حدثني يحيى، عن مالك، انه بلغه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " عرفة كلها موقف، وارتفعوا عن بطن عرنة، والمزدلفة كلها موقف، وارتفعوا عن بطن محسر" حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " عَرَفَةُ كُلُّهَا مَوْقِفٌ، وَارْتَفِعُوا عَنْ بَطْنِ عُرَنَةَ، وَالْمُزْدَلِفَةُ كُلُّهَا مَوْقِفٌ، وَارْتَفِعُوا عَنْ بَطْنِ مُحَسِّرٍ"
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عرفات تمام ٹھہرنے کی جگہ ہے مگر بطنِ عرنہ میں نہ ٹھہرو، اور مزدلفہ تمام ٹھہرنے کی جگہ ہے مگر بطنِ محسر میں نہ ٹھہرو۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه مسلم 1218، و ابن ماجه: 3012، 3048، و أبو داود: 1907، و النسائي: 3018، 3048، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 166»
وحدثني، عن مالك، عن هشام بن عروة ، عن عبد الله بن الزبير ، انه كان يقول: " اعلموا ان عرفة كلها موقف إلا بطن عرنة، وان المزدلفة كلها موقف، إلا بطن محسر" . وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: " اعْلَمُوا أَنَّ عَرَفَةَ كُلَّهَا مَوْقِفٌ إِلَّا بَطْنَ عُرَنَةَ، وَأَنَّ الْمُزْدَلِفَةَ كُلَّهَا مَوْقِفٌ، إِلَّا بَطْنَ مُحَسِّرٍ" .
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے تھے: جانو تم کہ عرفات سارا ٹھہرنے کی جگہ ہے مگر بطنِ عرنہ، اور مزدلفہ سارا ٹھہرنے کی جگہ ہے مگر بطنِ محسر۔
قال مالك: قال الله تبارك وتعالى:«فلا رفث ولا فسوق ولا جدال في الحج» (سورة البقرة آية 197)، قال: فالرفث إصابة النساء والله اعلم، قال الله تبارك وتعالى: «احل لكم ليلة الصيام الرفث إلى نسائكم» (سورة البقرة آية 187)، قال: والفسوق الذبح للانصاب والله اعلم، قال الله تبارك وتعالى:«او فسقا اهل لغير الله به» (سورة الانعام آية 145)، قال: والجدال في الحج ان قريشا كانت تقف عند المشعر الحرام، بالمزدلفة، بقزح وكانت العرب وغيرهم يقفون بعرفة، فكانوا يتجادلون، يقول هؤلاء: نحن اصوب، ويقول هؤلاء: نحن اصوب، فقال الله تعالى: «لكل امة جعلنا منسكا هم ناسكوه فلا ينازعنك في الامر وادع إلى ربك إنك لعلى هدى مستقيم» (سورة الحج آية 67)، فهذا الجدال فيما نرى والله اعلم، وقد سمعت ذلك من اهل العلمقَالَ مَالِك: قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى:«فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ وَلا جِدَالَ فِي الْحَجِّ» (سورة البقرة آية 197)، قَالَ: فَالرَّفَثُ إِصَابَةُ النِّسَاءِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ، قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: «أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ» (سورة البقرة آية 187)، قَالَ: وَالْفُسُوقُ الذَّبْحُ لِلْأَنْصَابِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ، قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى:«أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ» (سورة الأنعام آية 145)، قَالَ: وَالْجِدَالُ فِي الْحَجِّ أَنَّ قُرَيْشًا كَانَتْ تَقِفُ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ، بِالْمُزْدَلِفَةِ، بِقُزَحَ وَكَانَتْ الْعَرَبُ وَغَيْرُهُمْ يَقِفُونَ بِعَرَفَةَ، فَكَانُوا يَتَجَادَلُونَ، يَقُولُ هَؤُلَاءِ: نَحْنُ أَصْوَبُ، وَيَقُولُ هَؤُلَاءِ: نَحْنُ أَصْوَبُ، فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: «لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ فَلا يُنَازِعُنَّكَ فِي الأَمْرِ وَادْعُ إِلَى رَبِّكَ إِنَّكَ لَعَلَى هُدًى مُسْتَقِيمٍ» (سورة الحج آية 67)، فَهَذَا الْجِدَالُ فِيمَا نُرَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ، وَقَدْ سَمِعْتُ ذَلِكَ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے کہ فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ نے: «﴿فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ﴾ [البقرة: 197] »”نہ رفث ہے، نہ فسق ہے، نہ جھگڑا ہے حج میں۔“ تو «رفث» کے معنی جماع کے ہیں، اور اللہ خوب جانتا ہے۔ فرمایا اللہ تبارک وتعالیٰ نے: «﴿أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ﴾ [البقرة: 187] »”حلال ہے تمہارے لئے روزوں کی رات میں جماع اپنی عورتوں سے۔“ یہاں پر رفث سے جماع مراد ہے۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اور فسق سے مراد ذبح کرنا ہے جانوروں کا واسطے بتوں کے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے: «﴿أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهِ﴾ [الأنعام: 145] »”یا فسق یہ ہے کہ پکارا جانور پر سوا اللہ کے اور کسی کا نام۔“ اور جھگڑا یہ ہے کہ قریش مزدلفہ میں قزح کے پاس ٹھہر تے تھے، اور باقی سب عرفات میں اترتے تھے، تو دونوں فرقے آپس میں لڑتے تھے، جھگڑتے تھے، یہ کہتے تھے: ہم سیدھی راہ اور ٹھیک راستے پر ہیں۔ وہ کہتے تھے: ہم صحیح طریقے پر ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «﴿لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ، فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْأَمْرِ وَادْعُ إِلَى رَبِّكَ إِنَّكَ لَعَلَى هُدًى مُسْتَقِيمٍ﴾ [الحج: 67] » یعنی ”ہم نے ہر گروہ کے لیے ایک طریقہ کر دیا وہ اس پر چلتے ہیں، تو نہ جھگڑیں تجھ سے دین میں، اور بلا تو اپنے پروردگار کی طرف، بے شک تو سیدھی راہ پر ہے۔“ تو حج میں جھگڑنے کے یہی معنی ہیں۔ (واللہ اعلم)، اور میں نے سنا ہے یہ اہلِ علم سے۔