كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام The Book of Mosques and Places of Prayer 47. باب الرُّخْصَةِ فِي التَّخَلُّفِ عَنِ الْجَمَاعَةِ بِعُذْرٍ: باب: عذر کے سبب سے جماعت کا معاف ہونا۔ Chapter: Concession allowing one to not attend the congregation if there is an excuse حدثني حرملة بن يحيى التجيبي ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، ان محمود بن الربيع الانصاري حدثه، ان عتبان بن مالك وهو من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، ممن شهد بدرا من الانصار، انه اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، " إني قد انكرت بصري، وانا اصلي لقومي، وإذا كانت الامطار سال الوادي الذي بيني وبينهم، ولم استطع ان آتي مسجدهم، فاصلي لهم وددت، انك يا رسول الله، تاتي فتصلي في مصلى، فاتخذه مصلى، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: سافعل إن شاء الله "، قال عتبان: فغدا رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر الصديق، حين ارتفع النهار، فاستاذن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاذنت له، فلم يجلس حتى دخل البيت، ثم قال: اين تحب ان اصلي من بيتك؟ قال: فاشرت إلى ناحية من البيت، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكبر، فقمنا وراءه، فصلى ركعتين، ثم سلم، قال: وحبسناه على خزير صنعناه له، قال: فثاب رجال من اهل الدار حولنا، حتى اجتمع في البيت رجال ذوو عدد، فقال قائل منهم: اين مالك بن الدخشن؟ فقال بعضهم: ذلك منافق، لا يحب الله ورسوله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تقل له ذلك، الا تراه قد قال: لا إله إلا الله، يريد بذلك وجه الله؟ قال: قالوا: الله ورسوله اعلم، قال: فإنما نرى وجهه ونصيحته للمنافقين، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فإن الله قد حرم على النار من قال: لا إله إلا الله، يبتغي بذلك وجه الله، قال ابن شهاب: ثم سالت الحصين بن محمد الانصاري وهو احد بني سالم وهو من سراتهم، عن حديث محمود بن الربيع، فصدقه بذلك.حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ مَحْمُودَ بْنَ الرَّبِيعِ الأَنْصَارِيّ حَدَّثَهُ، أَنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ وَهُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنَ الأَنْصَارِ، أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، " إِنِّي قَدْ أَنْكَرْتُ بَصَرِي، وَأَنَا أُصَلِّي لِقَوْمِي، وَإِذَا كَانَتِ الأَمْطَارُ سَالَ الْوَادِي الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ، وَلَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ آتِيَ مَسْجِدَهُمْ، فَأُصَلِّيَ لَهُمْ وَدِدْتُ، أَنَّكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، تَأْتِي فَتُصَلِّي فِي مُصَلًّى، فَأَتَّخِذَهُ مُصَلًّى، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَأَفْعَلُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ "، قَالَ عِتْبَانُ: فَغَدَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ، حِينَ ارْتَفَعَ النَّهَارُ، فَاسْتَأْذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَذِنْتُ لَهُ، فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى دَخَلَ الْبَيْتَ، ثُمَّ قَالَ: أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ؟ قَالَ: فَأَشَرْتُ إِلَى نَاحِيَةٍ مِنَ الْبَيْتِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَبَّرَ، فَقُمْنَا وَرَاءَهُ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، قَالَ: وَحَبَسْنَاهُ عَلَى خَزِيرٍ صَنَعْنَاهُ لَهُ، قَالَ: فَثَابَ رِجَالٌ مِنْ أَهْلِ الدَّارِ حَوْلَنَا، حَتَّى اجْتَمَعَ فِي الْبَيْتِ رِجَالٌ ذَوُو عَدَدٍ، فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ: أَيْنَ مَالِكُ بْنُ الدُّخْشُنِ؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: ذَلِكَ مُنَافِقٌ، لَا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَقُلْ لَهُ ذَلِكَ، أَلَا تَرَاهُ قَدْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يُرِيدُ بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ؟ قَالَ: قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّمَا نَرَى وَجْهَهُ وَنَصِيحَتَهُ لِلْمُنَافِقِينَ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: ثُمَّ سَأَلْتُ الْحُصَيْنَ بْنَ مُحَمَّدٍ الأَنْصَارِيَّ وَهُوَ أَحَدُ بَنِي سَالِمٍ وَهُوَ مِنْ سَرَاتِهِمْ، عَنْ حَدِيثِ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، فَصَدَّقَهُ بِذَلِكَ. یونس نے ابن شہاب سےروایت کی کہ محمود بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیاکہ حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ نے جو ان صحابہ کرام میں سے تھے جو انصار میں سے جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے، (بیان کیا) کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! میری نظر خراب ہو گئی ہے، میں اپنی قوم کو نماز پڑھتا ہوں اور جب بارشیں ہوتی ہیں تو میرے اور ان کےدرمیان والی وادی میں سیلاب آجاتا ہے، اس کی وجہ سے میں ان کی مسجد میں نہیں پہنچ سکتا کہ میں انھیں نماز پڑھاؤں تو اے اللہ کے رسول! میں چاہتا ہوں کہ آپ (میرگھر) تشریف لائیں اور نماز پڑھنے کی کسی ایک جگہ پر نماز پڑھیں تاکہ میں اس جگہ کو (مستقل طور پر) جائے نماز بنالوں۔ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” ان شاء اللہ میں ایسا کروں گا۔“ عتبان رضی اللہ عنہ نے کہا: تو صبح کے وقت دن چڑھتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اندر آنے کی) اجازت طلب فرمائی، میں نے تشریف آوری کا کہا، آپ آ کر بیٹھے نہیں یہاں تک کہ گھر کے اندر (کے حصے میں) داخل ہوئے، پھر پوچھا: ”تم اپنے گھر میں کس جگہ چاہتے ہو کہ میں (وہاں) نماز پڑھوں؟“ میں نے گھر کے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر تکبیر (تحریمہ) کہی اور ہم آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے، آپ نے دورکعتیں ادا فرمائیں، پھر سلام پھیر دیا۔ اس کے بعد ہم نے آپ کو خزیر (گوشت کے چھوٹے ٹکڑوں سے بنے ہوئے کھا نے) کے لیے روک لیا جو ہم نے آپ کے لیے تیار کیا تھا۔ (عتبان رضی اللہ عنہ نے) کہا: (آپ کی آمد کا سن کر) اردگرد سے محلے کے لوگ آگئے حتی کہ گھر میں خاصی تعدا د میں لوگ اکٹھے ہو گئے۔ ان میں سے ایک بات کرنے والے نے کہا: مالک بن دخشن کہاں ہے؟ ان میں سے کسی نے کہا: وہ تو منافق ہے، اللہ اور اس کے رسول سے محبت نہیں رکھتا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اس کے بارے میں ایسا نہ کہو، کیا تمھیں معلوم نہیں کہ اس نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے لاالہ الاللہ کہا ہے؟“ (عتبان رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو لوگوں نے کہا: اللہ اور اس سکے رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں۔ اس (الزام لگانے والے) نےکہا: ہم تو اس کی وجہ اور اس کی خیر خواہی منافقوں ہی کے لے دیکھتے ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالیٰ نے اسے شخص کو آگ پر حرام قرار دیا ہے جو لاالہ الا اللہ کہتا ہے اور اس کے ذریعے سے اللہ کی رضا کا طلب گار ہے۔“ ابن شہاب نے کہا: میں نے (بعد میں) حصین بن محمد انصاری سے، جو بنو سالم سے تعلق رکھتے ہیں ان کے سرداروں میں سے ہیں، محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے اس میں ان (محمود رضی اللہ عنہ) کی تصدیق کی۔ حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ان صحابہ کرام میں سے ہیں جو انصار سے جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میری نظر کمزور ہو گئی ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں اور جب بارشیں ہوتی ہیں تو میرے اور ان کے درمیان والا نالہ بہنے لگتا ہے، جس کی وجہ سے میں ان کی مسجد میں نہیں پہنچ سکتا کہ میں انہیں نماز پڑھاؤں اور میں چاہتا ہوں۔ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ (میرے گھر) تشریف لائیں اور کسی جگہ نماز ادا فرمائیں تاکہ میں اس جگہ کو نماز گاہ بنا لوں۔ تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں إنْ شَاءَ اللہُ آؤں گا اور یہ کام کروں گا“ عتبان بتاتے ہیں کہ جب دن کافی بلند ہو گیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی معیت میں تشریف لائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اندر آنے کی) اجازت طلب فرمائی، میں نے اجازت دے دی۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم گھر داخل ہو کر بیٹھے نہیں، پھر فرمایا: تم اپنے گھر میں نے کس جگہ میرے نماز پڑھنے کو پسند کرتے ہو؟ میں نے گھر کے ایک کونہ کی طرف اشارہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہی اور ہم آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو گئے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں ادا کیں، پھر سلام پھیر دیا، ہم نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جو قیمہ کی آمیزش سے مالیدہ تیار کیا تھا اس کے لیے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا، عتبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں (آپصلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا سن کر) ہمارے محلہ کے ہمارے گردونواح کے لوگ جمع ہو گئے حتیٰ کہ ہمارے گھر میں کافی تعداد میں لوگ اکٹھے ہو گئے تو ان میں سے کسی نے پوچھا، مالک بن دخشن کہاں ہے؟ تو ان میں سے کسی نے کہا: وہ تو منافق ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں رکھتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے بارے میں یہ بات نہ کہو، کیا تمہیں معلوم نہیں اس نے اللہ تعالیٰ کے چہرے کے لیے لَاإِلٰهَ إِلَّاالله کا اقرار کیا ہے؟“ تو صحابہ کرام نے کہا، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں، ہم تو اس کا رخ اور اس کی خیر خواہی منافقوں کے لیے دیکھتے ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کے لیے آگ کو حرام قرار دیا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خاطرلَاإِلٰهَ إِلَّاالله کا اقرار کرے۔“ ابن شہاب کہتے ہیں میں نے بعد میں حصین بن محمد انصاری سے جو بنو سالم کے سرداروں میں سے ہیں، محمود بن ربیع کی اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو اس نے محمود کی تصدیق کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا محمد بن رافع ، وعبد بن حميدكلاهما، عن عبد الرزاق ، قال: اخبرنا معمر ، عن الزهري ، قال: حدثني محمود بن ربيع ، عن عتبان بن مالك ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وساق الحديث بمعنى حديث يونس، غير انه قال: فقال رجل: اين مالك بن الدخشن، او الدخيشن؟ وزاد في الحديث، قال محمود: فحدثت بهذا الحديث، نفرا فيهم ابو ايوب الانصاري، فقال: ما اظن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: ما قلت؟ قال: فحلفت إن رجعت إلى عتبان ان اساله، قال: فرجعت إليه، فوجدته شيخا كبيرا قد ذهب بصره، وهو إمام قومه، فجلست إلى جنبه، فسالته عن هذا الحديث، فحدثنيه كما حدثنيه اول مرة، قال الزهري: ثم نزلت بعد ذلك فرائض وامور، نرى ان الامر انتهى إليها، فمن استطاع ان لا يغتر فلا يغتر.وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍكِلَاهُمَا، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَحْمُودُ بْنُ رَبِيعٍ ، عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمَعْنَى حَدِيثِ يُونُسَ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ: أَيْنَ مَالِكُ بْنُ الدُّخْشُنِ، أَوِ الدُّخَيْشِنِ؟ وَزَادَ فِي الْحَدِيثِ، قَالَ مَحْمُودٌ: فَحَدَّثْتُ بِهَذَا الْحَدِيثِ، نَفَرًا فِيهِمْ أَبُو أَيُّوبَ الأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: مَا أَظُنُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَا قُلْتَ؟ قَالَ: فَحَلَفْتُ إِنْ رَجَعْتُ إِلَى عِتْبَانَ أَنْ أَسْأَلَهُ، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ، فَوَجَدْتُهُ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ ذَهَبَ بَصَرُهُ، وَهُوَ إِمَامُ قَوْمِهِ، فَجَلَسْتُ إِلَى جَنْبِهِ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَحَدَّثَنِيهِ كَمَا حَدَّثَنِيهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: ثُمَّ نَزَلَتْ بَعْدَ ذَلِكَ فَرَائِضُ وَأُمُورٌ، نَرَى أَنَّ الأَمْرَ انْتَهَى إِلَيْهَا، فَمَنِ اسْتَطَاعَ أَنْ لَا يَغْتَرَّ فَلَا يَغْتَرَّ. معمر نے زہر ی سے روایت کی، کہا: مجھے محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ نے عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی، کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا۔۔۔۔۔پھر یونس کی حدیث کے ہم معنی حدیث بیان کی، البتہ یہ کہا: تو ایک آدمی نے کہا: مالک بن دخشن یا دخیشن کہاں ہے؟ اور حدیث میں یہ اضافہ کیا: محمود رضی اللہ عنہ نے کہاں: میں نے یہ حدیث چند لوگوں کو، جن میں ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، سنائی تو انھوں نے کہا: میں نہیں سمجھتا کہ جو بات تم بیان کرتے ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہو۔ اس پر میں نے (دل میں) قسم کھائی کہ اگر میں عتبان رضی اللہ عنہ کے ہاں دوبارہ گیا تو ان سے (اس کے بارے میں ضرور) پوچھوں گا۔ تو میں دوبارہ ان کے پاس آیا، میں نے دیکھا کہ وہ بہت بوڑھے ہو چکے ہیں، ان کی بینائی ختم ہو چکی تھی لیکن وہ (اب بھی) اپنی قوم کے امام تھے۔ میں ان کے پہلو میں بیٹھ گیا اور ان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے مجھے بالکل اسی طرح (ساری) حدیث سنائی جس طرح پہلے سنائی تھی۔ زہری نے کہا: اس واقعے کے بعد بہت سے فرائض اور دیگر امور (احکام) نازل ہوئے اور ہماری نظر میں معاملہ انھی پر تمام ہوا، لہذا جو انسان چاہتا ہےکہ (عتبان رضی اللہ عنہ کی حدیث کے ظاہری مفہوم سے) دھو کا نہ کھائے، وہ دھوکا کھا نے سے بچے۔ ایک دوسری سند سے امام صاحب مذکورہ بالا حدیث بیان کرتے ہیں، اس میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ایک آدمی نے کہا، مالک بن دخشن یا دخیشن کہاں ہے؟ اور یہ اضافہ ہے، محمود کہتے ہیں میں نے یہ حدیث چند لوگوں کو جن میں ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی موجود تھے سنائی۔ تو انہوں نے کہا، میں نہیں سمجھتا کہ جو بات تم بیان کرتے ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہو۔ تو میں نے دل سے قسم اٹھائی کہ اگر میں عتبان کو دوبارہ ملوں گا تو ان سے یہ حدیث پوچھوں گا، میں ان کے پاس دوبارہ آیا تو وہ بہت بوڑھے ہو چکے تھے، ان کی بینائی ختم ہوچکی تھی لیکن وہ اپنی قوم کے امام تھےتو میں ان کے پہلو میں بیٹھ گیا اور ان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے پہلے کی طرح سارا واقعہ سنایا۔ زہری کہتے ہیں اس واقعہ کے بعد بہت سے احکام نازل ہوئے اور بہت سی چیزیں فرض ہوئیں، ہمارے خیال میں ان کے بعد دین مکمل ہو گیا، لہٰذا جو انسان عتبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کے ظاہری مفہوم سے دھوکا نہ کھانا چاہتا ہو وہ ہماری وضاحت سے دھوکا کھانے سے بچ جائے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا الوليد بن مسلم ، عن الاوزاعي ، قال: حدثني الزهري ، عن محمود بن الربيع، قال: إني لاعقل مجة مجها رسول الله صلى الله عليه وسلم من دلو في دارنا، قال محمود : فحدثني عتبان بن مالك ، قال: قلت: يا رسول الله، إن بصري قد ساء، وساق الحديث إلى قوله: فصلى بنا ركعتين، وحبسنا رسول الله صلى الله عليه وسلم على جشيشة صنعناها له، ولم يذكر ما بعده من زيادة يونس، ومعمر.وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ الأَوْزَاعِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، قَالَ: إِنِّي لَأَعْقِلُ مَجَّةً مَجَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ دَلْوٍ فِي دَارِنَا، قَالَ مَحْمُودٌ : فَحَدَّثَنِي عِتْبَانُ بْنُ مَالِكٍ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ بَصَرِي قَدْ سَاءَ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ إِلَى قَوْلِهِ: فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ، وَحَبَسْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى جَشِيشَةٍ صَنَعْنَاهَا لَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ مَا بَعْدَهُ مِنْ زِيَادَةِ يُونُسَ، وَمَعْمَرٍ. اوزاعی سے روایت ہے، کہا: مجھے زہری نے حضرت محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی، کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ کلی کرنا اچھی طرح یا د ہے جو آپ نے ہمارے گھر میں ایک ڈول سے (پانی لے کر) کی تھی (اور اس کا پانی میر منہ پر ڈالا تھا)۔ محمود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! میری نظر میں خرابی پیداہو گئی ہےغاور اس بات تک حدیث بیان کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعات نماز پڑھائی اور یہ کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جشیشہ (خزیر سے ملتے جلتے کھانے) کے لیے روک لیا جو ہم نے آپ کے لیے بنایا تھا۔انھوں (اوزاعی) نےاس کے بعد یونس اور معمر والا اضافہ بیان نہیں کیا حضرت محمود بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے اس کلی کی سمجھ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے گھر میں ایک ڈول سے (پانی لے کر) کی تھی، محمود کہتے ہیں مجھے عتبان بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میری نظر میں خرابی پیدا ہو گئی ہے اور دو رکعات نماز پڑھانے تک واقعہ سنایا اور یہ کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جو کھانا تیار کیا تھا، اس کے لیے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا، اس کے بعد یونس اور معمر نے جو اضافہ کیا، وہ بیان نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|