كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام The Book of Mosques and Places of Prayer 17. باب نَهْيِ مَنْ أَكَلَ ثُومًا أَوْ بَصَلاً أَوْ كُرَّاثًا أَوْ نَحْوَهَا عَنْ حُضُورِ الْمَسْجِدِ: باب: لہسن، پیاز، گندنا یا کوئی بدبودار چیز کھا کر مسجد میں جانا اس وقت تک ممنوع ہے جب تک اس کی بو منہ سے نہ جائے اور اس کو مسجد سے نکالنا۔ Chapter: Prohibiting one who has eaten garlic, onions, or leeks, and other things that have an offensive odor from coming to the masjid, until that smell has gone away, and such a person should be expelled from the masjid محمد بن مثنیٰ اور زہیر بن حرب دونوں نے کہا: یحییٰ قطان نے ہمیں عبیداللہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: مجھے نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوؤ خیبر کے موقع پر فرمایا: ”جس نے اس پودے۔ آپ کی مراد لہسن تھا۔ میں سے کچھ کھایا ہو وہ مسجدوں میں ہرگز نہ آئے۔“ زہیر نے صرف غزوہ کہا، خیبر کا نام نہیں لیا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوةٴ خیبر کے موقعہ پر فرمایا: ”جس نے یہ پودا یعنی لہسن کھایا وہ مسجد میں ہرگز نہ آئے“، زہیر نے صرف غزوةٴ خیبر کا نام نہیں لیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
عبداللہ بن نمیر نے کہا: ہم سے عبید اللہ نے حدیث بیان کی، انھوں نے نافع سے اور انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اس ترکاری میں سے کچھ کھایا ہو وہ ہماری مسجدوں کے قریب نہ آئے یہاں تک کہ اس کی بوچلی جائے۔“ آپ کی مراد لہسن سے تھی۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے یہ ترکاری یعنی لہسن کھایا وہ اس وقت تک ہماری مسجدوں کے ہرگز قریب نہ آئے کہ جب تک اس کی بد بو نہ چلی جائے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
) عبدالعزیز سے، جو صہیب کے بیٹے ہیں، روایت ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے لہسن کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اس پودے میں سے کچھ کھایا ہو وہ ہرگز ہمارے قریب نہ آئے اور نہ ہمارے ساتھ نماز پڑھے۔“ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے لہسن کے بارے میں پوچھا گیا؟ تو انہوں نے جواب دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اس سبزی سے کھایا وہ ہرگز ہمارے قریب نہ آئے اور ہمارے ساتھ نماز نہ پڑھے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اس پودے میں سے کچھ کھایا ہو وہ ہرگز ہماری مسجد کے قریب نہ آئے اور نہ ہمیں لہسن کی بو سے تکلیف دے۔“ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اس سبزی سے کھایا وہ ہرگز ہماری مسجد کے قریب نہ آئے اور ہمیں لہسن کی بو سے تکلیف نہ دے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابو زبیر نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیاز اور گندنا کھا نے سے منع فرمایا۔ سو (ایک مرتبہ) ہم ضرورت سے مجبور ہو گئے اور انھیں کھا لیا تو آپ نے فرمایا: ”جس نے اس بدبودار سبزی میں سے کچھ کھایا ہو وہ ہرگز ہماری مسجد کے قریب نہ آئے، فرشتے بھی یقیناً اس چیز سے تکلیف محسوس کرتے ہیں جس سے انسان تکلیف محسوس کرتے ہیں۔“ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیاز اور گندنا کھانے سے منع فرمایا تو ہم نے ضرورت سے مجبور ہو کر اس سے کھا لیا، اس پر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اس بدبودار سبزی کو استعمال کیا، وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے، کیونکہ فرشتوں کو بھی اس چیز سے تکلیف ہوتی ہے، جس سے انسانوں کو تکلیف ہوتی ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني ابو الطاهر ، وحرملة ، قالا: اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، قال: حدثني عطاء بن ابي رباح ، ان جابر بن عبد الله ، قال: وفي رواية حرملة، وزعم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من اكل ثوما، او بصلا، فليعتزلنا او ليعتزل مسجدنا، وليقعد في بيته، وإنه اتي بقدر فيه خضرات من بقول، فوجد لها ريحا "، فسال، فاخبر بما فيها من البقول، فقال: قربوها إلى بعض اصحابه، فلما رآه كره اكلها، قال: كل، فإني اناجي من لا تناجي.وَحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وحَرْمَلَةُ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: وَفِي رِوَايَةِ حَرْمَلَةَ، وَزَعَمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ أَكَلَ ثُومًا، أَوْ بَصَلًا، فَلْيَعْتَزِلْنَا أَوْ لِيَعْتَزِلْ مَسْجِدَنَا، وَلْيَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ، وَإِنَّهُ أُتِيَ بِقِدْرٍ فِيهِ خَضِرَاتٌ مِنْ بُقُولٍ، فَوَجَدَ لَهَا رِيحًا "، فَسَأَلَ، فَأُخْبِرَ بِمَا فِيهَا مِنَ الْبُقُولِ، فَقَالَ: قَرِّبُوهَا إِلَى بَعْضِ أَصْحَابِهِ، فَلَمَّا رَآهُ كَرِهَ أَكْلَهَا، قَالَ: كُلْ، فَإِنِّي أُنَاجِي مَنْ لَا تُنَاجِي. ابو طاہر اور حرملہ نے کہا: ہمیں ابن وہب نے خبر دی، کہا: مجھے یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، انھوں نے کہا: مجھے عطاء بن ابی رباح نے حدیث بیان کی کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نےکہا۔ حرملہ کی روایت میں ہے، ان (جابر رضی اللہ عنہ) کو یقین تھا۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے لہسن یا پیاز کھایا وہ ہم سے دور رہے یا ہماری مسجدوں سے دور رہے اور اپنے گھر بیٹھے۔“ اور ایسا ہو ا کہ (ایک دفعہ) آپ کے پاس ایک ہانڈی لائی گئی جس میں کچھ سبز ترکاریاں تھیں، آپ نے ان سے کچھ بو محسوس کی تو ان کے متعلق پوچھا۔ آپ کو ان ترکاریوں کے بارے میں بتایا گیا جو اس میں (ڈالی گئی) تھیں تو آپ نے اسے، اپنے ساتھیوں میں سے ایک کے پاس لے جانے کو کہا۔ جب اس نے بھی اسے دیکھ کر (آپ کی ناپسندیدگی کی بنا پر) اس کو ناپسند کیا تو آپ نے فرمایا: ”تم کھا لو کیونکہ میں ان سے سرگوشی کرتا ہوں جن سے تم سرگوشی نہیں کرتےہو۔“ (اس سے فرشتے مراد ہیں۔ صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان کی روایت میں اس بات کی صراحت موجود ہے۔) حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے لہسن یا پیاز کھایا وہ ہم سے علیحدہ رہے یا ہماری مسجدوں سے الگ رہے اور اپنے گھر میں بیٹھے“ اور ایک دفعہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہانڈی لائی گئی جس میں ترکاریاں تھیں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بدبو محسوس کی اور پوچھا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم کو ترکاریوں کے بارے میں بتایا گیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو فلاں ساتھی کے قریب کر دو۔“ تو اس نے اسے دیکھ کر (آپصلی اللہ علیہ وسلم کی کراہت کی بنا پر) اسے ناپسند کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کھا لو کیونکہ میں اس سے سرگوشی کرتا ہوں جس سے تم سرگوشی نہیں کرتے ہو۔ یعنی میں فرشتوں سے سرگوشی کرتا ہوں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
یحییٰ بن سعید نے ابن جریج سے حدیث بیان کی، انھوں کہا: مجھے عطاء نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے خبر دی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جس نے یہ ترکاری لہسن کھا یا۔“ اور ایک دفعہ فرمایا: ” جس نے پیاز، لہسن اور گندنا کھایا۔ تو وہ ہر گز ہماری مسجد کے قریب نہ آئے کیونکہ فرشتے (بھی) ان چیزوں سے اذیت محسوس کرتے ہیں جس جن سے آدم کے بیٹے اذیت محسوس کرتےہیں۔“ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے یہ ترکاری، لہسن کھایا۔“ اور ایک دفعہ فرمایا: ”جس نے پیاز، لہسن یا گندنا کھایا وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے کیونکہ فرشتے ان چیزوں سے اذیت محسوس کرتے ہیں، جن سے انسانوں کو اذیت پہنچتی ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
محمد بن بکر اور عبدالرزاق نے (دو مختلف سندوں سے روایت کرتے ہوئے) کہا: ہمیں ابن جریج نے اسی (سابقہ) سند کے ساتھ خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اس پودے۔ آپ کی مراد لہسن سے تھی۔ میں سے کچھ کھایا ہو وہ ہماری مسجد میں ہمارے پاس نہ آئے۔“ اور انھوں (ابن جریج) نے پیاز اور گندنے کا ذکر نہیں کیا۔ امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ سے بیان کرتے ہیں کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اس پودے (لہسن مراد ہے) سے کھایا وہ ہماری مسجد میں ہمارے پاس نہ آئے۔“ پیاز اور گندنا کا تذکرہ نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني عمرو الناقد ، حدثنا إسماعيل ابن علية ، عن الجريري ، عن ابي نضرة ، عن ابي سعيد ، قال: لم نعد ان فتحت خيبر، فوقعنا اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم في تلك البقلة: الثوم، والناس جياع، فاكلنا منها اكلا شديدا، ثم رحنا إلى المسجد، فوجد رسول الله صلى الله عليه وسلم الريح، فقال: " من اكل من هذه الشجرة الخبيثة شيئا، فلا يقربنا في المسجد "، فقال الناس: حرمت، حرمت، فبلغ ذاك النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " ايها الناس، إنه ليس بي تحريم ما احل الله لي، ولكنها شجرة اكره ريحها ".وَحَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: لَمْ نَعْدُ أَنْ فُتِحَتْ خَيْبَرُ، فَوَقَعْنَا أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي تِلْكَ الْبَقْلَةِ: الثُّومِ، وَالنَّاسُ جِيَاعٌ، فَأَكَلْنَا مِنْهَا أَكْلًا شَدِيدًا، ثُمَّ رُحْنَا إِلَى الْمَسْجِدِ، فَوَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرِّيحَ، فَقَالَ: " مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ الْخَبِيثَةِ شَيْئًا، فَلَا يَقْرَبَنَّا فِي الْمَسْجِدِ "، فَقَالَ النَّاسُ: حُرِّمَتْ، حُرِّمَتْ، فَبَلَغَ ذَاكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّهُ لَيْسَ بِي تَحْرِيمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لِي، وَلَكِنَّهَا شَجَرَةٌ أَكْرَهُ رِيحَهَا ". حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھون نے کہا: ہم خیبر کی فتح سے فارغ نہیں ہوئے تھے کہ ہم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی، اس ترکاری۔ لہسن۔ پر جا پڑے، لوگ بھوکے تھے اورہم نے اسے خوب اچھی طرح کھایا، پھر ہم مسجد کی طرف گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بومحسوس کی۔ آپ نے فرمایا: ”جس نے اس بدبودار پودے میں سے کچھ کھایا ہے وہ مسجد میں ہمارے قر یب نہ آئے۔“ اس پر لوگ کہنے لگے: (لہسن) حرام ہو گیا، حرام ہو گیا۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے فرمایا: ” اے لوگو! ایسی چیز کو حرام کرنا میرے ہاتھ میں نہیں جسے اللہ نے میرے لیے حلال کر دیا ہے لیکن یہ ایسا پودا ہے جس کی بو مجھے ناپسند ہے۔“ حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم خیبر کی فتح سے آگے نہیں بڑھے تھے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی لہسن کی ترکاری پر ٹوٹ پڑے کیونکہ لوگ بھوکے تھے اور ہم نے اسے خوب پیٹ بھر کر کھایا، پھر ہم مسجد کی طرف گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدبو محسوس فرمائی تو فرمایا: ”جس نے اس ناپسندیدہ (خبیث) پودے سے کچھ کھایا وہ ہماری مسجد میں ہمارے قریب نہ آئے۔“ تو لوگوں نے کہا، لہسن حرام قرار دیا گیا، حرام ہو گیا، یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے لوگو! اللہ نے جو کچھ میرے لیے حلال کر دیا ہے میں اس کو حرام نہیں کر سکتا، لیکن یہ ایک پودا ہے میں اس کی بو کو ناپسند کرتا ہوں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ (ایک دفعہ) پیاز کے ایک کھیت کے پاس سے گزرے۔ ان میں سے کچھ لوگ اترے اور اس میں سے کچھ کھا لیا، اور دوسروں نے نہ کھایا۔ ہم آپ کے پاس گئے تو آپ نے ان لوگوں کو (قریب) بلا لیا جنھوں نے پیاز نہیں کھا یا تھا اور دوسرے (جنھوں نے پیاز کھایا تھا) انھیں پیچھے کر دیا یہاں تک کہ اس کی بو ختم ہو گئی۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ پیاز کے کھیت سے گزرے، ان میں کچھ لوگوں نے اتر کر اس سے کچھ کھا لیا اور دوسروں نے نہ کھایا، ہم آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو قریب بلا لیا جنہوں نے پیاز نہیں کھایا تھا اور جنہوں نے پیاز کھایا تھا ان کو پیچھے کر دیا یہاں تک کہ اس کی بو ختم ہوگئی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا حدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا هشام ، حدثنا قتادة ، عن سالم بن ابي الجعد ، عن معدان بن ابي طلحة ، ان عمر بن الخطاب ، خطب يوم الجمعة، فذكر نبي الله صلى الله عليه وسلم، وذكر ابا بكر، قال: إني رايت كان ديكا نقرني ثلاث نقرات، وإني لا اراه إلا حضور اجلي، وإن اقواما يامرونني ان استخلف، وإن الله لم يكن ليضيع دينه، ولا خلافته، ولا الذي بعث به نبيه صلى الله عليه وسلم، فإن عجل بي امر، فالخلافة شورى بين هؤلاء الستة، الذين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو عنهم راض، وإني قد علمت ان اقواما يطعنون في هذا الامر، انا ضربتهم بيدي هذه على الإسلام، فإن فعلوا ذلك، فاولئك اعداء الله الكفرة، الضلال، ثم إني لا ادع بعدي شيئا اهم عندي من الكلالة، ما راجعت رسول الله صلى الله عليه وسلم في شيء ما راجعته في الكلالة، وما اغلظ لي في شيء ما اغلظ لي فيه، حتى طعن بإصبعه في صدري، فقال: يا عمر، الا تكفيك آية الصيف التي في آخر سورة النساء؟ وإني إن اعش، اقض فيها بقضية يقضي بها من يقرا القرآن ومن لا يقرا القرآن، ثم قال: اللهم إني اشهدك على امراء الامصار، وإني إنما بعثتهم عليهم ليعدلوا عليهم، وليعلموا الناس دينهم، وسنة نبيهم صلى الله عليه وسلم، ويقسموا فيهم، فيئهم ويرفعوا إلي ما اشكل عليهم من امرهم، ثم إنكم ايها الناس تاكلون شجرتين، لا اراهما إلا خبيثتين هذا، البصل، والثوم، لقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم، " إذا وجد ريحهما من الرجل في المسجد، امر به، فاخرج إلى البقيع، فمن اكلهما فليمتهما طبخا "،حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، خَطَبَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَذَكَرَ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَ أَبَا بَكْرٍ، قَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ كَأَنَّ دِيكًا نَقَرَنِي ثَلَاثَ نَقَرَاتٍ، وَإِنِّي لَا أُرَاهُ إِلَّا حُضُورَ أَجَلِي، وَإِنَّ أَقْوَامًا يَأْمُرُونَنِي أَنْ أَسْتَخْلِفَ، وَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُنْ لِيُضَيِّعَ دِينَهُ، وَلَا خِلَافَتَهُ، وَلَا الَّذِي بَعَثَ بِهِ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنْ عَجِلَ بِي أَمْرٌ، فَالْخِلَافَةُ شُورَى بَيْنَ هَؤُلَاءِ السِّتَّةِ، الَّذِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ، وَإِنِّي قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ أَقْوَامًا يَطْعَنُونَ فِي هَذَا الأَمْرِ، أَنَا ضَرَبْتُهُمْ بِيَدِي هَذِهِ عَلَى الإِسْلَامِ، فَإِنْ فَعَلُوا ذَلِكَ، فَأُولَئِكَ أَعْدَاءُ اللَّهِ الْكَفَرَةُ، الضُّلَّالُ، ثُمَّ إِنِّي لَا أَدَعُ بَعْدِي شَيْئًا أَهَمَّ عِنْدِي مِنَ الْكَلَالَةِ، مَا رَاجَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَيْءٍ مَا رَاجَعْتُهُ فِي الْكَلَالَةِ، وَمَا أَغْلَظَ لِي فِي شَيْءٍ مَا أَغْلَظَ لِي فِيهِ، حَتَّى طَعَنَ بِإِصْبَعِهِ فِي صَدْرِي، فَقَالَ: يَا عُمَرُ، أَلَا تَكْفِيكَ آيَةُ الصَّيْفِ الَّتِي فِي آخِرِ سُورَةِ النِّسَاءِ؟ وَإِنِّي إِنْ أَعِشْ، أَقْضِ فِيهَا بِقَضِيَّةٍ يَقْضِي بِهَا مَنْ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَمَنْ لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أُشْهِدُكَ عَلَى أُمَرَاءِ الأَمْصَارِ، وَإِنِّي إِنَّمَا بَعَثْتُهُمْ عَلَيْهِمْ لِيَعْدِلُوا عَلَيْهِمْ، وَلِيُعَلِّمُوا النَّاسَ دِينَهُمْ، وَسُنَّةَ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيَقْسِمُوا فِيهِمْ، فَيْئَهُمْ وَيَرْفَعُوا إِلَيَّ مَا أَشْكَلَ عَلَيْهِمْ مِنْ أَمْرِهِمْ، ثُمَّ إِنَّكُمْ أَيُّهَا النَّاسُ تَأْكُلُونَ شَجَرَتَيْنِ، لَا أَرَاهُمَا إِلَّا خَبِيثَتَيْنِ هَذَا، الْبَصَلَ، وَالثُّومَ، لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " إِذَا وَجَدَ رِيحَهُمَا مِنَ الرَّجُلِ فِي الْمَسْجِدِ، أَمَرَ بِهِ، فَأُخْرِجَ إِلَى الْبَقِيعِ، فَمَنْ أَكَلَهُمَا فَلْيُمِتْهُمَا طَبْخًا "، ہشام نےکہا: ہم سے قتادہ نے حدیث بیان کی، انھوں نے سالم بن ابی جعد سے اور انھوں نے حضرت معد ان بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جمعے کے دن خطبہ دیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کیا، کہا: میں نے خواب دیکھا ہے، جیسے ایک مرغ نے مجھے تین ٹھونگیں ماری ہیں اور اس کو میں اپنی موت قریب آنے کے سوا اور کچھ نہیں سمجھتا۔ اور کچھ قبائل مجھ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ میں کسی کو اپنا جانشین بنادو ں۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کو ضائع نہیں ہونے دے گا، نہ اپنی خلافت کو اور نہ اس شریعت کو جس کے ساتھ اس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ اگر مجھے جلد موت آجائے تو خلافت ان چھ حضرات کے باہم مشورے سے طے ہو گی جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے وقت خوش تھے۔ اور میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگ جن کو میں نے اسلام کی خاطر اپنے اس ہاتھ سے مارا ہے، وہ اس امر (خلافت) پر اعتراض کریں گے، اگر وہ ایسا کریں گے تو وہ اللہ کے دشمن، کافر اور گمراہ ہوں گے، پھر میں اپنے بعد جو (حل طلب) چیزیں چھوڑ کر جارہا ر ہوں ان میں سے میرے نزدیک کلالہ کی وراثت کےمسئلے سے بڑھ کر کوئی مسئلہ زیادہ اہم نہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی مسئلے کے بارے میں اتنی دفعہ رجوع نہیں کیا جتنی دفعہ کلالہ کے بارے میں کیا اور آپ نے (بھی) میرے ساتھ کسی مسئلے میں اس قدر سختی نہیں برتی جتنی میرے ساتھ آپ نے اس مسئلے میں سختی کی حتیٰ کہ آپ نے انگلی میرے سینے میں چبھو کر فرمایا: ”اے عمر! کیا گرمی کے موسم میں اترنے والی آیت تمھارے لیے کافی نہیں جو سورۃ نساء کے آخر میں ہے؟“ میں اگر زندہ رہا تو میں اس مسئلے (کلالہ) کے بارے میں ایسا فیصلہ کروں گا کہ (ہر انسان) جو قرآن پڑھتا ہے یا نہیں پڑھتا ہے اس کے مطابق فیصلہ کر سکے گا، پھر آپ نے فرمایا: اے اللہ! میں شہروں کے گورنروں کے بارے میں تجھے گواہ بناتا ہوں کہ میں نے لوگوں پر انھیں صرف اس لیے مقرر کر کے بھیجا کہ وہ ان سے انصاف کریں اور لوگوں کو ان کے دین اور ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی تعلیم دیں اور ان کے اموال فے ان میں تقسیم کریں اور اگر لوگوں کے معاملات میں انھیں کوئی مشکل پیش آئے تو اسے میرے سامنے پیش کریں۔ پھر اے لوگو! تم دو پودے کھا تے ہو، میں انھیں (بو کے اعتبار سے) برے پودے ہی سمجھتا ہوں، یہ پیاز اور لہسن ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، جب مسجد میں آپ کو کسی آدمی سے ان کی بوآتی تو آپ اسے بقیع کی طرف نکال دینے کا حکم صادر فرماتے، لہذا جو شخص انھیں کھانا چاہتا ہے وہ انھیں پکاکر ان کی بو مار دے۔ حضرت معدان بن ابی طلحہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے جمعہ کے دن خطبہ دیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کا تذکرہ کیا کہا میں نے خواب دیکھا ہے، گویا کہ ایک مرغ نے مجھے تین ٹھونگیں ماری ہیں اور میں سمجھتا ہوں میری موت قریب آ گئی ہے اور کچھ لوگ مجھے مشورہ دے رہے ہیں کہ میں خلیفہ نامزد کر دوں اور اللہ تعالیٰ اپنے دین کو ضائع نہیں ہونے دے گا، نہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی خلافت کو اور نہ اس شریعت کو جسے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دے کر بھیجا ہے، اگر مجھے جلد موت آ جائے تو خلافت ان چھ حضرات کے باہمی مشورے سے طے ہوگی، جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش خوش فوت ہوئے اور میں جانتا ہوں کچھ لوگ جن سے میں نے اسلام کی خاطر اپنے اس ہاتھ سے جنگ لڑی ہے۔ وہ اس خلافت پر اعتراض کریں گے، اگر وہ ایسا کریں گے تو وہ اللہ کے دشمن، کافر اور گمراہ ہوں گے، پھر میں اپنے بعد اپنے نزدیک کلالہ (کی وراثت) کا مسئلہ سب سے اہم چھوڑ رہا ہوں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی مسئلہ کے بارے میں اس قدر نہیں پوچھا جس قدر کلالہ کے بارے میں پوچھا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی میرے ساتھ کسی مسئلہ میں اس قدر شدت نہیں برتی جتنی آپصلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ اس مسئلہ میں شدت اختیار فرمائی حتیٰ کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے میرے سینے کو ٹھوک کر فرمایا: ”اے عمر! کیا گرمی کے موسم میں اترنے والی، سورة نساء کی آخری آیت تمہارے لیے تسلی بخش نہیں ہے؟“ اور اگر میں زندہ رہا تو میں اس کے بارے میں ایسا فیصلہ کروں گا کہ اس کے مطابق ہر انسان جو قرآن پڑھتا ہے یا نہیں پڑھتا ہے فیصلہ کر سکے گا، پھر فرمایا: ”اے اللہ! میں تمہیں شہروں کے گورنروں کے بارے میں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انہیں لوگوں پر صرف اس لیے مقرر کیا ہے کہ وہ ان سے انصاف کریں اور لوگوں کو ان کا دین سکھائیں اور ان کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی تعلیم دیں اور ان کی غنیمت ان میں تقسیم کریں اور ان کے معاملات میں اگر انہیں کوئی مشکل پیش آئے تو اسے میرے سامنے پیش کریں، پھر تم، اے لوگو! دو پودے کھاتے ہو، میں انہیں خبیث ہی سمجھتا ہوں یہ پیاز اور لہسن ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، جب تم میں سے کوئی آپصلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں کسی آدمی سے ان کی بو محسوس کرتے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم اسے بقیع کی طرف نکالنے کا حکم دیتے لہٰذا جو شخص انہیں کھانا چاہتا ہے وہ انہیں پکا کر ان کی بو ختم کردے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
سعید بن ابی عروبہ اور شعبہ نے قتادہ سے اسی سند کے ساتھی اسی کے مانند روایت کی امام صاحب اپنے تین اساتذہ سے مذکورہ بالا حدیث بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|