كِتَابُ الْحَجِّ کتاب: حج کے بیان میں 39. بَابُ وَدَاعِ الْبَيْتِ خانہ کعبہ سے رخصت ہونے کا بیان
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کوئی حاجی مکہ سے نہ لوٹے یہاں تک کہ طواف کر لے خانۂ کعبہ کا، کیونکہ آخری عبادت یہی طواف کرنا خانۂ کعبہ کا ہے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9851، 9747، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3097، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 4762، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 13340، 13774، 14852، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 120»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آخری عبادت طواف ہے خانۂ کعبہ کا، اس سے مقصود یہ ہے کہ اللہ جل جلالہُ فرماتا ہے: ”جو شخص تعظیم کرے اللہ جل جلالہُ کی نشانیوں کی تو یہ دلوں کے خوف کی وجہ سے ہے۔“ پھر فرماتا ہے: ”بازگشت ان کی خانۂ کعبہ کی طرف ہے۔“ تو تمام ارکان اور عباداتِ حج کی انتہاء خانۂ کعبہ پر ہے۔
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 120»
حضرت یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو مر الظہران سے (ایک موضع ہے مکہ سے اٹھارہ میل کے فاصلے پر) پھیر دیا، اس واسطے کہ اس نے طواف الوداع نہیں کیا تھا۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9748، 9853، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3098، والشافعي فى «الاُم» برقم: 238/7، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 121»
حضرت عروہ بن زبیر نے کہا کہ جس شخص نے طواف الافاضہ (طواف الزیارہ) ادا کیا اس کا حج اللہ نے پورا کر دیا۔ اب اگر اس کا کوئی امر مانع نہیں آیا تو چاہیے کہ رخصت کے وقت طواف الوداع کرے، اور اگر کوئی مانع یا عارضہ درپیش ہو تو حج تو پورا ہو چکا۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، انفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 122»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص کو یہ مسئلہ طواف الوداع کا معلوم نہ تھا، اور وہ بدون طواف الوداع کیے ہوئے مکہ سے واپس چلا گیا، تو اس پر لوٹ آنا لازم نہیں، مگر اس صورت میں کہ قریب ہو مکہ سے، تو لوٹ آئے اور طواف کرے بشرطیکہ طواف الزیارۃ کر چکا ہو۔
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 122»
|