نعیم بن ابی ہند نے ربعی بن حراش سے اور انہوں نےحضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم میں کون ہمیں بتائے گا (اور ان میں حذیفہ رضی اللہ عنہ موجود تھے) جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنے کے بارے میں فرمایا تھا؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں۔ آگے ابو مالک کی وہی روایت بیان کی ہے جو انہوں نے ربعی سے بیان کی اور اس میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول بھی بیان کیا کہ میں نے انہیں حدیث سنائی تھی، مغالطے میں ڈالنے والی باتیں نہیں، یعنی وہ حدیث رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے تھی۔
حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہےکہ عمر ؓ نے پوچھا: ”کوئی ہمیں سنائے گا، یا تم میں سے کون ہمیں وہ روایت سنائے گا جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنہ کے بارے میں فرمائی تھی۔“ حذیفہ ؓ نے کہا: میں! آگے ابو مالکؒ کی ربعیؒ سے حدیث کی طرح بیان کی اور حدیث میں یہ بھی بیان کیا، میں نے اسے حدیث سنائی تھی، معمّہ نہیں، مقصد یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث تھی (اپنی بات نہیں)۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 144
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (367)»
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 371
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : (1) فِتْنَةٌ: آزمائش، امتحان اور ابتلاء۔ اہل و مال کے فتنہ سے مراد ہے، ان کی محبت یا ان کے ساتھ مصروفیت کی بنا پر، نیک کاموں سے محروم ہو جانا، اور ان کی خاطر غلط کام کر بیٹھنا یا اہل کے حقوق، ان کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی کرنا ہے۔ اور پڑوسی کا فتنہ یہ ہے کہ اس کے حقوق ادا نہ کرنا یا اس کی خاطر غلط قدم اٹھانا، جائز و ناجائز ہر صورت میں اس کا ساتھ دینا۔ (2) الَّتِي تَمُوجُ مَوْجَ الْبَحْرِ: سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مارے گا، یعنی وہ فتنہ جو عام ہو گا، سب لوگ اس کا شکار ہوں گے انفرادی یا شخصی نہیں ہو گا۔ (3) فَأَسْكَتَ الْقَوْمُ: لوگوں نے خاموشی سے سر جھکا لیا۔ (4) لِلَّهِ أَبُوكَ: عربی محاورہ ہے، جو اس وقت استعمال ہوتا ہے، جب کوئی انسان قابل تعریف کام کرے، چونکہ اس میں والد کی تعلیم و تربیت کا اثر ہوتا ہے، اس لیے باپ کی تعظیم و تکریم کی خاطر، باپ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کر دی جاتی ہے۔ (5) تُعْرَضُ الْفِتَنُ: فتنے سامنے آتے ہیں، دل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ (6) عُودًا عُودًا: یکے بعد دیگرے، تسلسل کے ساتھ، جس طرح چٹائی، ایک ایک تنکے کو آپس میں ملا کر بنائی جاتی ہے۔ (7) فَأَيُّ قَلْبٍ أُشْرِبَهَا: جس دل میں پانی کی طرح سرایت کر گئے، جاگزیں ہو گئے، اس نے ان کے اثر کو قبول کر لیا۔ (8) مِثْلِ الصَّفَا: چکنے پتھر یا چٹان کی طرح پختہ و مضبوط، جس کے ساتھ کوئی چیز چمٹتی نہیں ہے۔ (9) مُرْبَادًّا: سیاہ رنگ جس میں معمولی سفیدی ہو۔ (10) مُجَخِّيًا: ایک طرف جھکا ہوا، یا الٹا ہوا۔ (11) لَا أَبَا لَكَ: ایک عربی محاورہ ہے کہ تمہاری نصرت و حمایت کرنے والا کوئی نہیں ہے، اس لیے بات پورے اہتمام اور اعتماد سے کرو۔ (12) أَغَالِيط: أَغْلُوْطٌ کی جمع ہے، پہیلی، معمہ۔ فوائد ومسائل: (1) انسان خطا کار ہے، اس سے مختلف اوقات میں مختلف قسم کے گناہ سر زد ہوتے رہتے ہیں، اس لیے وہ ہر قسم کی عبادات کی ادائیگی کا محتاج ہے، تاکہ مختلف عبادات سے مختلف قسم کے قصور معاف ہوتے رہیں۔ گناہ اگر شخصی وانفرادی سطح کے ہوں گے اور ان کا دائرہ اثر محدود ہوگا، جس کی بنا پر دل بھی کم متاثر ہوگا، تو محض نیکی سے وہ گناہ مٹ جائیں گے۔ اگر گناہ، اجتماعی اور معاشرتی سطح پر ہوں گے اور ان کا دائرہ اثر وسیع ہوگا جس کی بنا پر دل پر اثر بھی زیادہ ہوگا تو وہ محض نیکی سے معاف نہیں ہوں گی، ان کی معافی کے لیے توبہ اور استغفار کی ضرورت ہوگی۔ (2) اللہ تعالیٰ انسان کو آہستہ آہستہ آزماتا ہے، فورا سخت یا شدید امتحان میں مبتلا نہیں کرتا، جو لوگ چھوٹے چھوٹے گناہوں میں ملوث ہونا شروع ہو جاتے ہیں، وہ آہستہ آہستہ بڑے گناہوں کا شکار ہوجاتے ہیں، اور ان کا دل آہستہ آہستہ کالا ہونا شروع وہ جاتا ہے، اور انجام کار بالکل سیاہ ہو جاتا ہے اور نیکی وبدی میں امتیاز کرنے کی صلاحیت ہی ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن جو لوگ آغاز سے گناہوں سے احتراز کرتے ہیں، اگر سرزد ہوجائے تو نیکی یا توبہ سے اس کا اثر زائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کا دل صاف شفاف رہتا ہے اور نیکی وبدی میں امتیاز کرتا ہے، گناہوں کے زنگ کر چڑھنے نہیں دیتا۔ (3) حضور اکرم ﷺ نے امت کے آغاز کے دور میں ہی عمومی واجتماعی فتوں کے سر اٹھانے کی پیشین گوئی فرمائی تھی، اور حضرت عمرؓ کو ان فتنوں کے سامنے بند دروازہ قرار دیا تھا، جو فتنوں کے پھیلاؤ میں رکاوٹ کا مضبوط بند تھا، اور اس بند کا ٹوٹنا (شہادت) یہ فتنوں کے پھیلنے کی علامت تھی۔ عمرؓ کی شہادت کے بعد یہ بند ٹوٹ گیا اور امت اجتماعی اور عمومی فتنوں میں مبتلا ہونا شروع ہوگئی، حضرت عثمان کی شہادت سے اس میں شدت پیدا ہوگئی جس کا خمیازہ امت آج تک بھگت رہی ہے، اور امت کی وحدت اوراتفاق واتحاد کی کوئی صورت نہیں بن رہی، بلکہ دن بدن اختلاف وانتشار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نوٹ: ہندی نسخوں مٰں باب: ”اسلام کا آغاز غربت (اجنبیت میں ہوا) اور پھر اجنبی بنے گا اور دو مسجدوں (مکہ، مدینہ) کے درمیان سمٹ آئے گا۔ “ کا آغاز یہاں سے ہوا ہے اور صحیح بات یہی ہے، کبونکہ گزشتہ احادیث کا اس باب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔