كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: طہارت کے احکام و مسائل 23. بَابُ مَا جَاءَ فِي تَخْلِيلِ اللِّحْيَةِ باب: داڑھی کے خلال کرنے کا بیان۔
حسان بن بلال کہتے ہیں کہ میں نے عمار بن یاسر رضی الله عنہما کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کیا تو اپنی داڑھی میں خلال کیا ۱؎ ان سے کہا گیا یا راوی حدیث حسان نے کہا کہ میں نے ان سے کہا: کیا آپ اپنی داڑھی کا خلال کر رہے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں داڑھی کا خلال کیوں نہ کروں جب کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو داڑھی کا خلال کرتے دیکھا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطہارة 50 (429) (تحفة الأشراف: 10346) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ داڑھی کا خلال مسنون ہے، بعض لوگ وجوب کے قائل ہیں، لیکن تمام دلائل کا جائزہ لینے سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سنت ہے واجب نہیں، جمہور کا یہی قول ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (429)
اس سند سے بھی عمار بن یاسر سے اوپر ہی کی حدیث کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔
۱- اس باب میں عثمان، عائشہ، ام سلمہ، انس، ابن ابی اوفی اور ابوایوب رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ اس باب میں سب سے زیادہ صحیح حدیث عامر بن شقیق کی ہے، جسے انہوں نے ابووائل سے اور ابووائل نے عثمان رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے (جو آگے آ رہی ہے)، ۳- صحابہ اور تابعین میں سے اکثر اہل علم اسی کے قائل ہیں، ان لوگوں کی رائے ہے کہ داڑھی کا خلال (مسنون) ہے اور اسی کے قائل شافعی بھی ہیں، احمد کہتے ہیں کہ اگر کوئی داڑھی کا خلال کرنا بھول جائے تو وضو جائز ہو گا، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی بھول کر چھوڑ دے یا خلال والی حدیث کی تاویل کر رہا ہو تو اسے کافی ہو جائے گا اور اگر قصداً جان بوجھ کر چھوڑے تو وہ اسے (وضو کو) لوٹائے۔ تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
عثمان بن عفان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اپنی داڑھی میں خلال کرتے تھے۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطہارة 50 (430) (تحفة الأشراف: 9809) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (430)
|