64. باب رَفْعِ الأَمَانَةِ وَالإِيمَانِ مِنْ بَعْضِ الْقُلُوبِ وَعَرْضِ الْفِتَنِ عَلَى الْقُلُوبِ:
64. باب: بعض دلوں سے امانت اور ایمان کے اٹھ جانے کا، اور دلوں پر فتنوں کے آنے کا بیان۔
Chapter: The disappearance of honesty and faith from some hearts and the appearance of fitnah in some hearts
● صحيح البخاري | 7086 | حذيفة بن حسيل | الأمانة نزلت في جذر قلوب الرجال ثم علموا من القرآن ثم علموا من السنة وحدثنا عن رفعها قال ينام الرجل النومة فتقبض الأمانة من قلبه فيظل أثرها مثل أثر الوكت ثم ينام النومة فتقبض فيبقى فيها أثرها مثل أثر المجل كجمر دحرجته على رجلك فنفط فتراه منتبرا وليس فيه ش |
● صحيح البخاري | 7276 | حذيفة بن حسيل | الأمانة نزلت من السماء في جذر قلوب الرجال ونزل القرآن فقرءوا القرآن وعلموا من السنة |
● صحيح البخاري | 6497 | حذيفة بن حسيل | الأمانة نزلت في جذر قلوب الرجال ثم علموا من القرآن ثم علموا من السنة وحدثنا عن رفعها قال ينام الرجل النومة فتقبض الأمانة من قلبه فيظل أثرها مثل أثر الوكت ثم ينام النومة فتقبض فيبقى أثرها مثل المجل كجمر دحرجته على رجلك فنفط فتراه منتبرا وليس فيه شيء فيصبح |
● صحيح مسلم | 367 | حذيفة بن حسيل | الأمانة نزلت في جذر قلوب الرجال ثم نزل القرآن فعلموا من القرآن وعلموا من السنة ثم حدثنا عن رفع الأمانة قال ينام الرجل النومة فتقبض الأمانة من قلبه فيظل أثرها مثل الوكت ثم ينام النومة فتقبض الأمانة من قلبه فيظل أثرها مثل المجل كجمر دحرجته على رجلك فنفط فتر |
● جامع الترمذي | 2179 | حذيفة بن حسيل | الأمانة نزلت في جذر قلوب الرجال ثم نزل القرآن فعلموا من القرآن وعلموا من السنة ثم حدثنا عن رفع الأمانة فقال ينام الرجل النومة فتقبض الأمانة من قلبه فيظل أثرها مثل الوكت ثم ينام نومة فتقبض الأمانة من قلبه فيظل أثرها مثل أثر المجل كجمر دحرجته على رجلك فنفطت |
● سنن ابن ماجه | 4053 | حذيفة بن حسيل | الأمانة نزلت في جذر قلوب الرجال ونزل القرآن فعلمنا من القرآن وعلمنا من السنة ثم حدثنا عن رفعها فقال ينام الرجل النومة فترفع الأمانة من قلبه فيظل أثرها كأثر الكوكب وينام النومة فتنزع الأمانة من قلبه فيظل أثرها كأثر المجل كجمر دحرجته على رجلك فنفط فتراه منت |
● مسندالحميدي | 451 | حذيفة بن حسيل | أن الأمانة نزلت في جذر قلوب الرجال |
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 367
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
الْأَمَانَةُ:
دیانت یہاں مراد وہ ذمہ داری اور تکلیف ہے جس کا انسان مکلف ہے،
اور سورۃ احزاب کی اس آیت ﴿إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ ”ہم نے آسمانوں اور زمین پر ذمہ داری اور تکلیف پیش کی ہے۔
“ (2)
جَذْرِ قُلُوبِ الرِّجَالِ:
جذر جیم پر زبر اور زیر دونوں پڑھے جا سکتے ہیں،
یعنی جڑ اور اصل۔
(3)
الْوَكْتُ:
ہلکا نشان جو سیاہی مائل ہوتا ہے۔
(4)
مَجْلٌ:
میم پر زبر ہے اور جیم پر زیر اور سکون دونوں آ سکتے ہیں،
کلہاڑا یا کَسی وغیرہ سے کام کرنے کے نتیجہ میں جو آبلہ ہاتھوں پر ابھر آتا ہے۔
(5)
نَفِطَ:
فاء پر زیر ہے،
چمڑے اور گوشت کے درمیان پیدا ہونے والا پانی۔
(6)
مُنْتَبِرًا:
ابھرا ہوا،
اس سے منبر ہے۔
(7)
مَا أَجْلَدَهُ:
جلادۃ سے ماخوذ ہے،
صلاحیت و استحکام کو کہتے ہیں،
طاقتور اور صابر انسان یا عقلمند،
کس قدر بہادر اور دلیر ہے،
یا مضبوط اور طاقتور ہے،
یا ذہین و فطین ہے۔
(8)
مَا أَظْرَفَهُ:
ظرافت:
دانشمندی،
مہارت و حذاقت،
کس قدر حاذق،
ماہر ہے یا ہوشیار ہے۔
فوائد ومسائل:
(1)
پاس عہد اورتکلیف وذمہ داری کا احساس انسان کی فطرت اورسرشت میںرکھا گیا ہے،
اور انسان طبعی اور فطری طور پر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی الوہیت وربوبیت کا پابند سمجھتا ہے،
قرآن وسنت سے اس کو مزید تقویت اور تائید حاصل ہوتی ہے۔
(2)
آہستہ آہستہ انسان اپنی فطرت اور سرشت سے بٹتا جاتا ہے اور اس کی فطرت مسخ ہو جاتی ہے جس سے احساس ذمہ داری ختم ہوتا جاتا ہے،
اور دل میں سیاہی اور تاریکی طاری ہونا شروع ہوجاتی ہے،
او ر آخر کار یہ پاس عہد بالکل ختم ہوجاتا ہے اور اس آبلے کی طرح ہوجاتا ہے جس کے اندر کچھ نہیں ہوتا۔
آج کل لوگوں کی اکثریت کی یہی حالت ہے کہ ان کے اندر احساس ذمہ داری ختم ہوچکا ہے،
قرآن وسنت کی پابندی وپاسداری عملا دن بدل مفقود ہو رہی ہے اور ان کی دین میں مد معاملگی بڑھ رہی ہے۔
(3)
جب ذمہ داری اورتکلیف کی پاسدار ختم ہوگی تو انسان کی تعریف وتوصیف کا مدار،
علم وعمل یا تقویٰ ودیانت نہیں رہے گی،
بلکہ مال ودولت کی کثرت،
دلیری وشجاعت اورفصاحت وبلاغت وعہدہ ومنصب باعث مدح بنیں گے،
اور آج کل یہ صورت ہر جگہ دیکھی جاسکتی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 367
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6497
´آخر زمانہ میں دنیا سے امانت داری کا اٹھ جانا`
«. . . قَالَ: يَنَامُ الرَّجُلُ النَّوْمَةَ، فَتُقْبَضُ الْأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ . . .»
”. . . فرمایا کہ آدمی ایک نیند سوئے گا اور (اسی میں) امانت اس کے دل سے ختم ہو گی . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ: 6497]
� لغوی توضیح:
«جَذْر» اصل۔
«الْوكْت» کالا نقطہ۔
«الْمَجْل» چھالا، جو ہاتھ وغیرہ پر زیادہ کام کی وجہ سے نکل آتا ہے۔
«نَفِطَ» بڑا ہونا، بلند ہونا۔
«مُنْتَبراً» پھولا ہوا، بلند۔
فہم الحديث:
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ پیش گوئی آج ہمیں من و عن مکمل نظر آتی ہے کہ ہر طرف بےایمانی اور بد دیانتی کا بازار گرم ہے، جھوٹ فریب اور دھوکہ دہی عام ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں امانت و دیانت بالکل ختم ہو چکی ہے بلکہ امانت دار آج بھی موجود ہیں مگر آٹے میں نمک کے برابر، اکثریت بےایمانوں کی ہی ہے۔ «العياذ بالله»
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 87
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4053
´امانت کے ختم ہو جانے کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے دو حدیثیں بیان کیں، جن میں سے ایک تو میں نے دیکھ لی ۱؎ اور دوسری کا منتظر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ بیان فرمایا: ”امانت آدمیوں کے دلوں کی جڑ میں اتری (پیدا ہوئی)، (طنافسی نے کہا: یعنی آدمیوں کے دلوں کے بیچ میں اتری) اور قرآن کریم نازل ہوا، تو ہم نے قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کی ۲؎، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت کے اٹھ جانے کے متعلق ہم سے بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی رات کو سوئے گا تو امانت اس کے دل سے اٹھا لی جائے گی، (اور جب وہ صبح ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4053]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دیانت داری مسلمان کے کردار کی ایک اہم صفت ہے۔
(2)
سوتے ہوئے دل سے دیانت داری کا وصف ختم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں میں یہ صفت بہت تیزی سے معدوم ہوتی چلی جائے گی حتی کہ جو شخص پہلے دیانت دار تھا ایک ہی وقت میں وہی بددیانت بن جائے گا۔
(3)
آبلےسے تشبیہ اس لیے دی گئی ہے کہ آبلہ پھولا ہوا ہونے کی وجہ سے بظاہر اہمیت کا حامل نظر آتاہے۔
حالانکہ وہ اندر سے خالی ہوتا ہے۔
اسی طرح لوگ بظاہر نیک ہوں گے لیکن ان کے دل نیکی خالی ہوں گے۔
(4)
غیر اسلامی معاشرے میں دھوکا فریب ایک خوبی سمجھا جاتا اور اس کی تعریف کی جاتی ہے۔
مسلمانوں کو ایسے نہیں ہونا چاہیے۔
(5)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ اب قابل اعتماد افراد بہت کم رہ گئے ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4053
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2179
´امانت کے اٹھا لیے جانے کا بیان۔`
حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو حدیثیں بیان کیں، جن میں سے ایک کی حقیقت تو میں نے دیکھ لی ۱؎، اور دوسری کا انتظار کر رہا ہوں، آپ نے فرمایا: ”امانت لوگوں کے دلوں کے جڑ میں اتری پھر قرآن کریم اترا اور لوگوں نے قرآن سے اس کی اہمیت قرآن سے جانی اور سنت رسول سے اس کی اہمیت جانی“ ۲؎، پھر آپ نے ہم سے امانت کے اٹھ جانے کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”آدمی (رات کو) سوئے گا اور اس کے دل سے امانت اٹھا لی جائے گی (اور جب وہ صبح کو اٹھے گا) تو اس کا تھوڑا سا اثر ایک نقطہٰ کی طرح دل میں رہ جائے گا، پھر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2179]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اس کا ظہور ہوچکا ہے اور قرآن وسنت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس امانت سے متعلق لوگوں کے دلوں میں مزید پختگی پیدا ہوئی،
اور اس سے متعلق ایمانداری اور بڑھ گئی ہے۔
2؎:
اس سے معلوم ہواکہ قرآن کی تشریح وتفسیرخود قرآن سے اورپھرسنت وحدیث نبوی سے سمجھنی چاہئے،
اسی طرح قرآن کے سمجھنے میں تیسرا درجہ فہم صحابہ ہےچوتھے درجہ میں تابعین وتبع تابعین ہیں جیسا کہ پیچھے حدیث (2156) سے بھی اس کا معنی واضح ہوتا ہے۔
3؎:
یعنی جس طرح جسم پر نکلے ہوئے پھوڑے کی کھال اس کے اچھا ہونے کے وقت موٹی ہوجاتی ہے اسی طرح امانت کا حال ہوگا،
گویا اس امانت کا درجہ اس امانت سے کہیں کم تر ہے جو ایک نقطہ کے برابر رہ گئی تھی،
کیوں کہ یہاں صرف نشان باقی رہ گیا ہے
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2179
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:451
451- سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو حدیثیں بیان کی تھیں، ان میں سے ایک میں دیکھ چکا ہوں اور دوسری کا انتظار کررہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی تھی: ”امانت لوگوں کے دلوں کے اندر نازل ہوئی پھر قرآن نازل ہوا تو لوگوں نے قرآن کا علم حاصل کیا اور انہوں نے سنت کا بھی علم حاصل کیا۔“ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امانت کے اٹھا لئے جانے کے بارے میں ہمیں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”آدمی سوئے گا، تو اس کے دل سے امانت کو اٹھا لیا جائے گا۔ پھر وہ سوئے گا، تو اس کے دل میں سے امانت کو اٹھا لیا جائے گا، یہاں تک کہ اس کا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:451]
فائدہ:
قرآن و حدیث کو علم کہا گیا ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت اس وجہ سے بیان ہوئی ہے کہ انہوں نے قرآن و حدیث کو اچھی طرح پڑھا اور وہ تمام امانت دار تھے، ان پر نکتہ چینی کرنا گمراہ لوگوں کا کام ہے۔ اس حدیث سے امانت کی اہمیت بھی ثابت ہوتی ہے، لوگوں میں یہ ختم ہو جائے گی، سبحان اللہ! اس کی علامت ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، دور دور تک امانت دار شخص نہیں مل رہا، سب پر ہوس وشہوت اور بے ایمانی سوار ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں امین بنائے، آمین۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 451
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6497
6497. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے دو حدیثیں بیان فرمائیں ان میں سے ایک کا ظہور میں دیکھ چکا ہوں اور دوسری کا انتظار کر رہا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”امانت لوگوں کے دلوں کی گہرائی میں اتری، پھر انہوں نے قرآن سے اس کی حیثیت کو معلوم کیا، پھر انہوں نے حدیث سے اس کی اہمیت کا پتہ چلایا۔“ آپ ﷺ نے ہم سے اس کے اٹھ جانے کے متعلق بھی بیان کیا، فرمایا: آدمی ایک بار سوئے گا کہ امانت اس کے دل سے ختم ہو جائے گی، صرف اس کا دھندلا سا نشان باقی رہے گا۔ پھر ایک اور نیند لے گا تو امانت اٹھالی جائے گی، صرف آبلے کی طرح اس کا ایک نشان باقی رہ جائے گا جیسے تو کوئلے کو اپنے پاؤں پر لڑھکائے اور وہ پھول جائے تو اسے ابھرا ہوا دیکھے گا لیکن اس کے اندر کچھ نہیں ہوتا۔ لوگ صبح کے وقت خرید وفروخت کریں گے تو ان کے ہاں کوئی بھی امانت دار نہیں ہوگا، کہا جائے گا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6497]
حدیث حاشیہ:
چند ہی آدمی اس قابل ہیں کہ ان سے معاملہ کروں۔
متن قسطانی میں یہاں اتنی عبارت اورزیادہ ہے۔
قال الفربري قال أبو جعفر حدثت أبا عبد اللہ فقال سمعت أبا أحمد بن عاصم ....یقول سمعت أبا عبید یقول قال الأصمعي وأبو عمرو و غیرهما جذر قلوب الرجال الجذر الأصل من کل شيئ والوکت أثر الشيئ الیسیر منه والمجل أثر والعمل في الکف إذا غلظ یعنی محمد بن یوسف فربری نے کہا ابو جعفر محمد بن حاتم جو امام بخاری کے منشی تھے ان کی کتابیں لکھا کرتے تھے، کہتے تھے کہ میں نے امام بخاری کو حدیث سنائی تو وہ کہنے لگے میں نے ابو احمد بن عاصم بلخی سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے ابو عبید سے سنا، وہ کہتے تھے عبدالملک بن قریب اصمعی اور ابو عمرو بن علاء قاہری وغیرہ لوگوں نے سفیان ثوری سے کہا جذر کا لفظ جو حدیث میں ہے اس کا معنیٰ جڑ اور وکت کہتے ہیں ہلکے خفیف داغ کو اور مجل وہ موٹا چھالا جو کام کرنے سے ہاتھ میں پڑ جاتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6497
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7086
7086. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں دو احادیث بیان کی تھیں، ان میں سے ایک کا تومیں نے مشاہدہ کر لیا ہے اور دوسری کا انتظار ہے۔ ہم سے آپ نے بیان کیا تھا کہ امانت لوگوں کے دلوں کی جڑ میں نازل ہوئی تھی، پھر انہوں نے اسے قرآن سے سیکھا، اس کے بعد سنت سے اس کی حقانیت کو معلوم کیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے ہم سے اس (امانت) کے اٹھ جانے کا ذکر کیا اور فرمایا: آدمی ایک بار سوئے گا تو امانت اس کے دل میں اس کا اثر ابھرے ہوئے آبلے کی طرح رہ جائے گا جس طرح آگ کے انگارے کو پاؤں پر لڑھکا دیا جائے اور وہ یوں اثر انداز ہوکر ابھرنے والا آبلہ بن جائے جس میں کوئی چیز نہ ہو۔ لوگ خریدو فروخت کریں گےلیکن ان میں کوئی امانت ادا کرنے والا نہیں ہوگا، پھر کہا جائے گا کہ فلاں قبیلے میں ایک امانت دار آدمی ہے۔ کسی مرد کے متعلق کہا جائے گا وہ کس قدر عقل مند، خوش۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7086]
حدیث حاشیہ:
یہ خیرالقرون کا حال بیان ہو رہا ہے۔
آج کل تو امانت دیانت کا جتنا بھی جنازہ نکل جائے کم ہے۔
کتنے دین کے دعویدار ہیں جو امانت دیات سے بالکل کورے ہیں۔
اس حدیث سے غیرمسلموں کے ساتھ لین دین کرنا بھی ثابت ہوا بشرطیکہ کسی خطرے کا ڈر نہ ہو۔
حذیفہ بن یمان سنہ 35 ھ میں مدائن میں فوت ہوئے، شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے چالیس روز بعد آپ کی وفات ہوئی۔
(رضي اللہ عنه)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7086
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7276
7276. سیدنا حذیفہ ؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا: ”آسمان سے امانت لوگوں کے دلوں کی گہرائی میں اتری اور قرآن مجید بھی نازل ہوا، پھر لوگوں کے قرآن مجید پڑھا اور سنت کا علم حاصل کیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7276]
حدیث حاشیہ:
قرآن کی تفسیر حدیث شریف ہے بغیر حدیث کے قرآن کا صحیح مطلب معلوم نہیں ہوتا جتنے گمراہ فرقے اس امت میں ہیں وہ کیا کرتے ہیں کہ قرآن کو لے لیتے ہیں اور حدیث کو چھوڑ دیتے ہیں اور چونکہ قرآن کی بعض آیتیں گول گول ہیں۔
ان میں اپنی رائے کو دخل دے کر گمراہ ہو جاتے ہیں۔
اس لیے مسلمانوں کو لازم ہے کہ قرآن کو حدیث کے ساتھ ملا کر پڑھیں اور جو تفسیر حدیث کے موافق ہو اسی کو اختیار کریں۔
اللہ کے فضل وکرم سے اس آخری زمانے میں جب طرح طرح کے فتنے مسلمانوں میں نمود ہو رہے ہیں اور دجال اور شیطان کے نائب ہر جگہ پھیل رہے ہیں اس نے عام مسلمانوں کا ایمان بچانے کے لیے قرآن کی ایک مختصر اور صحیح تفسیر یعنی تفسیر موضحۃ الفرقان مرتب کرا دی۔
اب ہر مسلمان بڑی آسانی کے ساتھ قرآن کا صحیح مطلب سمجھ سکتا ہے اور ان دجالی اور شیطانی پھندوں سے اپنے تئیں بچا سکتا ہے۔
الحمد اللہ منتخب حواشی اور ثنائی ترجمہ والا قرآن مجید بھی اس مقصد کے لیے بے حد مفید ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7276
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6497
6497. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے دو حدیثیں بیان فرمائیں ان میں سے ایک کا ظہور میں دیکھ چکا ہوں اور دوسری کا انتظار کر رہا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”امانت لوگوں کے دلوں کی گہرائی میں اتری، پھر انہوں نے قرآن سے اس کی حیثیت کو معلوم کیا، پھر انہوں نے حدیث سے اس کی اہمیت کا پتہ چلایا۔“ آپ ﷺ نے ہم سے اس کے اٹھ جانے کے متعلق بھی بیان کیا، فرمایا: آدمی ایک بار سوئے گا کہ امانت اس کے دل سے ختم ہو جائے گی، صرف اس کا دھندلا سا نشان باقی رہے گا۔ پھر ایک اور نیند لے گا تو امانت اٹھالی جائے گی، صرف آبلے کی طرح اس کا ایک نشان باقی رہ جائے گا جیسے تو کوئلے کو اپنے پاؤں پر لڑھکائے اور وہ پھول جائے تو اسے ابھرا ہوا دیکھے گا لیکن اس کے اندر کچھ نہیں ہوتا۔ لوگ صبح کے وقت خرید وفروخت کریں گے تو ان کے ہاں کوئی بھی امانت دار نہیں ہوگا، کہا جائے گا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6497]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض اہل علم نے بايعت سے بیعت خلافت مراد لی ہے، حالانکہ یہ معنی غلط ہیں کیونکہ عیسائی اور کافر سے یہ کیسے ممکن ہے بلکہ اس سے خرید و فروخت کا معاملہ کرنا ہے۔
(فتح الباري: 406/11) (2)
دیانت داری، مسلمان معاشرے کا ایک اہم کردار ہے، البتہ غیر اسلامی معاشرے میں دھوکا دہی اور فریب و خیانت کو ایک خوبی خیال کیا جاتا ہے۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ اب قابل اعتماد اور دیانت دار افراد بہت کم رہ گئے ہیں، اس دور میں تو کمیاب ہی نہیں بلکہ نایاب ہیں۔
سوئے ہوئے دل سے دیانت داری کے ختم ہو جانے کا مطلب یہ ہے کہ امانت و دیانت بڑی تیزی سے ختم ہوتی چلی جائے گی حتی کہ جو شخص پہلے دیانت دار تھا وہی بددیانت بن جائے گا۔
(3)
آبلے سے تشبیہ اس لیے دی ہے کہ آبلہ پھولا ہوا ہونے کی وجہ سے بظاہر اہمیت کا حامل نظر آتا ہے لیکن وہ اندر سے خالی ہوتا ہے، اسی طرح لوگ بظاہر نیک نظر آئیں گے لیکن ان کے دل نیکی اور دیانت سے خالی ہوں گے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6497
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7086
7086. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں دو احادیث بیان کی تھیں، ان میں سے ایک کا تومیں نے مشاہدہ کر لیا ہے اور دوسری کا انتظار ہے۔ ہم سے آپ نے بیان کیا تھا کہ امانت لوگوں کے دلوں کی جڑ میں نازل ہوئی تھی، پھر انہوں نے اسے قرآن سے سیکھا، اس کے بعد سنت سے اس کی حقانیت کو معلوم کیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے ہم سے اس (امانت) کے اٹھ جانے کا ذکر کیا اور فرمایا: آدمی ایک بار سوئے گا تو امانت اس کے دل میں اس کا اثر ابھرے ہوئے آبلے کی طرح رہ جائے گا جس طرح آگ کے انگارے کو پاؤں پر لڑھکا دیا جائے اور وہ یوں اثر انداز ہوکر ابھرنے والا آبلہ بن جائے جس میں کوئی چیز نہ ہو۔ لوگ خریدو فروخت کریں گےلیکن ان میں کوئی امانت ادا کرنے والا نہیں ہوگا، پھر کہا جائے گا کہ فلاں قبیلے میں ایک امانت دار آدمی ہے۔ کسی مرد کے متعلق کہا جائے گا وہ کس قدر عقل مند، خوش۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7086]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث علامات نبوت میں سے ہے کیونکہ اس میں لوگوں کے دین خراب ہونے اور آخر زمانہ میں امانت کے رخصت ہو جانے کا امکان ہے۔
حدیث میں بیان کردہ مثال کا خلاصہ یہ ہے کہ آہستہ آہستہ لوگوں کے لوں سے امانت جاتی رہے گی۔
بالآخر اندھیرا ہی اندھیرا باقی رہ جائے گا۔
آج کل تو امانت ودیانت کا خون کیا جا رہا ہے، کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو دین کے دعوے دار ہونے کے باجود امانت ودیانت سے بالکل کورے ہیں۔
جب ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ امانت ودیانت کے متعلق کسی پر اعتماد اور بھروسا نہ کیا جا سکے، نیز دھوکے باز لوگوں کی کثرت سے ہو جائے تو انسان کو ایسے لوگوں کی فکر کرنے کے بجائے خود اپنی فکر کرنی چاہیے، البتہ فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی جاری رہنا چاہیے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے یہی مقصد معلوم ہوتا ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7086
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7276
7276. سیدنا حذیفہ ؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا: ”آسمان سے امانت لوگوں کے دلوں کی گہرائی میں اتری اور قرآن مجید بھی نازل ہوا، پھر لوگوں کے قرآن مجید پڑھا اور سنت کا علم حاصل کیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7276]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امانت کے نازل ہونے کے بعد اس کے اٹھائے جانے کی کیفیت بھی بیان فرمائی۔
چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الرقاق میں ایک عنوان الفاظ میں قائم کیا ہے:
(باب رفع الأمانة)
”امانت کے اٹھائے جانے کا بیان“ اس کی معلومات کے لیے حدیث: 6497 کا مطالعہ کیا جائے۔
2۔
امانت سے مراد ایمان اور اس کے احکام ہیں اور آدمیوں سے مراد اہل ایمان ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ نے فطرت کے اعتبار سے اہل ایمان کے دلوں میں امانت رکھ دی، پھر قرآن وحدیث کے نور سے فطری ایمانداری مکمل ہوگئی، اس لیے امانت کی حفاظت میں فطرت اورشریعت دونوں جمع ہیں۔
بہرحال اس حدیث سے قرآن وسنت کے اتباع کا اشارہ ملتا ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کا بھی یہی مقصد ہے۔
واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7276