34. باب: عبادات کی کمی سے ایمان کا گھٹنا، اور کفر کا کفران نعمت پر اطلاق کا بیان۔
Chapter: Clarifying that faith decreases with shortcoming in obedience, and the word Kufr may be used with regard to matters other than dsbelief in Allah, such as ingratitude for blessings and not fulfilling one's duties
حدثنا محمد بن رمح بن المهاجر المصري ، اخبرنا الليث ، عن ابن الهاد ، عن عبد الله بن دينار ، عن عبد الله بن عمر ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال: " يا معشر النساء تصدقن، واكثرن الاستغفار، فإني رايتكن اكثر اهل النار، فقالت امراة منهن جزلة: وما لنا يا رسول الله اكثر اهل النار؟ قال: تكثرن اللعن، وتكفرن العشير، وما رايت من ناقصات عقل ودين اغلب لذي لب منكن، قالت: يا رسول الله، وما نقصان العقل والدين؟ قال: " اما نقصان العقل، فشهادة امراتين تعدل شهادة رجل، فهذا نقصان العقل، وتمكث الليالي، ما تصلي، وتفطر في رمضان، فهذا نقصان الدين ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحِ بْنِ الْمُهَاجِرِ الْمِصْرِيُّ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ، وَأَكْثِرْنَ الِاسْتِغْفَارَ، فَإِنِّي رَأَيْتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ جَزْلَةٌ: وَمَا لَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ؟ قَالَ: تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ، وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ، وَمَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَغْلَبَ لِذِي لُبٍّ مِنْكُنَّ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا نُقْصَانُ الْعَقْلِ وَالدِّينِ؟ قَالَ: " أَمَّا نُقْصَانُ الْعَقْلِ، فَشَهَادَةُ امْرَأَتَيْنِ تَعْدِلُ شَهَادَةَ رَجُلٍ، فَهَذَا نُقْصَانُ الْعَقْلِ، وَتَمْكُثُ اللَّيَالِي، مَا تُصَلِّي، وَتُفْطِرُ فِي رَمَضَانَ، فَهَذَا نُقْصَانُ الدِّينِ ".
لیث نے ابن ہادلیثی سے خبر دی کہ عبد اللہ بن دینار نےحضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: ” اے عورتوں کی جماعت! تم صدقہ کیا کرو، اور زیادہ سے زیادہ استغفار کیا کرو، کیونکہ میں نے دوزخیوں میں اکثریت تمہاری دیکھی ہے۔“ ان میں سے ایک دلیر اور سمجھ دار عورت نے کہا: اللہ کے رسول! ہمیں کیا ہے، دوزخ میں جانے والوں کی اکثریت ہماری (کیوں) ہے؟ آپ نے فرمایا: ” تم لعنت بہت بھیجتی ہو اور خاوند کا کفران (نعمت) کرتی ہو، میں نے عقل و دین میں کم ہونے کے باوجود، عقل مند شخص پر غالب آنے میں تم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔“ اس نے پوچھا؟ اے اللہ کے رسول! عقل و دین میں کمی کیا ہے؟ آپ نےفرمایا: ” عقل میں کمی یہ ہے کہ دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کے برابر ہے، یہ تو ہوئی عقل کی کمی اور وہ (حیض کے دوران میں) کئی راتیں (اور دن) گزارتی ہے کہ نماز نہیں پڑھتی اور رمضان میں بے روزہ رہتی ہے تو یہ دین میں کمی ہے۔“
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عورتوں کی جماعت! تم صدقہ کیا کرو اور زیادہ سے زیادہ استغفار کیا کرو، کیونکہ میں نے تمھاری کثیر تعداد کو دوزخ میں دیکھا ہے۔“ ان میں سے ایک عقل مند عورت نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! ہماری اکثریت دوزخ میں کیوں ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ”تم لعنت بہت بھیجتی ہو اور خاوند کی ناشکری کرتی ہو۔ میں نے عقل و دین میں کم ہونے کے باوجود دانا و عقل مند شخص کو مغلوب کر لینے والی تم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔“ اس نے پوچھا: عقل و دین میں کیا کمی ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ”عقل میں کمی یہ ہے کہ دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کے برابر ہے تو یہ عقل میں کمی ہوئی۔ اور وہ کئی راتیں (دن) نماز نہیں پڑھ سکتی (ماہواری کی وجہ سے) اور رمضان میں نہ روزہ رکھ سکتی ہے تو یہ دین و اطاعت کی کمی ہے۔“
ترقیم فوادعبدالباقی: 79
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه ابوداؤد في ((سننه)) في السنة، باب: الدليل على زيادة الايمان ونقصانه مختصراً برقم (3680) وابن ماجه في ((سننه)) في الفتن، باب: فتنة النساء برقم (4003) انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (8261)»
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 241
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : (1) مَعْشَرٌ: گروہ یا جماعت۔ (2) جَزْلَةٌ: صاحب عقل و فکر، جزالت عقل و وقار کو کہتے ہیں۔ لعنت، دور کرنا، نکال دینا، مقصد رحمت الٰہی سے دور قرار دینا۔ (3) لُبٌّ: کمال عقل، خالص عقل۔ فوائد ومسائل: (1) صدقہ وخیرات کرنا اور کثرت استغفار کرنا، ایک انتہائی پسندیدہ فعل ہے جو گناہوں کا کفارہ بنتا ہے۔ کسی پر بلاوجہ لعنت بھیجنا اور شوہر کی احسان فراموشی بہت بڑا جرم ہے جو دوزخ میں جانے کا باعث بن سکتا ہے۔ (2) قرآن مجید نے عورت کی شہادت کو مرد کے مقابلہ میں کم درجہ دیا ہے، کیونکہ اسلام عمومی طور پر عورتوں کو خانگی اور گھریلو امور تک محدود رکھنا چاہتا ہے، وہ انہیں چراغ خانہ بناتا ہے، شمع محفل نہیں، اس لیے اگر مرد دستیاب نہ ہوں تو پھر ان کو گواہ بنانے کی اجازت دی گئی ہے اور پھر ایک مرد کو ساتھ رکھا گا ہے، کیونکہ عام طور پر عورتوں میں حفظ وضبط کم ہوتا ہے، جس کی طرف قرآن نے ﴿أَن تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَىٰ﴾”کہ ایک کے بھول جانے پر دوسری یاد دلا سکے“ میں اشارہ کیا ہے۔ نیز شہادت کا تعلق عدالت سے ہے، اور مدعی علیہ کے خلاف، عدالت میں دوسروں کے سامنے گواہی دینا بڑی جرأت اور استقلال وپامردی نہیں ہے، جس کی ایسے موقع پر ضرورت ہے۔ اس لیے شریعت بامر مجبوری اس کو گواہ بنانے کی اجازت دیتی ہے اور اس کے حوصلہ وہمت کو بلند رکھنے کی خاطر اس کے ساتھ ایک دوسری عورت اور مرد کو بھی کھڑا کرتی ہے، اس لیے ﴿وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِن رِّجَالِكُمْ﴾ کا حکم دیا اور ضرورت و مجبوری کی صورت میں فرمایا: ﴿فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ﴾”اگر دو مرد میسر نہ ہوں، تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں ہوں۔ “ اور یہ مسئلہ اختیاری شہادت کا ہے، ہنگامی، ناگہانی یا اضطراری واقعات میں جہاں صرف عورتیں ہی ہوں یا صرف کافر لوگ موجود ہوں، اس سے اس کا تعلق نہیں ہے۔ عورتوں میں عقل کی کمی واقعات وشواہد کی رو سے ایک مسلمہ امر ہے، اس کے باوجود وہ اپنی چکنی چپڑی باتوں اور آنسوؤں کے زور پر مرد کو عموما اپنے پیچھے لگا لیتی ہیں اور وہ ان کی بات تسلیم کرتے ہیں اور نقصان اٹھاتے ہیں۔ (3) عورتوں کے دین میں کمی کا مطلب: ان کا اطاعت وبندگی میں پیچھے رہ جانا ہے، کیونکہ دین، اطاعت وفرمانبرداری کا نام ہے۔ عورت طبعی طور پر بعض عبادات کو ادا نہیں کر سکتی اور عبادات ہی طاعت کی روح اورجان ہیں۔ اگر وہ ان عبادات کی نیت بھی کر لیں کہ اگر ہمیں اجازت ہوتی تو ہم یہ عبادات ادا کرتیں، تو نیت اورعمل میں بہت بڑا فرق ہے اور ماہواری میں کمزوری اورمزاج کی تبدیلی کی وجہ سے عملا یہ ممکن بھی نہیں ہے۔ (4) شرعًا کفر کا اطلاق کفرانِ نعمت وحقوق، یعنی احسان فراموشی اور ناشکری پر بھی ہوجاتا ہے جو اعتقادی کفرنہیں ہے جو انسان کو دین سے خارج کر دیتا ہے، بلکہ عملی واخلاقی کفرہے جس سے انسان دین سے نہیں نکلتا۔