كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: طہارت کے احکام و مسائل 67. بَابٌ في كَرَاهَةِ رَدِّ السَّلاَمِ غَيْرَ مُتَوَضِّئٍ باب: بغیر وضو سلام کا جواب دینے کی کراہت کا بیان۔
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو سلام کیا، آپ پیشاب کر رہے تھے، تو آپ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور ہمارے نزدیک سلام کا جواب دینا اس صورت میں مکروہ قرار دیا جاتا ہے جب آدمی پاخانہ یا پیشاب کر رہا ہو، بعض اہل علم نے اس کی یہی تفسیر کی ہے ۱؎، ۲- یہ سب سے عمدہ حدیث ہے جو اس باب میں روایت کی گئی ہے، ۳- اور اس باب میں مہاجر بن قنفذ، عبداللہ بن حنظلہ، علقمہ بن شفواء، جابر اور براء بن عازب رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحیض28 (370)، سنن ابی داود/ الطہارة 8 (16)، سنن النسائی/الطہارة 33 (37)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 27 (353)، ویأتی عند المؤلف برقم: 2720 (تحفة الأشراف: 7696) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اور یہی راجح ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم پیشاب کی حالت میں ہونے کی وجہ سے جواب نہیں دیا، نہ کہ وضو کے بغیر سلام کا جواب جائز نہیں، اور جن حدیثوں میں ہے کہ ”نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فراغت کے بعد وضو کیا اور پھر آپ نے جواب دیا“ تو یہ استحباب پر محمول ہے، نیز یہ بات آپ کو خاص طور پر پسند تھی کہ آپ اللہ کا نام بغیر طہارت کے نہیں لیتے تھے، اس حدیث سے ایک بات اور ثابت ہوتی ہے کہ پائخانہ پیشاب کرنے والے پر سلام ہی نہیں کرنا چاہیئے، یہ حکم وجوبی ہے۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، الإرواء (54)، صحيح أبي داود (12 و 13)
|