سئل مالك: هل يقف الرجل بعرفة، او بالمزدلفة، او يرمي الجمار، او يسعى بين الصفا والمروة، وهو غير طاهر؟ فقال: كل امر تصنعه الحائض من امر الحج، فالرجل يصنعه وهو غير طاهر، ثم لا يكون عليه شيء في ذلك. والفضل ان يكون الرجل في ذلك كله طاهرا. ولا ينبغي له ان يتعمد ذلك. سُئِلَ مَالِكٌ: هَلْ يَقِفُ الرَّجُلُ بِعَرَفَةَ، أَوْ بِالْمُزْدَلِفَةِ، أَوْ يَرْمِي الْجِمَارَ، أَوْ يَسْعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، وَهُوَ غَيْرُ طَاهِرٍ؟ فَقَالَ: كُلُّ أَمْرٍ تَصْنَعُهُ الْحَائِضُ مِنْ أَمْرِ الْحَجِّ، فَالرَّجُلُ يَصْنَعُهُ وَهُوَ غَيْرُ طَاهِرٍ، ثُمَّ لَا يَكُونُ عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي ذَلِكَ. وَالْفَضْلُ أَنْ يَكُونَ الرَّجُلُ فِي ذَلِكَ كُلِّهِ طَاهِرًا. وَلَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَتَعَمَّدَ ذَلِكَ.
امام مالک رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ عرفات میں یا مزدلفہ میں کوئی آدمی بے وضو ٹھہر سکتا ہے، یا بے وضو کنکریاں مار سکتا ہے، یا بے وضو صفا اور مروہ کے درمیان میں دوڑ سکتا ہے؟ تو جواب دیا کہ: جتنے ارکان حائضہ عورت کر سکتی ہے وہ سب کام مرد بے وضو کر سکتا ہے، اور اس پر کچھ لازم نہیں آتا مگر افضل یہ ہے کہ ان سب کاموں میں با وضو رہے، اور قصداً بے وضو ہونا اچھا نہیں ہے۔
وسئل مالك: عن الوقوف بعرفة للراكب. اينزل ام يقف راكبا؟ فقال: بل يقف راكبا. إلا ان يكون به او بدابته، علة. فاللٰه اعذر بالعذروَسُئِلَ مَالِكٌ: عَنِ الْوُقُوفِ بِعَرَفَةَ لِلرَّاكِبِ. أَيَنْزِلُ أَمْ يَقِفُ رَاكِبًا؟ فَقَالَ: بَلْ يَقِفُ رَاكِبًا. إِلَّا أَنْ يَكُونَ بِهِ أَوْ بِدَابَّتِهِ، عِلَّةٌ. فَاللّٰهُ أَعْذَرُ بِالْعُذْرِ
امام مالک رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ عرفات میں سوار ہو کر ٹھہرے یا اتر کر؟ بولے: سوار ہو کر، مگر جب کوئی عذر ہو اس کو یا اس کے جانور کو، تو اللہ جل جلالہُ قبول کرنے والا ہے عذر کو۔