حدثني يحيى، عن مالك، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، انه قال: قلت لعائشة ام المؤمنين، وانا يومئذ حديث السن، ارايت قول الله تبارك وتعالى: إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما سورة البقرة آية 158 فما على الرجل شيء ان لا يطوف بهما، فقالت عائشة : " كلا لو كان كما تقول لكانت فلا جناح عليه، ان لا يطوف بهما، إنما انزلت هذه الآية في الانصار، كانوا يهلون لمناة، وكانت مناة حذو قديد وكانوا يتحرجون، ان يطوفوا بين الصفا، والمروة، فلما جاء الإسلام سالوا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فانزل الله تبارك وتعالى: إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما سورة البقرة آية 158" حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، وَأَنَا يَوْمَئِذٍ حَدِيثُ السِّنِّ، أَرَأَيْتِ قَوْلَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا سورة البقرة آية 158 فَمَا عَلَى الرَّجُلِ شَيْءٌ أَنْ لَا يَطَّوَّفَ بِهِمَا، فَقَالَتْ عَائِشَةُ : " كَلَّا لَوْ كَانَ كَمَا تَقُولُ لَكَانَتْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ، أَنْ لَا يَطَّوَّفَ بِهِمَا، إِنَّمَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي الْأَنْصَارِ، كَانُوا يُهِلُّونَ لِمَنَاةَ، وَكَانَتْ مَنَاةُ حَذْوَ قُدَيْدٍ وَكَانُوا يَتَحَرَّجُونَ، أَنْ يَطُوفُوا بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، فَلَمَّا جَاءَ الْإِسْلَامُ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا سورة البقرة آية 158"
حضرت عروہ بن زبیر نے کہا کہ میں نے پوچھا اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے: دیکھو اللہ جل جلالہُ فرماتا ہے: ”بے شک صفا اور مروہ اللہ پاک کی نشانیوں میں سے ہیں، سو جو حج کرے خانۂ کعبہ کا یا عمرہ کرے تو کچھ گناہ نہیں ہے اس پر سعی کرنے میں درمیان ان دونوں کے۔“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر سعی نہ کرے تب بھی بُرا نہیں ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ ہرگز ایسا نہیں، اگر جیسا تم سمجھتے ہو ویسا ہوتا (یعنی سعی نہ کرنا بُرا نہ ہوتا) تو اللہ جل جلالہُ یوں فرماتا کہ گناہ ہے اس پر سعی نہ کرنے میں صفا اور مروہ کے درمیان، اور یہ آیت تو انصار کے حق میں اُتری ہے، وہ لوگ حج کیا کرتے تھے منات کے واسطے (منات ایک بت کا نام ہے جس کو عرب لوگ پوجتے تھے قبل اسلام کے) اور منات مقابل قدید کے تھا (قدید ایک قریہ کا نام ہے درمیان میں مکہ اور مدینہ کے، منات اس کے سامنے تھا) وہ لوگ صفا اور مروہ کے بیچ میں سعی کرنا بُرا سمجھتے تھے، جب دینِ اسلام سے مشرف ہوئے تو انہوں نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو، اس وقت اللہ جل شانہُ نے اُتارا کہ ”صفا اور مروہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، جو شخص حج کرے خانۂ کعبہ کا یا عمرہ کرے تو سعی کرنا گناہ نہیں ہے درمیان میں ان دونوں کے۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1643، 1790، 4495، 4861، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1277، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2766، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3839، 3840، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 3087، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2970، 2971، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3946، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1901، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2965، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2986، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9452، 9453، وأحمد فى «مسنده» برقم: 25752، 25935، 26545، والحميدي فى «مسنده» برقم: 221، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 4638، 5052، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 129»
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن هشام بن عروة ، ان سودة بنت عبد الله بن عمر كانت عند عروة بن الزبير، فخرجت تطوف بين الصفا، والمروة في حج او عمرة ماشية، وكانت امراة ثقيلة، فجاءت حين انصرف الناس من العشاء، فلم تقض طوافها حتى نودي بالاولى من الصبح، فقضت طوافها فيما بينها وبينه، وكان عروة إذا رآهم يطوفون على الدواب ينهاهم اشد النهي. فيعتلون بالمرض حياء منه، فيقول لنا، فيما بيننا وبينه: " لقد خاب هؤلاء وخسروا" . وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، أَنَّ سَوْدَةَ بِنْتَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ كَانَتْ عِنْدَ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، فَخَرَجَتْ تَطُوفُ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ مَاشِيَةً، وَكَانَتِ امْرَأَةً ثَقِيلَةً، فَجَاءَتْ حِينَ انْصَرَفَ النَّاسُ مِنَ الْعِشَاءِ، فَلَمْ تَقْضِ طَوَافَهَا حَتَّى نُودِيَ بِالْأُولَى مِنَ الصُّبْحِ، فَقَضَتْ طَوَافَهَا فِيمَا بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ، وَكَانَ عُرْوَةُ إِذَا رَآهُمْ يَطُوفُونَ عَلَى الدَّوَابِّ يَنْهَاهُمْ أَشَدَّ النَّهْيِ. فَيَعْتَلُّونَ بِالْمَرَضِ حَيَاءً مِنْهُ، فَيَقُولُ لَنَا، فِيمَا بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ: " لَقَدْ خَابَ هَؤُلَاءِ وَخَسِرُوا" .
حضرت ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ حضرت سودہ بیٹی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی، نکاح میں تھیں حضرت عروہ بن زبیر کے، ایک روز وہ نکلیں سعی کرنے کو صفا اور مروہ کے بیچ میں، حج یا عمرہ میں پیدل، اور وہ ایک موٹی عورت تھیں، تو آئیں سعی کرنے کو جب لوگ فارغ ہوئے عشاء کی نماز سے، اور سعی ان کی پوری نہیں ہوئی تھی کہ اذان ہوگئی صبح کی، پھر انہوں نے پوری کی سعی اپنی اس درمیان میں، اور حضرت عروہ جب لوگوں کو دیکھتے تھے کہ سوار ہو کر سعی کرتے ہیں تو نہایت منع کرتے تھے۔ وہ لوگ بیماری کا حیلہ کرتے تھے حضرت عروہ کی شرم سے۔ تو حضرت عروہ کہتے تھے ہم سے اپنے لوگوں کے آپس میں: ان لوگوں نے نقصان پایا، مراد کو نہ پہنچے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه البيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 2992، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 13306، 13314، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 130»
قال مالك: من نسي السعي بين الصفا، والمروة في عمرة، فلم يذكر حتى يستبعد من مكة، انه يرجع، فيسعى، وإن كان قد اصاب النساء، فليرجع، فليسع بين الصفا، والمروة حتى يتم ما بقي عليه من تلك العمرة، ثم عليه عمرة اخرى، والهدي. قَالَ مَالِك: مَنْ نَسِيَ السَّعْيَ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ فِي عُمْرَةٍ، فَلَمْ يَذْكُرْ حَتَّى يَسْتَبْعِدَ مِنْ مَكَّةَ، أَنَّهُ يَرْجِعُ، فَيَسْعَى، وَإِنْ كَانَ قَدْ أَصَابَ النِّسَاءَ، فَلْيَرْجِعْ، فَلْيَسْعَ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ حَتَّى يُتِمَّ مَا بَقِيَ عَلَيْهِ مِنْ تِلْكَ الْعُمْرَةِ، ثُمَّ عَلَيْهِ عُمْرَةٌ أُخْرَى، وَالْهَدْيُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص سعی صفا مروہ کے درمیان میں، بھول جائے عمرہ میں۔ پھر یاد نہ آئے یہاں تک کہ مکہ سے دور ہو جائے، تو وہ لوٹے اور سعی کرے، اور جو جماع کر چکا ہو عورت سے تو لوٹ کر سعی کرے پھر دوسرا عمرہ کرے اور ہدی دے۔
وسئل مالك، عن الرجل يلقاه الرجل بين الصفا، والمروة، فيقف معه يحدثه، فقال: لا احب له ذلك وَسُئِلَ مَالِك، عَنِ الرَّجُلِ يَلْقَاهُ الرَّجُلُ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، فَيَقِفُ مَعَهُ يُحَدِّثُهُ، فَقَالَ: لَا أُحِبُّ لَهُ ذَلِكَ
امام مالک رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ ایک شخص سعی کرتے میں کھڑا ہو کر کسی سے باتیں کرنے لگے تو کیسا ہے؟ جواب دیا کہ مجھ کو یہ پسند نہیں ہے۔
قال مالك: ومن نسي من طوافه شيئا، او شك فيه، فلم يذكر إلا وهو يسعى بين الصفا، والمروة، فإنه يقطع سعيه، ثم يتم طوافه بالبيت على ما يستيقن، ويركع ركعتي الطواف، ثم يبتدئ سعيه بين الصفا، والمروة قَالَ مَالِك: وَمَنْ نَسِيَ مِنْ طَوَافِهِ شَيْئًا، أَوْ شَكَّ فِيهِ، فَلَمْ يَذْكُرْ إِلَّا وَهُوَ يَسْعَى بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، فَإِنَّهُ يَقْطَعُ سَعْيَهُ، ثُمَّ يُتِمُّ طَوَافَهُ بِالْبَيْتِ عَلَى مَا يَسْتَيْقِنُ، وَيَرْكَعُ رَكْعَتَيِ الطَّوَافِ، ثُمَّ يَبْتَدِئُ سَعْيَهُ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: ایک شخص طواف میں کوئی پھیرا بھول گیا، یا اس کو شک ہوا، پھر سعی کر تے میں یاد آیا تو وہ سعی کو موقوف کر کے پہلے طواف کرے، اور دوگانہ طواف پڑ ھے، پھر سرے سے سعی شروع کرے۔
وحدثني، عن مالك، عن جعفر بن محمد ، عن ابيه ، عن جابر بن عبد الله ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كان إذا نزل من الصفا، والمروة مشى حتى إذا انصبت قدماه في بطن الوادي، سعى حتى يخرج منه" . وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَانَ إِذَا نَزَلَ مِنْ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ مَشَى حَتَّى إِذَا انْصَبَّتْ قَدَمَاهُ فِي بَطْنِ الْوَادِي، سَعَى حَتَّى يَخْرُجَ مِنْهُ" .
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا اور مروہ میں جب آتے تو معمولی چال سے چلتے، جب وادی کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم آتے تو ڈوڑ کر چلتے یہاں تک کہ وادی سے نکل جاتے۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1557، 1568، 1570، 1651، 1785، 2505، 4352، 7230، 7367، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1218، 1213، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1677، 1697، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2984، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1785، 1905، والترمذي فى «جامعه» برقم: 862، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1882، 1892، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1008، 1074، 2919، 3074، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 400، 401، وأحمد فى «مسنده» برقم: 11942، 14332، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1304، 1305، 1306، 1325، 1330، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 131»
قال مالك في رجل جهل فبدا بالسعي بين الصفا، والمروة قبل ان يطوف بالبيت، قال: ليرجع، فليطف بالبيت، ثم ليسع بين الصفا، والمروة، وإن جهل ذلك حتى يخرج من مكة، ويستبعد فإنه يرجع إلى مكة، فيطوف بالبيت، ويسعى بين الصفا، والمروة، وإن كان اصاب النساء رجع، فطاف بالبيت، وسعى بين الصفا، والمروة حتى يتم ما بقي عليه من تلك العمرة، ثم عليه عمرة اخرى، والهدي قَالَ مَالِك فِي رَجُلٍ جَهِلَ فَبَدَأَ بِالسَّعْيِ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ قَبْلَ أَنْ يَطُوفَ بِالْبَيْتِ، قَالَ: لِيَرْجِعْ، فَلْيَطُفْ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ لِيَسْعَ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، وَإِنْ جَهِلَ ذَلِكَ حَتَّى يَخْرُجَ مِنْ مَكَّةَ، وَيَسْتَبْعِدَ فَإِنَّهُ يَرْجِعُ إِلَى مَكَّةَ، فَيَطُوفُ بِالْبَيْتِ، وَيَسْعَى بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، وَإِنْ كَانَ أَصَابَ النِّسَاءَ رَجَعَ، فَطَافَ بِالْبَيْتِ، وَسَعَى بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ حَتَّى يُتِمَّ مَا بَقِيَ عَلَيْهِ مِنْ تِلْكَ الْعُمْرَةِ، ثُمَّ عَلَيْهِ عُمْرَةٌ أُخْرَى، وَالْهَدْيُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ایک شخص نے نادانی سے سعی کی قبل طواف کے، تو وہ لوٹے اور طواف کرے، پھر سعی دوبارہ کرے، اور جو وہ مکہ سے چلا گیا ہو اور دور نکل گیا ہو، تب بھی لوٹے اور طواف کرے پھر سعی کرے، اگر اس نے جماع کر لیا عورت سے، تو لوٹے اور طواف اور سعی ادا کر کے پھر دوسرا عمرہ کرے اور ہدی دے۔