قال مالك: قال اللٰه تبارك وتعالى ﴿يا ايها الذين آمنوا لا تقتلوا الصيد وانتم حرم. ومن قتله منكم متعمدا. فجزاء مثل ما قتل من النعم يحكم به ذوا عدل منكم، هديا بالغ الكعبة، او كفارة طعام مساكين، او عدل ذلك صياما ليذوق وبال امره﴾ [المائدة: 95]قَالَ مَالِكٌ: قَالَ اللّٰهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ. وَمَنْ قَتَلَهُ مِنْكُمْ مُتَعَمِّدًا. فَجَزَاءُ مِثْلِ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ، هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ، أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ، أَوْ عَدْلُ ذَلِكَ صِيَامًا لِيَذُوقَ وَبَالَ أَمْرِهِ﴾ [المائدة: 95]
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: فرمایا اللہ جل جلالہُ نے: ”اے ایمان والو! مت مارو شکار جب تم احرام باندھے ہو، اور جو کوئی تم میں سے قصداً شکار مارے تو اس پر جزاء لازم ہے اس کی مثل جانور کے، حکم کر دیں اس کا دو پرہیزگار شخص، خواہ جزاء ہدی ہو جو کعبہ میں پہنچے یا کفارہ ہو مسکینوں کو کھلانا یا اس قدر روزے تاکہ چکھے وبال اپنے کام کا۔“
قال مالك: فالذي يصيد الصيد وهو حلال. ثم يقتله وهو محرم. بمنزلة الذي يبتاعه وهو محرم. ثم يقتله. وقد نهى اللٰه عن قتله. فعليه جزاؤه قَالَ مَالِكٌ: فَالَّذِي يَصِيدُ الصَّيْدَ وَهُوَ حَلَالٌ. ثُمَّ يَقْتُلُهُ وَهُوَ مُحْرِمٌ. بِمَنْزِلَةِ الَّذِي يَبْتَاعُهُ وَهُوَ مُحْرِمٌ. ثُمَّ يَقْتُلُهُ. وَقَدْ نَهَى اللّٰهُ عَنْ قَتْلِهِ. فَعَلَيْهِ جَزَاؤُهُ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: جو شخص شکار پکڑے اور وہ حلال ہو، پھر احرام کی حالت میں اس کو مارے، تو وہ اس کے مثل ہے کہ محرم شکار کو خرید کر اس کو مارے، اللہ نے منع کیا ہے اس کے مارنے سے تو اس پر اس کی جزاء لازم ہے۔
قال مالك: احسن ما سمعت في الذي يقتل الصيد فيحكم عليه فيه، ان يقوم الصيد الذي اصاب، فينظر كم ثمنه من الطعام، فيطعم كل مسكين مدا. او يصوم مكان كل مد يوما. وينظر كم عدة المساكين. فإن كانوا عشرة صام عشرة ايام، وإن كانوا عشرين مسكينا صام عشرين يوما عددهم ما كانوا، وإن كانوا اكثر من ستين مسكيناقَالَ مَالِكٌ: أَحْسَنُ مَا سَمِعْتُ فِي الَّذِي يَقْتُلُ الصَّيْدَ فَيُحْكَمُ عَلَيْهِ فِيهِ، أَنْ يُقَوَّمَ الصَّيْدُ الَّذِي أَصَابَ، فَيُنْظَرَ كَمْ ثَمَنُهُ مِنَ الطَّعَامِ، فَيُطْعِمَ كُلَّ مِسْكِينٍ مُدًّا. أَوْ يَصُومَ مَكَانَ كُلِّ مُدٍّ يَوْمًا. وَيُنْظَرَ كَمْ عِدَّةُ الْمَسَاكِينِ. فَإِنْ كَانُوا عَشَرَةً صَامَ عَشَرَةَ أَيَّامٍ، وَإِنْ كَانُوا عِشْرِينَ مِسْكِينًا صَامَ عِشْرِينَ يَوْمًا عَدَدَهُمْ مَا كَانُوا، وَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ سِتِّينَ مِسْكِينًا
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: میں نے بہت اچھا اس باب میں یہ سنا ہے کہ جو شخص شکار مارے تو اس شکار کی قیمت لگائیں گے اور حساب کریں گے کہ اس کی قیمت میں سے کتنا غلہ آتا ہے، تو ہر مد ایک مسکین کو دے یا ہر مد کے بدلے میں ایک روزہ رکھے اور مساکین کے شمار کو دیکھ لے۔ اگر دس ہوں تو دس روزے، اور اگر بیس ہوں تو بیس روزے رکھے۔ اگرچہ ساٹھ مسکینوں سے بڑھائیں۔
قال مالك: سمعت انه يحكم على من قتل الصيد في الحرم وهو حلال، بمثل ما يحكم به على المحرم الذي يقتل الصيد في الحرم وهو محرمقَالَ مَالِكٌ: سَمِعْتُ أَنَّهُ يُحْكَمُ عَلَى مَنْ قَتَلَ الصَّيْدَ فِي الْحَرَمِ وَهُوَ حَلَالٌ، بِمِثْلِ مَا يُحْكَمُ بِهِ عَلَى الْمُحْرِمِ الَّذِي يَقْتُلُ الصَّيْدَ فِي الْحَرَمِ وَهُوَ مُحْرِمٌ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: جو شخص حرم میں شکار مارے اور وہ حلال ہو تو اس کا حکم ایسا ہی ہے جو احرام کی حالت میں شکار مارے حرم میں۔