سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
The Book on Purification
13. بَابُ مَا جَاءَ فِي الاِسْتِنْجَاءِ بِالْحَجَرَيْنِ
باب: دو پتھروں سے استنجاء کرنے کا بیان​۔
Chapter: What Has Been Related About Istinja With Two Stones
حدیث نمبر: 17
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، وقتيبة , قالا: حدثنا وكيع، عن إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن ابي عبيدة، عن عبد الله، قال: خرج النبي صلى الله عليه وسلم لحاجته فقال: " التمس لي ثلاثة احجار " , قال: فاتيته بحجرين وروثة، فاخذ الحجرين والقى الروثة , وقال: " إنها ركس ". قال ابو عيسى: وهكذا روى قيس بن الربيع هذا الحديث، عن ابي إسحاق، عن ابي عبيدة، عن عبد الله، نحو حديث إسرائيل، وروى معمر , وعمار بن رزيق، عن ابي إسحاق، عن علقمة، عن عبد الله، وروى زهير، عن ابي إسحاق، عن عبد الرحمن بن الاسود، عن ابيه الاسود بن يزيد، عن عبد الله، وروى زكريا بن ابي زائدة، عن ابي إسحاق، عن عبد الرحمن بن يزيد، عن الاسود بن يزيد، عن عبد الله، وهذا فيه اضطراب. حدثنا محمد بن بشار العبدي، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن عمرو بن مرة قال: سالت ابا عبيدة بن عبد الله: هل تذكر من عبد الله شيئا؟ قال: لا. قال ابو عيسى: سالت عبد الله بن عبد الرحمن: اي الروايات في هذا الحديث عن ابي إسحاق اصح؟ فلم يقض فيه بشيء , وسالت محمدا عن هذا؟ فلم يقض فيه بشيء وكانه راى حديث زهير، عن ابي إسحاق، عن عبد الرحمن بن الاسود، عن ابيه، عن عبد الله اشبه ووضعه في كتاب الجامع. قال ابو عيسى: واصح شيء في هذا عندي حديث إسرائيل , وقيس، عن ابي إسحاق، عن ابي عبيدة، عن عبد الله، لان إسرائيل اثبت واحفظ لحديث ابي إسحاق من هؤلاء، وتابعه على ذلك قيس بن الربيع. قال ابو عيسى: سمعت ابا موسى محمد بن المثنى، يقول: سمعت عبد الرحمن بن مهدي، يقول: ما فاتني الذي فاتني من حديث سفيان الثوري، عن ابي إسحاق إلا لما اتكلت به على إسرائيل. قال ابو عيسى: وزهير في ابي إسحاق ليس بذاك لان سماعه منه بآخرة، قال: وسمعت احمد بن الحسن الترمذي، يقول: سمعت احمد بن حنبل، يقول: إذا سمعت الحديث عن زائدة وزهير فلا تبالي ان لا تسمعه من غيرهما إلا حديث ابي إسحاق، وابو إسحاق اسمه: عمرو بن عبد الله السبيعي الهمداني , وابو عبيدة بن عبد الله بن مسعود لم يسمع من ابيه ولا يعرف اسمه.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، وَقُتَيْبَةُ , قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحَاجَتِهِ فَقَالَ: " الْتَمِسْ لِي ثَلَاثَةَ أَحْجَارٍ " , قَالَ: فَأَتَيْتُهُ بِحَجَرَيْنِ وَرَوْثَةٍ، فَأَخَذَ الْحَجَرَيْنِ وَأَلْقَى الرَّوْثَةَ , وَقَالَ: " إِنَّهَا رِكْسٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَكَذَا رَوَى قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، نَحْوَ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ، وَرَوَى مَعْمَرٌ , وَعَمَّارُ بْنُ رُزَيْقٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، وَرَوَى زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، وَرَوَى زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، وَهَذَا فِيهِ اضْطِرَابٌ. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ الْعَبْدِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ: هَلْ تَذْكُرُ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ شَيْئًا؟ قَالَ: لَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ: أَيُّ الرِّوَايَاتِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ أَبِي إِسْحَاق أَصَحُّ؟ فَلَمْ يَقْضِ فِيهِ بِشَيْءٍ , وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا؟ فَلَمْ يَقْضِ فِيهِ بِشَيْءٍ وَكَأَنَّهُ رَأَى حَدِيثَ زُهَيْرٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَشْبَهَ وَوَضَعَهُ فِي كِتَابِ الْجَامِعِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا عِنْدِي حَدِيثُ إِسْرَائِيلَ , وَقَيْسٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، لِأَنَّ إِسْرَائِيلَ أَثْبَتُ وَأَحْفَظُ لِحَدِيثِ أَبِي إِسْحَاق مِنْ هَؤُلَاءِ، وَتَابَعَهُ عَلَى ذَلِكَ قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْت أَبَا مُوسَى مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّى، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ، يَقُولُ: مَا فَاتَنِي الَّذِي فَاتَنِي مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق إِلَّا لِمَا اتَّكَلْتُ بِهِ عَلَى إِسْرَائِيلَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَزُهَيْرٌ فِي أَبِي إِسْحَاق لَيْسَ بِذَاكَ لِأَنَّ سَمَاعَهُ مِنْهُ بِآخِرَةٍ، قَالَ: وسَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ التِّرْمِذِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، يَقُولُ: إِذَا سَمِعْتَ الْحَدِيثَ عَنْ زَائِدَةَ وَزُهَيْرٍ فلا تبالي أن لا تسمعه من غيرهما إلا حديث أبي إسحاق، وأبو إسحاق اسمه: عمرو بن عبد الله السبيعي الهمداني , وأبو عبيدة بن عبد الله بن مسعود لم يسمع من أبيه ولا يعرف اسمه.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے نکلے تو آپ نے فرمایا: میرے لیے تین پتھر ڈھونڈ لاؤ، میں دو پتھر اور ایک گوبر کا ٹکڑا لے کر آپ کی خدمت میں آیا تو آپ نے دونوں پتھروں کو لے لیا اور گوبر کے ٹکڑے کو پھینک دیا اور فرمایا: یہ ناپاک ہے ۱؎۔
(ابواسحاق سبیعی ثقہ اور مدلس راوی ہیں، بڑھاپے میں حافظہ میں اختلاط ہو گیا تھا اس لیے جن رواۃ نے ان سے اختلاط سے پہلے سنا ان کی روایت مقبول ہے، اور جن لوگوں نے اختلاط کے بعد سنا ان کی روایت ضعیف، یہ حدیث ابواسحاق سے ان کے تلامذہ نے مختلف انداز سے روایت کی ہے)۔
امام ترمذی نے یہاں:
ابن مسعود کی اس حدیث کو بسند «اسرائیل عن ابی اسحاق عن ابی عبیدہ عن ابن مسعود» روایت کرنے کے بعد اسرائیل کی متابعت ۲؎ میں قیس بن الربیع کی روایت کا ذکر کیا ہے، پھر بسند «معمر و عمار بن رزیق عن ابی اسحاق عن علقمہ عن ابن مسعود» کی روایت ذکر کی ہے، پھر بسند «زکریا بن ابی زائدہ و زہیر عن ابی اسحاق عن عبدالرحمٰن بن یزید عن اسود بن یزید عن عبداللہ بن مسعود» روایت ذکر کی اور فرمایا کہ اس حدیث میں اضطراب ہے، نیز اسرائیل کی روایت کو صحیح ترین قرار دیا، یہ بھی واضح کیا کہ ابو عبیدۃ کا سماع اپنے والد ابن مسعود سے نہیں ہے پھر واضح کیا کہ زہیر نے اس حدیث کو بسند «ابواسحاق عن عبدالرحمٰن بن الاسود عن أبیہ عن عبداللہ بن مسعود» روایت کیا ہے، تو ان محمد بن اسماعیل بخاری نے اپنی صحیح میں اس کو جگہ دے کر اپنی ترجیح کا ذکر کر دیا ہے، جب کہ ترمذی کا استدلال یہ ہے کہ «اسرائیل و قیس عن أبی اسحاق» زیادہ صحیح روایت اس لیے ہے کہ اسرائیل ابواسحاق کی حدیث کے زیادہ حافظ و متقن ہیں، قیس نے بھی اسرائیل کی متابعت کی ہے، اور واضح رہے کہ زہیر نے ابواسحاق سے آخر میں اختلاط کے بعد سنا ہے، اس لیے ان کی روایت اسرائیل کی روایت کے مقابلے میں قوی نہیں ہے ۳؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف بہذا السند (تحفة الأشراف 9622)، وأخرجہ کل من صحیح البخاری/الطہارة 21 (156) و سنن النسائی/الطہارة 38 (42) وسنن ابن ماجہ/الطہارة 16 (314) من طریق الأسود بن یزید عنہ کما في تحفة الأشراف: 9170) (صحیح) (متابعت کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، لیکن اس کی سند میں ابو عبیدہ اور ان کے والد ابن مسعود رضی الله عنہ کے درمیان انقطاع ہے جیسا کہ مولف نے بیان کر دیا ہے۔)»

وضاحت:
۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز خود ناپاک و نجس ہو اس سے طہارت حاصل نہیں ہو سکتی، امام احمد اور دارقطنی کی روایت میں «ائتني بغيرها» اس کے بدلے دوسرا پتھر لے آؤ کا اضافہ ہے جس سے معلوم ہوا کہ قضائے حاجت کے بعد تین پتھر استعمال کرنا واجب ہے خواہ صفائی اس سے کم ہی میں کیوں نہ حاصل ہو جائے، اور اگر تین سے بھی مطلوبہ صفائی حاصل نہ ہو تو مزید بھی پتھر استعمال کئے جا سکتے ہیں البتہ ان کی تعداد طاق ہونی چاہیئے، آج کل صفائی کے لیے ٹشو پیپر استعمال ہوتے ہیں ان کی تعداد بھی اتنی ہی ہونی چاہیئے۔
۲؎: متابعت سے مراد ایک راوی کا دوسرے کے ساتھ اس حدیث کی روایت میں شریک ہونا ہے، اس کے جاننے کا یہ ہوتا ہے کہ اگر راوی ضعیف ہے تو اس کی حدیث کو تقویت حاصل ہو جاتی ہے اور اگر ثقہ ہے تو اس کا تفرد ختم ہو جاتا ہے۔
۳؎: واضح رہے کہ امام ترمذی نے اسرائیل کی روایت کو زہیر کی روایت پر جسے امام بخاری نے اپنی صحیح میں جگہ دی ہے تین وجہوں سے ترجیح دی ہے۔
(الف) ابواسحاق کے تلامذہ میں اسرائیل: زہیر، معمر اور دیگر لوگوں سے زیادہ ثقہ اور ابواسحاق سبیعی کی حدیث کو زیادہ یاد رکھنے والے ہیں۔
(ب) قیس بن ربیع نے اسرائیل کی متابعت کی ہے۔
(ج) اسرائیل کا سماع ابواسحاق سبیعی سے اختلاط سے پہلے ہے، ان کی آخری عمر میں نہیں ہے اس کے برخلاف زہیر کا ابواسحاق سے سماع ان کی آخری عمر میں ہے، لیکن صاحب تحفہ الأحوذی کے نزدیک یہ تینوں وجہیں محل نظر ہیں، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تحفہ الاحوذی ج ۱ ص ۲۸۔ صاحب تحفۃ الاحوذی کے معارضات کا خلاصہ یہ ہے کہ
(۱) بقول امام ابوداؤد: زہیر اسرائیل کے مقابلہ میں اثبت ہیں۔
(۲) زہیر کی بھی متابعت موجود ہے بلکہ دو دو متابعت ہے۔
(۳) بقول ذہبی: امام احمد کہتے ہیں کہ زہیر نے ابواسحاق سبیعی سے اختلاط سے پہلے سنا ہے جبکہ اسرائیل نے آخری عمر میں سنا ہے، علاوہ ازیں اگر اسرائیل کی روایت کو ترجیح دیتے ہیں تو ان کی روایت ابوعبیدہ سے ہے اور ابوعبیدہ کی اپنے باپ ابن مسعود سے سماع نہیں ہے تو روایت کو ضعیف ماننا پڑے گا، جبکہ زہیر کی روایت سے حدیث متصل ہوتی ہے، اور اکثر ائمہ نے اسے صحیح ہی قرار دہا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.