كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام The Book of Mosques and Places of Prayer 41. باب كَرَاهِيَةِ تَأْخِيرِ الصَّلاَةِ عَنْ وَقْتِهَا الْمُخْتَارِ وَمَا يَفْعَلُهُ الْمَأْمُومُ إِذَا أَخَّرَهَا الإِمَامُ: باب: عمدہ وقت سے نماز کی تاخیر مکروہ ہے اور جب امام ایسا کریں تو لوگ کیا کریں۔ Chapter: It is disliked to delay the prayers beyond their proper times, and what a person should do if the Imam delays the prayer خلف بن ہشام، ابوربیع زہرانی اور ابو کامل جحدری نے حدیث بیان کی کی، کہا ہمیں حماد بن زید نے حدیث سنائی، انھوں نے ابو عمران جونی سے، انھوں نے عبداللہ بن صامت سے اور انھوں نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”تمھارا کیا حال ہوگا جب تم پر ایسے لوگ حکمران ہوں گے جو نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کریں گے یا نماز کو اس کے وقت سے ختم کردیں گے؟“ میں نے عرض کیگ تو آپ مجھے (اس کے بارے میں) کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے وقت پر نماز پڑھ لینا اگر تمھیں ان کے ساتھ (بھی) نماز مل جائے تو پڑھ لینا، وہ تمھارے لیے نفل ہو جائے گی۔“ خلف نےعن وقتھا (اس کے وقت سے) کے الفاظ بیان نہیں کیے۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کیا کروگے جب تمہارے حکمران ایسے لوگ ہونگے جو نماز کو اس کے وقت (مختار) سے تاخیر کر کے پڑھیں گے یا نماز کو اس کے وقت سے نکال کر مار ڈالیں گے؟ تو میں نے عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا میرے لیے کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز اپنے وقت پر پڑھ اور اگر دوبارہ ان کے ساتھ نماز پاؤ تو پڑھ، وہ تیرے لیے نفل ہو جائے گی۔“ خلف نے عَنْ وَقْتِهَا کا لفظ بیان نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
جعفر بن سلیمان نے ابو عمران جونس سے اسی سند کے ساتھ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا: ”ابو ذر! میرے بعد ایسے حکمران آئیں گے جو نماز کو ماردیں گے (ان کا وقت ختم کردیں گے) تو تم نماز کو اس کے وقت پر پڑھ لینا، اگر تم نے نماز وقت پرپڑھ لی تو (ان کے ساتھ ادا کی گئی دوسری نماز) تمھارے لیے نفل ہو جائے گی ورنہ تم نے اپنی نماز تو بچا ہی لی ہے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابو ذر! میرے بعد ایسے حکمران آئیں گے جو نماز کو مار ڈالیں گے تو تم نماز اس کے وقت پر پڑھ لینا، پس اگر تم نے (دوبارہ ان کے ساتھ) وقت پر نماز پڑھ لی تو تمہاری نماز نفل ہو جائے گی، وگرنہ (اگر وہ وقت پر نہ پڑھیں) تم نے اپنی نماز کو بچالیا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
شعبہ نے ابو عمران سے باقی ماندہ سابقہ سند کے ساتھ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میرے خلیل نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں سنوں اور فرمانبرداری کروں، چاہے کٹے ہوئے بازوں والا غلام (ہی حکمران) ہو اور یہ کہ میں نماز وقت پر پڑھوں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:) ”پھر اگر تم لوگوں کو اس حالت میں پاؤ کہ انھوں نے نماز پڑھ لی ہے تو تم اپنی نماز بچا چکے ہو (وقت پر پہلے پڑھ چکے ہو)، اور اگر (انھوں نے نہیں پڑھی اور تم ان کے ساتھ شریک ہوئے) تو تمھاری یہ نماز نفل ہو گی۔“ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے خلیل نے مجھے سننے اور ماننے کی تلقین کی، اگرچہ حکمران کٹے ہوئے اعضاء والا ہو اور یہ کہ میں نماز وقت پر پڑھوں: پھر اگر لوگوں کو پاؤں انہوں نے نماز (وقت کے بعد پڑھی ہے) تو تم اپنی نماز کو بچا لیا، وگرنہ (اگر انہوں نے وقت کے اندر پڑھ لی ہے) تو تیری یہ نماز نفلی ہو جائے گی۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
بدیل سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے ابو عالیہ سے سنا، وہ عبداللہ بن صامت سے اور وہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کر رہے تھے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور میری ران پر ہاتھ مارا: ”تمھارا کیاحال ہو گا جب تم ایسے لوگوں میں اپنی بقیہ زندگی گزار رہے ہو گے جو نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کردیں گے؟“ (عبداللہ بن صامت نے) کہا: انھوں نے کہا: آپ کیا حکم دیتے ہیں؟فرمایا: ”تم نماز کواس کے وقت پر ادا کرلینا، اور اپنی ضرورت کے لیے چلے جانا، پھر اگر نماز کی اقامت کہی گئی اور تم مسجد میں ہوئے تو (دوبارہ) پڑھ لینا۔“ حضرت ابو ذر رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری ران پر ہاتھ مار کر فرمایا: ”تمہاری کیا حالت ہو گی جب تم ایسے لوگوں میں رہ جاؤ گے جو نماز کو اس کے وقت کے بعد پڑھیں گے؟ تو انہوں نے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حکم ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز اس کے وقت پر پڑھ لو۔ پھر اپنی ضرورت کے لیے چلے جاؤ، اگر تیری مسجد میں موجودگی میں تکبیر ہو جائے تو پڑھ لو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني زهير بن حرب ، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، عن ايوب ، عن ابي العالية البراء ، قال: اخر ابن زياد الصلاة، فجاءني عبد الله بن الصامت ، فالقيت له كرسيا، فجلس عليه، فذكرت له صنيع ابن زياد، فعض على شفته، وضرب فخذي، وقال: إني سالت ابا ذر ، كما سالتني، فضرب فخذي، كما ضربت فخذك، وقال: إني سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم، كما سالتني، فضرب فخذي، كما ضربت فخذك، وقال: " صل الصلاة لوقتها، فإن ادركتك الصلاة معهم، فصل، ولا تقل إني قد صليت، فلا اصلي ".وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ الْبَرَّاءِ ، قَالَ: أَخَّرَ ابْنُ زِيَادٍ الصَّلَاةَ، فَجَاءَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّامِتِ ، فَأَلْقَيْتُ لَهُ كُرْسِيًّا، فَجَلَسَ عَلَيْهِ، فَذَكَرْتُ لَهُ صَنِيعَ ابْنِ زِيَادٍ، فَعَضَّ عَلَى شَفَتِهِ، وَضَرَبَ فَخِذِي، وَقَالَ: إِنِّي سَأَلْتُ أَبَا ذَرٍّ ، كَمَا سَأَلْتَنِي، فَضَرَبَ فَخِذِي، كَمَا ضَرَبْتُ فَخِذَكَ، وَقَالَ: إِنِّي سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَمَا سَأَلْتَنِي، فَضَرَبَ فَخِذِي، كَمَا ضَرَبْتُ فَخِذَكَ، وَقَالَ: " صَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا، فَإِنْ أَدْرَكَتْكَ الصَّلَاةُ مَعَهُمْ، فَصَلِّ، وَلَا تَقُلْ إِنِّي قَدْ صَلَّيْتُ، فَلَا أُصَلِّي ". ایوب نے ابو عالیہ برّاء سے روایت کی، کہا: ابن زیاد نے نماز میں تاخیر کر دی تو میرے پاس عبداللہ بن صامت تشریف لے آئے، میں نے ان کے لیے کرسی رکھوا دی، وہ اس پر بیٹھ گئے، میں نے ان کے سامنے ابن زیاد کی حرکت کا تذکرہ کیا تواس پر انھوں نے اپنا (نچلا) ہونٹ دانتوں میں دبایا اور میری ران پر ہاتھ مار کر کہا: جس طرح تم نے مجھ سے پوچھا ہے، اسی طرح میں نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا، انھوں نے بھی اسی طرح میری ران پر ہاتھ مارا تھا جس طرح میں نے تمھاری ران پر ہاتھ مارا ہے اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا جس طرح تم نے مجھ سے پوچھا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری ران پر ہاتھ مارا جس طرح میں نے تمھاری ران پر ہاتھ مارا ہے اور فرمایا: ”تم نماز بروقت ادا کرلینا، پھر اگرتمھیں ان کے ساتھ نماز پڑھنی پڑجائے تو (پھر سے) نماز پڑھ لینا اور یہ نہ کہنا: میں نے نماز پڑھ لی ہے اس لیے اب نہیں پڑھوں گا۔“ حضرت ابو عالیہ براء رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ ابن زیاد نے نماز میں تأخیر کر دی اور میرے پاس عبداللہ بن صامت تشریف لائے، میں نے انہیں کرسی پیش کی وہ اس پر بیٹھ گئے، میں نے انہیں ابن زیاد کی حرکت سے آگاہ کیا تو انہوں نے اپنا ہونٹ کاٹا اور میری ران پر ہاتھ مارا اور کہا، جس طرح تو نے مجھ سے پوچھا ہے، اس طرح میں نے ابو ذر رضی اللہ سے پوچھا تھا تو انہوں نے میری ران پر ہاتھ مارا جس طرح میں نے تیری ران پر ہاتھ مارا ہے۔ اور کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا، جس طرح تو نے مجھ سے پوچھا ہے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے میری ران پر ہاتھ مارا جس طرح میں نے تمہاری ران پر ہاتھ مارا ہے اور فرمایا: ”نماز وقت پر پڑھو، پھر اگر ان کے ساتھ نماز پڑھنے کا موقعہ ملے یا ان کے پاس موجود ہوتے ہوئے نماز تمہیں پا لے تو پڑھ لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: اور یہ نہ کہو میں نے نماز پڑھ لی ہے۔ اس لیے میں نہیں پڑھتا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابو نعامہ نے عبداللہ بن صامت سےاور انھوں نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگوں کا کیا حال ہو گا“ یا فرمایا: ”تمھاری کیفیت کیا ہو گی جب تم ایسے لوگوں میں رہ جاؤ گے جو نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کریں گے؟ تم وقت پر نماز پڑھ لینا، پھر اگر (تمھاری موجودگی میں) نماز کی اقامت ہو تو تم ان کے ساتھ (بھی) پڑھ لینا کیونکہ یہ نیکی میں اضافہ ہے۔“ حضرت ابو ذر رضی اللہ سے روایت ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری کیا حالت ہو گی“ یا آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیری کیا حالت ہو گی جب تم ایسے لوگوں میں رہ جاؤ گے، جو نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کر لیں گے، تم نماز اس کے وقت پر پڑھ لینا، پھر نماز اگر کھڑی کر دی جائے تو ان کے ساتھ پڑھ لینا، کیونکہ اس میں نیکی میں اضافہ ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني وحدثني ابو غسان المسمعي ، حدثنا معاذ وهو ابن هشام ، حدثني ابي ، عن مطر ، عن ابي العالية البراء ، قال: قلت لعبد الله بن الصامت : نصلي يوم الجمعة، خلف امراء فيؤخرون الصلاة، قال: فضرب فخذي ضربة اوجعتني، وقال: سالت ابا ذر ، عن ذلك، فضرب فخذي، وقال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم، عن ذلك، فقال: " صلوا الصلاة لوقتها، واجعلوا صلاتكم معهم نافلة "، قال: وقال عبد الله: ذكر لي ان نبي الله صلى الله عليه وسلم، ضرب فخذ ابي ذر.وحَدَّثَنِي وحَدَّثَنِي أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ ، حَدَّثَنَا مُعَاذٌ وَهُوَ ابْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ مَطَرٍ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ الْبَرَّاءِ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ : نُصَلِّي يَوْمَ الْجُمُعَةِ، خَلْفَ أُمَرَاءَ فَيُؤَخِّرُونَ الصَّلَاةَ، قَالَ: فَضَرَبَ فَخِذِي ضَرْبَةً أَوْجَعَتْنِي، وَقَالَ: سَأَلْتُ أَبَا ذَرٍّ ، عَنْ ذَلِكَ، فَضَرَبَ فَخِذِي، وَقَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: " صَلُّوا الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا، وَاجْعَلُوا صَلَاتَكُمْ مَعَهُمْ نَافِلَةً "، قَالَ: وقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: ذُكِرَ لِي أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ضَرَبَ فَخِذَ أَبِي ذَرٍّ. مطر نے ابو عالیہ بّراء سے روایت کی، کہا: میں نے عبداللہ بن صامت سے پوچھا کہ ہم جمعہ کے دن حکمرانوں کی اقتدا میں نماز پڑھتے ہیں اور وہ نماز کو مؤخر کر دیتے ہیں۔ تو انھوں نے زور سے میری ران پر ہاتھ مارا جس سے مجھے تکلیف محسوس ہوئی اور کہا: میں نے اس کے بارےمیں ابو ذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انھوں نے (بھی) میری ران پر ہاتھ مارا تھا اور کہا تھا: میں نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایا: ”نماز اس کے وقت پر ادا رکر لو، پھر ان (حکمرانوں) کے ساتھ اپنی نماز کو نفل بنالو۔“ کہا: عبداللہ نے کہا: مجھے بتایا گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (بھی) ابو ذر رضی اللہ عنہ کی ران پر ہاتھ مارا تھا۔ حضرت ابو عالیہ براء رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں نے عبداللہ بن صامت سے پوچھا کہ ہم جمعہ کے دن، حکمرانوں کی اقتدا میں نماز پڑھتے ہیں اور وہ نماز کو مؤخر کر دیتے ہیں تو انہوں نے میری ران پر اس زور سے ہاتھ مارا کہ مجھے تکلیف محسوس ہوئی اور کہا میں نے اس بارے میں ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا تھا تو انہوں نے میری ران پر ہاتھ مارا اور کہا: میں نے یہی سوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز اس کے وقت پر پڑھو اور حکمرانوں کے ساتھ اپنی نماز کو نفلی قرار دو۔“ عبداللہ نے بتایا مجھے بتایا گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو ذر رضی اللہ کی ران پر ہاتھ مارا تھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|