حدثنا ابو داود الطيالسي ، قال: حدثنا شعبة ، عن جعدة ، عن ام هانئ , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل عليها، فدعا بشراب، فشرب، ثم ناولها فشربت، فقالت: يا رسول الله , اما إني كنت صائمة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الصائم المتطوع امير نفسه، إن شاء صام، وإن شاء افطر" , قال: قلت له: سمعته انت من ام هانئ؟ قال: لا، حدثنيه ابو صالح واهلنا، عن ام هانئ , حدثنا سليمان، قال: حدثنا شعبة، قال: كنت اسمع سماكا , يقول: حدثنا ابن ام هانئ، فاتيت انا خيرهما وافضلهما، فسالته، وكان يقال له: جعدة.حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ جَعْدَةَ ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا، فَدَعَا بِشَرَابٍ، فَشَرِبَ، ثُمَّ نَاوَلَهَا فَشَرِبَتْ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَمَا إِنِّي كُنْتُ صَائِمَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الصَّائِمُ الْمُتَطَوِّعُ أَمِيرُ نَفْسِهِ، إِنْ شَاءَ صَامَ، وَإِنْ شَاءَ أَفْطَرَ" , قَالَ: قُلْتُ لَهُ: سَمِعْتَهُ أَنْتَ مِنْ أُمِّ هَانِئٍ؟ قَالَ: لَا، حَدَّثَنِيهِ أَبُو صَالِحٍ وَأَهْلُنَا، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ , حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: كُنْتُ أَسْمَعُ سِمَاكًا , يَقُولُ: حَدَّثَنَا ابْنَ أُمِّ هَانِئٍ، فَأَتَيْتُ أَنَا خَيْرَهُمَا وَأَفْضَلَهُمَا، فسألته، وكان يقال له: جعدة.
حضرت ام ہانی سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور ان سے پانی منگوا کر اسے نوش فرمایا پھر وہ برتن انہیں پکڑا دیا انہوں نے بھی اس کا پانی پی لیا پھر یاد آیا تو کہنے لگیں یا رسول اللہ! میں تو روزے سے تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نفلی روزہ رکھنے والا اپنی ذات پر خود امیر ہوتا ہے چاہے تو روزہ برقرار رکھے اور چاہے تو روزہ ختم کردے۔ ابن ام ہانی کہتے ہیں کہ میں ان دونوں میں سے بہترین اور سب سے افضل کے پاس گیا اور ان سے مذکورہ حدیث کی تصدیق کی ان کا نام جعدہ تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة جعدة، وأبو صالح ضعيف