صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح مسلم تفصیلات

صحيح مسلم
ایمان کے احکام و مسائل
The Book of Faith
9. باب الدَّلِيلِ عَلَى صِحَّةِ إِسْلَامِ مَنْ حَضَرَهُ الْمَوْتُ مَا لَمْ يَشْرَعْ فِي النَّزْعِ وَهُوَ الْغَرْغَرَةُ وَنَسْخِ جَوَازِ الِاسْتِغْفَارِ لِلْمُشْرِكِينَ وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ مَنْ مَاتَ عَلَى الشِّرْكِ فَهُوَ فِي أَصْحَابِ الْجَحِيمِ وَلَا يُنْقِذُهُ مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ مِنْ الْوَسَائِلِ 
9. باب: بیان اس بات کا کہ جو شخص مرتے وقت مسلمان ہو تو اس کا اسلام صحیح ہے جب تک حالت نزع نہ ہو یعنی جان کنی نہ شروع ہو اور مشرکین کے لیے دعا کرنا منع ہے اور جو شرک پر مرے گا وہ جہنمی ہے کوئی وسیلہ اس کے کام نہ آئے گا۔
Chapter: Evidence that the islam of one who becomes muslim on his deathbed is valid, so long as the death thoes have not begun; Abrogation of permission to supplicate for forgiveness for the idolators; Evidence that one who dies an idolator is one of the people of hell and no intervention can save him from that
حدیث نمبر: 135
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن حاتم بن ميمون ، حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا يزيد بن كيسان ، عن ابي حازم الاشجعي ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعمه: " قل: لا إله إلا الله، اشهد لك بها يوم القيامة "، قال: لولا ان تعيرني قريش، يقولون: إنما حمله على ذلك الجزع لاقررت بها عينك، فانزل الله إنك لا تهدي من احببت ولكن الله يهدي من يشاء سورة القصص آية 56.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ مَيْمُونٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ كَيْسَانَ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ الأَشْجَعِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَمِّهِ: " قُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ لَكَ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ "، قَالَ: لَوْلَا أَنْ تُعَيِّرَنِي قُرَيْشٌ، يَقُولُونَ: إِنَّمَا حَمَلَهُ عَلَى ذَلِكَ الْجَزَعُ لَأَقْرَرْتُ بِهَا عَيْنَكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ سورة القصص آية 56.
یحییٰ بن سعید نے کہا: ہمیں یزید بن کیسان نے حدیث سنائی.... (اس کے بعد مذکورہ سند کے ساتھ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا سے فرمایا: لا الہ الا اللہ کہہ دیجیے، میں قیامت کے دن آپ کے لیے اس کےبارے میں گواہ بن جاؤں گا۔ انہوں نے (جواب میں) کہا: اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ قریش مجھے عار دلائیں گے (کہیں گے کہ اسے (موت کی) گھبراہٹ نےاس بات پر آمادہ کیا ہے) تو میں یہ کلمہ پڑھ کر تمہاری آنکھیں ٹھنڈی کر دیتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: آپ جسے چاہتے ہوں اسے براہ راست پر نہیں لاسکتے لیکن اللہ تعالیٰ جسے چاہے راہ راست پر لے آتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا (ابو طالب) سے فرمایا: "لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ" کہہ دو میں قیامت کے دن اس کی بنا پر تیرے حق میں گواہی دوں گا۔ اس نے جواب دیا: اگر مجھے قریش کے اس عار دلانے کا ڈر نہ ہوتا، کہ وہ کہیں گے کہ اسے اس بات پر (آخرت کی) گھبراہٹ نے آمادہ کیا ہے، تو میں یہ کلمہ پڑھ کر تیری آنکھوں کو ٹھنڈا کرتا۔ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے اُتارا: آپ جسے چاہیں راہِ راست پر نہیں لا سکتے، لیکن اللہ تعالیٰ جسے چاہے راہِ راست پر لے آتا ہے۔ (قصص: 28)
ترقیم فوادعبدالباقی: 25

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقديم تخريجه فى الحديث السابقه برقم (133)» ‏‏‏‏

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

   صحيح مسلم135عبد الرحمن بن صخرقل لا إله إلا الله أشهد لك بها يوم القيامة قال لولا أن تعيرني قريش يقولون إنما حمله على ذلك الجزع لأقررت بها عينك فأنزل الله إنك لا تهدي من أحببت ولكن الله يهدي من يشاء
   صحيح مسلم134عبد الرحمن بن صخرقل لا إله إلا الله أشهد لك بها يوم القيامة فأبى فأنزل الله إنك لا تهدي من أحببت
   جامع الترمذي3188عبد الرحمن بن صخرقل لا إله إلا الله أشهد لك بها يوم القيامة قال لولا أن تعيرني بها قريش أنما يحمله عليه الجزع لأقررت بها عينك فأنزل الله إنك لا تهدي من أحببت ولكن الله يهدي من يشاء

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 135 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 135  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
نبی اکرم ﷺ اور مشرکوں سے ابو طالب کا گفتگو کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ابھی اس پر نزع کی حالت طاری نہیں ہوئی تھی اور جان حلق میں نہیں پہنچی تھی۔
ابو طالب کی وفات ہجرت سے تین سال پہلے ہوئی ہے جبکہ نبی ﷺ کی عمر 49 سال آٹھ ماہ اور گیارہ دن تھی۔
(2)
انسان کے مسلمان ہونے کے لیے کلمہ شہادت کا علی الاعلان اقرار اور اعتراف ضروری ہے،
محض دل کے اندر آپ کی نبوت کا اقرار کافی نہیں ہے۔
(3)
ابو طالب کی وفات شرک پر ہوئی ہے،
یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ابو طالب،
ایمان پر فوت ہوا ہے کیونکہ یہ قرآن مجید اور صحیح احادیث کے خلاف ہے،
بریلوی علامہ غلام رسول سعید صاحب لکھتے ہیں:
قرآن مجید کے اول الذکر آیات اور ثانی الذکر احادیث صحیحہ کی روشنی میں مذاہب اربعہ کے معروف علماء وفقہاء،
مفسرین اور جمہور اہل سنت کا یہ موقف ہے کہ ابو طالب کا ایمان ثابت نہیں ہے۔
(شرح صحیح مسلم اردو: 1/398) (4)
ہدایت کا لفظ دو معنی میں استعمال ہوتا ہے:
(الف)
راہ دکھانا،
رہنمائی کرنا،
یہ رسول کا فریضہ ہے۔
(ب)
راہ راست پر چلانا،
ہدایت دینا،
یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے،
رسول کے بس میں نہیں ہے۔
(5)
ابو طالب کی وفات مکہ مکرمہ میں ہوئی ہے اور آپ (ﷺ) نے صلح حدیبیہ کے سفرمیں اپنی والدہ کی قبر پر استغفار کی اجازت طلب کی ہے لیکن آپ کو اجازت نہیں ملی اور اس آیت کا نزول ہوا اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ یہ آیت پہلے سے نازل ہوچکی تھی اس لیے آپ نے اجازت طلب کرنے کی ضرورت محسوس کی اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آیت کا نزول ابو طالب کی وفات کے کافی عرصہ بعد ہوا ہو کیونکہ یہ آیت سورۃ توبہ کی ہے جس کا نزول ہجرت کے بعد ہوا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 135   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.