كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: طہارت کے احکام و مسائل 104. بَابُ مَا جَاءَ فِي غَسْلِ دَمِ الْحَيْضِ مِنَ الثَّوْبِ باب: کپڑے سے حیض کا خون دھونے کا بیان۔
اسماء بنت ابی بکر رضی الله عنہما کہتی ہیں کہ ایک عورت نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے اس کپڑے کے بارے میں پوچھا جس میں حیض کا خون لگ جائے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے کھرچ دو، پھر اسے پانی سے مل دو، پھر اس پر پانی بہا دو اور اس میں نماز پڑھو“۔
۱- خون کے دھونے کے سلسلے میں اسماء رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ اور ام قیس بنت محصن رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- کپڑے میں جو خون لگ جائے اور اسے دھونے سے پہلے اس میں نماز پڑھ لے … اس کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے ؛ تابعین میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب خون درہم کی مقدار میں ہو اور دھوے بغیر نماز پڑھ لے تو نماز دہرائے ۱؎، اور بعض کہتے ہیں کہ جب خون درہم کی مقدار سے زیادہ ہو تو نماز دہرائے ورنہ نہیں، یہی سفیان ثوری اور ابن مبارک کا قول ہے ۲؎ اور تابعین وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے نماز کے دہرانے کو واجب نہیں کہا ہے گرچہ خون درہم کی مقدار سے زیادہ ہو، احمد اور اسحاق بن راہویہ یہی کہتے ہیں ۳؎، جب کہ شافعی کہتے ہیں کہ اس پر دھونا واجب ہے گو درہم کی مقدار سے کم ہو، اس سلسلے میں انہوں نے سختی برتی ہے ۴؎۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 63 (227)، والحیض 9 (307)، صحیح مسلم/الطہارة 33 (291)، و132 (291)، سنن ابی داود/ الطہارة 132 (360)، سنن النسائی/الطہارة 185 (294)، والحیض 26 (394)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 118 (629)، (تحفة الأشراف: 15744)، موطا امام مالک/الطہارة 28 (103)، سنن الدارمی/الطہارة 82 (799) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: سنن دارقطنی میں اس سلسلہ میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے ایک حدیث بھی آئی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں «إذا كان في الثوب قدر الدرهم من الدم غسل الثوب وأعيدت الصلاة» امام بخاری نے اس حدیث کو باطل کہا ہے کیونکہ اس میں ایک راوی روح بن غطیف منکر الحدیث ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (629)
|