے کہ آپ نے نماز کو مؤخر کر دیا حتی کہ آدھی رات ہو گئی۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور لوگوں کو نماز پڑھائی۔ جب آپ نے ناز مکمل کر لی تو ان لوگوں سے جو آپ کے سامنے حاضر تھے، فرمایا: ”ذرا ٹھہر و میں تمھیں بتاتا ہوں اور تم خوش ہو جاؤ یہ تم پر اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے کہ لوگوں میں اس وقت، تمھارے سوا، کوئی بھی نماز نہیں پڑھ رہا۔“ یا آپ نے فرمایا: ”اس وقت تمھارے سوا کسی نے نماز نہیں پڑھی۔“ ہمیں یاد نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کون سا جملہ کہا تھا۔ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے بتایا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن کر خوش خوش واپس آئے۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں اور میرے ساتھی جو کشتی میں میرے ساتھ آئے تھے، بطحان کی وسیع جگہ میں اترے ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف فرما تھے اور ہر رات ہماری ایک جماعت باری باری عشاء کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتی تھی، ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بتاتے ہیں کہ میں اور میرے ساتھیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں پایا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی کام مشغول تھے، حتیٰ کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو آدھی رات تک مؤخر کر دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور حاضرین کو نماز پڑھائی تو جب آپصلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کر لی، حاضرین کو فرمایا: ”ذرا ٹھہرو، میں تمہیں بتاتا ہوں اور خوش ہوجاؤ، اللہ تعالیٰ کا تم پر احسان ہے، لوگوں میں سے کوئی بھی اس وقت تمہارے سوا نماز نہیں پڑھتا۔“ یا آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس وقت تمہارے سوا نماز کسی نے نماز نہیں پڑھی،“ راوی کو یاد نہیں ابو موسیٰ نے کونسا جملہ کہا تھا۔ ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن کر خوش خوش واپس آئے، ابھار اللیل، رات آدھی گزر گئی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا محمد بن رافع ، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، قال: قلت لعطاء : اي حين احب إليك ان اصلي العشاء، التي يقولها الناس العتمة إماما وخلوا؟ قال: سمعت ابن عباس ، يقول: اعتم نبي الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة العشاء، قال: حتى رقد ناس، واستيقظوا، ورقدوا، واستيقظوا، فقام عمر بن الخطاب، فقال: الصلاة، فقال ابن عباس: فخرج نبي الله صلى الله عليه وسلم، كاني انظر إليه الآن، يقطر راسه ماء، واضعا يده على شق راسه، قال: " لولا ان يشق على امتي، لامرتهم ان يصلوها "، كذلك قال: فاستثبت عطاء، كيف وضع النبي صلى الله عليه وسلم يده على راسه، كما انباه ابن عباس، فبدد لي عطاء بين اصابعه شيئا من تبديد، ثم وضع اطراف اصابعه على قرن الراس، ثم صبها يمرها كذلك على الراس، حتى مست إبهامه طرف الاذن مما يلي الوجه، ثم على الصدغ، وناحية اللحية لا يقصر، ولا يبطش بشيء إلا كذلك، قلت لعطاء: كم ذكر لك اخرها النبي صلى الله عليه وسلم ليلتئذ؟ قال: لا ادري، قال عطاء: احب إلي ان اصليها إماما، وخلوا مؤخرة، كما صلاها النبي صلى الله عليه وسلم، ليلتئذ، فإن شق عليك ذلك، خلوا، او على الناس في الجماعة، وانت إمامهم، فصلها وسطا لا معجلة، ولا مؤخرة.وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَطَاءٍ : أَيُّ حِينٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ أَنْ أُصَلِّيَ الْعِشَاءَ، الَّتِي يَقُولُهَا النَّاسُ الْعَتَمَةَ إِمَامًا وَخِلْوًا؟ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: أَعْتَمَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ الْعِشَاءَ، قَالَ: حَتَّى رَقَدَ نَاسٌ، وَاسْتَيْقَظُوا، وَرَقَدُوا، وَاسْتَيْقَظُوا، فَقَامَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: الصَّلَاةَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَخَرَجَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ الآنَ، يَقْطُرُ رَأْسُهُ مَاءً، وَاضِعًا يَدَهُ عَلَى شِقِّ رَأْسِهِ، قَالَ: " لَوْلَا أَنْ يَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي، لَأَمَرْتُهُمْ أَنْ يُصَلُّوهَا "، كَذَلِكَ قَالَ: فَاسْتَثْبَتُّ عَطَاءً، كَيْفَ وَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ، كَمَا أَنْبَأَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَبَدَّدَ لِي عَطَاءٌ بَيْنَ أَصَابِعِهِ شَيْئًا مِنْ تَبْدِيدٍ، ثُمَّ وَضَعَ أَطْرَافَ أَصَابِعِهِ عَلَى قَرْنِ الرَّأْسِ، ثُمَّ صَبَّهَا يُمِرُّهَا كَذَلِكَ عَلَى الرَّأْسِ، حَتَّى مَسَّتْ إِبْهَامُهُ طَرَفَ الأُذُنِ مِمَّا يَلِي الْوَجْهَ، ثُمَّ عَلَى الصُّدْغِ، وَنَاحِيَةِ اللِّحْيَةِ لَا يُقَصِّرُ، وَلَا يَبْطِشُ بِشَيْءٍ إِلَّا كَذَلِكَ، قُلْتُ لِعَطَاءٍ: كَمْ ذُكِرَ لَكَ أَخَّرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَتَئِذٍ؟ قَالَ: لَا أَدْرِي، قَالَ عَطَاءٌ: أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أُصَلِّيَهَا إِمَامًا، وَخِلْوًا مُؤَخَّرَةً، كَمَا صَلَّاهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَيْلَتَئِذٍ، فَإِنْ شَقَّ عَلَيْكَ ذَلِكَ، خِلْوًا، أَوْ عَلَى النَّاسِ فِي الْجَمَاعَةِ، وَأَنْتَ إِمَامُهُمْ، فَصَلِّهَا وَسَطًا لَا مُعَجَّلَةً، وَلَا مُؤَخَّرَةً. ابن جریج نے ہمیں خبر دی، کہا: میں نے عطاء سے پوچھا: آپ کے نزدیک کون سی گھڑی زیادہ پسندیدہ ہے کہ میں اس میں عشاء کی نماز، جسے لوگ عتمہ کہتے ہیں، امام کے ساتھ یا انفرادی طور پر پڑھوں؟ انھوں نے جواب دیا: میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کویہ فرماتے ہوئےسنا: ایک رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز میں دیر کر دی حتی کہ لوگ سوئے، پھر بیدار ہوئے، پھر سوئے اور بیدار ہوئے تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور بلند آواز سے کہا: نماز! عطاء نے کہا: ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بتایا: تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے، ایسا لگتا ہے کہ میں اب بھی آپ کو دیکھ رہا ہوں، آپ کے سر مبارک سے قطرہ قطرہ پانی ٹپک رہا تھا اور (بالوں میں سے پانی نکالنے کے لیے) آپ نے اپنا ہاتھ سر کے آدھے حصے پر رکھا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میری امت کےلیے مشقت ہو گی تو میں انھیں حکم دیتا کہ وہ اس نماز کو اسی وقت پڑھا کریں۔“ (ابن جریج نے) کہا: میں نے عطاء سے اچھی طرح چوچھا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے انھیں کس طرح بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ کس انداز سے اپنے سر پر رکھا تھا؟ تو عطاء نے میرے سامنے اپنی انگلیاں کسی قدر کھولیں، پھر اپنی انگلیوں کے کنارے سر کی ایک جانب رکھے، پھر ان کو دباتے ہوئے اسطرح ان کو سر پر پھیرا یہا ں تک کہ ان کا انگوٹھا کان کے اس کنارے کو چھونے لگا جو چہرے کے قریب ہوتا ہے، پھر کنپٹی اور داڑھی کے کنارے کو (چھوا) بس اس طرح کیا نہ (دباؤ میں) کمی کی نہ کسی چیز کو پکڑا (اور نچوڑا۔) میں نے عطاء سے پوچھا: آب کو کیا بتایا گیا کہ اس رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی تخیر کی؟ انھوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں۔ عطاء نے کہا: میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ یہی ہےکہ میں امام ہوں یا اکیلا، یہ نماز تاخیر سے پڑھوں، جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات پڑھی تھی۔ اگر یہ بات تمھارے لیے انفرادی طور پر با جماعت کی صورت میں لوگوں کےلیے جب تم ان کے امام ہو، دشواری کا باعث ہو تو اس کو درمیان وقت میں پڑھو، نہ جلد ی اور نہ مؤخر کرکے۔ حضرت ابن جریج رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا: آپ کے نزدیک عشاء کی نماز جس کو لوگ عتمہ کہتے ہیں، میرے لیے امامت یا انفرادی طور پر کس وقت پڑھنا محبوب ہے؟ اس نے جواب دیا، میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو یہ فرماتے ہوئے سنا: کہ ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز میں دیر کردی، حتیٰ کہ لوگ سو گئے اور بیدار ہوئے، پھر سو گئے اور بیدار ہوئے تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھڑے ہو کر بلند آواز سے کہا، نماز پڑھایئے، عطاء نے بتایا، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا: اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے، گویا کہ میں ابھی آپصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں، آپصلی اللہ علیہ وسلم کے سر سے پانی گر رہا تھا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کی ایک جانب، اپنا ہاتھ رکھا ہوا تھا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر مجھے ڈر نہ ہوتا کہ میری امت مشقت میں مبتلا ہو گی تو میں انہیں حکم دیتا کہ وہ اس نماز کو اس وقت پڑھا کریں۔“ ابن جریج کہتے ہیں، میں نے عطاء سے تحقیق کی کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھنے کی کیا کیفیت بتلائی تھی؟ تو عطاء نے میرے سامنے اپنی انگلیاں تھوڑی سی کھولیں، پھر اپنی انگلیوں کے کنارے سر کے ایک جانب رکھے، پھر ان کو نیچے کیا، اس طرح ان کو سر پر پھیرا، حتیٰ کہ ان کے انگوٹھے نے کان کے چہرے کے قریب والے کنارے کو چھوا، پھر کنپٹی اور داڑھی کے کنارے پر پہنچا، آپ نے نہ تاخیر کی اور نہ کچھ جلد بازی سے کام لیا، اس طرح کیا، میں نے عطاء سے پوچھا، آپ کو اس رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کس قدر تاخیر بتائی؟ اس نے کہا مجھے معلوم نہیں، عطاء نے کہا مجھے یہی پسند ہے کہ میں امام ہوں یا اکیلا، نماز تاخیر سے پڑھوں، جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات پڑی تھی، اگر تمہارے لیے انفرادی طور پر یا لوگوں کے لیے جماعت کی صورت میں جبکہ تم امام ہو یہ دشواری کا باعث ہو تو اس کو درمیانے وقت میں پڑھو نہ جلدی کرو نہ تاخیر۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابواحوص نے سماک سے، انھوں نے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کی دوسری نماز تاخیر سے پڑھتے تھے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
قتیبہ بن سعید اور ابو کامل جحدری نے کہا: ہمیں ابو عوانہ نے سماک سے حدیث سنائی، انھوں نے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازیں تمھاری طرح (اوقات میں) پڑھتے تھے، البتہ عشاء مؤخر کرکے تمھاری نماز سے کچھ دیر بعد پڑھتے تھے اور نماز میں تخفیف کرتےتھے۔ اور ابو کامل کی روایت میں (یخف فی الصلاۃ کے بجائے) ”یخفف کے الفاظ ہیں۔ (مفہوم ایک ہی ہے۔) حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اوقات میں نمازیں پڑھتے تھے، جن اوقات میں تم نماز پڑھتے ہو، البتہ عشاء کی نماز تمہاری نماز سے کچھ تاخیر سے پڑھتے تھے اور نماز میں تخفیف کرتے تھے اور ابو کامل کی روایت میں تخفیف کے بعد الصلاة کا لفظ نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
زہیر نے کہا: ہم سے سفیان بن عینہ نے ابو لبید سے، انھوں نے ابو سلمہ سے اورانھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”تمھاری نماز کے نام پر تمھارے گنوار لوگ غالب نہ آجائیں، خبردار!یہ عشاء ہے، وہ اونٹنیوں کا دودھ دوہنے کی وجہ سے اندھیرا کر دیتے ہیں (اور اندھیرے (عتمہ) کی بنا پر اس وقت پڑھی جانے والی نماز کو صلاۃ العتمہ، یعنی اندھیرے کی نماز کہتےہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”تمہاری نماز کے نام پر تم پر گنوار غالب نہ آ جائیں، خبردار اس کا نام عشاء ہے، وہ اونٹوں کا دودھ دوہنے کی خاطر اندھیرا کر دیتے ہیں (اور اندھیرے کی بنا پر عشاء کو عتمہ کہتے ہیں)“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وکیع نے سفیان سے باقی ماندہ سابقہ سند کے ساتھ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمھاری صلاۃ عشاء کے نام پر بدوتم پر غالب نہ آجائیں کیونکہ اللہ کی کتاب میں ا س کا نام عشاء ہے: اور بدو اونٹنیوں کا دودھ دوہنے میں اندھیرا کر دیتے ہیں۔“ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری عشاء کی نماز کے نام کے سلسلہ میں تم پر بدو غالب نہ آ جائیں، کیونکہ اللہ کی کتاب میں اس کا نام عشاء ہو اور بدو اونٹوں کا دودھ دوہنے میں اندھیرا کر لیتے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|