صحيح مسلم
كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة
مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
19. باب السَّهْوِ فِي الصَّلاَةِ وَالسُّجُودِ لَهُ:
باب: نماز میں بھولنے اور سجدہ سہو کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1268
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ الشَّيْطَانَ إِذَا ثُوِّبَ بِالصَّلَاةِ وَلَّى، وَلَهُ ضُرَاطٌ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ وَزَادَ: فَهَنَّاهُ وَمَنَّاهُ وَذَكَّرَهُ مِنْ حَاجَاتِهِ، مَا لَمْ يَكُنْ يَذْكُرُ.
عبدالرحمن اعرج نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ”جب نماز کے لیے تکبیر کہی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر گوز مارتا ہوا بھاگتا ہے ......“ آگے اوپر کی روایت کی طرح ذکر کیا اور یہ اضافہ کیا: ”اسے رغبت اور امید دلاتا ہے اور اسے اس کی ایسی ضرورتیں یاد دلاتا ہے جو اسے یاد نہیں ہوتیں۔“
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے تکبیر کہی جاتی ہے تو شیطان ہوا خارج کرتا ہوا پشت پھیر کر بھاگتا ہے“، اوپر کی طرح روایت سنائی اور اس میں یہ اضافہ کیا، ”اسے رغبتیں اور امیدیں دلاتا ہے اور اسے اس کی وہ ضرورتیں یاد دلاتا ہے جو اسے یاد نہ تھیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1268 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1268
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
هَنَّاهُ تَهْنِئَةً:
شوق ورغبت دلانا۔
هَنَّاهُ بِكَذَا:
کا معنی ہوتا ہے اس چیز کی مبارکباد دینا۔
مَنَّاهُ:
آرزو اور امید دلانا،
یہاں دونوں لفظوں سے مقصود،
دلی خیالات و تصورات ہیں۔
فوائد ومسائل:
1۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اذان اورتکبیر میں یہ خاصہ اور تاثیر رکھی ہے کہ ان کو سن کر شیطان بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔
یعنی وہ شیطان جو ہر انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے۔
2۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ اگر انسان کو یہ یاد نہ رہے کہ اس نے نماز کی کتنی رکعتیں پڑھی ہیں کم ہیں یا زائد پڑھ لیں ہیں تو وہ آخر میں دو سجدے کر لے۔
حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اورسلف کی ایک جماعت کا یہی موقف ہے۔
شعبی رحمۃ اللہ علیہ۔
اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ اور بہت سے سلف کا نظریہ یہ ہے کہ ایسی صورت میں وہ نماز نئے سرے سے پڑھے گا اگر پھر یاد نہ رہا تو پھر نئے سرے سے پڑھے گا جب تک یقین نہیں ہو گا نماز نئے سرے سے پڑھتا رہے گا۔
اور بعض کا خیال ہے چوتھی دفعہ کے بعد اعادہ نہیں ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک یہ ہے اگر پہلی بار شک ہوا ہے تو نماز نئے سرے سے پڑھے،
اگر ایسے ہوتا رہتا ہے تو پھر ظن غالب پرعمل کرے،
مثلاً تین اور چار میں تردد ہے تو پھر ظن غالب پر عمل کر کے دو سجدے کر لے اور اگر ظن غالب نہ ہو تو جتنی رکعات یقینی ہیں،
یعنی تین جس کو بنَا عَلَی الْاَقَلّ کہتے ہیں۔
سمجھ کر چوتھی رکعت پڑھ کر دو سجدے کرلے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
اورامام احمد رحمۃ اللہ علیہ۔
کے نزدیک یقینی رکعات پرعمل کرے اور آخر میں دو سجدے کر لے۔
احادیث کی روشنی میں صحیح موقف یہی ہے۔
کہ فَلْیَتَحَرِّ الصَّوَابَ صحیح بات کو پہنچنے کی کوشش کرے۔
جیسا کہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے اگر یہ نہ ہو سکے تو پھر:
(وَلْيَبْنِ عَلَى مَا اسْتَيْقَنَ)
جتنی رکعات کا یقین ہو اس کے مطابق پڑھے جیسا کہ ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کیونکہ احادیث ایک دوسری کی تفسیر و توضیح کرتی ہیں،
رہی وہ حدیث جس میں اعادہ کا حکم ہے تو اس کے بارے میں مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
(لَايُوْجَدُ فِي كُتُبِ الْحَدِيْثِ)
یہ حدیث کی کتابوں میں نہیں ملتی۔
(فتح الملھم: 2/ 156)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1268