(ابن علیہ کے بجائے) محمد بن بشر نےکہا: ہمیں ابو حیان نے سابقہ سند سے وہی حدیث بیان کی، البتہ ان کی روایت میں: إذا ولدت الأمۃ بعلہا ” جب لونڈی اپنا مالک جنے گی“(رب کی جگہ بعل، یعنی مالک) کے الفاظ ہیں۔ (أمۃ سے مملوکہ) لونڈیاں مراد ہیں۔
امام صاحب نے اوپر والی روایت دوسرے استاد سے بیان کی ہے۔ صرف ان الفاظ کا فرق ہے «إِذَا وَلَدَتِ الْأَمَةُ بَعْلَهَا»”لونڈی اپنے مالک کو جنے گی“ یعنی ربّ کی جگہ بَعل کا لفظ ہے۔ یعنی السراری: لونڈیاں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 9
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه في الحديث السابق (97)»
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 98
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) بعل: کی تفسیر بعض نے شوہر سے کی ہے اور بعض نے مالک و آقاء سے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسی کو اختیار کیا۔ (2) سراريّ: سرية کی جمع ہے، سریہ اس لونڈی کو کہتے ہیں جو تعلقات قائم کرنے کے لیے رکھی جاتی ہے۔