(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن سفيان، عن ابي إسحاق، عن ابي حية، عن علي، ان النبي صلى الله عليه وسلم " توضا ثلاثا ثلاثا ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن عثمان، وعائشة، والربيع، وابن عمر، وابي امامة، وابي رافع، وعبد الله بن عمرو، ومعاوية، وابي هريرة، وجابر، وعبد الله بن زيد، وابي بن كعب. قال ابو عيسى: حديث علي احسن شيء في هذا الباب واصح، لانه قد روي من غير وجه عن علي رضوان الله عليه، والعمل على هذا عند عامة اهل العلم ان الوضوء يجزئ مرة مرة، ومرتين افضل، وافضله ثلاث، وليس بعده شيء، وقال ابن المبارك: لا آمن إذا زاد في الوضوء على الثلاث ان ياثم , وقال احمد , وإسحاق: لا يزيد على الثلاث إلا رجل مبتلى.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي حَيَّةَ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " تَوَضَّأَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ، وَعَائِشَةَ، وَالرُّبَيِّعِ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي أُمَامَةَ، وَأَبِي رَافِعٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْروٍ، وَمُعَاوِيَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَجَابِرٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ أَحْسَنُ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَصَحُّ، لِأَنَّهُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عَلِيٍّ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْوُضُوءَ يُجْزِئُ مَرَّةً مَرَّةً، وَمَرَّتَيْنِ أَفْضَلُ، وَأَفْضَلُهُ ثَلَاثٌ، وَلَيْسَ بَعْدَهُ شَيْءٌ، وقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: لَا آمَنُ إِذَا زَادَ فِي الْوُضُوءِ عَلَى الثَّلَاثِ أَنْ يَأْثَمَ , وقَالَ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق: لَا يَزِيدُ عَلَى الثَّلَاثِ إِلَّا رَجُلٌ مُبْتَلًى.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اعضائے وضو تین تین بار دھوئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عثمان، عائشہ، ربیع، ابن عمر، ابوامامہ، ابورافع، عبداللہ بن عمرو، معاویہ، ابوہریرہ، جابر، عبداللہ بن زید اور ابی بن کعب رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- علی رضی الله عنہ کی حدیث اس باب میں سب سے عمدہ اور صحیح ہے کیونکہ یہ علی رضی الله عنہ سے اور بھی سندوں سے مروی ہے، ۳- اہل علم کا اس پر عمل ہے کہ اعضائے وضو کو ایک ایک بار دھونا کافی ہے، دو دو بار افضل ہے اور اس سے بھی زیادہ افضل تین تین بار دھونا ہے، اس سے آگے کی گنجائش نہیں، ابن مبارک کہتے ہیں: جب کوئی اعضائے وضو کو تین بار سے زیادہ دھوئے تو مجھے اس کے گناہ میں پڑنے کا خطرہ ہے، امام احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: تین سے زائد بار اعضائے وضو کو وہی دھوئے گا جو (دیوانگی اور وسوسہ) میں مبتلا ہو گا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اگر کسی کو شک ہو جائے کہ تین بار دھویا ہے یا دو ہی بار، تب بھی اسی پر اکتفا کرے کیونکہ اگر تین بار نہیں دھویا ہو گا تو دو بار تو دھویا ہی ہے، جو کافی ہے۔