كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: طہارت کے احکام و مسائل 7. بَابُ مَا جَاءَ مِنَ الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ باب: قبلہ کی طرف منہ کر کے پیشاب یا پاخانہ کرنے کی رخصت۔
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ ہم پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف منہ کریں، پھر میں نے وفات سے ایک سال پہلے آپ کو قبلہ کی طرف منہ کر کے پیشاب کرتے ہوئے دیکھا۔
۱- اس باب میں جابر رضی الله عنہ کی یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوقتادہ، عائشہ، اور عمار بن یاسر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة (13) سنن ابن ماجہ/الطہارة 18 (325) (تحفة الأشراف: 2574) (صحیح) (سند میں محمد بن اسحاق صدوق ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حدیث صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (325)
عبداللہ بن لہیعہ نے یہ حدیث ابوالزبیر سے اور ابوالزبیر نے جابر رضی الله عنہ سے کہ ابوقتادہ رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو قبلہ کی طرف منہ کر کے پیشاب کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ جابر رضی الله عنہ کی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے یہ حدیث ابن لہیعہ کی حدیث (جس میں جابر کے بعد ابوقتادہ رضی الله عنہ کا واسطہ ہے) سے زیادہ صحیح ہے، ابن لہیعہ محدّثین کے نزدیک ضعیف ہیں، یحییٰ بن سعیدالقطان وغیرہ نے ان کی حفظ کے اعتبار سے تضعیف کی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12081) (ضعیف الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک روز میں (اپنی بہن) حفصہ رضی الله عنہا کے گھر کی چھت پر چڑھا تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ شام کی طرف منہ اور کعبہ کی طرف پیٹھ کر کے قضائے حاجت فرما رہے ہیں ۱؎۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 12 (145) صحیح مسلم/الطہارة 17 (611) سنن ابی داود/ الطہارة 5 (12) سنن النسائی/الطہارة 22 (23) سنن ابن ماجہ/الطہارة 18 (322) (تحفة الأشراف: 8552) موطا امام مالک/القبلة 2 (3) مسند احمد (2/12، 13) سنن الدارمی/الطہارة 8 (694) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: احتمال یہ ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا یہ فعل خاص آپ کے لیے کسی عذر کی بنا پر تھا اور امت کے لیے خاص حکم کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم کا یہ فعل قطعاً معارض ہے، اور پھر یہ کہ آپ اوٹ تھے۔ (تحفۃ الأحوذی: ۱/۲۲، ونیل الأوطارللشوکانی) قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (322)
|