كِتَاب الْحَجِّ حج کے احکام و مسائل 49. باب اسْتِحْبَابِ تَقْدِيمِ دَفْعِ الضَّعَفَةِ مِنَ النِّسَاءِ وَغَيْرِهِنَّ مِنْ مُزْدَلِفَةَ إِلَى مِنًى فِي أَوَاخِرِ اللَّيَالِي قَبْلَ زَحْمَةِ النَّاسِ وَاسْتِحْبَابِ الْمُكْثِ لِغَيْرِهِمْ حَتَّى يُصَلُّوا الصُّبْحَ بِمُزْدَلِفَةَ: باب: ضعیفوں اور عورتوں کو لوگوں کے جمگھٹے سے پہلے رات کے آخری حصہ میں مزدلفہ سے منیٰ روانہ کرنے کا استحباب، اور ان کے علاوہ لوگوں کو مزدلفہ میں ہی صبح کی نماز پڑھنے تک ٹھہرنے کا استحباب۔
فلح، یعنی ابن حمید نے قاسم سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: مزدلفہ کی رات حضرت سودہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے، اور لوگوں کا اذدھام ہونے سے پہلے پہلے (منیٰ) چلی جائیں۔اور وہ تیزی سے حرکت نہ کرسکنے والی خاتون تھیں۔قاسم نے کہا: ثبطہ بھاری جسم والی عورت کو کہتے ہیں۔کہا، (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:) آپ نے انھیں اجازت دے دی۔وہ آپ کی روانگی سے پہلے ہی نکل پڑیں اور ہمیں آپ نے روکے رکھا یہاں تک کہ ہم نے (وہیں) صبح کی، اور آپ کی روانگی کے ساتھ ہی ہم روانہ ہوئیں۔اگر میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجاز ت لے لیتی، جیسے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے اجازت لی تھی۔اور یہ کہ (ہمیشہ) آ پ کی اجازت سے (جلد) روانہ ہوتی تو یہ میرے لئے ہر خوش کرنے والی چیز سے زیادہ پسندیدہ ہوتا۔
ایوب نے عبدالرحمان بن قاسم سے حدیث بیا ن کی، انھوں نے قاسم سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بڑی (اور) بھاری جسم والی خاتون تھیں، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی کہ وہ رات ہی کو مزدلفہ سے روانہ ہوجایئں، تو آپ نے انھیں اجازت دے دی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کاش جیسے سودہ رضی اللہ عنہا نے اجازت لی، میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لی ہوتی۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا (صبح کو باقی لوگوں کی طرح) امیر (حج) کے ساتھ ہی واپس لوٹا کرتی تھیں۔
عبیداللہ بن عمر نے عبدالرحمان بن قاسم سے حدیث بیان کی، انھوں نے قاسم سے، اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: میری آرزو تھی کہ جیسے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے اجازت لی تھی، میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لی ہوتی، میں بھی صبح کی نماز منیٰ میں ادا کیاکرتی اور لوگوں کے منیٰ آنے سے پہلے جمرہ (عقبہ) کو کنکریاں مارلیتی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا گیا: (کیا) حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے اجازت لی تھی؟انھوں نے کہا: ہاں۔وہ بھاری کم حرکت کرسکنے والی خاتون تھیں۔انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اجازت دے دی۔
سفیان (ثوری) نے عبدالرحمان بن قاسم سےاسی سند کے ساتھ اسی کے ہم معنی روایت بیان کی۔
یحییٰ قطا ن نے ہمیں ابن جریج سے حدیث بیان کی، (کہا:) اسما رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام عبد اللہ نے مجھ سے حدیث بیان کی کہا: حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے جب وہ مزدلفہ کے (اندر بنے ہو ئے مشہور) گھر کے پاس ٹھہری ہو ئی تھیں، مجھ سے پوچھا: کیا چا ند غروب ہو گیا؟ میں نے عرض کی: نہیں، انھوں نے گھڑی بھر نماز پڑھی، پھر کہا: بیٹے!کیا چاندغروب ہو گیا ہے؟ میں نے عرض کی، جی ہاں۔انھوں نے کہا: مجھے لے چلو۔ تو ہم روانہ ہو ئے حتی کہ انھوں نے جمرہ (عقبہ) کو کنکریاں ماریں پھر (فجر کی) نماز اپنی منزل میں ادا کی۔تو میں نے ان سے عرض کی: محترمہ!ہم را ت کے آخری پہر میں (ہی) روانہ ہو گئے۔انھوں نے کہا: بالکل نہیں، میرے بیٹے!نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں کو (پہلے روانہ ہو نے کی) اجا زت دی تھی۔
عیسیٰ بن یو نس نے ابن جریج سے اسی سند کے ساتھ (یہی) روایت بیان کی اور ان کی روایت میں ہے انھوں (اسماء رضی اللہ عنہا) نے کہا: نہیں میرے بیٹے! نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی عورتوں (اور بچوں) کو اجا زت ی تھی۔
ابن جریج سے روایت ہے (کہا:) مجھے عطاء نے خبر دی کہ انھیں ابن شوال نے خبردی کہ وہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پا س حا ضر ہو ئے انھوں نے ان کو بتا یا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انھیں مزدلفہ سے رات ہی کو روانہ کر دیا تھا۔
ابو بکر بن ابی شیبہ اور عمرو ناقد نے سفیان بن عیینہ کے حوالے سے عمرو بن دینار سے حدیث بیا ن کی، انھوں نے سالم بن شوال سے اور انھوں نے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: ہم (خواتین) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبا رک میں یہی کرتی تھیں (کہ) ہم رات کے آخری پہر میں جمع (مزدلفہ) سے منیٰ کی طرف روانہ ہو جا تی تھیں۔
حماد بن زید نے ہمیں عبید اللہ بن ابی یزید سے خبر دی انھوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مزدلفہ سے (اونٹوں پر لد ے) بو جھ۔۔۔یا کہا: کمزور افرا د۔۔۔کے ساتھ را ت ہی روانہ کر دیا تھا۔
ہم سے سفیان بن عیینہ نے حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں عبید اللہ بن ابی یزید نے خبر دی کہ انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: میں ان لوگوں میں سے تھا جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے گھر کے کمزور افراد میں (شامل کرتے ہو ئے) پہلے روانہ کر دیا تھا۔
عطاء نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: ان لوگوں میں سے تھا جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے گھر کے کمزور افراد میں (شامل کرتے ہو ئے) پہلے روانہ کر دیا تھا۔
ہمیں ابن جریج نے خبر دی کہا: مجھے عطا ء نے بتا یا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سحر کے وقت مزدلفہ سے اونٹوں پر لدے بوجھ کے ساتھ (جس میں کمزور افراد بھی شامل ہو تے ہیں) روانہ کر دیا (ابن جریج نے کہا:) میں نے عطاء سے) کہا: کیا آپ کو یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نےکہا: آپ مجھے لمبی رات (کے وقت) روانہ کر دیا تھا؟انھوں نے کہا: نہیں صرف یہی (کہا:) کہ سحر کے وقت روانہ کیا۔میں نے ان سے کہا: (کیا) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے (یہ بھی) کہا: ہم نے فجر سے پہلے جمرہ عقبہ کو کنکریاں ماریں؟ اور انھوں نے فجر کی نماز کہاں ادا کی تھی؟ انھوں نے کہا: مہیں (مجھ سے) صرف یہی الفا ظ کہے۔)
سالم بن عبد اللہ نے خبر دی کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنے گھر کے کمزور افراد کو پہلے روانہ کر دیتے تھے۔وہ لوگ رات کو مزدلفہ میں مشعر حرام کے پاس ہی وقوف کرتے، اور جتنا میسر ہو تا اللہ کا ذکر کرتے، اس کے بعد وہ امام کے مشعر حرام کے سامنے وقوف اور اس کی روانگی سے پہلے ہی روانہ ہو جا تے۔ان میں سے کچھ فجر کی نماز اداکرنے) کے لیے منیٰ آجا تے اور کچھ اس کے بعد آتے۔پھر جب وہ (سب لو گ منیٰ آجا تے تو جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارتے۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان (کمزور لوگوں) کو رخصت دی ہے۔
|