كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام The Book of Mosques and Places of Prayer 55. باب قَضَاءِ الصَّلاَةِ الْفَائِتَةِ وَاسْتِحْبَابِ تَعْجِيلِ قَضَائِهَا: باب: قضا نماز کا بیان اور ان کو جلد پڑھنے کا استحباب۔ Chapter: Making up a missed prayer. And it is recommended to hasten to make it up حدثني حرملة بن يحيى التجيبي ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، عن سعيد بن المسيب ، عن ابي هريرة ، " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، حين قفل من غزوة خيبر، سار ليله حتى إذا ادركه الكرى عرس، وقال لبلال: اكلا لنا الليل، فصلى بلال ما قدر له، ونام رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه، فلما تقارب الفجر، استند بلال إلى راحلته مواجه الفجر، فغلبت بلالا عيناه، وهو مستند إلى راحلته، فلم يستيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا بلال ولا احد من اصحابه، حتى ضربتهم الشمس، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم اولهم استيقاظا، ففزع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: اي بلال؟ فقال بلال: اخذ بنفسي، الذي اخذ بابي انت وامي، يا رسول الله بنفسك، قال: اقتادوا، فاقتادوا رواحلهم شيئا، ثم توضا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وامر بلالا فاقام الصلاة، فصلى بهم الصبح، فلما قضى الصلاة، قال: من نسي الصلاة فليصلها، إذا ذكرها، فإن الله، قال: واقم الصلاة لذكري سورة طه آية 14 "، قال يونس: وكان ابن شهاب يقرؤها: للذكرى.حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، " أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حِينَ قَفَلَ مِنْ غَزْوَةِ خَيْبَرَ، سَارَ لَيْلَهُ حَتَّى إِذَا أَدْرَكَهُ الْكَرَى عَرَّسَ، وَقَالَ لِبِلَالٍ: اكْلَأْ لَنَا اللَّيْلَ، فَصَلَّى بِلَالٌ مَا قُدِّرَ لَهُ، وَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ، فَلَمَّا تَقَارَبَ الْفَجْرُ، اسْتَنَدَ بِلَالٌ إِلَى رَاحِلَتِهِ مُوَاجِهَ الْفَجْرِ، فَغَلَبَتْ بِلَالًا عَيْنَاهُ، وَهُوَ مُسْتَنِدٌ إِلَى رَاحِلَتِهِ، فَلَمْ يَسْتَيْقِظْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا بِلَالٌ وَلَا أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، حَتَّى ضَرَبَتْهُمُ الشَّمْسُ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلَهُمُ اسْتِيقَاظًا، فَفَزِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَيْ بِلَالُ؟ فَقَالَ بِلَالٌ: أَخَذَ بِنَفْسِي، الَّذِي أَخَذَ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، يَا رَسُولَ اللَّهِ بِنَفْسِكَ، قَالَ: اقْتَادُوا، فَاقْتَادُوا رَوَاحِلَهُمْ شَيْئًا، ثُمَّ تَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَمَرَ بِلَالًا فَأَقَامَ الصَّلَاةَ، فَصَلَّى بِهِمُ الصُّبْحَ، فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ، قَالَ: مَنْ نَسِيَ الصَّلَاةَ فَلْيُصَلِّهَا، إِذَا ذَكَرَهَا، فَإِنَّ اللَّهَ، قَالَ: وَأَقِمِ الصَّلاةَ لِذِكْرِي سورة طه آية 14 "، قَالَ يُونُسُ: وَكَانَ ابْنُ شِهَابٍ يَقْرَؤُهَا: لِلذِّكْرَى. ) یونس نے ابن شہاب کے حوالے سے خبردی، انھوں نے سعید بن مسیب سے اور انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب جنگ خیبر سے واپس ہوئے تو رات بھر چلتے رہے یہاں تک کہ جب آپ کو نیند نے آلیا، آپ نے (سواری سے) اتر کر پڑاؤ کیا اور بلال رضی اللہ عنہ سے کہا: ”ہمارے لیے رات کا پہرہ دو (نظر رکھو کہ کب صبح ہوتی ہے؟)“ بلال رضی اللہ عنہ نے مقدور بھر نماز پڑھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سو گئے۔ جب فجر قریب ہوئی تو بلال رضی اللہ عنہ نے (مطلع) فجر کی طرف رخ کرتے ہوئے اپنی سواری کے ساتھ ٹیک لگائی، جب وہ ٹیک لگائے ہوئے تھے تو ان پر نیند غالب آگئی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے نہ بلال اور نہی ہی ان کے صحابہ میں سے کوئی بیدار ہوا یہاں تک کہ ان پر دھوپ پڑنے لگی، سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے اور گھبرا گئے۔ فرمانے لگے: ”اے بلال!“ تو بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: میری جان کو بھی اسی نے قبضے میں لیا تھا جس نے۔میرے ماں باپ آپ پر قربان اے اللہ کے رسول! ---آپ کی جان کو قبضے میں لے لیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سواریاں آگے بڑھاؤ۔“ وہ اپنی سواریوں کو لے کر کچھ آگے بڑھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، انھوں نے نماز کی اقامت کہی، پھر آپ نے ان کو صبح کی نماز پڑھائی، جب نماز ختم کی تو فرمایا: ” جو شخص نماز (پڑھنا) بھول جائے تو جب اسے یاد آئے اسے پڑھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” میری یاد کے وقت نماز قائم کرو۔“ یونس نے کہا: ابن شہاب سے ”للذکرٰی“ (یاد کرنے کےلیے) پڑھتے تھے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ خیبر سے واپس لوٹے۔ ایک رات چلتے رہے حتیٰ کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم پر نیند غالب آ گئی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کیا اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: تم آج رات ہماری حفاظت کرو۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب تک اللہ کو منظور رہا نفل پڑھتے رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی سو گئے۔ جب صبح کا وقت آ گیا تو بلال ؓ فجر پھوٹنے کی (جگہ) کی طرف رخ کر کے اپنی سواری کو ٹیک لگا کر بیٹھ گئے تو بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اس کی آنکھیں غالب آ گئیں کیونکہ وہ سواری کو ٹیک لگائے ہوئے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، بلال اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے کوئی بھی بیدار نہ ہوا حتیٰ کہ ان پر دھوپ پڑنے لگی۔ سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھبرا کر فرمایا: ”اے بلال!“ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ میری روح کو اس ذات نے پکڑ لیا، جس نے آپ کی روح کو قبضے میں کرلیا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوچ کرو“ تو صحابہ اکرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اپنی سواریوں کو تھوڑا سا چلایا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا۔ انہوں نے نماز کا اہتمام کیا (اذان اور اقامت کہی) آپصلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی۔ نماز پڑھنے کے بعد فرمایا: جو نماز بھول جائے، وہ یاد آتے ہی پڑھ لے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے ”میری یاد کے لیے نماز پڑھئے“ (طٰہٰ: ۱۴) ابن شہاب، ذِکرِي (میری یاد کے لیے) کی بجائے لِلذِّکرٰی (یاد آنے پر) پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
1561. محمد بن حاتم اور یعقوب بن ابراہیم دورقی دونوں نے یحییٰ سے روایت کیا، کہا: ہمیں یزید بن کیسان نے حدیث سنائی، کہا: ہمیں ابو حازم نےحضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث سنائی، کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ رات کے آخری حصے میں (آرام کے لیے) سواریوں سے اترے، اور بیدار نہ ہو سکے یہاں تک کہ سورج طلوع ہو گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر شخص اپنی سواری کی نکیل پکڑے (اور آگےچلے) کیونکہ اس جگہ ہمارے درمیان شیطان آ موجود ہوا ہے۔ “ کہا: ہم نے (ایسا ہی) کیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا، وضو کیا، پھر دو سجدے کیے (دو رکعتیں ادا کیں۔) یعقوب نے کہا: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں ادا کیں۔ پھر نماز کی اقامت کہی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھائی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات کے آخری حصہ میں پڑاؤ کیا اور ہم سورج نکلنے تک بیدار نہ ہو سکے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر انسان اپنی سواری کا سر پکڑ لے یعنی لگا یا مہار پکڑ کر چل پڑے۔ کیونکہ یہ ایسی جگہ ہے جس میں ہمارے ساتھ شیطان آ گیا ہے۔“ ہم نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کیا۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کر کے دو رکعتیں (سنت) پڑھیں۔ پھر جماعت کھڑی کی گئی (اقامت کہی گئی) اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھائی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا سليمان يعني ابن المغيرة ، حدثنا ثابت ، عن عبد الله بن رباح ، عن ابي قتادة ، قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" إنكم تسيرون عشيتكم وليلتكم، وتاتون الماء إن شاء الله غدا، فانطلق الناس، لا يلوي احد على احد"، قال ابو قتادة: فبينما رسول الله صلى الله عليه وسلم يسير، حتى ابهار الليل، وانا إلى جنبه، قال: فنعس رسول الله صلى الله عليه وسلم، فمال عن راحلته، فاتيته فدعمته من غير ان اوقظه، حتى اعتدل على راحلته، قال: ثم سار حتى تهور الليل، مال عن راحلته، قال: فدعمته من غير ان اوقظه، حتى اعتدل على راحلته، قال: ثم سار، حتى إذا كان من آخر السحر، مال ميلة هي اشد من الميلتين الاوليين حتى كاد ينجفل، فاتيته فدعمته، فرفع راسه، فقال: من هذا؟ قلت: ابو قتادة، قال: متى كان هذا مسيرك مني؟ قلت: ما زال هذا مسيري منذ الليلة، قال: حفظك الله بما حفظت به نبيه، ثم قال: هل ترانا نخفى على الناس، ثم قال: هل ترى من احد؟ قلت: هذا راكب، ثم قلت: هذا راكب آخر، حتى اجتمعنا، فكنا سبعة ركب، قال: فمال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الطريق، فوضع راسه، ثم قال: احفظوا علينا صلاتنا، فكان اول من استيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم، والشمس في ظهره، قال: فقمنا فزعين، ثم قال: اركبوا، فركبنا، فسرنا حتى إذا ارتفعت الشمس نزل، ثم دعا بميضاة، كانت معي فيها شيء من ماء، قال: فتوضا منها وضوءا دون وضوء، قال: وبقي فيها شيء من ماء، ثم قال لابي قتادة: احفظ علينا ميضاتك، فسيكون لها نبا، ثم اذن بلال بالصلاة، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين، ثم صلى الغداة، فصنع كما كان يصنع كل يوم، قال: وركب رسول الله صلى الله عليه وسلم، وركبنا معه، قال: فجعل بعضنا يهمس إلى بعض، ما كفارة ما صنعنا بتفريطنا في صلاتنا؟ ثم قال: اما لكم في اسوة، ثم قال: اما إنه ليس في النوم تفريط،" إنما التفريط على من لم يصل الصلاة، حتى يجيء وقت الصلاة الاخرى، فمن فعل ذلك، فليصلها حين ينتبه لها، فإذا كان الغد، فليصلها عند وقتها"، ثم قال: ما ترون الناس صنعوا؟ قال: ثم قال: اصبح الناس فقدوا نبيهم، فقال ابو بكر وعمر رسول الله صلى الله عليه وسلم: بعدكم لم يكن ليخلفكم، وقال الناس: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم بين ايديكم، فإن يطيعوا ابا بكر وعمر يرشدوا، قال فانتهينا إلى الناس حين امتد النهار، وحمي كل شيء، وهم يقولون: يا رسول الله، هلكنا، عطشنا، فقال: لا هلك عليكم، ثم قال: اطلقوا لي غمري، قال: ودعا بالميضاة، فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يصب، وابو قتادة يسقيهم، فلم يعد ان راى الناس ماء في الميضاة تكابوا عليها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: احسنوا الملا، كلكم سيروى، قال: ففعلوا، فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يصب واسقيهم، حتى ما بقي غيري، وغير رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: ثم صب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لي: اشرب، فقلت: لا اشرب حتى تشرب يا رسول الله، قال: إن ساقي القوم آخرهم شربا، قال: فشربت، وشرب رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فاتى الناس الماء جامين رواء، قال: فقال عبد الله بن رباح: إني لاحدث هذا الحديث في مسجد الجامع، إذ قال عمران بن حصين : انظر ايها الفتى، كيف تحدث، فإني احد الركب تلك الليلة، قال: قلت: فانت اعلم بالحديث، فقال: ممن انت؟ قلت: من الانصار، قال: حدث، فانتم اعلم بحديثكم، قال: فحدثت القوم، فقال عمران: لقد شهدت تلك الليلة، وما شعرت ان احدا حفظه كما حفظته. وحَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنَّكُمْ تَسِيرُونَ عَشِيَّتَكُمْ وَلَيْلَتَكُمْ، وَتَأْتُونَ الْمَاءَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ غَدًا، فَانْطَلَقَ النَّاسُ، لَا يَلْوِي أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ"، قَالَ أَبُو قَتَادَةَ: فَبَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسِيرُ، حَتَّى ابْهَارَّ اللَّيْلُ، وَأَنَا إِلَى جَنْبِهِ، قَالَ: فَنَعَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَالَ عَنْ رَاحِلَتِهِ، فَأَتَيْتُهُ فَدَعَمْتُهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ أُوقِظَهُ، حَتَّى اعْتَدَلَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، قَالَ: ثُمَّ سَارَ حَتَّى تَهَوَّرَ اللَّيْلُ، مَالَ عَنْ رَاحِلَتِهِ، قَالَ: فَدَعَمْتُهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ أُوقِظَهُ، حَتَّى اعْتَدَلَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، قَالَ: ثُمَّ سَارَ، حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ السَّحَرِ، مَالَ مَيْلَةً هِيَ أَشَدُّ مِنَ الْمَيْلَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ حَتَّى كَادَ يَنْجَفِلُ، فَأَتَيْتُهُ فَدَعَمْتُهُ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ قُلْتُ: أَبُو قَتَادَةَ، قَالَ: مَتَى كَانَ هَذَا مَسِيرَكَ مِنِّي؟ قُلْتُ: مَا زَالَ هَذَا مَسِيرِي مُنْذُ اللَّيْلَةِ، قَالَ: حَفِظَكَ اللَّهُ بِمَا حَفِظْتَ بِهِ نَبِيَّهُ، ثُمَّ قَالَ: هَلْ تَرَانَا نَخْفَى عَلَى النَّاسِ، ثُمَّ قَالَ: هَلْ تَرَى مِنْ أَحَدٍ؟ قُلْتُ: هَذَا رَاكِبٌ، ثُمَّ قُلْتُ: هَذَا رَاكِبٌ آخَرُ، حَتَّى اجْتَمَعْنَا، فَكُنَّا سَبْعَةَ رَكْبٍ، قَالَ: فَمَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الطَّرِيقِ، فَوَضَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ قَالَ: احْفَظُوا عَلَيْنَا صَلَاتَنَا، فَكَانَ أَوَّلَ مَنِ اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالشَّمْسُ فِي ظَهْرِهِ، قَالَ: فَقُمْنَا فَزِعِينَ، ثُمَّ قَالَ: ارْكَبُوا، فَرَكِبْنَا، فَسِرْنَا حَتَّى إِذَا ارْتَفَعَتِ الشَّمْسُ نَزَلَ، ثُمَّ دَعَا بِمِيضَأَةٍ، كَانَتْ مَعِي فِيهَا شَيْءٌ مِّنْ مَاءٍ، قَالَ: فَتَوَضَّأَ مِنْهَا وُضُوءًا دُونَ وُضُوءٍ، قَالَ: وَبَقِيَ فِيهَا شَيْءٌ مِّنْ مَاءٍ، ثُمَّ قَالَ لِأَبِي قَتَادَةَ: احْفَظْ عَلَيْنَا مِيضَأَتَكَ، فَسَيَكُونُ لَهَا نَبَأٌ، ثُمَّ أَذَّنَ بِلَالٌ بِالصَّلَاةِ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى الْغَدَاةَ، فَصَنَعَ كَمَا كَانَ يَصْنَعُ كُلَّ يَوْمٍ، قَالَ: وَرَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَكِبْنَا مَعَهُ، قَالَ: فَجَعَلَ بَعْضُنَا يَهْمِسُ إِلَى بَعْضٍ، مَا كَفَّارَةُ مَا صَنَعْنَا بِتَفْرِيطِنَا فِي صَلَاتِنَا؟ ثُمَّ قَالَ: أَمَا لَكُمْ فِيَّ أُسْوَةٌ، ثُمَّ قَالَ: أَمَا إِنَّهُ لَيْسَ فِي النَّوْمِ تَفْرِيطٌ،" إِنَّمَا التَّفْرِيطُ عَلَى مَنْ لَمْ يُصَلِّ الصَّلَاةَ، حَتَّى يَجِيءَ وَقْتُ الصَّلَاةِ الأُخْرَى، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ، فَلْيُصَلِّهَا حِينَ يَنْتَبِهُ لَهَا، فَإِذَا كَانَ الْغَدُ، فَلْيُصَلِّهَا عِنْدَ وَقْتِهَا"، ثُمَّ قَالَ: مَا تَرَوْنَ النَّاسَ صَنَعُوا؟ قَالَ: ثُمَّ قَالَ: أَصْبَحَ النَّاسُ فَقَدُوا نَبِيَّهُمْ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَعْدَكُمْ لَمْ يَكُنْ لِيُخَلِّفَكُمْ، وَقَالَ النَّاسُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ، فَإِنْ يُطِيعُوا أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ يَرْشُدُوا، قَالَ فَانْتَهَيْنَا إِلَى النَّاسِ حِينَ امْتَدَّ النَّهَارُ، وَحَمِيَ كُلُّ شَيْءٍ، وَهُمْ يَقُولُونَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلَكْنَا، عَطِشْنَا، فَقَالَ: لَا هُلْكَ عَلَيْكُمْ، ثُمَّ قَالَ: أَطْلِقُوا لِي غُمَرِي، قَالَ: وَدَعَا بِالْمِيضَأَةِ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُبُّ، وَأَبُو قَتَادَةَ يَسْقِيهِمْ، فَلَمْ يَعْدُ أَنْ رَأَى النَّاسُ مَاءً فِي الْمِيضَأَةِ تَكَابُّوا عَلَيْهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَحْسِنُوا الْمَلَأَ، كُلُّكُمْ سَيَرْوَى، قَالَ: فَفَعَلُوا، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُبُّ وَأَسْقِيهِمْ، حَتَّى مَا بَقِيَ غَيْرِي، وَغَيْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ثُمَّ صَبَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي: اشْرَبْ، فَقُلْتُ: لَا أَشْرَبُ حَتَّى تَشْرَبَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: إِنَّ سَاقِيَ الْقَوْمِ آخِرُهُمْ شُرْبًا، قَالَ: فَشَرِبْتُ، وَشَرِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَأَتَى النَّاسُ الْمَاءَ جَامِّينَ رِوَاءً، قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَبَاحٍ: إِنِّي لَأُحَدِّثُ هَذَا الْحَدِيثَ فِي مَسْجِدِ الْجَامِعِ، إِذْ قَالَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ : انْظُرْ أَيُّهَا الْفَتَى، كَيْفَ تُحَدِّثُ، فَإِنِّي أَحَدُ الرَّكْبِ تِلْكَ اللَّيْلَةَ، قَالَ: قُلْتُ: فَأَنْتَ أَعْلَمُ بِالْحَدِيثِ، فَقَالَ: مِمَّنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: مِنَ الأَنْصَارِ، قَالَ: حَدِّثْ، فَأَنْتُمْ أَعْلَمُ بِحَدِيثِكُمْ، قَالَ: فَحَدَّثْتُ الْقَوْمَ، فَقَالَ عِمْرَانُ: لَقَدْ شَهِدْتُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ، وَمَا شَعَرْتُ أَنَّ أَحَدًا حَفِظَهُ كَمَا حَفِظْتُهُ.
ثابت نے عبداللہ بن رباح سے اور انھوں نے حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سےر وایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب فرمایا اور کہا: ”تم اپنی (پوری) شام اور (پوری) رات چلتے رہو گے تو ان شاء اللہ کل تک پانی پر پہنچ جاؤ گے۔“ لوگ چل پڑے، کوئی مڑ کر دوسرے کی طرف دیکھتا بھی نہ تھا۔ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اسی عالم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے یہاں تک کہ رات آدھی گزر گئی، میں آپ کے پہلو میں چل رہا تھا، کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونگھ آگئی اور آپ سواری سے ایک طرف جھک گئے، میں آپ کے پاس آیا اور آپ کو جگائے بغیر آپ کو سہارا دیا حتی کہ آپ اپنی سواری پر سیدھے ہو گئے، پھر آپ چلتے رہے یہا ں تک کہ رات کا بیشتر حصہ گزر گیا، آپ (پھر) سواری پر (ایک طرف) جھکے، کہا: میں نے آپ کو جگائے بغیر آپ کو سہارا دیا یہاں تک کہ آپ اپنی سواری پر سیدھے ہو گئے، کہا: پھر چلتے رہے حتی کہ سحری کا آخری وقت تھا تو آپ (پھر) جھکے، یہ جھکنا پہلے دونزں بار کے جھکنے سے زیادہ تھا، قریب تھا کہ آپ اونٹ سے گر پڑتے، میں آپ کے پاس آیا اور آپ کو سہارا دیاتو آپ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور فرمایا: ”یہ کون ہے؟“ میں نے عرض کی: ابو قتادہ ہوں۔ فرمایا: ”تم کب سے میرے ساتھ اس طرح چل رہے ہو؟“ میں نے عرض کی: میں رات ہی سے اس طرح سفر کر رہا ہوں۔ فرمایا: ” اللہ اسی طرح تمھاری حفاظت کرے جس طر ح تم نے اس کے نبی کی حفاظت کی۔“ پھر فرمایا: ” کیا تم دیکھ رہے ہو (کہ) ہم لوگوں سے اوجھل ہیں؟“ پھر پوچھا: ”تمھیں کوئی (اور) نظر آر ہا ہے؟“ میں نے عرض کی: یہ ایک سوار ہے۔ پھر عرض کی: یہ ایک اور سوار ہے حتی کہ ہم اکٹھے ہوئے تو سات سوار تھے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راستے سے ایک طرف ہٹے، پھر سر (نیچے) رکھ دیا (اور لیٹ گئے) پھر فرمایا: ” ہمارے لیے ہماری نماز کا خیال رکھنا۔“ پھر جو سب سے پہلے جاگے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے، سورج آپ کی پشت پر (چمک رہا) تھا، کہا: ہم سخت تشویش کے عالم میں کھڑے ہوئے، پھر آپ نے فرمایا: ”سوار ہوجاؤ۔“ ہم سوار ہوئے اور (آگے) چل پڑے حتی کہ جب سورج بلند ہو گیا تو آپ اترے، پھر آپ نے وضو کا برتن مانگا جو میرے ساتھ تھا، اسی میں کچھ پانی تھا، کہا: پھر آپ نے اس سے (مکمل) وضو کے مقابلے میں کچھ ہلکا وضو کیا، اور ا س میں کچھ پانی بچ بھی گیا، پھر آپ نے (مجھے) ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ” ہمارے لیے اپنے وضو کا برتن محفوظ رکھنا، اس کی ایک خبر ہو گی۔“ پھر بلال ر رضی اللہ عنہ نے نماز کے لیے اذان کہی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر آپ نے اسی طرح جس طرح روز کرتے تھے صبح کی نماز پڑھائی، کہا: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو گئے ہم بھی آپ کی معیت میں سوار ہو گئے، کہا: ہم میں سے کچھ لوگ ایک دوسرے سے کھسر پھر کرنے لگے کہ ہم نے نماز میں جو کوتاہی کی ہے اس کا کفارہ کیا ہے؟ اس پر آپ نے فرمایا: ” کیا تمھارے لیے میر ے عمل میں نمونہ نہیں؟“ پھر آپ نے فرمایا: ” سمجھ لو! نیند (آجانے) میں (کسی کی) کوئی کوتاہی نہیں۔“ کوتاہی اس کی ہے جس نے (جاگنے کے بعد) دوسری نماز کا وقت آجانے تک نماز نہیں پڑھی، جو اس طرح (نیند) کرے تو جب اس کے لیے جاگے تو یہ نماز پڑھ لے، پھر جب دوسرا دن آئے تو اسے وقت پر ادا کرے۔“ پھر فرمایا: ”تم کیا دیکھتے ہو (دوسرے) لوگوں نےکیا کیا؟“ کہا: پھر آپ نے فرمایا: ”لوگوں نے صبح کی تو اپنے نبی کو گم پایا۔ ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمھارے پیچھے ہیں، وہ ایسے نہیں کہ تمھیں پیچھے چھوڑ دیں۔ (دوسرے) لوگوں نے کہا: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے آگے ہیں۔ اگر وہ ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہ کی ا رضی اللہ عنہ اعت کریں تو صحیح راستے پر چلیں گے۔“ کیا: تو ہم لوگوں تک (اس وقت) پہنچ پائے جب دن چڑھ آیا تھا اور ہر شے تپ گئی تھی اور وہ کہہ رہے تھے: اے اللہ کے رسول! ہم پیا سے مر گئے۔ تو آپ نے فرمایا: ” تم پر کوئی ہلاکت نہیں آئی۔“ پھر فرمایا: ”میرا چھوٹا پیالہ میرے پاس آنے دو۔“ کہا: پھر وضو کے پانی والا برتن منگوایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس سے پیالے میں) انڈیلتے گئے اور ابو قتادہ رضی اللہ عنہ لوگوں کو پلاتے گئے، زیاد دیر نہ گزری تھ کہ لوگوں نے وضو کے برتن کیں جو تھوڑا سا پانی تھا، دیکھ لیا، اس بر جھرمٹ بنا کر اکٹھے ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اچھا طریقہ اختیار کرو، تم میں سے ہر ایک اچھی طرح پیاس بجھا لے گا۔“ کہا: لوگوں نے ایسا ہی کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی (پیالے میں) انڈیلتے گئے اور میں لوگوں کو پلاتا گیا یہاں تک کہ میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کوئی نہ بچا، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پانی ڈالا اور مجھ سے فرمایا: ” پیو۔“ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! جب تک آپ نہیں پی لیں گے میں نہیں پیوں گا۔ فرمایا: ” قوم کو پانی پلانے والا ان سب سے آخر میں پیتا ہے۔“ کہا: تب میں نے پی لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نوش فرمایا، کہا: اس کے بعد لوگ اس حالت میں (اگلے) پانی پر پہنچے کہ سب (نے اپنے) برتن پانی سے بھرے ہوئے تھے اور (خوب) سیراب تھے۔ (ثابت نے) کہا، عبداللہ بن رباح نے کہا: میں یہ حدیث جامع مسجد میں سب لوگوں کو سناؤں گا۔ تب عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے جوان! خیال رکھنا کہ تم کس طرح حدیث بیان کرتے ہو، اس رات میں بھی قافلے کے سواروں میں سے ایک تھا۔ کہا: میں نے عرض کی: آپ اس حدیث کو زیادہ جاننے والے ہیں۔ تو انھوں نے پوچھا: تم کس قبیلے سے ہو؟ میں میں نے کہا انصار سے۔ فرمایا: حدیث بیان کرو تم اپنی احادیث سے زیادہ آگاہ ہو (انصار میں سے ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے اس سارے واقعے کا سب سے زیادہ اور باریکی سے مشاہدہ کیا تھا بلکہ و ہ اس سارے واقعے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ تھے، آگے ان سے سننے والے عبداللہ بن رباح بھی انصار میں سے تھے۔) کہا: میں نے لوگوں کو حدیث سنائی تو عمران رضی اللہ عنہ نے کہا: اس رات میں میں بھی موجود تھا اور مین نہیں سمجھتاکہ اسے کسی نے اس طرح یا در کھا جس طرح تم نے اسے یا درکھا ہے۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب فرمایا اور کہا: تم آج زوال سے لے کر رات تک چلو گے اور کل صبح ان شاء اللہ پانی پر پہنچو گے تو لوگ چل پڑے کوئی کسی دوسرے کی طرف متوجہ نہیں ہو رہا تھا۔ ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے۔ میں بھی ساتھ تھا حتیٰ کہ آدھی رات گزر گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونگھ آ گئی اور اپنی سواری پر ایک طرف جھکے، میں نے آگے بڑھ کر آپصلی اللہ علیہ وسلم کو جگائے بغیر سہارا دیا حتیٰ کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سیدھے ہو گئے۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے حتیٰ کہ رات کا اکثر حصہ گزر گیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر ایک طرف جھک گئے۔ پھر میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو جگائے بغیر سہارا دیا۔ حتیٰ کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم سواری پر سیدھے بیٹھ گئے پھر چلتے رہے یہاں تک کہ رات کا آخری حصہ آ پہنچا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم پہلی دوبار سے زیادہ جھک گئے۔ قریب تھا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم گر جائیں تو میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ کو سہارا دیا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھا کر پوچھا: ”یہ کون ہے؟“ میں نے کہا میں ابو قتادہ ہوں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم کب سے میرے ساتھ اس طرح چل رہے ہو؟ میں نے عرض کیا۔ رات بھر سے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس طرح چل رہا ہوں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تیری حفاظت فرمائے، کیونکہ تم نے اس کے نبی کی حفاظت کی ہے۔“ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہارے خیال میں ہم لوگوں سے اوجھل ہو سکتے ہیں؟“ پھر فرمایا: ”کیا تمہیں کوئی نظر آ رہا ہے؟“ میں نے کہا یہ ایک سوار ہے۔ پھر میں نے کہا: یہ دوسرا سوار ہے، حتیٰ کہ سات سوار جمع ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راستہ سے ایک طرف ہٹ گئے اور اپنا سر زمین پر رکھ لیا۔ یعنی سونے لگے۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ ہماری نماز کی حفاظت کرنا۔ پھر سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے جبکہ سورج آپصلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر آ چکا تھا اور ہم بھی گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سوار ہو جاؤ“ تو ہم سوار ہو کر چل پڑے۔ حتیٰ کہ سورج بلند ہو گیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم سواری سے اترے۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے وضوء کا برتن طلب کیا جو میرے پاس تھا، اس میں تھوڑا سا پانی تھا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے تخفیف کے ساتھ وضوء کیا یعنی کم مرتبہ اعضاء دھوئے کہ کم پانی استعمال کیا اور برتن میں تھوڑا سا پانی بچ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو قتادہ سے فرمایا: ”ہمارے لیے اپنے برتن کو محفوظ رکھنا، جلد یہ کہ ایک بڑی خیر کا سبب ہو گا۔“ پھر بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اذان کہی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں ادا کیں۔ پھر صبح کی نماز پڑھائی، اس کو اسی طرح پڑھایا جس طرح روزانہ پڑھاتے تھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو گئے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار ہو گئے اور ہم ایک دوسرے سے سرگوشی کرنے لگے کہ نماز کے بارے میں جو ہم نے کوتاہی کی ہے اس کا کفارہ کیا ہے؟ تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہارے لیے نمونہ نہیں ہوں؟“ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں سو جانے کی صورت میں کوتاہی نہیں ہے، کوتاہی تو اس صورت میں ہے کہ انسان نماز نہ پڑھے (حالانکہ پڑھ سکتا ہے) یہاں تک کہ دوسری نماز کا وقت ہو جائے۔ جس کو یہ صورت (کہ سویا رہے) پیش آ جائے تو وہ بیدار ہونے پر نماز پڑھ لے اور اگلے دن نماز اپنے وقت پر پڑھے (عمداً مؤخر نہ کرے) پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہارے خیال میں لوگوں نے کیا کیا؟“ پھر فرمایا: لوگوں نے صبح کے وقت اپنے نبی کو اپنے اندر نہیں پایا تو ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پیچھے ہیں وہ تمہیں اپنے پیچھے نہیں چھوڑ سکتے اور دوسرے لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے آگے ہیں۔ پس اگر لوگ ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی اطاعت کریں گے تو ہدایت پائیں گے (یعنی ان کی بات مان لیں گے تو میرے انتظار میں رکے رہیں گے کیونکہ میں تو پیچھے ہوں) پھر ہم لوگوں کے پاس اس وقت پہنچے جب دن کافی چڑھ آیا اور ہر چیز گم ہو گئی اور لوگ کہہ رہے تھے کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم پیاسے مرگئے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ہلاک نہیں ہوگے“ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا چھوٹا پیالہ لاؤ“ اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کا برتن منگوایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی ڈالنے لگے اور ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پلا رہے تھے جوں ہی لوگوں نے برتن میں معمولی سا پانی دیکھا تو اس پر ٹوٹ پڑے (ہر ایک کی خواہش تھی کہ میں پانی سے محروم نہ رہوں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا اخلاق اختیار کرو، سب سیراب ہو جاؤ گے“ تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر عمل کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی انڈیلنے لگے اور میں انہیں پلانے لگا۔ حتیٰ کہ میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی باقی نہ رہا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی ڈالا اور مجھے فرمایا: ”پیو“ میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جب تک آپصلی اللہ علیہ وسلم نہیں پی لیں گے میں نہیں پیوں گا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کو پانی پلانے والا آخر میں پیتا ہے“ تو میں نے پی لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پی لیا۔ پھر سب لوگ سیراب ہو کر آرام کے ساتھ پانی تک پہنچ گئے۔ ثابت کہتے ہیں، عبداللہ بن رباح نے بتایا میں جامع مسجد میں یہ حدیث بیان کررہا تھا کہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اے نوجوان! سوچ لو، کیسے بیان کر رہے ہو کیونکہ اس رات کے سواروں میں سے ایک میں بھی ہوں تو میں نے کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم واقعہ بہتر جانتے ہیں۔ انہوں نے پوچھا: تم کس خاندان سے ہو؟ میں نے کہا: انصار سے ہوں۔ انہوں نے کہا۔ بیان کرو تم اپنے واقعات کو بہتر جانتے ہو تو میں نے لوگوں کو پورا واقعہ سنایا۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں بھی اس رات موجود تھا اور میں نہیں سمجھتا کسی نے اس واقعہ کو اس طرح یاد رکھا ہے جیسا تو نے یاد رکھا ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني احمد بن سعيد بن صخر الدارمي ، حدثنا عبيد الله بن عبد المجيد ، حدثنا سلم بن زرير العطاردي ، قال: سمعت ابا رجاء العطاردي ، عن عمران بن حصين ، قال: " كنت مع نبي الله صلى الله عليه وسلم في مسير له، فادلجنا ليلتنا، حتى إذا كان في وجه الصبح، عرسنا فغلبتنا اعيننا، حتى بزغت الشمس، قال: فكان اول من استيقظ منا ابو بكر، وكنا لا نوقظ نبي الله صلى الله عليه وسلم من منامه، إذا نام حتى يستيقظ، ثم استيقظ عمر، فقام عند نبي الله صلى الله عليه وسلم، فجعل يكبر ويرفع صوته بالتكبير، حتى استيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما رفع راسه وراى الشمس قد بزغت، قال: ارتحلوا، فسار بنا حتى إذا ابيضت الشمس، نزل فصلى بنا الغداة، فاعتزل رجل من القوم، لم يصل معنا، فلما انصرف، قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا فلان، ما منعك ان تصلي معنا؟ قال: يا نبي الله، اصابتني جنابة، فامره رسول الله صلى الله عليه وسلم فتيمم بالصعيد، فصلى، ثم عجلني في ركب بين يديه نطلب الماء، وقد عطشنا عطشا شديدا، فبينما نحن نسير، إذا نحن بامراة سادلة رجليها بين مزادتين، فقلنا لها: اين الماء؟ قالت: ايهاه، ايهاه، لا ماء لكم، قلنا: فكم بين اهلك وبين الماء؟ قالت: مسيرة يوم وليلة، قلنا: انطلقي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: وما رسول الله، فلم نملكها من امرها شيئا، حتى انطلقنا بها، فاستقبلنا بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسالها، فاخبرته مثل الذي اخبرتنا، واخبرته انها موتمة لها صبيان ايتام، فامر براويته، فانيخت، فمج في العزلاوين العلياوين، ثم بعث براويتها، فشربنا ونحن اربعون رجلا عطاش، حتى روينا وملانا كل قربة معنا وإداوة وغسلنا صاحبنا، غير انا لم نسق بعيرا، وهي تكاد تنضرج من الماء، يعني المزادتين، ثم قال: هاتوا ما كان عندكم، فجمعنا لها من كسر وتمر، وصر لها صرة، فقال لها: اذهبي فاطعمي هذا عيالك، واعلمي انا لم نرزا من مائك، فلما اتت اهلها، قالت: لقد لقيت اسحر البشر، او إنه لنبي كما زعم، كان من امره ذيت وذيت، فهدى الله ذاك الصرم بتلك المراة، فاسلمت واسلموا ".وحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ صَخْرٍ الدَّارِمِيُّ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ ، حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ زَرِيرٍ الْعُطَارِدِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا رَجَاءٍ الْعُطَارِدِيَّ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، قَالَ: " كُنْتُ مَعَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسِيرٍ لَهُ، فَأَدْلَجْنَا لَيْلَتَنَا، حَتَّى إِذَا كَانَ فِي وَجْهِ الصُّبْحِ، عَرَّسْنَا فَغَلَبَتْنَا أَعْيُنُنَا، حَتَّى بَزَغَتِ الشَّمْسُ، قَالَ: فَكَانَ أَوَّلَ مَنِ اسْتَيْقَظَ مِنَّا أَبُو بَكْرٍ، وَكُنَّا لَا نُوقِظُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَنَامِهِ، إِذَا نَامَ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ عُمَرُ، فَقَامَ عِنْدَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَ يُكَبِّرُ وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ، حَتَّى اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَهُ وَرَأَى الشَّمْسَ قَدْ بَزَغَتْ، قَالَ: ارْتَحِلُوا، فَسَارَ بِنَا حَتَّى إِذَا ابْيَضَّتِ الشَّمْسُ، نَزَلَ فَصَلَّى بِنَا الْغَدَاةَ، فَاعْتَزَلَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، لَمْ يُصَلِّ مَعَنَا، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا فُلَانُ، مَا مَنَعَكَ أَنْ تُصَلِّيَ مَعَنَا؟ قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَيَمَّمَ بِالصَّعِيدِ، فَصَلَّى، ثُمَّ عَجَّلَنِي فِي رَكْبٍ بَيْنَ يَدَيْهِ نَطْلُبُ الْمَاءَ، وَقَدْ عَطِشْنَا عَطَشًا شَدِيدًا، فَبَيْنَمَا نَحْنُ نَسِيرُ، إِذَا نَحْنُ بِامْرَأَةٍ سَادِلَةٍ رِجْلَيْهَا بَيْنَ مَزَادَتَيْنِ، فَقُلْنَا لَهَا: أَيْنَ الْمَاءُ؟ قَالَتْ: أَيْهَاهْ، أَيْهَاهْ، لَا مَاءَ لَكُمْ، قُلْنَا: فَكَمْ بَيْنَ أَهْلِكِ وَبَيْنَ الْمَاءِ؟ قَالَتْ: مَسِيرَةُ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، قُلْنَا: انْطَلِقِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: وَمَا رَسُولُ اللَّهِ، فَلَمْ نُمَلِّكْهَا مِنْ أَمْرِهَا شَيْئًا، حَتَّى انْطَلَقْنَا بِهَا، فَاسْتَقْبَلْنَا بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهَا، فَأَخْبَرَتْهُ مِثْلَ الَّذِي أَخْبَرَتْنَا، وَأَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا مُوتِمَةٌ لَهَا صِبْيَانٌ أَيْتَامٌ، فَأَمَرَ بِرَاوِيَتِهَ، فَأُنِيخَتْ، فَمَجَّ فِي الْعَزْلَاوَيْنِ الْعُلْيَاوَيْنِ، ثُمَّ بَعَثَ بِرَاوِيَتِهَا، فَشَرِبْنَا وَنَحْنُ أَرْبَعُونَ رَجُلًا عِطَاشٌ، حَتَّى رَوِينَا وَمَلَأْنَا كُلَّ قِرْبَةٍ مَعَنَا وَإِدَاوَةٍ وَغَسَّلْنَا صَاحِبَنَا، غَيْرَ أَنَّا لَمْ نَسْقِ بَعِيرًا، وَهِيَ تَكَادُ تَنْضَرِجُ مِنَ الْمَاءِ، يَعْنِي الْمَزَادَتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: هَاتُوا مَا كَانَ عِنْدَكُمْ، فَجَمَعْنَا لَهَا مِنْ كِسَرٍ وَتَمْرٍ، وَصَرَّ لَهَا صُرَّةً، فَقَالَ لَهَا: اذْهَبِي فَأَطْعِمِي هَذَا عِيَالَكِ، وَاعْلَمِي أَنَّا لَمْ نَرْزَأْ مِنْ مَائِكِ، فَلَمَّا أَتَتْ أَهْلَهَا، قَالَتْ: لَقَدْ لَقِيتُ أَسْحَرَ الْبَشَرِ، أَوْ إِنَّهُ لَنَبِيٌّ كَمَا زَعَمَ، كَانَ مِنْ أَمْرِهِ ذَيْتَ وَذَيْتَ، فَهَدَى اللَّهُ ذَاكَ الصِّرْمَ بِتِلْكَ الْمَرْأَةِ، فَأَسْلَمَتْ وَأَسْلَمُوا ". سلم بن زریر عطاری نے کہا: میں نے ابو رجاء عطاری سے سنا، وہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کر رہے تھے، کہا: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا، ہم اس رات چلتے رہے حتی کہ جب صبح قریب آئی تو ہم (تھکاوٹ کے سبب) اتر پڑے، ہم پر (نینج میں ڈوبی) آنکھیں غالب آگئیں یہاں تک کہ سورج چمکنے لگا۔ہم میں جو سب سے پہلے بیدار ہوئے وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے۔جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سو جاتے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جگایا نہیں کرتے تھے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بیدار ہو جاتے، پھر عمر رضی اللہ عنہ جاگے، وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کھڑے ہو گے اور اللہ اکبر پکارنے لگے اور (اس) تکبیر میں آواز اونچی کرنے لگے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جاگ گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور دیکھا کہ سورج چمک رہا ہےتو فرمایا: ’ (آگے) چلو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں لے کر چلے یہاں تک کہ سورج (روشن) ہو کر سفید ہو گیا، آپ اتر ے، ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔لوگوں میں سے ایک آدمی الگ ہو گیا اور اس نے ہمارے ساتھ نماز نہ پڑھی، جب سلام پھیرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: ”فلاں!تم نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟“ اس نے کہا: اے اللہ کے نبی!مجھےےجنابت لاحق ہوگی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا۔اس نے مٹی سے تیمم کیا اور نماز پڑھی، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھےےچند سواروں سمیت پانی کی تلاش میں جلدی اپنے آگے روانہ کیا، ہم سخت پیاسے تھے، جب ہم چل رہے تھے تو ہمیں ایک عورت ملی جس نے اپنے پاؤں دو مشکوں کے درمیان لٹکارکھےے تھے (بقڑی مشکوں سمیت پاؤں لٹکائے، اونٹ پر سوار تھی)، ہم نے اس سے پوچھا: پانی کہا ں ہے؟کہنے لگی: افسوس!تمہارے لیے پانی نہیں ہے۔ہم نے پوچھا: تمہارے گھر اور پانی کے دریمان کتنا فاصلہ ہے؟اس نے کہا: ایک دن اور رات کی مسافت ہے۔ہم نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو۔کہنے لگی: اللہ کا رسول کیا ہوتا ہے؟ہم نے اسے اس کے معاملے میں (فیصلےکا) کچھاختیار نہ دیا حتی کہ اسے لے آئےاس کے ساتھ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر ہوئے، آپنے اس سے پوچھا تو اس نے آپکو اسی طرح بتایا جس طرح ہمیں بتایا تھا، اور آپ کو یہ بھی بتایا کہ وہ یتیم بچوں والی ہے، اس کے (زیر کفالت) بہت سے یتیم بچے ہیں۔آپ نے اس کی پانی ڈھونے والی اونٹنی کے بارے میں حکم دیا، اسے بھٹا دیا گیا اور آپ نے کلی کر کے مسکوں کے اوپر کے دونوں سوراخوں میں پانی ڈالا، پھر آپ نے اس کی اونٹنی کوکھرا کیا تو ہم سب نے اور ہم چالیس (شدید) پیاسے افراد تھے (ان مشکوں سے) پانی پیا یہاں تک کہ ہم سیراب ہو گے اور ےہمارے پاس جتنی مشکیں اور پانی کے برتن تھے سب بھر لیے اور اپنے ساتھی کو غسل بھی کرا یا، التبہ ہم نےکسی اونٹ کو پانی نہ پیلایا اور وہ یعنی دونوں مشکیں پانی (کی مقدار زیادہ ہو جانے کے سبب) پھٹنے والی ہو گیئں، پھر آپ نے فرمایا: ”تمہارےپاس جو کچھ ہے، لے آؤ۔“ ہم نے ٹکڑے اور کھجوریں اکٹھی کیں، اس کے لیے ایک تھیلی کا منہ بند کر دیا گیا تو آپ نےاس سے کہا: ”جاؤ اور یہ خوراک اپنے بچوں کو کھلا ؤ اور جان لو!ہم نے تمہارے پانی میں کمی نہیں۔“ جب وہ اپنے گھر والوں کے پاس پہنچی تو کہا: میں انسانوں کے سب سے بڑے ساحر سے مل کر آئی ہوں یا پھر جس طرحکہ وہ خود کو سمجھتا ہے، وہ نبی ہے، اور اس کا معملہ اس اس کرح سے ہے۔پھر (آخر کار) اللہ نے اس عورت کے سبب سے لوگوں سے کٹی ہوئی اس آبادی کو ہدایت عطا کر دی، وہ مسلمان ہوگی اور (باقی) لوگ بھی مسلمان ہو گے۔ (یہ پچھلے واقعے سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ ہے۔) حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا کہ ہم رات بھر چلتے رہے حتیٰ کہ صبح کا وقت ہو گیا تو ہم نے پڑاؤ کیا اور ہم پر نیند نے غلبہ پا لیا، حتیٰ کہ سورج نکل آیا۔ ہم میں سب سے پہلے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدار ہوئے۔ ہماری عادت تھی کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سو جاتے تو ہم آپصلی اللہ علیہ وسلم کو نیند سے جگاتے نہیں تھے، حتیٰ کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم خود ہی بیدار ہو جاتے، پھر (ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدار ہو گئے تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہو کر اللّٰہ اکبر کہنے لگے اور تکبیر بھی بلند آواز سے کہتے حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہو گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر مبارک اٹھایا اور سورج کو دیکھا کہ وہ نکل چکا ہے تو فرمایا کوچ کرو ہمارے ساتھ آپ بھی چلتے رہے، حتیٰ کہ سورج سفید ہو گیا (یعنی سرخی ختم ہوگئی دھوپ پھیل گئی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری سے اتر کر صبح کی نماز پڑھائی۔ ایک آدمی لوگوں سے الگ رہا۔ اس نے ہمارے ساتھ نماز نہ پڑھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سلام پھیرا تو اس سے پوچھا: ”اے فلاں! تم نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟“ اس نے جواب دیا: اے اللہ کےنبی! مجھے جنابت لاحق ہو گئی تھی (جنابت کی بنا پر جماعت میں شریک نہیں ہوا) آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تیمّم کا حکم دیا اور اس نے مٹی سے تیمّم کیا اور نماز پڑھ لی۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے چند ساتھیوں کے ساتھ مجھے آگے پانی کی تلاش میں دوڑایا۔ کیونکہ ہمیں سخت پیاس لگ چکی تھی۔ ہم جا رہے تھے کہ اچانک ہمیں ایک عورت ملی جو دو مشکوں کے درمیان پاؤں لٹکائے ہوئے تھی تو ہم نے اس سے پوچھا: پانی کہاں ہے؟ اس نے کہا: دور بہت ہی دور۔ تم پانی حاصل نہیں کر سکتے۔ ہم نے پوچھا: تیرے گھر والوں سے پانی کتنی دور ہے؟ اس نے کہا ایک دن، رات کا فاصلہ ہے۔ ہم نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو۔ اس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہوتا ہے؟ ہم نے اس کا معاملہ اس کے اختیار میں نہ رہنے دیا اور اس کو لے کر چل کر پڑے اور ہم اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لے آئے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: اس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو وہی کچھ بتایا جو ہمیں بتا چکی تھی اور اس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی بتایا وہ یتیموں والی ہے۔ اس کے کئی یتیم بچے ہیں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پانی والے اونٹ کے بارے میں حکم دیا۔ اسے بٹھایا گیا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مشکوں کے اوپر والے دہانوں میں کلی کی پھر اس کے اونٹ کو اٹھا دیا گیا تو ہم نے پانی پیا جبکہ ہم چالیس پیاسے آدمی تھے۔ ہم سیراب ہو گئے اور ہمارے پاس جو مشکیزہ اور برتن تھا اس کو ہم نے بھر لیا اور آپنے ساتھی کو غسل کروایا۔ ہاں ہم نے کسی اونٹ کو پانی نہیں پلایا اور اس کی مشکیں پھٹنے کو تھیں یعنی اس کی مشکیں پہلے سے بھی زیادہ بھر گئیں۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کچھ تمہارے پاس ہے لاؤ“ ہم نے اس کے لیے روٹی کے ٹکڑے اور کھجوریں جمع کیں اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک تھیلی میں باندھ دیا اور اسے فرمایا: جاؤ، اسے اپنے بچوں کو کھلاؤ اور جان لو ہم نے تیرے پانی کو کچھ کم نہیں کیا۔ جب وہ اپنے گھر والوں کے پاس آئی تو کہنے لگی آج میں سب انسانوں سے بڑے جادوگر کو مل چکی ہوں یا وہ نبی ہے جیسا کہ اس کا دعویٰ ہے، اس نے یہ کام دکھائے تو اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی وجہ ان بستی والوں کو ہدایت دی۔ وہ مسلمان ہوئی اور بستی والے بھی مسلمان ہو گئے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي ، اخبرنا النضر بن شميل ، حدثنا عوف بن ابي جميلة الاعرابي ، عن ابي رجاء العطاردي ، عن عمران بن الحصين ، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، فسرينا ليلة، حتى إذا كان من آخر الليل قبيل الصبح، وقعنا تلك الوقعة التي لا وقعة عند المسافر احلى منها، فما ايقظنا إلا حر الشمس، وساق الحديث بنحو حديث سلم بن زرير، وزاد ونقص، وقال في الحديث: فلما استيقظ عمر بن الخطاب، وراى ما اصاب الناس، وكان اجوف جليدا، فكبر ورفع صوته بالتكبير، حتى استيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم لشدة صوته بالتكبير، فلما استيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم، شكوا إليه الذي اصابهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا ضير، ارتحلوا، واقتص الحديث.حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ ، حَدَّثَنَا عَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ الأَعْرَابِيُّ ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ الْعُطَارِدِيِّ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَيْنِ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَسَرَيْنَا لَيْلَةً، حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ قُبَيْلَ الصُّبْحِ، وَقَعْنَا تِلْكَ الْوَقْعَةَ الَّتِي لَا وَقْعَةَ عِنْدَ الْمُسَافِرِ أَحْلَى مِنْهَا، فَمَا أَيْقَظَنَا إِلَّا حَرُّ الشَّمْسِ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ سَلْمِ بْنِ زَرِيرٍ، وَزَادَ وَنَقَصَ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ: فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَرَأَى مَا أَصَابَ النَّاسَ، وَكَانَ أَجْوَفَ جَلِيدًا، فَكَبَّرَ وَرَفَعَ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ، حَتَّى اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِشِدَّةِ صَوْتِهِ بِالتَّكْبِيرِ، فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، شَكَوْا إِلَيْهِ الَّذِي أَصَابَهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا ضَيْرَ، ارْتَحِلُوا، وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ. ) عوف بن ابی جمیلہ اعرابی نے ابو رجاء عطاری سے، انھوں نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہم ایک سفر کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے، ہم ایک رات چلے، جب رات کا آخری حصہ آیا، صبح سے ٹھوڑی دیر پہلے ہم اس طرح پڑکر سو گئے کہ اس سے زیادہ میٹھی نیند ایک مسافر کے لیے اور کوئی نہیں ہو سکتی، ہمیں سورج کی حرارت ہی نے جگایا ....پھر سلم بن زریر کی حدیث کی طرح حدیث سنائی اور کچھ کمی بیشی بھی اور (اپنی روایت کردہ) حدیث میں انھوں نے کہا: جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جاگے اور لوگوں کی صورت حال دیکھی، اور وہ بلند آواز آدمی تھے تو انھوں نے اونچی آواز سے اللہ اکبر کہا حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اونچے اللہ اکبرکہنے سے جاگ گئے، جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جاگ گئے تو لوگوں نے اپنے اس معاملے کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی (بڑا) نقصان نہیں ہوا، (آگئے) چلو۔“ ......آگے وہی حدیث بیان کی۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو ہم رات بھر چلتے رہے۔ حتیٰ کہ رات کا آخری وقت یعنی صبح کے قریب کا وقت ہوگیا تو ہم اس طرح لیٹ گئے کہ مسافر کو اس سے زیادہ لذیذ لیٹنا نہیں ملتا۔ پھر ہمیں سورج کی گرمی ہی نے بیدار کیا۔ آگے کچھ کمی و بیشی کے ساتھ اسلم بن زریر کی مذکورہ بالا روایت کی طرح بیان کیا اور اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ جب عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدار ہوئے اور انہوں نے لوگوں کی پریشان کن حالت دیکھی اور وہ بلند آواز اور زور آور تھے تو انہوں نے اللّٰہ اکبر کہنا شروع کیا اور تکبیر کو بلند آواز سے کہا حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بلند آواز سے بیدار ہو گئے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہو گئے تو لوگوں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی پریشانی کا تذکرہ کیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی نقصان نہیں، کوچ کرو“ اور حدیث کو آخری وقت تک بیان کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر میں ہوتے اور رات (کے آخری حصے) میں آرام کے لیے لیٹے تو دائیں پہلو پر لیٹتے اور جب صبح سے ذرا پہلو پر لیٹتے تو اپنی کہنی کھڑی کر لیتے اور سر ہتھیلی پر ٹکا لیتے۔ (تاکہ زیادہ گہری نیند نہ آئے۔ اس حدیث کے الفاظ بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ اوپر بیان کیے گئے دو الگ الگواقعے ہیں۔) حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں ہوتے اور رات کو پڑاؤ کرتے تو اپنے دائیں پہلو پر لیٹتے اور جب صبح کے قریب پڑاؤ کرتے تو اپنا بازو زمین پر رکھ دیتے اور اپنا سر اپنی ہتھیلی پر رکھ لیتے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا هداب بن خالد ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، عن انس بن مالك ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من نسي صلاة فليصلها إذا ذكرها، لا كفارة لها إلا ذلك "، قال قتادة: واقم الصلاة لذكري.حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا، لَا كَفَّارَةَ لَهَا إِلَّا ذَلِكَ "، قَالَ قَتَادَةُ: وَأَقِمْ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي. ہمام نے ہمیں حدیث سنائی، کہا: ہمیں قتادہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے حوالے سے حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کوئی نماز بھول جائے تو جیسے ہی وہ اسے یاد آئے، وہ نماز پڑھ لے، اس نماز کا اس کے علاوہ اور کوئی کفارہ نہیں۔“ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کوئی نماز پڑھنا بھول جائے تو جب یاد آ جائے اس وقت پڑھ لے۔ اس کا یہی کفارہ ہے اور قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آیت پڑھی ﴿أَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي﴾ میری یاد کے لیے نماز پڑھو۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابو عوانہ نے قتادہ سے، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ (یہی حدیث) روایت کی، البتہ انھوں نے ”اس کے علاوہ اس کا اور کوئی کفارہ نہیں“ کے الفاظ روایت نہیں کیے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ بالا روایت بیان کی اور اس میں یہ ٹکڑا نقل نہیں کیا کہ ”اس کا کفارہ یہی ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
سعید نے قتادہ سے اور انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سےحدیث سنائی، کہا: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:“ جو شخص کوئی نماز بھول گیا یا اسے ادا کرتے وقت سوتا رہ گیا تو اس (نماز) کا کفارہ یہی ہے کہ جب اسے یاد آئے وہ اس نماز کو پڑھ لے۔“ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی نماز پڑھنا بھول گیا یا اس سے سویا رہا تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ یاد آتے ہی پڑھ لے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
مثنیٰ نے قتادہ کے حوالے سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز (پڑھنے کے وقت اس) سے سویا رہے یا اس سے غافل ہو جائے تو جب اسے یاد آئےوہ (نماز) پڑھ لے، بے شک اللہ تعالیٰ نے (خود) ارشاد فرمایا ہے: اور میر ییاد کے وقت نماز قائم کرو۔“ انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز سے سویا رہے یا اس سے غافل ہو جائے تو اسے یاد آنے پر پڑھ لے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”میری یاد کے لیے نماز پڑھو“۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|