كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام The Book of Mosques and Places of Prayer 31. باب أَوْقَاتِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ: باب: پنجگانہ اوقات نماز کا بیان۔ Chapter: The times of the five prayers حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث . ح، قال: وحدثنا ابن رمح ، اخبرنا الليث ، عن ابن شهاب ، " ان عمر بن عبد العزيز، اخر العصر شيئا، فقال له عروة : اما إن جبريل، قد نزل، فصلى إمام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال له عمر: اعلم ما تقول يا عروة، فقال: سمعت بشير بن ابي مسعود ، يقول: سمعت ابا مسعود ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " نزل جبريل، فامني، فصليت معه، ثم صليت معه، ثم صليت معه، ثم صليت معه، ثم صليت معه، يحسب باصابعه خمس صلوات ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ . ح، قَالَ: وحَدَّثَنَا ابْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، " أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، أَخَّرَ الْعَصْرَ شَيْئًا، فَقَالَ لَهُ عُرْوَةُ : أَمَا إِنَّ جِبْرِيلَ، قَدْ نَزَلَ، فَصَلَّى إِمَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: اعْلَمْ مَا تَقُولُ يَا عُرْوَةُ، فَقَالَ: سَمِعْتُ بَشِيرَ بْنَ أَبِي مَسْعُودٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا مَسْعُودٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " نَزَلَ جِبْرِيلُ، فَأَمَّنِي، فَصَلَّيْتُ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ، يَحْسُبُ بِأَصَابِعِهِ خَمْسَ صَلَوَاتٍ ". ) لیث نے ابن شہاب سے روایت کی کہ ایک دن عمر بن عبدالعزیز نےعصر کی نمازمیں کچھ تاخیر کردی تو عروہ نے ان سے کہا: بات یوں ہے کہ جبریل رضی اللہ عنہ نازل ہوئے اور امام بن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھائی۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اے عروہ! جان لیں (سمجھ لیں) آپ کیا کہہ رہے ہیں! انھوں نے کہا: میں نے بشیر بن ابی مسعود سے سنا، وہ کہتے تھے: میں نے ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا، انھوں نے کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرما رہے تھے: ”جبریل رضی اللہ عنہ اترے اور انھوں نے (نمازمیں) میری امامت کی، میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی۔“ وہ اپنی انگلیوں سے پانچ نمازیں شمار کرتے تھے۔ امام ابن شہاب رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز نے عصر کی نماز کچھ تاخیر سے پڑھی تو عروہ نے ان سے کہا، جبریل علیہ السلام نے نازل ہو کر، امام بن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھائی تو عمر نے اس سے کہا، اے عروہ! سوچ سمجھ کر بات کرو تو اس نے کہا، میں نے بشیر بن ابی مسعود سے سنا، اس نے ابو مسعود سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبریل اترے اور مجھے نماز پڑھائی، میں نے اس کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے اس کے ساتھ نماز پڑھی، پھر اس کے ساتھ نماز پڑھی، پھر اس کے ساتھ نماز پڑھی، پھر اس کے ساتھ نماز پڑھی، وہ اپنی انگلیوں سے پانچ نمازیں شمار کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
اخبرنا يحيى بن يحيى التميمي ، قال: قرات على مالك ، عن ابن شهاب ، ان عمر بن عبد العزيز، اخر الصلاة يوما، فدخل عليه عروة بن الزبير ، فاخبره ان المغيرة بن شعبة، اخر الصلاة يوما وهو بالكوفة، فدخل عليه ابو مسعود الانصاري ، فقال: " ما هذا يا مغيرة؟ اليس قد علمت، ان جبريل نزل فصلى، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم صلى، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم صلى، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم صلى، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم صلى، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال: بهذا امرت، فقال عمر لعروة: انظر ما تحدث يا عروة، او إن جبريل عليه السلام، هو اقام لرسول الله صلى الله عليه وسلم وقت الصلاة، فقال عروة: كذلك كان بشير بن ابي مسعود يحدث، عن ابيه .أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، أَخَّرَ الصَّلَاةَ يَوْمًا، فَدَخَلَ عَلَيْهِ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، فَأَخْبَرَهُ أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ، أَخَّرَ الصَّلَاةَ يَوْمًا وَهُوَ بِالْكُوفَةِ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ أَبُو مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيُّ ، فَقَالَ: " مَا هَذَا يَا مُغِيرَةُ؟ أَلَيْسَ قَدْ عَلِمْتَ، أَنَّ جِبْرِيلَ نَزَلَ فَصَلَّى، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: بِهَذَا أُمِرْتُ، فَقَالَ عُمَرُ لِعُرْوَةَ: انْظُرْ مَا تُحَدِّثُ يَا عُرْوَةُ، أَوَ إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام، هُوَ أَقَامَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقْتَ الصَّلَاةِ، فَقَالَ عُرْوَةُ: كَذَلِكَ كَانَ بَشِيرُ بْنُ أَبِي مَسْعُودٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ . امام مالک نے ابن شہاب زہری سے روایت کی کہ ایک دن عمر بن عبدالعزیز نے نماز میں تاخیر کر دی تو عروہ بن زبیر ان کے پاس آئے اور انھیں بتایا کہ مغیر ہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ایک دن نماز دیر سے پڑھی اس وقت وہ کوفہ میں تھے ابو مسعود انصاری رحمۃ اللہ علیہ ان کے پاس آئے اور کہا: مغیرہ!یہ کیا ہے؟ کیا آپ کو پتہ نہیں کہ جبریل رضی اللہ عنہ اترے تھے، انھوں نے نماز پڑھائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کے ساتھ) نماز پڑھی، پھر انھوں نے نماز پڑھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، پھر انوں نے نماز پڑھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کے ساتھ) نماز پڑھی، پھر انھوں نے نماز پڑھی تو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کے ساتھ) نماز پڑھی، پھر (جبریل رضی اللہ عنہ نے) کہا: مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے۔ تو عمر نے عروہ سے کہا: عروہ! دیکھ لو، کیا کہہ رہے ہو؟ کیا جبریل رضی اللہ عنہ نے خود (آکر) رسول) اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے (ہر) نماز کا وقت متعین کیا تھا؟ تو عروہ نے کہا بشر بن ابی مسعود اپنے والد سے ایسے ہی بیان کرتے تھے۔ امام ابن شہاب رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن عمر بن عبدالعزیز نے نماز مؤخر کر دی (دیر سے پڑھی) تو ان کے پاس عروہ بن زبیر حاضر ہوئے اور انہیں بتایا، مغیرہ بن شعبہ نے ایک دن کوفہ میں نماز دیر سے پڑھی تو ان کے پاس ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے اور پوچھا یہ کیا کیا؟ اے مغیرہ! کیا تمہیں علم نہیں ہے جبریل اترے اور نماز پڑھائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز (اس کے ساتھ) پڑھی، پھر اس نے نماز پڑھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی پھر اس نے نماز پڑھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، پھر اس نے نماز پڑھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، پھر اس نے نماز پڑھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، پھر جبریل نے کہا، آپ کو اس کا حکم دیا گیا ہے۔ تو عمر نے عروہ سے کہا اے عروہ! سوچو کیا بیان کر رہے ہو، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے اوقات جبریل ؑ نے سکھائے تھے؟ تو عروہ نے کہا بشیر بن ابی مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باپ سے ایسے ہی بیان کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
قال عروة : ولقد حدثتني عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، " كان يصلي العصر، والشمس في حجرتها، قبل ان تظهر ".قَالَ عُرْوَةُ : وَلَقَدْ حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " كَانَ يُصَليِّ الْعَصْرَ، وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا، قَبْلَ أَنْ تَظْهَرَ ". زہر ی سے امام مالک کی سابقہ سند ہی سے روایت ہے کہ عروہ نے کہاے: مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز (اس وقت) پڑھتے کہ دھوپ ان کے حجرے میں ہوتی، (حجرے میں سے) دھوپ باہر نکلنے سے پہلے۔ (مغربی دیوار کا سایہ حجرے کے دروازے تک نہ پہنچا ہوتا۔) حضرت عروہ رحمتہ اللہ علیہ نے بتایا مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز اس حال میں پڑھتے کہ دھوپ ان کے کمرے میں ہوتی، ان کے کمرے سے باہر نہ نکلی ہوتی۔ یعنی سایہ اس جگہ نمایاں نہ ہوتا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
) ابوبکر بن ابی شبیہ اور عمرو ناقد نے حدیث سنائی، عمرو نے کہا: سفیان نے ہمیں زہری سے حدیث سنائی، انھوں نے عروہ سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز پڑھتے تھے اور سورج میرےحجرے میں چمک رہا ہوتا تھا، ابھی (صحن کے مشرق حصے میں) سایہ نہ پھیلاہوتا تھا۔ ابو بکر نے (معنی کے وضاحت کرتے ہوئے) کہا: ابھی (مشرق کی طرف) سایہ ظاہر نہ ہوا ہوتا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز اس وقت پڑھتے جبکہ دھوپ میرے کمرہ میں چمک رہی ہوتی، ابھی تک اس جگہ سے سایہ نہ پھیلا ہوتا اور ابوبکر نےلَمْ يَفِئِ الْفَيْءُ کی جگہ لَمْ يَظْهَرِ الْفَيْءُ کہا (دونوں کا معنی ایک ہی ہے)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
یونس ابن شہاب سے روایت کی، کہا مجھے عروہ بن زبیر نے بتایا کہ مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ نے خبر دی کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز اس وقت پڑھتے تھے جبکہ دھوپ ان کےحجرے میں ہوتی (مشرق کی طرف پھیلتا) سایہ ان کے حجرے میں نہ پھیلا ہوتا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز، اس وقت پڑھتے جبکہ دھوپ ان کے حجرہ میں ہوتی، سایہ ان کے حجرہ میں نہ پھیلا ہوتا تھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ہشام نے اپنے والد عروہ سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز پڑھتے اور دھوپ میرے حجرے میں پڑ رہی ہوتی تھی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز پڑھتے جبکہ دھوپ میرے حجرہ میں موجود ہوتی تھی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا ابو غسان المسمعي ، ومحمد بن المثنى ، قالا: حدثنا معاذ وهو ابن هشام، حدثني ابي ، عن قتادة ، عن ابي ايوب ، عن عبد الله بن عمرو ، ان نبي الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا صليتم الفجر، فإنه وقت إلى ان يطلع قرن الشمس الاول، ثم إذا صليتم الظهر، فإنه وقت إلى ان يحضر العصر، فإذا صليتم العصر، فإنه وقت إلى ان تصفر الشمس، فإذا صليتم المغرب، فإنه وقت إلى ان يسقط الشفق، فإذا صليتم العشاء، فإنه وقت إلى نصف الليل ".حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذٌ وَهُوَ ابْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا صَلَّيْتُمُ الْفَجْرَ، فَإِنَّهُ وَقْتٌ إِلَى أَنْ يَطْلُعَ قَرْنُ الشَّمْسِ الأَوَّلُ، ثُمَّ إِذَا صَلَّيْتُمُ الظُّهْرَ، فَإِنَّهُ وَقْتٌ إِلَى أَنْ يَحْضُرَ الْعَصْرُ، فَإِذَا صَلَّيْتُمُ الْعَصْرَ، فَإِنَّهُ وَقْتٌ إِلَى أَنْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ، فَإِذَا صَلَّيْتُمُ الْمَغْرِبَ، فَإِنَّهُ وَقْتٌ إِلَى أَنْ يَسْقُطَ الشَّفَقُ، فَإِذَا صَلَّيْتُمُ الْعِشَاءَ، فَإِنَّهُ وَقْتٌ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ ". معاذ بن ہشام نے ہمیں اپنے والد سے حدیث بیان کی انھوں نے قتادہ سے، انھوں نے ابو ایوب سے اور انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہا سےروایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم فجر کی نماز پڑھو تو سورج کاپہلا کنارہ نمودار ہونے تک اس کا وقت ہے، پھر جب تم ظہر پڑھو تو عصر ہونے تک اس کا وقت ہے اور جب تم عصر پڑھو تو سورج کے زرد ہونے تک اس کا وقت ہے اور جب تم مغرب پڑھو تو شفق (سرخی) کے ختم ہونے تک اس کا وقت ہے اور جب تم عشاء پڑھو تو آدھی رات ہونے تک اس کا وقت ہے۔“ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جن تم فجر کی نماز پڑھ لو تو اس کا وقت اس وقت تک باقی ہے جب سورج کا اوپر کا کنارہ نہ نکلے، پھر جب تم ظہر پڑھ لو تو اس کا وقت عصر تک باقی ہے جب تم عصر پڑھ لو تو اس کا وقت سورج کے زرد ہونے تک باقی ہے اور جب تم مغرب کی نماز پڑھو تو اس کا وقت شفق (سرخی) کے غروب ہونے تک باقی ہے اور جب تم عشاء پڑھ لو تو اس کا وقت آدھی رات ہونے تک باقی ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
معاذ عنبری نے کہا: ہمیں شعب نے قتادہ سے، انھوں نے ابو ایوب سے حدیث سنائی۔ ابو ایوب کا نام یحییٰ بن مالک ازدی ہے۔ ان کو مراغی بھی کہا جاتا ہے اور مراغ قبیلہ ازدہی کی ایک شاخ ہے۔ انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہا سے اور انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ظہر کا وقت تب تک ہےجب تک عصر کا وقت شروع نہ ہو، اور عصر کا وقت ہے جب تک سورج زرد نہ ہو، اور مغرب کا وقت ہے جب تک شفق غروب نہ ہو، اور عشاء کا وقت آدھی رات تک ہے اور فجر کا وقت ہے جب تک سورج طلوع نہ ہو۔“ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظہر کا وقت، عصر کا وقت شروع ہونے تک ہے اور عصر کا وقت، سورج کے زرد ہونے سے پہلے تک ہے اور مغرب کا وقت اس وقت تک ہے جب تک شفق غروب نہ ہو اور عشاء کا وقت آدھی رات تک ہے اور فجر کا وقت، جب تک سورج طلوع نہ ہو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابو عامر عقدی اور یحییٰ بن ابی بکیر نے شعب سے اسی سند کے ساتھی یہی حدیث بیان کی۔ ان دونوں کی روایت میں، شعبہ نے کہا: انھوں (قتادہ) نے ایک بار اس حدیث کو مرفوع بیان کیا اور دوبار مرفوع بیان نہیں کیا۔ (مرفوع وہ ہے جس کی سند رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچے۔) امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني احمد بن إبراهيم الدورقي ، حدثنا عبد الصمد ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، عن ابي ايوب ، عن عبد الله بن عمرو ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " وقت الظهر إذا زالت الشمس، وكان ظل الرجل كطوله، ما لم يحضر العصر، ووقت العصر، ما لم تصفر الشمس، ووقت صلاة المغرب، ما لم يغب الشفق، ووقت صلاة العشاء إلى نصف الليل الاوسط، ووقت صلاة الصبح، من طلوع الفجر، ما لم تطلع الشمس، فإذا طلعت الشمس، فامسك عن الصلاة، فإنها تطلع بين قرني شيطان ".وحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " وَقْتُ الظُّهْرِ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ، وَكَانَ ظِلُّ الرَّجُلِ كَطُولِهِ، مَا لَمْ يَحْضُرِ الْعَصْرُ، وَوَقْتُ الْعَصْرِ، مَا لَمْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ، مَا لَمْ يَغِبْ الشَّفَقُ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ الأَوْسَطِ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الصُّبْحِ، مِنْ طُلُوعِ الْفَجْرِ، مَا لَمْ تَطْلُعِ الشَّمْسُ، فَإِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ، فَأَمْسِكْ عَنِ الصَّلَاةِ، فَإِنَّهَا تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ ". ہمام نے ہمیں حدیث بیان کی (کہا): ہمیں قتادہ نے اوب ایوب سے حدیث سنائی، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ظہر کا وقت (شروع ہوتا ہے) جب سورج ڈھل جائے اور آدمی کا سایہ اس کے قد کے برابر ہو (جانے تک)، جب تک عصر کا وقت نہیں ہو جاتا (رہتا ہے) اور عصر کا وقت (ہے) جب تک سورج زرد نہ ہو جائے اور مغر بکا وقت (ہے) جب تک سرغی غائب نے ہو جائے اور عشاء کی نماز کا وقت رات کے پہلے نصف تک ہے اور صبح کی نماز کا وقت طلوع فجر سے اس وقت تک (ہے) جب تک سورج طلوع نہیں ہوتا، جب سورج طلوع ہو نے لگے تو نماز سے رک جاؤ کیونکہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان نکلتا ہے۔“ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب سورج ڈھل جائے تو ظہر کا وقت ہو جاتا ہے اور آدمی کے سایہ اس کے برابر ہونے تک رہتا ہے، جب تک عصر کا وقت نہ ہو جائے اور عصر کا وقت سورج کے زرد ہونے تک رہتا ہے اور مغرب کی نماز کا وقت سرخی غائب ہونے تک رہتا ہے اور عشاء کی نماز کا وقت درمیانی رات کے نصف تک رہتا ہے اور صبح کی نماز کا وقت طلوع فجر سے سورج نکلنے تک رہتا ہے، جب سورج نکلنے لگے تو نماز سے رک جاؤ، کیونکہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان نکلتا ہے۔ قرنی الشیطان سے مراد، اس کے سر کے کنارے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حجاج نے جو حجاج اسلمی کے بیٹے ہیں، قتادہ سے، انھوں نے ابو ایوب سے اور انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازوںکے اوقات کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: فجر کی نماز کا وقت اس وقت تک ہےجب تک سورج کا پہلا کنارہ نہ نکلے، اور ظہر کا وقت ہے جب سورج آسمان کی درمیان سے مغرب کی طرف ڈھل جائے یہاں تک کہ عصر کا وقت ہو جائے اور عصر کی نماز کا وقت ہے جب تک سورج زرد نہ ہو جائے اور اس کا (غروب ہونے والا) پہلا کنارہ ڈوبنے لگے، اور مغرب کی نماز کا وقت تب ہے جب سورج غروب ہو جائےجو سرخی غائب ہونے تک رہتا ہے اور عشاء کی نماز کا وقت آدھی رات تک ہے۔“ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازوں کے اوقات کے بارے میں دریافت کیا گیا؟ تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فجر کی نماز کا وقت اس وقت تک رہتا ہے جب تک سورج کا ابتدائی کنارہ نہ نکلے اور ظہر کا وقت اس وقت ہوتا ہے جب سورج آسمان کے درمیان سے مغرب کی طرف ڈھل جائے اور اس وقت تک رہتا ہے جب تک عصر کا وقت نہیں ہوتا اور عصر کی نماز کا وقت اس وقت تک ہے جب تک سورج زرد نہ پڑ جائے اور اس کا پہلا کنارہ ڈوبنے لگے اور مغرب کی نماز کا وقت اس وقت ہوتا ہے جب سورج غروب ہو جائے اور سرخی غائب ہونے تک رہتا ہے اور عشاء کی نماز کا وقت آدھی رات تک ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبداللہ بن یحییٰ بن ابی کثیر نے کہا: میں نے اپنے والد کو یہ کہتے سنا: علم جسم کی راحت سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ امام یحیٰی بن ابی کثیر رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ علم راحت و آرام طلبی سے حاصل نہیں ہوسکتا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني زهير بن حرب ، وعبيد الله بن سعيد كلاهما، عن الازرق ، قال زهير، حدثنا إسحاق بن يوسف الازرق، حدثنا سفيان ، عن علقمة بن مرثد ، عن سليمان بن بريدة ، عن ابيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ان رجلا ساله، عن وقت الصلاة، فقال له: " صل، معنا هذين يعني اليومين، فلما زالت الشمس امر بلالا، فاذن، ثم امره فاقام الظهر، ثم امره فاقام العصر، والشمس مرتفعة بيضاء نقية، ثم امره فاقام المغرب، حين غابت الشمس، ثم امره فاقام العشاء حين غاب الشفق، ثم امره فاقام الفجر حين طلع الفجر، فلما ان كان اليوم الثاني، امره فابرد بالظهر، فابرد بها، فانعم ان يبرد بها، وصلى العصر، والشمس مرتفعة، اخرها فوق الذي كان وصلى المغرب، قبل ان يغيب الشفق، وصلى العشاء بعدما ذهب ثلث الليل، وصلى الفجر فاسفر بها "، ثم قال: اين السائل عن وقت الصلاة؟ فقال الرجل: انا يا رسول الله، قال: وقت صلاتكم بين ما رايتم.حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ كلاهما، عَنِ الأَزْرَقِ ، قَالَ زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يُوسُفَ الأَزْرَقُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَهُ، عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ، فَقَالَ لَهُ: " صَلِّ، مَعَنَا هَذَيْنِ يَعْنِي الْيَوْمَيْنِ، فَلَمَّا زَالَتِ الشَّمْسُ أَمَرَ بِلَالًا، فَأَذَّنَ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الظُّهْرَ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْعَصْرَ، وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ بَيْضَاءُ نَقِيَّةٌ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْمَغْرِبَ، حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْعِشَاءَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْفَجْرَ حِينَ طَلَعَ الْفَجْرُ، فَلَمَّا أَنْ كَانَ الْيَوْمُ الثَّانِي، أَمَرَهُ فَأَبْرَدَ بِالظُّهْرِ، فَأَبْرَدَ بِهَا، فَأَنْعَمَ أَنْ يُبْرِدَ بِهَا، وَصَلَّى الْعَصْرَ، وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ، أَخَّرَهَا فَوْقَ الَّذِي كَانَ وَصَلَّى الْمَغْرِبَ، قَبْلَ أَنْ يَغِيبَ الشَّفَقُ، وَصَلَّى الْعِشَاءَ بَعْدَمَا ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ، وَصَلَّى الْفَجْرَ فَأَسْفَرَ بِهَا "، ثُمَّ قَالَ: أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ؟ فَقَالَ الرَّجُلُ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: وَقْتُ صَلَاتِكُمْ بَيْنَ مَا رَأَيْتُمْ. سفیان نے ہمیں علقمہ بن مرثد سے حدیث بیان کی انھوں نے سلیمان بن برید سے، انھوں نے اپنے والد (بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ) سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نما کے وقت کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا: ” ہمارے ساتھ یہ دو دن نماز پڑھو۔“ جب سورج ڈھلا تو آپ نے بلا رضی اللہ عنہ کو اذان کہنے کا حکم دیا، انھوں نے اذان کہی، پھر آپ نے انھیں حکم دیا تو انھوں نے ظہر کی کے تکبیر کہی، پھر آپ نے انھیں حکم دیا تو انھوں نے عصر کے لیے اقامت کیہ، اور اس وقت سورج بلند، روشن غروب ہوا تو آپ نے بلا ل رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، انھوں نے مغرب کے لیے اقامت کہی پھر نے ان کو حکم دیا تو انھوں نے عشاء کے لیے اقامت کہی، اس وقت سرخی غائب ہو گئی تھی، پھر جب فجر طلوع ہوئی تو آپ نے حکم دیا تو انھوں نے فجر کے لیے اقامت کہی، پھر جب دوسرا دن ہوا تو آپ نے انھیں (بلال رضی اللہ عنہ کو) حکم دیا تو انھوں نے ظہر کے لیے دن ٹھنڈا ہونے دیا، انھوں نے اسے ٹھنڈا کیا اور خوب ٹھنڈا کیا اور عصر کی نماز پڑھی جبکہ سورج بلند تھا (البتہ) پہلے کی نسبت زیادہ تاخیر کی اور مغرب کی نماز شفق (سرخی) کے غروب ہونے سے (کچھ ہی) پہلے پڑھی اور عشاء کی نماز تہائی رات گزر جانے کےبعد پڑھی اور فجر کی نماز پڑھی تو روشنی پھیلنے دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز کے اوقات کے بارے میں سوال کرنے والا کہاں ہے؟”تو اس آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں ہو ں۔ آپ نے فرمایا: ”تمھاری نمازوں کا وقت ان اوقات کے درمیان ہے جو تم نے دیکھے۔“ حضرت سلیمان بن بریدہ رحمتہ اللہ علیہ اپنے پاب سے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے وقت کے بارے میں سوال کیا؟ تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ہمارے ساتھ دو دن نماز پڑھو۔ جب سورج ڈھل گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو اذان کہنے کا حکم دیا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا تو اس نے ظہر کے لیے تکبیر کہی، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے (عصر کا وقت ہونے پر) بلال صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا تو انہوں نے (پہلے اذان دی پھر) عصر کے لیے اقامت کہی۔ (اور یہ اذان و اقامت میں ہوئی کہ) سورج بلند، روشن اور صاف تھا (یعنی اس کی روشنی میں فرق نہیں پڑا تھا) پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کے غروب ہونے پر بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا (انہوں نے پہلے اذان کہی اور پھر) مغرب کے لیے اقامت کہی، پھر جب سرخی غائب ہو گئی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا اور انہوں نے (عشاء کی اذان دی پھر) عشاء کے لیے اقامت کہی۔ پھر (رات کے ختم ہونے پر) فجر کے طلوع ہونے پر انہیں حکم دیا اور انہوں نے (فجر کی اذان کہنے کے بعد) فجر کے لیے اقامت کہی، پھر جب دوسرا دن آیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز کو ٹھنڈے وقت میں قائم کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے اسے ٹھنڈا کیا اور خوب ٹھنڈا کیا اور عصر کی نماز پڑھی جبکہ سورج بلند تھا لیکن پہلے دن سے زیادہ تاخیر کی اور مغرب کی نماز شفق (سرخی) کے غروب ہونے سے پہلے پڑھی اور عشاء کی نماز تہائی رات گزرنے کے بعد پڑھی اور فجر کی نماز روشنی پھیلنے پر پڑھی، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز کے اوقات کے بارے میں سوال کرنے والا کہاں ہے؟“ تو اس آدمی نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری نمازوں کا وقت اس کے درمیان ہے جو تم نے دیکھا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني إبراهيم بن محمد بن عرعرة السامي ، حدثنا حرمي بن عمارة ، حدثنا شعبة ، عن علقمة بن مرثد ، عن سليمان بن بريدة ، عن ابيه ، ان رجلا، اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فساله عن مواقيت الصلاة، فقال: " اشهد معنا الصلاة، فامر بلالا فاذن بغلس، فصلى الصبح، حين طلع الفجر، ثم امره بالظهر، حين زالت الشمس عن بطن السماء، ثم امره بالعصر، والشمس مرتفعة، ثم امره بالمغرب حين وجبت الشمس، ثم امره بالعشاء حين وقع الشفق، ثم امره الغد فنور بالصبح، ثم امره بالظهر، فابرد، ثم امره بالعصر، والشمس بيضاء نقية، لم تخالطها صفرة، ثم امره بالمغرب، قبل ان يقع الشفق، ثم امره بالعشاء عند ذهاب ثلث الليل او بعضه "، شك حرمي، فلما اصبح، قال: اين السائل؟ ما بين ما رايت وقت.وحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَرْعَرَةَ السَّامِيُّ ، حَدَّثَنَا حَرَمِيُّ بْنُ عُمَارَةَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ رَجُلًا، أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ عَنْ مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ، فَقَالَ: " اشْهَدْ مَعَنَا الصَّلَاةَ، فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ بِغَلَسٍ، فَصَلَّى الصُّبْحَ، حِينَ طَلَعَ الْفَجْرُ، ثُمَّ أَمَرَهُ بِالظُّهْرِ، حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ عَنْ بَطْنِ السَّمَاءِ، ثُمَّ أَمَرَهُ بِالْعَصْرِ، وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ، ثُمَّ أَمَرَهُ بِالْمَغْرِبِ حِينَ وَجَبَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ أَمَرَهُ بِالْعِشَاءِ حِينَ وَقَعَ الشَّفَقُ، ثُمَّ أَمَرَهُ الْغَدَ فَنَوَّرَ بِالصُّبْحِ، ثُمَّ أَمَرَهُ بِالظُّهْرِ، فَأَبْرَدَ، ثُمَّ أَمَرَهُ بِالْعَصْرِ، وَالشَّمْسُ بَيْضَاءُ نَقِيَّةٌ، لَمْ تُخَالِطْهَا صُفْرَةٌ، ثُمَّ أَمَرَهُ بِالْمَغْرِبِ، قَبْلَ أَنْ يَقَعَ الشَّفَقُ، ثُمَّ أَمَرَهُ بِالْعِشَاءِ عِنْدَ ذَهَابِ ثُلُثِ اللَّيْلِ أَوْ بَعْضِهِ "، شَكَّ حَرَمِيٌّ، فَلَمَّا أَصْبَحَ، قَالَ: أَيْنَ السَّائِلُ؟ مَا بَيْنَ مَا رَأَيْتَ وَقْتٌ. حرمی بن عمارہ نے کہا: ہمیں شعبہ نے علقمہ بن مرثد سے حدیث سنائی، انھوں نےسلیمان بن بریدہ سے اور انھوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے نمازوں کے اوقات کے بارے میں سوال کیا آب نے فرمایا”نمازوں میں ہمارے ساتھ موجود رہو۔“ پھر آپ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انھوں نے اندھیرے میں اذان کہی، جب فجر طلوع ہوئی آب نے صبح کی نماز پڑھائی، پھر جب سورج آسمان کے درمیان سے ڈھلا تو آپ نے انھیں ظہر کا حکم دیا، پھر جب سورج (ابھی) اونچا تھا، آپ نے انھیں عصر کا حکم دیا، پھر جب سورج غروب ہوگیا تو آب نے انھیں مغرب کا حکم دیا، پھر جب شفق نیچے چلی گئی تو انھوں نے صبح کو روشن ہونے دیا (پھر فجر ادا کی)، پھر انھیں ظہر کا حکم دیا تو انھون نے اسے ٹھنڈا ہونے دیا، پھر انھیں عصر کا حکم دیا جبکہ سورج ابھی سفید اور صاف تھا، اس میں زردی کی کوئی آمیزش نہ تھی، پہر انھیں شفق گر (کر غائب ہو) جانے سے قبل مغرب کے بارے میں حکم دیا، پھر تہائی رات یا رات کا کچھ حصہ گزر جانے کے بعد انھیں عشاء کے بارے میں حکم دیا۔ حرمی کو شک ہو ا۔ پھر جب صبح ہوئی تو آپ نے پوچھا۔ سائل کہاں ہے؟ جو تم نے دیکھا، ان کے درمیان (نمازوں کا) وقت ہے۔“ حضرت سلیمان بن بریدہ رحمتہ اللہ علیہ اپنے پاب سے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم سے نمازوں کے اوقات کے بارے میں سوال کیا؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نمازوں میں ہمارے ساتھ حاضر ہو“، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے بلال ؓ کو حکم دیا، اس نے غلس (اندھیرا) میں اذان کہی، جب فجر طلوع ہوئی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، جب سورج آسمان کے درمیان سے مغرب کی طرف ڈھل گیا تو اسے ظہر کے بارے میں حکم دیا، سورج ابھی بلند ہی تھا کہ اسے عصر کے بارے میں حکم دیا، پھر جب سورج غروب ہو گیا تو اسے مغرب کے بارے میں حکم دیا، پھر جب شفق غروب ہو گیا تو اسے عشاء کے بارے میں حکم دیا، پھر اگلے دن حکم دیا تو اس نے صبح کو روشن کیا، پھر اسے ظہر کے بارے میں حکم دیا، اس نے اس کو ٹھنڈا کیا، پھر اسے عصر کے بارے میں حکم دیا جبکہ سورج ابھی سفید اور صاف تھا اس میں زردی کی آمیزش نہیں ہوئی تھی (دھوپ ابھی زرد نہیں ہوئی تھی) پھر اسے شفق کے غروب سے پہلے مغرب کے بارے میں حکم دیا، پھر اسے تہائی رات کے گزرنے یا قدرے کم وقت پر عشاء کے بارے میں حکم دیا (شک حرمی کو ہے) جب صبح ہوئی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”سائل کہاں ہے؟ جو تم نے دیکھا، نمازوں کا وقت اس کے درمیان ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا بدر بن عثمان ، حدثنا ابو بكر بن ابي موسى ، عن ابيه ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه اتاه سائل، يساله عن مواقيت الصلاة، فلم يرد عليه شيئا، قال: " فاقام الفجر حين انشق الفجر، والناس لا يكاد يعرف بعضهم بعضا، ثم امره، فاقام بالظهر حين زالت الشمس، والقائل، يقول: قد انتصف النهار، وهو كان اعلم منهم، ثم امره، فاقام بالعصر والشمس مرتفعة، ثم امره، فاقام بالمغرب حين وقعت الشمس، ثم امره، فاقام العشاء حين غاب الشفق، ثم اخر الفجر من الغد حتى انصرف منها، والقائل يقول: قد طلعت الشمس او كادت، ثم اخر الظهر، حتى كان قريبا من وقت العصر بالامس، ثم اخر العصر، حتى انصرف منها، والقائل يقول: قد احمرت الشمس، ثم اخر المغرب حتى كان عند سقوط الشفق، ثم اخر العشاء حتى كان ثلث الليل الاول، ثم اصبح فدعا السائل، فقال: الوقت بين هذين ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا بَدْرُ بْنُ عُثْمَانَ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي مُوسَى ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ أَتَاهُ سَائِلٌ، يَسْأَلُهُ عَنْ مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ شَيْئًا، قَالَ: " فَأَقَامَ الْفَجْرَ حِينَ انْشَقَّ الْفَجْرُ، وَالنَّاسُ لَا يَكَادُ يَعْرِفُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، ثُمَّ أَمَرَهُ، فَأَقَامَ بِالظُّهْرِ حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ، وَالْقَائِلُ، يَقُولُ: قَدِ انْتَصَفَ النَّهَارُ، وَهُوَ كَانَ أَعْلَمَ مِنْهُمْ، ثُمَّ أَمَرَهُ، فَأَقَامَ بِالْعَصْرِ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ، ثُمَّ أَمَرَهُ، فَأَقَامَ بِالْمَغْرِبِ حِينَ وَقَعَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ أَمَرَهُ، فَأَقَامَ الْعِشَاءَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ، ثُمَّ أَخَّرَ الْفَجْرَ مِنَ الْغَدِ حَتَّى انْصَرَفَ مِنْهَا، وَالْقَائِلُ يَقُولُ: قَدْ طَلَعَتِ الشَّمْسُ أَوْ كَادَتْ، ثُمَّ أَخَّرَ الظُّهْرَ، حَتَّى كَانَ قَرِيبًا مِنْ وَقْتِ الْعَصْرِ بِالأَمْسِ، ثُمَّ أَخَّرَ الْعَصْرَ، حَتَّى انْصَرَفَ مِنْهَا، وَالْقَائِلُ يَقُولُ: قَدِ احْمَرَّتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ أَخَّرَ الْمَغْرِبَ حَتَّى كَانَ عِنْدَ سُقُوطِ الشَّفَقِ، ثُمَّ أَخَّرَ الْعِشَاءَ حَتَّى كَانَ ثُلُثُ اللَّيْلِ الأَوَّلِ، ثُمَّ أَصْبَحَ فَدَعَا السَّائِلَ، فَقَالَ: الْوَقْتُ بَيْنَ هَذَيْنِ ". محمد بن عبداللہ بن نمیر نے ہمیں حدیث سنائی (کہا:) میرے والد نے ہمیں حدیث بیان کی کہا: ہمیں بدر بن عثمان نے حدیث سنائی، کہا: ہمیں ابو بکر بن ابی موسیٰ نے اپنے والد سے حدیث سنائی، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ کے پاس ایک سائل نمازوں کے اوقات پوچھنے کے لیے حاضر ہوا تو آپ نے اسے (زبانی) کچھ جواب نہ دیا۔ کہا: جب فجر کی پو پھوٹی تو آپ نے فجر کی نماز پڑھائی جبکہ لوگ (اندھیرے کی وجہ سے) ایک دوسرے کو پہچان نہیں پارہے تھے، پھر جب سورج ڈھلا تو آپ نے انہیں (بلال رضی اللہ عنہ کو) حکم دیا اور انھون نے ظہر کی اقامت کہی جبکہ سورج ابھی بلند تھا، پھر جب سورج نیچے چلا گیا تو آپ نے انھیں حکم دیا تو انھوں نے مغرب کے اقامت کہی، پھر جب شفق غائب ہوئی تو آپ نے انھیں حکم دیا تو انھوں عشاء کی اقامت کہی، پھر اگلے دن فجر میں تاخیر کی، یہاں تک کہ اس وقت سے فارغ ہوئے جب کہنے والا کہے، سورج نکل آیا ہے یا نکلنے کو ہے، پھر ظہر کو مؤخر کیا حتی کہ گزشتہ کل کی عصر کے قریب کا وقت ہو گیا، پھر عصر کو مؤخر کیا کہ جب سلام پھیرا تو کہنے والا کہے: آفتاب میں سرخی آگئی ہے، پھر مغرب کو مؤخر کیا حتی کہ شفق غروب ہونے کے قریب ہوئی، پھر عشاء کو مؤخر کیا حتی کہ رات کی پہلی تہائی ہوگئی پھر صبح ہوئی تو آپ نے سائل کو بلوایا اور فرمایا: ” (نماز کا) وقت ان دونوں (وقتوں) کے درمیان ہے۔“ حضرت ابو بکر بن ابی موسیٰ رحمتہ اللہ علیہ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک سائل، نمازوں کے اوقات پوچھنے کے لیے حاضر ہوا؟ تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے زبانی کوئی جواب نہیں دیا، فجر پھوٹنے پر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز کھڑی کی، جبکہ لوگ (تاریکی کی بنا پر) ایک دوسرے کو پہچان نہیں رہے تھے، پھر جب سورج ڈھل گیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ظہر کھڑی کرنے کا حکم دیا، کہنے والا کہہ رہا تھا، آدھا دن گزر گیا ہے۔ اور آپصلی اللہ علیہ وسلم اس کو ان سے زیادہ جانتے تھے، سورج ابھی بلند تھا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کا حکم دیا اور عصر کی نماز ادا کی، پھر جب شفق غروب ہو گیا تو اسے حکم دیا اور عشاء کی نماز پڑھی، پھر اگلے دن فجر میں تاخیر کی اور کہنے والا کہہ رہا تھا سورج نکلا آیا یا نکلنے کو ہے، پھر ظہر کو مؤخر کیا حتیٰ کہ گزشتہ کل کی عصر کے قریب وقت ہو گیا، پھر عصر کو مؤخر کیا، حتیٰ کہ سلام پھیرا تو کہنے والا کہہ رہا تھا، آفتاب سرخ ہو گیا، پھر مغرب کو مؤخر کیا حتیٰ کہ شفق غروب ہونے کے قریب ہو گیا پھر عشاء کو مؤخر کیا حتیٰ کہ رات کا پہلا تہائی ہو گیا، پھر صبح ہوئی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے سائل کو بلوایا اور فرمایا: ”نماز کا وقت ان دونوں وقت کے درمیان ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وکیع نےبدر بن عثمان سے روایت کی، انھون نے ابو بکر بن ابی موسیٰ سےسن کر یہ حدیث بیان کی، انہون نے اپنے والد سے روایت کی کہ ایک سائل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور آپ سے نمازوں کے اوقات کے بارے میں سوال کیا۔۔۔۔۔ (آگے) ابن نمبر کی روایت کی طرح ہے، سوائے اس کے کہ انھوں نے کہا: دوسرے دن آپ نے مغرب کی نماز شفق غائب ہونے سے پہلے پڑھی۔ حضرت ابو بکر بن ابی موسیٰ رحمتہ اللہ علیہ کے اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک سائل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم سے نمازوں کے اوقات کے بارے میں سوال کیا؟ پھر مذکورہ بالا روایت بیان کی، ہاں یہ کہا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے دن مغرب کی نماز شفق کے غروب سے پہلے پڑھی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|